جمعیۃ کے خلاف محاذ حقیقت کیا ہے؟ ✍️ محمد اسامہ پسروری

جمعیۃ کے خلاف محاذ حقیقت کیا ہے؟

✍️ محمد اسامہ پسروری

پاکستان کی سیاست میں جب نظریاتی خلا پیدا ہوتا ہے تو سٹیج پر کچھ چہرے اور آوازیں خود بخود ابھر آتی ہیں۔ وہ چہرے جو کل تک اقتدار کے ایوانوں کے غلام تھے۔ جو کرسیوں کے لیے در در کی خاک چھان رہے تھے۔ آج نظریہ بیچنے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ اور وہ آوازیں جو کل تک طاقت کے مراکز کے گیت گاتی تھیں۔ آج مفاد پرستی کے نغمے بدل کر خود کو عوامی نمائندہ ظاہر کر رہی ہیں۔ ان دنوں جمعیۃ علماء اسلام اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف جو یلغار ہو رہی ہے وہ اسی خلا کی پیداوار ہے۔ سچ یہ ہے کہ جمعیۃ وہ واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جس نے ہمیشہ عالمی ایجنڈوں کے سامنے ڈٹ کر بات کی۔ اسرائیل ہو یا مغرب کی ثقافتی یلغار۔ سودی نظام ہو یا قادیانیت کا فتنہ۔ جمعیۃ نے اپنے موقف میں کبھی لچک پیدا نہیں ہونے دی۔ جب اکثریت مصلحت کے پردے میں چھپ گئی۔ جمعیۃ ڈٹ کر کھڑی رہی۔ مگر یہ بات پاکستان کے طاقت کے مراکز اور بیرونی مفادات رکھنے والے حلقوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ قوتیں جو پاکستان کے اندر سے نظریۂ پاکستان کو کھوکھلا کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے لیے جمعیۃ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے آج جمعیۃ کو دبانے کے لیے دو محاذ کھولے گئے ہیں۔ ایک روایتی میڈیا کے ذریعے۔ جہاں تجزیے کی آڑ میں کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ایسے صحافی اور اینکر سامنے لائے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے قلم اور زبان کو بکاؤ مال بنا رکھا ہے۔ ایک ایک لفظ طے شدہ اسکرپٹ کے تحت بولا جاتا ہے۔ دوسرا محاذ سوشل میڈیا پر۔ جہاں جعلی دانشور، کرائے کے ٹرینڈ ساز اور خود ساختہ انقلابی دن رات نفرت گھڑ رہے ہیں۔ فیک اکاؤنٹس کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کی تصویر پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔ ان کے جلسوں کی تصاویر کو مسخ کر کے وائرل کیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ پر مبنی ویڈیوز بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مہم کوئی نئی ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ 90ء کی دہائی ہو یا مشرف دور۔ زرداری کا زمانہ ہو یا آج کی مخلوط حکومتیں۔ جمعیۃ کے خلاف ہر دور میں ایسی سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ اور ہمیشہ نتیجہ یہی نکلا ہے کہ جمعیۃ مضبوط تر ہو کر ابھری ہے۔ وجہ سادہ ہے۔ اس جماعت کی جڑیں عوام میں ہیں۔ مدارس میں ہیں۔ مساجد میں ہیں۔ اور اس ملک کے دینی شعور میں ہیں۔ یہ کوئی کاغذی تنظیم نہیں کہ دفتر بند ہوا تو سب کچھ ختم ہو جائے۔ جمعیۃ کی بنیاد عوامی قوت، دینی وابستگی اور نظریاتی استقامت پر ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف الزامات لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اپنے لیڈر کل کہاں کھڑے تھے اور آج کس کے در کے محتاج ہیں۔ کوئی آئی ایم ایف کے در پر جھک رہا ہے۔ کوئی امریکا کے سفارتخانے کے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے۔ اور کوئی اسرائیل سے تعلقات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ لیکن جمعیۃ نے ہمیشہ اپنے اصولوں اور نظریاتی اساس کو مقدم رکھا۔ نہ کسی کے دباؤ میں آئی۔ نہ کسی کے دام میں۔ چاہے اقتدار ہاتھ سے گیا ہو۔ چاہے مالی مشکلات آئیں۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہوا۔ یہی جمعیۃ کی اصل طاقت ہے۔ ہاں وقتی طور پر شور شرابہ ہوتا ہے۔ جلسے جلوسوں میں نعرے لگتے ہیں۔ میڈیا پر طوفان کھڑا کیا جاتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ سب کچھ چھنٹ جاتا ہے۔ باقی رہتی ہے تو صرف وہ قیادت جو اصولوں پر ڈٹی رہے۔ آج جمعیۃ علماء اسلام کو دبانے کی جو کوشش ہو رہی ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قافلہ اب بھی میدان میں ہے۔ اور اس کی آواز اب بھی طاقتور ہے۔ یاد رکھئے۔ نظریہ ہمیشہ عارضی مصلحتوں پر غالب آتا ہے۔ جو جماعتیں وقتی فائدے کے لیے نظریہ چھوڑ دیتی ہیں۔ وہ تاریخ کے صفحات میں محض حاشیہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ لیکن جو جماعتیں قربانی دیتی ہیں۔ مشکل وقت میں ڈٹ کر کھڑی رہتی ہیں۔ وہی آنے والے کل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ جمعیۃ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس وقت بھی جب جمعیۃ کے خلاف طرح طرح کی افواہیں اور پروپیگنڈے جاری ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جمعیۃ کے کارکنان گلی گلی، نگر نگر، قریہ قریہ موجود ہیں۔ مدارس کے طلبہ، علماء کرام، مشائخ عظام اور عوام الناس کا ایک وسیع طبقہ اس قافلے کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سازش، ہر پروپیگنڈے اور ہر طوفان کے باوجود جمعیۃ اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ مگر نظریہ اگر زندہ ہو تو جماعتیں زندہ رہتی ہیں۔ اور پاکستان میں اگر کوئی جماعت آج بھی نظریۂ پاکستان، ختم نبوت، ناموس رسالت اور اسلامی نظام کے لیے سینہ تان کر کھڑی ہے تو وہ جمعیۃ علماء اسلام ہے۔ یہی وہ سچ ہے جسے چھپانے کے لیے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ مگر یہ سچ دبایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ جب حق بات دلوں میں گھر کر جائے تو اسے نہ میڈیا مٹا سکتا ہے۔ نہ فیک ٹرینڈز۔ جمعیۃ ایک نظریہ ہے۔ اور نظریہ کبھی مرتا نہیں۔ 


0/Post a Comment/Comments