2014 میں مولانا محمد خان شیرانی نے ایک بل پیش کیا، جسے اس وقت کی کمیٹی برائے انصاف و قانون نے مسترد کر دیا۔
2017 میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی رکن نعیمہ کشور نے شراب پر پابندی کا ایک بل پیش کیا جو کمیٹیوں میں زیرِ بحث رہا۔ 2018 میں اسی بل کو رمیش کمار نے دوبارہ پیش کیا، لیکن جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ تمام پارٹیوں نے اسے مسترد کر دیا۔
2019 میں جب رمیش کمار نے یہ بل دوبارہ پیش کیا تو پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے بل کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویز دی۔ اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بل پر ووٹنگ کروائی تو تحریک انصاف نے، جس کی اس وقت حکومت تھی، بل کے خلاف ووٹ دیا۔ جبکہ صرف جمعیت علمائے اسلام کے اراکین نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ بل پر دستخط بھی صرف جمعیت کے اراکین نے کیے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ بل سینیٹ میں سینیٹر حافظ حمد اللہ اور قومی اسمبلی میں جے یو آئی کی اقلیتی ممبر آسیہ ناصر پہلے بھی پیش کر چکے ہیں۔
بل کے متن میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ تمام مذاہب میں شراب ممنوع ہے، لہٰذا پاکستان میں اقلیتوں کی آڑ میں اس کاروبار کو بند کیا جائے۔ بل پر دستخط کرنے والے جے یو آئی کے اراکین میں درج ذیل نام شامل تھے:
* مولانا محمد خان شیرانی
* مولانا محمد گوہر شاہ
* مولانا امیر زمان
* محترمہ آسیہ ناصر
* محترمہ عالیہ کامران
* قاری محمد یوسف
* محترمہ نعیمہ کشور خان
* سردار کمال خان بنگلزئی
* محترمہ شاہدہ اختر علی
* ڈاکٹر رمیش کمار وانک وانی
ایک تبصرہ شائع کریں