جمعیۃ کا کارواں سیلاب زدگان کے قدم بہ قدم! ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

جمعیۃ کا کارواں سیلاب زدگان کے قدم بہ قدم!

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

جب زمین پر بارش کے قطرے نعمت بننے کی بجائے آزمائش کا پیغام لاتے ہیں، جب ندی نالے دریا بن کر شہروں اور دیہاتوں کو بہا لے جاتے ہیں، جب انسان کے بس میں کچھ باقی نہیں رہتا، تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان انسان کے کام آتا ہے، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب کردار، اخلاص اور قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیلابی صورتِ حال نے ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کر دیا، کھیت کھلیان اجڑ گئے، املاک تباہ ہو گئیں، اور متاثرہ علاقوں میں زندگی کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ان نازک حالات میں جمعیۃ علماء اسلام نے خدمتِ خلق کے اس مشن کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ مزید شدت سے اپنا فرض نبھایا۔ یہ کوئی تجارتی یا فلاحی ادارہ نہیں، بلکہ ایک دینی, عوامی و سیاسی تحریک ہے جو برسوں سے اسلامی اقدار، قومی خودمختاری، اور مظلوموں کے حقوق کی علمبردار رہی ہے۔ اس جماعت کی اصل قوت اللہ تعالیٰ کے بعد عوامی رابطہ، علماء کی قیادت، اور رضاکاروں کی قربانی میں ہے۔ جب سیلاب کی خبریں آئیں، جب مظلوموں کی آہیں فضاؤں میں بلند ہوئیں، تو جمعیۃ خاموش نہیں رہی۔ ملک کے مختلف حصوں میں، بالخصوص خیبرپختونخوا، بلوچستان، جنوبی پنجاب، سندھ اور گلگت بلتستان کے متاثرہ علاقوں میں، جمعیۃ کے رضاکار پہنچے۔ انہوں نے متاثرین کو صرف خوراک، کپڑے یا دوائیں نہیں دیں بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کا درد بانٹا، ان کی آنکھوں کے آنسو پونچھے اور ان کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی۔

جمعیۃ علماء اسلام کے قائد حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم نے ان حالات میں ایک پُر اثر پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے پوری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وقت سیاست کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ان بھائیوں کے لیے کھڑا ہونا ہے جو اس وقت کھلے آسمان تلے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام ان شآءاللہ ہر متاثرہ خاندان کے ساتھ ہے، اور ہماری جماعت کا ہر کارکن، ہر عالم، ہر ذمہ دار شخص، اس وقت خدمت کے میدان میں ہونا چاہیے۔ اس پیغام کے بعد جماعت کی تمام ذیلی تنظیمات، علاقائی شاخیں اور رضاکار متحرک ہو گئے، اور متاثرہ علاقوں میں ریلیف کیمپ، میڈیکل یونٹس، راشن سینٹرز، خیمے، اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے کئی اہم اقدامات کیے گئے۔

جمعیۃ علماء اسلام کے رضاکار نہ میڈیا کے لیے، نہ تشہیر کے لیے، بلکہ اللہ کی رضا اور مظلوم انسانوں کی دُعاؤں کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ نوجوان، جو عموماً دینی مدارس، مساجد اور جماعتی نظم سے وابستہ ہوتے ہیں، مشکل ترین راستوں، پانی سے بھرے میدانوں، اور ویران بستیوں تک پہنچے۔ انہوں نے سیلاب متاثرین کو محض امداد نہیں دی بلکہ انہیں یہ یقین دلایا کہ آپ تنہا نہیں، جمعیۃ علماء اسلام آپ کے ساتھ ہے۔ یہ خدمت وقتی نہیں بلکہ مسلسل ہے، کیونکہ جمعیۃ کا دائرہ کار وقتی ریلیف سے بڑھ کر بحالی، تعمیر نو اور خود کفالت تک پھیلا ہوا ہے۔ کئی علاقوں میں عارضی رہائش، بچوں کی تعلیم کے لیے اسکولز، بیواؤں اور یتیموں کی کفالت، اور روزگار کے ذرائع کی فراہمی جیسے کاموں کا آغاز کیا گیا۔ یہ سب کچھ اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ صرف کھانا دے دینا کافی نہیں، بلکہ دوبارہ جینے کا حوصلہ دینا اصل خدمت ہے۔

سیلاب جیسے مواقع پر جمعیۃ علماء اسلام کا کردار اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جماعت صرف جلسوں اور تقریروں تک محدود نہیں، بلکہ مصیبت کی ہر گھڑی میں قوم کی نبض پر ہاتھ رکھنے والی تحریک ہے۔ قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں یہ تحریک نہ صرف مظلوموں کی آواز بنی بلکہ عملی میدان میں خدمتِ خلق کا بہترین نمونہ بھی پیش کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس تحریک کا حصہ بنیں، اپنے دلوں میں انسانیت کی تڑپ پیدا کریں، اور جب کوئی قوم پر آزمائش آئے، تو ہم بھی جمعیۃ کے رضاکاروں کی طرح اپنے حصے کی خدمت انجام دیں۔

 اللہ تعالیٰ جمعیۃ علماء اسلام، قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب، اور تمام کارکنان کو جزائے خیر دے، ان کی کوششوں کو قبول فرمائے، اور ہمیں بھی خدمتِ خلق کا شعور اور جذبہ عطا فرمائے۔ آمین۔


0/Post a Comment/Comments