قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب
17 اگست 2025
جناب ایمل ولی خان صاحب، انتہائی قابل احترام زعمائے قوم، ہم سب شکر گزار ہیں عوامی نیشنل پارٹی کے اور جناب ایمل ولی خان صاحب کے، انہوں نے ہمیں ایک بڑے مثبت ایجنڈے پہ یہاں اکٹھے کیا اور یہاں پر تمام پارٹیوں کی نمائندگی موجود ہے۔ حکومتی جماعتیں بھی یہاں موجود ہیں، حزب اختلاف کی جماعتیں بھی یہاں موجود ہیں اور اپنے اپنے خیالات اور اپنے اپنے تجاویز جس انداز میں پیش کر رہے ہیں یہ حوصلہ افزا ہے۔ ایسی مجالس ہونی چاہیے کہ جہاں ہم کھل کر کچھ باتیں کر سکیں۔
جو کچھ میں اپنے انتہائی قابل احترام دوستوں کی گفتگو سے سمجھا ہوں آپ تمام حضرات چھوٹے صوبوں میں بدامنی کی صورتحال کو اہمیت دے رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریاست کی اولین ذمہ داری وہ انسانی حقوق کا تحفظ ہے، انسان کی جان اس کے مال اور عزت و آبرو کا تحفظ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا ہو بلوچستان ہو یا صوبہ سندھ ہو تینوں صوبوں میں نہ دن میں اور نہ رات میں عام آدمی محفوظ ہے، نہ اس کی جان محفوظ ہے، نہ اس کا مال محفوظ ہے، نہ عزت و آبرو محفوظ ہے، اندھیر نگری ہے اور بالخصوص جو ہمارے قبائلی علاقہ جات ہیں وہ تو مسلح گروہوں کی گرفت میں ہیں۔ کاروباری لوگ کاروبار نہیں کر سکتے، اگر کنٹریکٹر ہیں وہ اپنا کام نہیں کر سکتے۔ ان کو بھتے دینے پڑتے ہیں اور سرکاری طور پر منظور شدہ فنڈز جن منصوبوں کے لیے مختص ہوتے ہیں اس کا دس فیصد باقاعدہ طور پر ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے تو جس سی پیک کا آپ ذکر کر رہے تھے اس پر باقاعدہ گھنٹوں گھنٹوں قبضہ رہتا ہے، گاڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں، شناختی کارڈ لیے جاتے ہیں، دیکھے جاتے ہیں، سرکاری اہلکار ہوں تو ان کو اتارا جاتا ہے اور جب ٹریفک بند ہو جائے تو پھر کھلے انداز میں رقص کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ یہ علاقہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتی رٹ کے لیے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ساتھ ہی ہمارے جو قبائلی علاقے ہیں چاہے بلوچستان میں ہیں، چاہے خیبر پختونخوا میں ہیں، وہاں کے معدنی ذخائر اور معدنی وسائل جو دراصل وہاں کے عوام کی ملکیت ہے، دنیا میں قوانین موجود ہیں، ہمارے ملک کے اندر قوانین موجود ہیں۔ ہم ان قوانین کی روح سے اگر ہمارے پاس وسائل ہیں اور ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے تو دنیا میں سرمایہ کاری ہوتی ہے ملٹی نیشنل کمپنیاں آتی ہیں وہ باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت کام کرتی ہیں۔ اس میں مقامی لوگوں کا اپنا شیئر ہوتا ہے، ریاست کا اپنا شیئر ہوتا ہے، جو باہر سے کمپنی آتی ہے ان کا اپنا شیئر ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس ملک میں یا معدنیات کی سیاست کریں یا ہم اس ملک میں حقوق کی سیاست کریں یہاں پر ساری توانائیاں اتھارٹی حاصل کرنے پر لگتی ہیں۔ سو طاقتور ادارے اپنی اتھارٹی قائم کرتے ہیں اور اگر آپ نے ان کی اتھارٹی کو چیلنج کیا بلا وجہ نہیں، آئین کی رو سے قانون کی رو سے بین الاقوامی ضابطوں کی رو سے، تو پھر آپ ریاست کے غدار قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ المیہ ہے ہمارے ہاں، لیکن آسان فارمولوں کے تحت ہم دنیا کو انگیج کر سکتے ہیں۔ ہمارے وہ ذخائر ستتر اٹھتر سال سے جس پر ڈھکنیں رکھے ہوئے تھے اپنے قومی مفاد میں استعمال نہیں ہو پا رہے تھے، جس کی وجہ سے ہمارے چھوٹے صوبے یا قبائلی علاقے یا قبائلی عوام پسماندہ تصور کیے جاتے تھے، آج جب ان کے اپنے وسائل ان کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے سامنے آگئے ہیں، ان کی مائننگ ہو رہی ہے، ان کی خرید و فروخت دنیا کے ساتھ ہو سکتی ہے، تو وہاں پر اتھارٹیز آ کر اپنا رٹ جماتے ہیں اور وہاں کے نہ مقامی لوگوں کا کوئی اختیار، نہ پارلیمنٹ کا کوئی اختیار، نہ عوام کا کوئی اختیار، نہ سویلین گورنمنٹ کا کوئی اختیار، یہ چیزیں اس پر میں سوچتا ہوں کہ آنے والے وقت میں بہت بحران پیدا ہو سکتے ہیں۔
یعنی آپ حضرات کے نوٹس میں ہیں جی قبائلی علاقے فاٹا کا ہم نے انضمام کیا، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح تھا یا غلط تھا اس پر کیا اختلاف تھا کیا ہے قطع نظر اس کے، لیکن آج اس انضمام کے آٹھویں نویں سال میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ آٹھ نو سال گزر جانے کے بعد اب ہمارے ملک کا نظام، ہماری ریاست، ہماری گورنمنٹ، وہ کمیٹی بناتی ہے کہ قبائل کا جرگہ سسٹم دوبارہ بحال کیا جائے۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم نتائج اخذ کرتے ہیں تو قبائلی دنیا میں اور فاٹا میں جو جرگہ ہوتا تھا وہ قومی ہوتا تھا اور وہاں پر قیام امن کی ذمہ داری وہ وہاں کے اقوام پر اور قبائل پر ہوا کرتی تھی۔ جو انضمام کے بعد وہ گورنمنٹ کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ اب کل انضمام ضروری تھا سو آپ نے کر دیا لیکن آج نو سال کے بعد اس کے جرگہ سسٹم کو بحال کرنا اس کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ میں ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے یہ تاثر لے رہا ہوں اگر میں غلط ہوں اور مجھے سمجھایا جائے میں آپ کی رائے کو سر آنکھوں پر رکھوں گا، لیکن میرا تاثر ہے کہ انضمام کیا گیا فاٹا علاقوں کے وسائل تک رسائی کے لیے، سو ان کے وسائل تک جب رسائی حاصل ہو گئی اور پھر اب جب بدامنی آ گئی تو بدامنی کی ذمہ داری دوبارہ قبائلی عوام اور قوم پر ڈالی جا رہی ہے کہ اس کو آپ نے کنٹرول کرنا ہے۔ سو وسائل پر ریاست کا قبضہ ہو گیا اور ریاست امن و امان کی ذمہ داری سے ہٹنے کے لیے اسے دوبارہ عوام کے کندھوں پر ڈال رہی ہے کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے اور آپ نے علاقے کے امن کو برقرار رکھنا ہے۔
سو اس پہلو کو یہ سیاسی پہلو ہے اس کا اس پہلو کو ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایک چیز سے اختلاف کرتے ہیں وہ تاریخ کے اوراق پر نوٹ ہو جاتا ہے یہ فیصلہ تاریخ کرے کہ میری رائے صحیح تھی یا آپ کی رائے صحیح تھی، اس کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کچھ چیزیں جو ہم اخذ کرتے ہیں حالات سے تو وہ نتائج آج ہمارے سامنے کیا آ رہے ہیں قبائل کو کیا ملا ؟ سو ارب روپے سالانہ ملنا دس سال تک کے لیے کہاں ہیں وہ وعدے جو اس قوم کے ساتھ کیے گئے تھے، کہاں ہے وہ سبز باغ جو اس قوم کو اس قبائل کو دکھائے گئے تھے، قوموں کے ساتھ اس طرح کھلواڑ نہیں کیا جاتا، ان کے حقوق کا اس طرح مذاق نہیں اڑایا جاتا، جس طرح کہ ہمارے ملک میں اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اور پھر قانون بنائے جاتے ہیں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے حوالے سے، اس قسم کی جو قانون سازی ہوتی ہے یہ قانون سازی آئین سے متصادم ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سے صوبوں کو جہاں ان کے اپنے وسائل کا مالک قرار دے دیا گیا تھا آج وہ دوبارہ ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے نئے قانون سازی کے تحت وہ سب کچھ واپس چھینا جا رہا ہے۔ لہذا اس حوالے سے سیاست دانوں کو، قبائلی عوام کو، عوام کو، بیدار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح کہ ہمارے اس اکٹھ میں اور مل بیٹھنے میں یہ چیزیں ڈسکس ہونی چاہیے اور ہم متفقہ چیزیں سامنے لائیں، متنازعہ چیزیں ڈسکس کرنا وہ تو پھر ہم بحث میں پڑ جائیں گے اس کا تو کوئی فائدہ پھر نہیں ہوگا اس طرح کہ ہمارے مجالس کی جو افادیت ہے وہ ہم سب الحمدللہ اس میدان میں اور اس سیاست کی صحرا میں تیس تیس، چالیس چالیس سال گزار چکے ہیں۔ پتہ ہوتا ہے کیا ہو رہا ہے کیا اس کا مستقبل آئے گا، ہمارے اوپر کیا اثرات پڑیں گے، ہمیں اس کا ادراک کرنے کی صلاحیت ہمارے اندر ہونی چاہیے اور ہم اس پر ایک متفقہ موقف اختیار کریں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی نظام، پارلیمانی نظام پر مسلسل سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نمائندہ حکومت نہیں ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے، یہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی نہیں کر رہی، کیا پاکستان کے شہری کی حیثیت سے مجھے مطمئن نہیں کیا جائے گا ؟ بہت سے چیزوں کا جو میں خود گواہ ہوں میرے طرح لاکھوں کروڑوں لوگ گواہ ہیں ان کی رائے کا مذاق اڑایا جائے گا ؟ کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس سے تو بغاوتیں پیدا ہو جائیں گی، عوام کے ووٹ کے حق پر ڈاکہ ڈالنا یہ نہ کل جائز تھا نہ آج جائز ہے نہ آئندہ جائز ہے۔ آج تو ہم اختلاف کر رہے ہیں، پرامن مارچ کر رہے ہیں، جلسے کر رہے ہیں، اجتماعات کر رہے ہیں، یہی چیزیں بالآخر بغاوت پر پہنچتی ہیں۔ تو بغاوت تک پہنچا آپ رہے ہیں اور جب بغاوت پر آمادہ ہو جائے مجبور ہو جائے تو پھر گنہگار وہ ہے، باغی وہ ہے، اور گردن زنی اسی قرار دیا جائے گا یہ بھی ناجائز بات ہے۔ نظام کو ٹھیک کیا جائے اس کو سیدھا کیا جائے اس پر میرا اور آپ کا کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور ہم بڑے سلیقے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ اس پر ڈیبیٹ کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں نیشنل ایکشن پلان کی بات کی جاتی ہے، نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے وقت میں اس اجلاس میں موجود تھا، بنفس نفیس موجود تھا، اس کے کچھ حصوں سے ہم نے اختلاف کیا ہمارے اعتراضات نہیں سنے گئے اور ہم اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی ان حصوں کو کہ جس کو ہماری نظر میں امتیازی قانون سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ان امتیازی حصوں کو نکالا جائے اور نیشنل ایکشن پلان اب ایک حوالہ تو رہ گیا ہے لیکن یہ ایک اتفاق رائے تھا، نئے آئین کا حصہ ہے، نئے قانون کا حصہ ہے، باہمی طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کا ایک اعلامیہ ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جس طرح ہمارا میثاق جمہوریت ہے وہ ایک ڈاکومنٹ ہے، سیاسی جماعتوں کا ڈاکومنٹ ہے، وہ کوئی آئین اور قانون تو نہیں ہے لیکن ہم اخلاقی طور پر، جس طرح اس کا اپنے آپ کو پابند سمجھتے ہیں ہم اس کو بھی ہم وہی پوزیشن دیں اور اس کو اس قابل بنائیں کہ وہ ملک کے اندر وہ متفقہ قرار دیا جائے اس کے امتیازی حصوں کو ختم کر دیا جائے، ورنہ پھر یہ نیشنل ایکشن پلان نہیں ہوگا یہ گورنمنٹ ایکشن پلان ہوگا۔ یہ ایک خاص نظریے کے حامل لوگوں کا ایکشن پلان ہوگا۔ یہ اجتماعی رویوں کے نام پھر نہیں ہوگا۔
سو اس حوالے سے بھی بجائے اس کے کہ ہم دہشتگردی کو فروغ بھی دیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ بھی لڑیں، ہمارے جو لاء انفورسمنٹ ادارے ہیں وہ لڑتے ہیں وہ جرم کو ختم کرتے ہیں لیکن ہمارے جو خفیہ ادارے ہیں وہ جرم کو استعمال کرتے ہیں وہ جرم کو ختم نہیں کیا کرتے، اور پھر وہی پالیسیاں بناتے ہیں وہی آگے جا کر پھر اداروں کو لائن دیتے ہیں اور اس کے مطابق ہمارے ادارے چل رہے ہوتے ہیں۔ آج اگر باجوڑ کی بات ہے، اگر وزیرستان کی بات ہے ہمارے تو روز روز جنازے اٹھ رہے ہیں ہم نے تو باجوڑ میں ایک ہی دن کے اندر آسی اور نوے جنازے اٹھائے ہیں اور اب تک اس کا تسلسل کے ساتھ سلسلہ چل رہا ہے۔ وزیرستان میں روزانہ ہمارے جنازے نکلتے ہیں، گھر پر آکر راکٹ گرتا ہے اور گھر پر آکر راکٹ گرنے سے خواتین مرتی ہیں، بچے مرتے ہیں، شہید ہو جاتے ہیں اس گھر میں فوج آکر کہتی ہے یہ لاشیں ہمارے حوالے کرو، فوج آکر کہتی ہے یہ لاشیں ہمارے حوالے کرو، جب فوج کے حوالے ہو جاتی ہیں وہ رشتہ داروں کو بلاتے ہیں اور جبراً ان سے لکھواتے ہیں کہ یہ دہشتگرد تھے، تم تسلیم کرو کہ یہ دہشتگرد تھے۔ وہ کہتے ہیں صاحب گھر پر راکٹ آیا ہے بچی کا کیا تعلق ہے دہشتگردی کے ساتھ، خاتون کا کیا تعلق ہے دہشتگردی کے ساتھ، گھر کے اندر بیٹھے ہوئے غیر مسلح مرد ہے بوڑھا ہے جوان ہے اس کا کیا تعلق ہے اس کے ساتھ، میں کوئی مورچے میں تو نہیں لڑا ہوں آپ کے ساتھ، آپ کا راکٹ آیا ہے میں نے گھر میں اور میں نے لوگوں کو شہید کیا ہے آپ اس کو اپنے کھاتے میں لکھنا چاہتے ہیں کہ اس کو لکھ کر دو اور پھر ان کے لاشیں بھی واپس نہیں کرتے، کہتے ہیں یہ دہشتگرد ہیں۔ تو اس طرح کارروائی تو نہ ڈالی جائے نا اس طرح تو لوگوں کی تذلیل نہ کی جائے۔ اپنے دعویٰ کو تقویت دینے کے لیے اس قسم کے حربے تو نہ استعمال کیے جائیں۔ یہ سارے مشاہدات دن رات ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے حالات کیا ہے، ہم پر کیا گزر رہی ہے اور یا تو پھر خوشحالی لانے کے لیے، امن لانے کے لیے ایک مستحکم قسم کا اکنامک پلان ہونا چاہیے۔ نیشنل اکنامک پلان ہونا چاہیے ہمارا، تاکہ ہم تمام صوبوں کے لوگ ہر علاقے کا عوام اس کی آنے والی نسلیں ان کے بچے مطمئن ہو جائیں کہ یہ ہمارے ریسورسز ہیں ہم اس کے مالک ہیں اور یہ اس کے منافع جو ہمیں مل رہے ہیں۔ میں تو ہر وقت اس بات پر لڑتا ہوں کہ مجھے محروم کیا جا رہا ہے، مجھے محروم کیا جا رہا ہے، تو محرومیاں تو پیدا کی جا رہی ہیں، محرومیتوں کو تو فروغ دیا جا رہا ہے۔ جب محرومیتوں کو فروغ ملے گا تو پھر دہشتگردی بھی اٹھے گی۔
تو یہ ساری چیزیں ہمیں ایک نیشنل ڈائیلاگ کی طرف لے جا رہی ہیں، آئیں ہم ڈیبیٹ کریں، قومی سطح پر بات کریں مجھے اچھی لگی ہیں باتیں جب میرے دوستوں نے کہا کہ فوج سے بھی بات کی جائے، بیوروکریسی سے بات کی جائے، عدلیہ سے بات کی جائے، سیاستدان بیٹھیں، پارلیمنٹ بیٹھیں، ہم سب مل کر ایجنڈا طے کریں ہمارے مسائل کیا ہیں اس کی فہرست بنائیں اس پر بات چیت کریں اور اس کو حل کریں۔ صرف یہاں بیٹھ کر کس سے مطالبہ کر رہے ہو، صحیح سوال ہے۔ اس طرح ہم آپس میں بیٹھ کر مطالبات بناتے ہیں کس سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو اتھارٹیز ہیں اس کے خلاف تو ہم احتجاج پہ آگئے ہیں، مارچ کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ ادھر بیٹھی ہے ہم ادھر بیٹھے ہیں، ریاستی ادارے پنڈی میں بیٹھیں ہیں، سیاسی ادارے اسلام آباد میں بیٹھیں ہیں۔ تو جب فاصلے ہوں گے ہم ڈائیلاگ نہیں کریں گے، بات چیت نہیں کریں گے تو کدھر سے معاملہ حل ہوگا۔
تو ہمیں نیشنل لیول کا ڈائیلاگ کی طرف بھی جانا ہوگا ہمیں نیشنل لیول کا ایک اکنامک لاء بھی بنانا ہوگا تاکہ ہم ہر صوبے کے ہر خطے کے ہر علاقے کے عوام کو مطمئن کر سکیں اور پھر یہ جو بدامنی ہے اس کے پیچھے جو عوامل ہیں اور گہرے عوامل ہیں جس تک رسائی ہر پاکستانی کا ہمت نہیں ہے کہ وہاں تک رسائی حاصل کر سکے اس کو ڈھونڈے ہم، اگر میرے شکوک و شبہات ہیں بجائے اس کے کہ مجھ سے ناراض ہوں مجھے اس کی سزا آپ دیں مجھے مطمئن کریں میرا حق ہے کہ میں آپ سے مطالبہ کروں کہ مجھے مطمئن کریں۔
تو یہ میسج ہماری طرف سے واضح طور پر جانا چاہیے کہ ہم نہ افہام و تفہیم کا انکار کرتے ہیں، سیاسی آدمی کب افہام و تفہیم کا انکار کرتا ہے۔ سیاسی آدمی کب ڈائیلاگ کا انکار کرتا ہے۔ مذاکرات کا کب انکار کرتا ہے۔ کسی مسئلے کی سیاسی حل کا کم از کم سیاستدان تو انکار نہیں کر سکتا۔ تو اگر ہم پارلیمنٹیرینز ہیں اگر ہم نے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ہے پارلیمان کا راستہ اختیار کیا ہے آئین اور قانون ہمارے لیے ایک کسوٹی ہے تو پھر آئیں اس کسوٹی کی بنیاد پر دیکھیں کہ کیا جائز ہے کیا ناجائز ہے، کیا حق ہے کیا ناحق ہے، اور اسی بنیاد پر میں ایک مسئلہ ہے کہ یہاں پر افغان مہاجرین کا ایک مسئلہ پیدا ہوا ہے، افغان مہاجرین کی بے دخلی اور جبری بے دخلی کا عمل شروع ہو گیا ہے جو یقیناً اس وقت ان حالات میں پاکستان افغانستان کے تعلقات کو متاثر کر رہا ہے۔ جب طالبان کی حکومت نہیں تھی اور اشرف غنی صاحب یا احمد کرزئی صاحب ان کی گورنمنٹ تھی تو اس وقت بھی یہ مسئلہ اٹھا تھا۔ دو ہزار سولہ سترہ میں بھی یہ مسئلہ اٹھا تھا۔ اس وقت ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں ہم نے ان سے یہ گزارش کی تھی کہ افغان مہاجرین کی آپ کیٹیگریز طے کر لیں، کتنے افغان ہیں جنہوں نے تیس چالیس سال تک پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے اور کتنے بینک ہیں کہ اگر افغانی وہاں سے پیسہ نکالے گا تو وہ دیوالیہ ہو جائیں اگر وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس کا پیسہ پاکستان کے اندر گردش کر رہا ہے اور میرے ملک کی بڑھوتری کا ذریعہ بن رہا ہے میں اپنے ملک مفاد کو بھی دیکھوں تو اس کیٹیگری کو آپ الگ رکھ لیں اور ان کو آپ برات دیں۔ اگر ہمارے تعلیم گاہوں سے وہ ڈاکٹر بنے ہیں، ہمارے تعلیم گاہوں سے وہ انجینئر بنے ہیں اب وہ ہمارے سکل ہے جب پڑھایا میں نے ہے، جب سکل کی حیثیت اس نے پاکستان میں حاصل کی ہے تو اس کا فائدہ پاکستان کو ملنا چاہیے، ایسے لوگوں کو آپ کچھ مراعات دیں، انسانی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے جو نوجوان ابھی پڑھ رہے ہیں اگر وہ میڈل میں ہیں یا وہ میٹرک میں ہیں یا وہ ایف اے کر رہے ہیں اور ایک دم آپ ان کو نکال دیں گے وہاں کا نصاب بالکل مختلف ہے تو وہ تو پھر ابتداء سے الف ب شروع کرے گا وہاں پر، تو آپ ان کی تعلیم کو تحفظ دیں اس کے لیے الگ پالیسی بنائیں، عام لوگ جو کیمپوں میں رہ رہے ہیں ان کے لیے آپ ایک الگ سٹریٹیجی بنائیں۔ لیکن ہماری روایات ہیں ہماری سوسائٹی کی روایات ہیں اور پشتون سوسائٹی، بلوچ سوسائٹی تو بہت بہتر اس کو جانتی ہے کہ اگر آپ کے گھر میں ایک مہمان ایک سال بھی رہے لیکن اس کو رخصت کرتے وقت آپ لات مار کا گھر سے اس کو نکالیں تو ایک سال کی مہمانداری ختم ہو جاتی ہے۔ کوئی حیثیت اس کی نہیں رہتی، ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ اگر آنے والے مستقبل میں جس پر دارومدار دو مملکتوں کے تعلقات کا ہے تو ہم ان تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے رویوں کا تعین کریں، جبری بنیادوں پر بے دخلیوں کی باتیں جو ہیں تو اس حوالے سے اس ماہ اگست میں سب کو ڈیڈ لائن دی گئی ہے اگر میری درخواست پر آپ حضرات ایک متفقہ رائے بنائیں کہ نہیں اس کے لیے سب کو اعتماد میں لے کر اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ایک متوازن پالیسی اس کے لیے اختیار کریں، افغانستان ان کا ہے انہوں نے کبھی جانا تو ہے، اپنے گھر میں جانا ہے انہوں نے لیکن طریقے کے ساتھ طریقے کے ساتھ مہمان کو بھی عزت کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے، جبر کی بنیاد پر نکالنا یہ تو اپنی پوری مہمانداری کو ضائع کرنے والی بات ہے۔
تو یہ کچھ گزارشات آپ کے خدمت میں میں نے عرض کی ہیں۔ آپ حضرات نے اپنے قرارداد میں جو پشاور میں پاس کی ہے میرے خیال میں پہلا حصہ میں نے کچھ پڑھا ہے بار بار اٹھتر سال اور اٹھتر سال اور اٹھتر سال اور اٹھتر سال، بلوچستان میں اٹھتر اٹھتر ہے نا جی، تو یہ میرے خیال میں آپ لوگوں کے ذہن میں ایک سوال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اور ہمارے اصل حکمرانوں نے اٹھتر سالوں میں آج تک کوئی ایک بھی صحیح فیصلہ نہیں کیا تو یہ سوال پیدا کرنے کی کوشش تو کی گئی اب دیکھتے ہیں کیا جواب ملتا ہے اللہ تعالیٰ خیر کی صورت فرمائے بہت شکریہ آپ حضرات کا۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض
ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں