قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی میں خطاب
13 اگست 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
جناب اسپیکر! یہ تو ماہر قوانین جانے کے آج جو ترمیم لائی جا رہی ہے اس کی قانونی ضرورت کتنی ہے اور کتنی نہیں، یا ہے بھی اور نہیں، لیکن اس قسم کی جو قانون سازیاں ہیں جناب اسپیکر اس کا ایک اپنا پس منظر بھی ہے اس کی ماضی بھی ہے اور طویل ماضی ہے، دہشت گردی کے حوالے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ یہ صرف پاکستان میں نہیں عالمی سطح پہ شروع ہوئی تھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت امریکہ بہادر خود کر رہا تھا اور پاکستان کی مشرف گورنمنٹ نے اس اتحاد کا حصہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ یہاں پر بدعنوانیوں کے خلاف کرپشن کے خلاف نیب قوانین بنائے گئے، مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ کبھی کسی قانون دان نے یا کبھی کسی پارلیمنٹیرین نے اس تمام تر تاریخ اور اس تمام تر ماضی میں اس تمام تر قانونی چارہ جوئیوں میں اس نقطے کو کبھی دیکھا ہے کہ ہم نے اس قانون سازی کے تحت پاکستان کے ہر فرد کو پاکستان کے ہر شہری کو پیدائشی مجرم قرار دے دیا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اس وقت پاکستان میں مجرم ہے۔ حکومت اور ادارے جب چاہیں بغیر پوچھے کسی شخص کو بھی گرفتار کر سکتی ہے اور گرفتار کرنے کے بعد پھر اس کو ثابت کرنا ہوگا کہ میں گنہگار نہیں ہوں۔ یہ شریعت کے لحاظ سے کہاں ہے، یہ انسانیت کے لحاظ سے کہاں ہے، اس کا نشانہ صرف پاکستانی قوم کو کس طرح بنا دیا گیا ہے اور پھر ہماری طرح کے کچھ کمزور ممالک ترقی پذیر ممالک ان کے کچھ حوالے بھی دیے جاتے ہیں کہ یہ قانون فلاں ملک میں ہے غلط قانون کو بطور نظیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ کتنے ممالک ہیں دنیا میں کہ اسی طرح کی غلط قانون سازیوں اور عدالت کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں ہمارے قانون اور ہمارے فیصلے بطور نظیر پیش نہیں کیا جا سکتے، ان عدالتوں نے بھی روندی لگائی ہوئی ہے ان پارلیمنٹوں نے بھی پابند لگائی ہوئی ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں، میں بتانا چاہتا ہوں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر، اپنے گاؤں سے 15 16 کلومیٹر دور اور لگا دیا کہ جی اس کے گھر سے اسلحہ پکڑا گیا یے، بھئی تم گھر میں گئے نہیں ہو تم نے 16 کلومیٹر دور اس کو پکڑا ہے، ایک دکان میں پکڑا ہے اس کو، گھر سے برآمد ہو گیا اسلحہ، اس طرح کے جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ ہم نے وہ مثالیں بھی دیکھی ہیں کہ اے پی ایس حادثے سے ایک سال پہلے ایک نوجوان کو اٹھایا گیا ایک سال پہلے اداروں کی کسٹڈی میں تھا اور اس جرم کی پاداش میں ان کو پھانسی دی گئی اور لٹکا دیا گیا۔ کون سا انصاف ہے ہمارے اس ملک میں، کس انصاف کی آپ باتیں کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کب سے شروع ہوئی، کب سے ہم سفر کر رہے ہیں اور میرے خیال میں یہ گزشتہ 20 25 سالوں میں جو ہم نے دیکھا ہے یہاں دہشتگردی ختم کب ہوئی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جی آج ایک نئی لہر اگئی ہے، وہ ختم کب ہوئی ہے اس کا سلسلہ کب ٹوٹا ہے، ہم اپنے گاؤں میں نہیں جا سکتے۔ میرے ملک کا ایک معزز شہری میرا مہمان تھا میرے گھر سے نکلا میرے گاؤں سے، اسلام آباد کے لیے، گھر کے دروازے پر ان کو اطلاع دی گئی کہ روڈ جو ہے دہشت گردوں کے قبضے میں ہے آپ نہیں جا سکتے، اور یہ پانچ بجے کا ٹائم عصر کا، دو دن کی بات ہے، کہاں ہے آپ کا رٹ کہاں ہے آپ کی حکومت، باجوڑ میں کیا صورتحال بنی ہوئی ہے اور پھر ہم پبلک کو آگے کرتے ہیں، قبیلے سے کہتے ہیں اپ بات چیت کریں، ان کے پاس اسلحہ ہے میں غیر مسلح ہوں، تمام قبائل کو آپ نے غیر مسلح کر دیا ہے، ان کے پاس اپنے تحفظ کے لیے کوئی چیز نہیں ہے اور آپ مسلح لوگوں کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپ مذاکرات کریں۔ فوج مذاکرات نہیں کرے گی، لا انفورسمنٹ کے ادارے مذاکرات نہیں کرے گی، پھر عوام کو آپ ان کے مقابلے میں لے اتے ہیں، پھر عوام کی بات نہیں مانی، کہاں مانتے ہیں وہ، لہذا سٹریٹجی بناؤ، کوئی سلیقے سے بناؤ، کوئی طریقے سے بناؤ اور اس پر ایک باقاعدہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلاؤ، مشورہ کرو کہ کیا صورتحال بن سکتی ہے اس قانون سازی سے تو میں اللہ کے ننانوے ناموں کو گواہ بنا کر پیش کرتا ہوں کہ اس قانون سازی سے ایک ناخن برابر بھی کوئی فائدہ نہیں، کرتے جاؤ قانون سازی، کرتے جاؤ قانون سازیاں اور کرتے جاؤ قانون سازیاں اس پارلیمنٹ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے اس کی قانون سازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک قانون بنتا ہے دباؤ آتا ہے اپ اس میں ترمیم کرتے ہیں آپ نے نیب کی قانون میں ترمیم کی اس کے بعد پتہ نہیں پھر کون کون سے راستوں پر آپ نئی نئی قوم سازیاں لاتے ہیں، خدا کے لیے اگر ہماری اوپر جبر مسلط کرنا ہے اور آپ نے جبر کا نمائندہ بننا ہے، آپ نے جمہور کا نمائندہ نہیں بننا تو پھر آپ ٹھیک ہے آپ فیصلے صحیح کر رہے ہیں۔ قانون سازی یہ کہیں سے کرائی جا رہی ہے کسی دباؤ کے تحت پارلیمنٹ چل رہا ہے جناب اسپیکر! آپ کے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کو دباؤ میں نہیں ہونا چاہیے، پارلیمنٹ کو ثابت کرنا چاہیے کہ وہ سپریم ہے، اس کے سپر میسی کو ہمیں ثابت کرنی پڑے گی ورنہ یہ جو صورتحال ہے کیا یہ پلان، نیشنل ایکشن پلان کبھی کبھی یاد آجاتا ہے، نیشنل ایکشن پلان، آپ اس کے متن کو پڑھیں اوپن اجلاس میں شاید میں بات کروں تو اس کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا نقصانات ہوں گے جتنا امتیازی قانون وہ پلان کی صورت میں بنایا گیا ہے وہ قانون بھی نہیں ہے وہ ایک ایگریمنٹ ہے آپس کی بات ہے ہم نے سرکاری طور پر ایگزیکٹو کو اس کو پروف کیا ہے اس ایگزیکٹو آرڈر کے تحت تو میثاق جمہوری ہوا اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا، نیشنل ایکشن پلان ایک امتیازی قانون ہے میں نے اجلاس کے دوران اس وقت بھی جب یہ پاس کیا جا رہا تھا اس لمحے بھی میں نے اس کو مسترد کیا تھا میں آج بھی فلور آف دی ہاؤس پر اس کو مسترد کرتا ہوں، لائے ریاست جو طاقت لائے ہمارے خلاف ہم اس کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں لیکن ناجائز قانون، امتیازی قانون کو تسلیم کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ اج پھر آپ ہم پر نئی مارشل لاء مسلط کر رہے ہیں، آپ پھر ایک بار ہم پر ایک جبر مسلط کر رہے ہیں، آپ کیا کر رہے ہیں، راتوں رات مسجدیں گرائی جا رہے ہیں، اسلام اباد میں گرائے جا رہے ہیں، آپ خود دہشتگردی کو دعوت دے رہے ہیں، آپ تو انتہا پسندی کو دعوت دے رہے ہیں، کبھی ہمارا ماٹو تھا لاہور کی ایک مسجد بنی "شب بھر میں بنا دی مسجد تو ایمان کے حرارت والوں نے" اور آج شب بھر میں گرا دی مسجد، اگے نہیں کہتا تھا تلخ ہو جاتا ہے۔ پچاس کی آپ نے لسٹ مہیا کی ہوئی ہے، مسجد جب بن جاتی ہے تو پھر وہ مسجد ہے قیامت تک کے لیے مسجد ہے کسی مائی کا لال اس مسجد کو نہیں گرا سکتا، ہم اپنا خون گرائیں گے لیکن مسجدوں کو نہیں گرنے دیں گے اور اس کو دوبارہ تعمیر آپ پر لازم ہے۔ آپ نے چوبیس گھنٹے کا ٹائم لیا تھا آج ایک بجے وہ ٹائم ختم ہو گیا ہے ابھی تک آپ نے وہاں ایک اینٹ نہیں رکھی اگر صورتحال خراب ہوتی ہے تو فضل الرحمن ذمہ دار ہوگا، میں تو یہاں تھا بھی نہیں جب یہ وقوعہ ہوا، لوگ اشتعال میں ائے، لوگ جمع ہو گئے، وہاں پر پہنچ گئے، نمازیں پڑھائی جا رہی ہے اور قران کریم کو بھی آپ نے باہر نہیں نکالا، کہ قران کریم کی نسخے باہر رکھ کر آپ مسجد گرائیں آپ کو اتنی جلدی تھی کہ قران کریم کو اس زمین میں دفنا دیا گیا، کوئی شرم اور حیا ہے یا نہیں ہے، آپ قران کریم کو دفنائیں اور پھر اتنی جلدی بھی وہاں پر درخت بھی کھڑے کر دیے جیسے یہاں پر مسجد تھی ہی نہیں، حضرت یہ مسجد ہے، یہ مسجد تھی، یہ مسجد رہے گی اور پچاس مساجد کی جو لسٹیں آپ نے مہیا کی ہیں میں چیلنج کرتا ہوں آپ کو، آپ کسی ایک مسجد کی ایک اینٹ ہلا کر رکھ دے پھر فضل الرحمان، فضل الرحمان نہیں ہوگا۔ مذاق بنا رکھا ہے یہاں آپ لوگوں نے، اس طرح کی حرکتیں کی جائیں گی ملک کے اندر، پھر کہیں گے جی معاملے کو ذرا ٹھنڈا کرو، ابھی چودہ اگست آرہا ہے، ابھی وزیر داخلہ نہیں ہے ان کو ذرا آنے دے، تین گھنٹے میں آپ نے مسجد گرا دی، ہموار کر دی، قران مجید دفن کرا دیے، درخت لگوا دیے تاکہ نام و نشان مسجد کا نہ رہے اور اب وہ ایک اینٹ رکھنے کے لیے آپ کہتے ہیں وزیر داخلہ کو آنے دو، چودہ اگست گزرنے دو، حضرت یہ بات واضح ہے جب تک پاکستان کی سرزمین پر اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر مسجد محفوظ نہیں ہے آپ کا یوم آزادی بے معنی ہے، اس مذہب کے لیے، اس دین کے لیے، اسلام کے لیے، لا الہ الا اللہ کے لیے، شعائر دین کے لیے، اس کے تحفظ کے لیے اس ملک کو بنائے ہوئے ہیں اور اسی کے لیے ہم یوم آزادی مناتے ہیں۔ اگر اسی دن ہمارے شعائر پر حملے کیے جاتے ہیں، ان کو تباہ کیا جاتا ہے، پھر یوم آزادی کس چیز کا، آپ کے اوپر ایک بڑے فکر مند انسان کی تصویر لگی ہے اس کی روح کیا سوچے گی، ایمان کہاں گیا، اتحاد کہاں گیا، یقین محکم کہاں گیا، اور آزادی کا دن منا رہے ہیں۔
یہ ساری چیزیں ہم تضادات کا شکار ہیں قومی سطح پر اور ہمیں آج ہی وہاں پر وعدے کے مطابق ہے 48 گھنٹے کے اندر 48 گھنٹے ایک بجے پورے ہو گئے، ایک بجے پورے ہو گئے اور ابھی تک وہاں پر اینٹ نہیں رکھی گئی، تو یہ خلاف ورزی آپ کی طرف سے ہو رہی ہے اور خواہ مخواہ آپ اشتعال کا ماحول پیدا کر رہے ہیں، آپ اشتعال پیدا کریں اور ہمیں کہیں کہ جی آپ کول ڈاون کریں یہ نہیں ہو سکتا۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں