نائن الیون کے بعد پاکستان میں مذہبی طبقے کو پیش آنے والی مشکلات۔ تحریر: سہیل سہراب

نائن الیون کے بعد پاکستان میں مذہبی طبقے کو پیش آنے والی مشکلات

تحریر: سہیل سہراب

گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکا نے "وار آن ٹیرر" کا آغاز کیا اور پاکستان پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ امریکا کا ساتھ دے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے طالبان حکومت سے فاصلہ اختیار کیا اور امریکا کو لاجسٹک سپورٹ، فضائی حدود اور انٹیلیجنس تعاون فراہم کیا۔ اس فیصلے کا پاکستان کے مذہبی طبقے پر گہرا اثر ہوا:

👈 افغاان طالبان کی حمایت پر دباؤ

پاکستان کے دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں میں سے کئی طالبان کے حامی تھے۔ مشرف حکومت نے طالبان کے لیے کھلے عام ہمدردی یا حمایت پر پابندیاں لگائیں، جس سے مذہبی قیادت کے لیے بیانیہ قائم رکھنا مشکل ہوگیا۔

👈 مدارس پر نگرانی اور اصلاحات

دینی مدارس کی رجسٹریشن، نصاب میں تبدیلی اور فنڈز کے ذرائع کی چھان بین شروع ہوئی۔ اس سے مذہبی طبقہ ریاستی نگرانی میں آگیا اور اسے اپنی آزادی محدود محسوس ہونے لگی۔

👈 کالعدم تنظیموں پر پابندیاں

کئی جہادی یا مسلح تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر ان کے دفاتر بند کیے گئے، جس سے مذہبی سیاست اور سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

👈 عوامی ردعمل میں تقسیم

نائن الیون کے بعد مذہبی طبقہ دو حصوں میں بٹ گیا: ایک وہ جو طالبان و القاعدہ کی کھل کر حمایت کر رہے تھے، اور دوسرے وہ جو امریکا سے براہ راست محاذ آرائی سے گریز چاہتے تھے۔

👈اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اس ساری صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰن کا کردار کیا رہا

دوستوں! مولانا فضل الرحمٰن اس وقت جمعیت علمائے اسلام (پ) کے سربراہ تھے اور مذہبی سیاست میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ نائن الیون کے بعد ان کا کردار انتہائی اہم رہا:

👈 سیاسی بیانیہ اور طالبان کی حمایت

مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے نائن الیون کے بعد طالبان کی حمایت میں بیانات دیے، انہیں اسلامی مزاحمتی قوت کے طور پر پیش کیا اور امریکا کے افغانستان پر حملے کی مذمت کی۔ تاہم، وہ براہ راست ریاست کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے رہے اور بیانیے کو زیادہ تر سیاسی دائرے میں رکھا تاکہ مذہبی طبقہ کسی بڑے تصادم سے بچا رہے۔

👈 پارلیمانی پلیٹ فارم کا استعمال

2002 کے انتخابات میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل)، جس میں جے یو آئی (پ) بھی شامل تھی، نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت بنائی۔ اس سے مولانا فضل الرحمٰن کو اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی طبقے کے درمیان ایک "پل" کا کردار ملا۔

انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے مدارس کے خلاف سخت اقدامات کو روکنے یا نرم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔

👈 مزاحمت اور مفاہمت کا ملا جلا رویہ

مولانا صاحب نے بین الاقوامی دباؤ کے ماحول میں مزاحمتی بیانات بھی دیے اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بھی برقرار رکھے، تاکہ مذہبی طبقے کے لیے گنجائش باقی رکھی جا سکے۔

مولانا فضل الرحمٰن صاحب پاکستانی سیاست کے غلام گردشوں میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والے سیاستدان ہیں۔ برائے نام اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی طبقہ جتنی مشکلات کا شکار رہا ہے، شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ ہوا ہو۔ مختلف قوتوں نے ہر دور میں یہ کوشش کی کہ کسی طرح مذہبی طبقے کو اشتعال دلایا جائے تاکہ وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے جو مخالفین کو اس پر چڑھ دوڑنے کا جواز فراہم کرے۔

لیکن قائد محترم کی سیاسی بصیرت کو سلام کہ انہوں نے ہر دور میں مذہبی طبقے کی مؤثر نمائندگی کی۔ ہر مشکل میں سیسہ پلائی دیوار بن کر مخالفین کے سامنے ڈٹے رہے۔ لانگ مارچ ہو یا ملین مارچ، انہوں نے پوری دنیا کو مذہبی طبقے کا اصل اور خوبصورت چہرہ دکھایا۔ جو لوگ اس تاک میں بیٹھے تھے کہ کہیں کوئی پرتشدد واقعہ ہو اور انہیں موقع ملے، وہ ہر بار قائد محترم کی حکمت عملی کے سامنے ناکام ہوئے۔

ان شاءاللہ آئندہ بھی انہیں شرمندگی، ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ مذہبی طبقہ قائد محترم کے زیر سایہ منظم و متحد ہے اور کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے قائد محترم کی برسوں کی محنت ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔

#سہیل_سہراب 


0/Post a Comment/Comments