مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سندھ امن کارواں جلسہ عام سے خطاب

 

قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سندھ امن مارچ کے جلسہ عام سے خطاب

18 ستمبر 2025

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمٰن الرحیم۔ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔ صدق اللہ العظیم 

جناب صدر محترم، اکابر علماء کرام، بزرگانِ ملتِ، سندھ دھرتی کے میرے بھائیو، جوانو، آپ نے چار یا پانچ روز سندھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوامی امن مارچ کیا اور آج کراچی کے اس میدان میں تاریخ کا عظیم الشان اجتماع منعقد کر رہے ہیں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے جمعیتِ علماء اسلام کی آواز پر لبیک کہا اور سندھ جمعیت علماء اسلام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے تمام مراحل کامیابی کے ساتھ عبور کر کے اپنے امن کاروان کو اس منزل تک پہنچایا۔

میرے دوستو! یہ امن مارچ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی آپ نے اپنے صوبے میں امن کی آواز بلند کی۔ آج بھی آپ عوام کی آواز ہیں اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ خیبر پختون خواہ میں جہاں امن نام کی کوئی چیز نہیں، اس محاذ پر بھی جمعیت علماء اسلام وہ واحد قوت ہے جو عوام کی آواز بن کر ملین مارچ کرتی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں جائیں جہاں پر بدامنی کا راج ہے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو غالباً بیس پچیس سال پہلے کویٹہ کے میزان چوک پر اگر اس حوالے سے کسی نے آواز بلند کی ہے تو وہ جمعیتِ علماء اسلام کی آواز تھی اور آج بھی وہ آواز چترال سے لے کر تربت اور گوادر تک اور کراچی سے کشمور تک جمعیت علماء اسلام کی آواز ہے جو امن کا پرچار کر رہی ہے، اور ان‌شاء اللہ یہی ہمارا منشور ہے اور اپنے منشور پر عمل کرنا جس طرح ہم جانتے ہیں شاید کوئی دوسری جماعت نہیں جانتی ۔

میرے محترم دوستو! ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کن کن راستوں سے ہمارے سامنے رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ انتخابات میں عوام کی تائید کا کس طرح راستہ روکا جاتا ہے، نتائج کیسے تبدیل کیے جاتے ہیں، عوامی مینڈیٹ کیسے چوری کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ہم نے سیاسی تحریک کو جاری رکھا، ورنہ راشد سومرو تو کہتے ہیں کہ ہم وزیراعلیٰ ہاؤس میں جا سکتے ہیں، صوبائی اسمبلی میں جا سکتے ہیں اگر جمعیت علماء اسلام نے آواز دی اور پورے ملک سے لوگوں کو بلایا تو پھر اسلام آباد آپ کے قبضے میں ہوگا، اور ہم وہاں تک نہیں جانا چاہتے، لیکن اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو ہماری ہتھیلیاں بھی اب مزید خارش کر رہی ہیں کہ کیسے آپ کے ساتھ ہم الجھ جائیں۔

عوامی مینڈیٹ کوئی ریوڑیاں نہیں کہ آپ سندھ میں کسی کو دیں، بلوچستان میں کسی کو عطا کریں، پنجاب میں کسی کو عطا کریں، خیبر پختون خواہ میں کسی کو عطا کریں۔ عوام کی سوچ اور، اور الیکشن کا نتیجہ اس سے مختلف، اب مزید نہیں چلیں گے۔ 

میرے محترم دوستو! ہم امن کی آواز ہیں اور ہر پاکستانی کا دل امن کا متلاشی ہے، ان‌شاء اللہ اس محاذ پر عوام کی نمائندگی جمعیت علماء اسلام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

میرے محترم دوستو! جمعیت علماء اسلام نے محبت کو فروغ دیا ہے، فرقہ وارانہ عصبیت ہوں یا قوم پرستانہ نفرتیں ہو، جمعیت علماء اسلام نے ہر صوبے، وہاں کے عوام اور وہاں کے بچوں کے حقوق کی بات کی ہے اور ان کے حقوق کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن پوری قومی وحدت کے ساتھ اور قومی محبت کے ساتھ، باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ہم نے اپنا منشور پھیلایا ہے۔

میرے محترم دوستو! یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے ملک کی مقتدرہ اور ان کی ایجنسیاں جمعیت کی آواز کو غیر مؤثر بنانے کے لیے کیا کیا حربیں استعمال کرتی ہیں، نا معلوم قوتوں کے ہاتھ میں ہمارا پرچہ پکڑوا دیتی ہیں لیکن پبلک جانتی ہے، عوام کا شعور بیدار ہے، قوم اپنے خیرخواہ کو پہچاننے لگی ہے۔ ہم نے امن کا پرچار کیا ہے، ہم نے محبت کو فروغ دیا ہے، اور جمعیت علماء اسلام جب یہ باتیں کرتی ہے تو دین اسلام کے حوالے سے، امریکہ سے لے کر ہمارے اداروں تک جو تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ اسلام تو شدت والا نظام ہے، اسلام تو خون خرابے والا نظام ہے، اسلام تو انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ جمعیت علماء اسلام نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ امن کا اگر کوئی نظام ہے تو سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں ہے، محبت کا اگر کوئی نظام ہے تو سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں ہے، حقوق کے تحفظ کا اگر کوئی نظام ہے تو دین اسلام کے علاوہ اور کوئی نظام نہیں ہے۔ ہمارے پاکستان کے مکاتبِ فکر ہوں، صوبے ہوں، قومیتیں ہوں، ان کے برابر کے حقوق کی بات کی ہے اور کبھی نفرتوں کی بنیاد ڈال کر قوم کو آپس میں نہیں لڑایا۔ ہم نے دنیا کو بتایا کہ اس کو امن کہتے ہیں۔ اسلام کا جو تصور جمعیت علماء اسلام پیش کرتی ہے وہ دنیا کو بتا رہی ہے کہ امریکہ بھی اسلام کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے، یورپ بھی اسلام کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے۔ اگر یہودی دنیا وہ اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوتی ہے تو مسلمانوں کے حقوق کے لیے جمعیت سب سے پہلے میدان میں اتری ہے۔ ہم نے یہودیت کا مقابلہ کیا، یہودیت کے مقابلے میں اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے، اور جب مغرب نے قادیانیت کو فروغ دینے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کیے تو پھر جمعیت علماء اسلام نے اس کا تعاقب کیا اور اس طرح قادیانیت کی کمر توڑی ہے کہ اب دوبارہ وہ کمر سیدھی کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ان شاءاللہ العزیز 

میرے محترم دوستو! جمعیت صرف پاکستانی قوم کی آواز نہیں، جمعیت امتِ مسلمہ کی آواز ہے۔ جمعیت علماء اسلام فلسطین کے مسلمانوں کی آواز ہے، بیت المقدس کی آزادی اور اس کے لیے قربانی دینے والوں کی آواز ہے۔ آج فلسطین پر قبضے کی بات ہو رہی ہے، میں ایک بات عرض کر دینا چاہتا ہوں، کوئی ہفتہ بھر قبل میں نے راولپنڈی کے ایک جلسے میں کہا تھا کہ اسلامی دنیا کے درمیان ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے، یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں، یہ جمعیت علماء اسلام کا منشور ہے، پوری دنیا کے حکمرانوں کے لیے ایک پیغام ہے، امتِ مسلمہ بکھری ہوئی ہے، امتِ مسلمہ ایک دوسرے کی مقابلے میں ہے، اور جب تک ہم ایک دوسرے کی مقابلے میں ہیں دنیا ہمیں غلام بنائے گی۔

تو میں نے کہا کہ اگر دوحہ میں اور قطر میں اسلامی دنیا کا اکھٹ ہو رہا ہے تو یہ ایک اچھا آغاز ہے۔ لوگوں نے اسلامی کانفرنس سے بڑی توقعات وابستہ کیں اور عام آدمی آج کے حالات میں حق رکھتا ہے کہ اسلامی دنیا کی قیادت سے توقعات وابستہ کرے، لیکن ہم سیاسی لوگ ہیں، ہم دنیا کے حالات سے واقف ہیں، ہمیں کوئی بڑی توقعات نہیں تھیں، لیکن اسلامی بلاک کی طرف جانا اس کے لیے پہلا قدم ضرور ہے، اور ہم اس کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ یہ آگے بڑھے، اسلامی دنیا سوچے کہ کہاں کہاں رکاوٹ ہے، کہاں اسلامی دنیا کے درمیان اختلاف کی ایسی خلیج ہے کہ اس خلیج کو پاٹا جائے، اس دوری کو ختم کیا جائے۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اسلامی دنیا کی ایک مشترکہ دفاعی قوت ہونی چاہیے۔ اگر سعودی عرب کے بادشاہ نے ہمارے وزیراعظم کو بلا کر ریاض میں دوطرفہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں تو آپ کو یاد ہوگا ہم نے ہر مرحلے پر یہ بات کہی ہے، فلسطین کا سوال پیدا ہو، کشمیر کا سوال پیدا ہو، برما کے مسلمانوں کا سوال پیدا ہو، دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر مسلمانوں کے حق کا سوال پیدا ہو تو ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں اسلامی دنیا کی قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں، آئیں یہ دونوں اپنی اس صلاحیت کو استعمال کریں، اسلامی دنیا کی قیادت کے لیے آگے بڑھیں اور میں آج خوش ہوں کہ جمعیت علماء اسلام کے نظریے اور منشور کے مطابق آج دو ملکوں کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہو چکا ہے جو اسلامی دنیا کے مشترک دفاعی حکمت عملی کا آغاز ہوگا۔

سارے منازل بیک وقت طے نہیں ہوتے، میں اس مرحلے پر غزہ کے مسلمانوں کی بات کروں گا، فلسطین کی آزادی کی بات کروں گا اور میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں پاکستان کے حکمرانوں سے بھی اور سعودی عرب کے قابل احترام حکمرانوں سے بھی، جہاں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی تجویز پیش کی جاتی ہے، میرے خیال میں کسی مذاکراتی میز سے پہلے یا مخالف فریق کے اس مؤقف کی طرف آنے کا اشارہ ملنے سے پہلے جب آپ ایسی تجویز دیں گے تو آپ نے اسرائیل کے مقابلے میں اپنی کمزوری دکھا دی شاید اسرائیل اس کا کبھی جائز راستے کے طور پر استعمال نہیں کرے گا اس کا ناجائز فایدہ اٹھائے گا۔ سفارتی حوالے سے، سفارتی اصولوں کے حوالے سے میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی بنیاد 1947 میں پڑی، تو 1947 میں پاکستان نے کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز وجود ہے، فلسطین کی سرزمین پر قبضہ ہے۔ جب فلسطینی کہتے ہیں کہ ایک فلسطین اور اسرائیل کہتا ہے کہ گریٹر اسرائیل، وہ تو حرمین تک پر دعویٰ کر رہا ہے، ایک وسیع تر اسرائیل کا معنیٰ یہ ہے کہ حرمین بھی اسرائیل کا حصہ بن جائیں۔ اس قسم کے مؤقف کے مقابلے میں ہمیں ہر فورم پر مضبوط مؤقف دینا چاہیے اور کسی قسم کی کوئی کمزوری اور لچک کا مظاہرہ مسئلہ کا حل نہیں ہوگا وہ اسرائیل کی تقویت کا سبب بنے گا۔ اس لیے ہم سنجیدہ طور پر دنیا کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر فلسطین کہتا ہے کہ ساری سرزمین فلسطین کی ہے، یہ تاریخ کے لحاظ سے بھی، قانون کے لحاظ سے بھی، ہر لحاظ سے یہ صحیح مؤقف ہے۔ اور اگر اسرائیل کہتا ہے کہ صرف ہم ہی ہوں گے، فلسطین نہیں ہوگا، تو یہ ناجائز، ظالمانہ اور غلط مؤقف دنیا کی سرزمین پر اور ہو نہیں سکتا۔

جمعیت علماء اسلام اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، ہم دنیا کے سامنے اپنی تجاویز رکھیں گے۔ دنیا کو دعوت دیں گے کہ وہ ہماری تجویز پر غور کرے، کمزور پوزیشن وقت سے پہلے لینا یہ مسئلے کے حل کے راستے کو بند کرتا ہے، راستے کا حل نہیں بتایا کرتا۔

میرے محترم دوستو! دنیا میں کچھ لوگ ہیں مختلف یورپی ممالک، مسلمان،غیر مسلم خوراک اور دوائیاں لے کر سمندر کے راستے وہ غزہ کی طرف سفر کر رہے ہیں، ہمارے ملک سے بھی کچھ نوجوان اس قافلے میں شامل ہوئے ہیں۔ ہم اس قافلے کے عزم کو سلام پیش کرتے ہیں اور جو ہمارے پاکستان کے بھائی ہیں ہم انہیں بھی حوصلہ دیتے ہیں کہ ان‌ شاء اللہ یہ پوری قوم کی نمائندگی ثابت ہوگی۔

میرے محترم دوستو! جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ ملک کی بہتر معیشت کی بات کی ہے، پاکستان معاشی لحاظ سے کمزور ہے، بے روزگاری ہے، غربت ہے۔ اگر حکمران ہیں اور وہ عیاشی کر رہے ہیں تو یہ غریب انسان پر ظلم کر رہے ہیں۔ تنخواہیں نہیں ہیں، بجٹ آتا ہے، دس فیصد حصہ مفت میں مسلح گروپوں کو ملتا ہے، یہ ہے دہشتگردی کے خلاف جنگ، دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ ہم قربانیاں دے رہے ہیں، ہم قربانیوں کی قدر کریں گے، لیکن قربانی کا سہارا ہر ایک لیتا ہے، میں بھی قربانی دوں گا تو اپنے خون اور اپنی قربانی کا سہارا لوں گا، میرا دشمن بھی کہے گا ہمارا خون ہماری قربانی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف میرے ملک کے جائز بجٹ کا دس فیصد حصہ بڑے آرام کے ساتھ مسلح گروہوں کے حوالے کیا جاتا ہے، یہ کیا جنگ ہے؟ کسی کے گھر میں جا کر کھانا کھا لو، گھر والوں کو پکڑ لو، کسی کے بیٹھک میں چائے پی لیں، گھر والوں کو پکڑ لیتے ہیں، آپ نے چائے کیوں پلائی؟ آپ نے کھانا کیوں دیا؟ ایک غیر مسلح غریب آدمی جب یہ مسلح لوگ اس کے سر پر کھڑے ہو جائیں تو کیسے انکار کرے؟ لیکن غریب آدمی کو آپ پکڑتے ہیں کہ اس نے کھانا کیوں کھلایا، اس نے چائے کیوں پلائی، اور مجھے معلوم ہے کہ تم سرکاری خزانے سے بجٹ کا دس فیصد ہر منصوبے کا ان لوگوں کو عطاء کرتے ہیں۔ ہم آپ کی جنگ پر کیسے اعتماد کریں؟ میں ایک عام پاکستانی ہوں، مگر اس منظر کو دیکھ رہا ہوں تو میرے ذہن میں سوالات اٹھتے ہیں، اور وہ جائز سوالات ہیں، عام آدمی کے جائز سوالات کا تمہیں جواب دینا ہوگا۔ اور میں یہ بھی کہتا ہوں ہم سیاسی لوگ ہیں، ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم پاکستان کے آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم ملک کی پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تمام مدارس، تمام مکاتب فکر وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اگر کسی طرف سے مذاکرات کی پیشکش آتی ہے تو اسے سنجیدگی سے لیا جائے، ہم ریاست کی بالادستی چاہتے ہیں۔ جس نے بھی آئین اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ آئین اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا تمہارا کوئی حق نہیں بنتا۔ بندوق ہاتھ میں ہے، پہاڑ میں چلے گئے، اب تم جس کو قتل کرو اسے جہاد کہا جائے، ایسی بات بھی نہیں ہے۔ لیکن اگر مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی تجویز آتی ہے تو میں ریاست سے کہنا چاہوں گا کہ آپ اس کو سنجیدہ لیں اور اگر مسئلے کا کوئی پرامن حل سامنے آتا ہے تو اس طرف ہمیں ضرور بڑھنا چاہیے۔ لیکن ریاست کے مقابلے میں ریاست نہیں، ریاست کے اندر ریاست نہیں، قانون اور آئین کے تابع مذاکرات اور مسئلے کا حل یہ جمعیت علماء اسلام کا نظریہ ہے، اور ایسی تجاویز کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

تو میرے محترم دوستو! آج ان حالات میں یہ سفر یہیں رکا نہیں ہے۔ ان‌ شاءاللہ چاروں صوبوں میں عوام کے اسی طرح مارچ اور کاروان ہوں گے اور پوری قوم کو ایک صف پر لانے کے لیے جمعیت علماء اسلام اپنی توانائیاں بھرپور طور پر لگائے گی۔ ہم قوم کو ایک دیکھنا چاہتے ہیں، ہم فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف ہیں، ہم پاکستان کے تمام شہریوں کو برابر کی حیثیت دیتے ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں اور ملک کے اندر یکجہتی کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر حکمران ہیں تو حکمران بھی تو سیدھے چلیں نا، تو اگر حکمران سیدھے نہیں چلیں گے تو پھر ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں سیدھے راستے پر لائیں۔

میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ امریکہ اس سے ہماری ذاتی دشمنی نہیں ہے، لیکن اگر وہ ہمیں غلام بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو پھر ہم غلامی کا انکار کریں گے۔ اگر اس نے افغانستان پر حملہ کیا، عراق پر حملہ کیا، لیبیا پر حملہ کیا، اور آج اگر وہ اسرائیل کو سپورٹ کر رہا ہے تو جمعیت علماء اسلام ان اقدامات کے خلاف پہلے بھی خلاف تھی اور آج بھی ہے۔ اور اگر وہ انصاف کے راستے پہ آتی ہے، ہر قوم کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے، اس کا احترام کرتی ہے اور اس کا تحفظ کرتی ہے، تو ہمیں اس نظریے سے کوئی جنگ نہیں ہے ، لیکن ان‌ شاءاللہ آپ کا دباؤ ہوگا، تحریک آگے بڑھے گی تو ان‌ شاءاللہ العزیز یہ ساری قوتیں آپ کے سامنے جھک جائے گی۔

اللہ تعالیٰ جمعیت علماء اسلام کو کلمہ حق کی سربلندی کے لیے آواز اٹھانے کی توفیق دے، عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اللہ ہمیں توفیق عطاء فرمائے۔ ان‌ شاءاللہ ہم حق پر ہیں، ہم حق کے ساتھ ہیں اور حق کو فتح حاصل ہوگی، باطل شکست کھائے گا۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎ضبط تحریر: #محمدریاض

تصحیح: #سہیل_سہراب، ‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

کراچی: سندھ امن مارچ جلسے سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا مکمل خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, September 18, 2025

0/Post a Comment/Comments