قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب کا کراچی میں بزنس کیمونٹی سے خطاب
19 ستمبر 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ وبارک وسلم
گرامی قدر جناب قیصر صاحب، بزنس کمیونٹی کے نہایت قابل احترام میرے بزرگو دوستو اور بھائیو! میں بالخصوص میڈیا کے احباب سے اور اس مجلس میں موجود تمام دوستوں سے جو میٹنگ میں تو موجود نہیں تھے اور ان کو انتظار کی زحمت گوارا کرنی پڑی، اور صرف ہمارا انتظار نہیں بلکہ کھانے کا انتظار بھی، میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
بزنس کمیونٹی نے جس موضوع پہ آج گفتگو کی ہے میرے لیے حوصلے کا باعث ہے اور ہم اس بات پر متفق ہیں کہ علم کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جو دینی علوم اور عصری علوم، دینی علوم اور دنیاوی علوم یہ ہمارے پیدا کردہ نام ہے ورنہ علم تو علم ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا، تمام چیزوں کا علم حضرت آدم کو دیا گیا اور یہ استعداد پیدا کر دی کہ وہ ہر قسم کا علم حاصل کرے، لیکن بہرحال دیر آید درست آید، ہمارا ایک نظریہ ہے کہ برصغیر میں علم کیوں تقسیم ہوا اور ہم اس تقسیم کو دوبارہ وحدت میں تبدیل کرنے میں اٹہتر سال تک ناکام رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں کہ اس تقسیم کے آپ ذمہ دار ہیں اور اس تقسیم کے آپ ذمہ دار ہیں لیکن ہمیں بہرحال آگے بڑھنا ہوگا ایک نئے ذہن کے ساتھ جس میں مسلمان معاشرے میں قرآن و حدیث کے علوم کا بھی تحفظ ہو، علوم بھی حاصل ہو اس کی پیروی ںھی ہو اور ہر شعبہ زندگی میں ماہرین پیدا ہوں جو ملک اور اس سوسائٹی کے ضرورتوں کو پورا کر سکے۔
میرے محترم دوستو! ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے یہ پورے خطے میں پاکستان وہ ملک ہے کہ جو معاشی لحاظ سے نیچے گر رہا ہے، انڈیا کا جی ڈی پی گروتھ کیا ہے، بنگلہ دیش کا کیا ہے، چائنہ کا کیا ہے، انڈونیشیا ملیشیا کا کیا ہے، ایران اور افغانستان ہم سے بہتر ہے اور ایک پاکستان اس پورے ایک خطے میں نیچے کی طرف جا رہا ہے، سب اوپر کی طرف جا رہے ہیں۔ تو کیا ہم نے من حیث القوم اس حوالے سے نہیں سوچنا اور اگر ہم آج متحد ہیں تو قومیں جب متحد ہوتی ہیں اور ایک پلیٹ فارم پر ہوتی ہیں تو ایک میثاق کے تحت ہوتی ہے، خود بخود لوگ اکٹھے نہیں ہوا کرتے، انسانیت کا مزاج یہ ہے کہ وہ یکجا رہے لیکن یکجا رہنے کے لیے کچھ بنیادیں بھی ہونی چاہیے، کچھ اصول بھی ہونے چاہیے، ہمارے ملک میں چاروں صوبوں میں، چاروں صوبوں میں رہنے والے تمام قومیتوں کے درمیان اگر ایک میثاق ہے تو وہ پاکستان کا آئین ہے، اس آئین کو بھی ہم کبھی موم کی ناک بنا دیتے ہیں جب چاہے اس کی شکل تبدیل کرتے ہیں، جبکہ کسی ملک کا دستور ایک مستحکم دستاویز ہوا کرتی ہے جس میں پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت بھی ترمیم نہیں کر سکتی تا وقت یہ کہ دو تہائی اکثریت نہ آئے، ہمارے ہاں تو مارشل لائیں اتی ہیں اور آئین کے آئین کو لپیٹ لیتی ہیں۔ اس کی قدر و قیمت کو ختم کر دیتی ہے اور میں یہی سوال تمام سیاستدانوں سے کرتا رہا ہوں جب ہماری مجلسیں بنتی ہیں اور ہم آپس میں بیٹھتے ہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ بزرگوں کی باتیں چھوڑو میں بذات خود ضیاء الحق کی مارشل لاء سے جمہوریت کی جنگ لڑ لڑ کے یہاں تک پہنچا ہوں آپ سب ہمارے ہمسفر ہیں یہ بتائیں کہ ہماری اس جدوجہد کے نتیجے میں آمرانہ قوتیں مضبوط ہوئی ہے یا جمہوری قوتیں مضبوط ہوئی ہیں۔ نتیجہ تو برعکس سامنے ایا، کیوں برعکس سامنے آیا ؟ کچھ کمزوریاں ہمارے اندر ہوں گی نا، ہم کمپرومائز کریں گے اگر ہم استقامت کا مظاہرہ کریں تو یہ ملک اگے بڑھ سکتا ہے۔
ہم بیوروکریسی سے بھی کہتے ہیں، ہم اسٹیبلشمنٹ سے بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ قوم سے الگ کوئی حصہ نہیں ہے آپ اس سوسائٹی کا حصہ ہے، آپ کو بھی قوم کے ساتھ چلنا ہوگا، اگر ملک کی دفاع کا سوال پیدا ہوا اور ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلی آواز ہماری تھی کہ ہم نے کہا کہ قوم ایک صف ہے اور ہم اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہیں اور قوم نے اس کا مظاہرہ کیا، اگر میں ملک کی دفاعی نظام میں دفاعی محاذ پر اپنی دفاعی قوت کے ساتھ کھڑا ہوں اور اس کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں، اور اس کو فاتح دیکھنا چاہتا ہوں آور اس کی فتح پر فخر کرتا ہوں تو پھر پارلیمنٹ، نظام حکومت جو عوام تشکیل دیتے ہیں عوام کے معاملات میں بھی وہ مداخلت نہ کریں، عوام کو سپورٹ کریں، عوام کے فیصلوں کو تسلیم کرے یہ کوئی ناجائز بات تو میں نہیں کر رہا ہوں، اصول کی بات کر رہا ہوں ہمیں عملاً یہ چیزیں اپنانی ہوں گی۔ زبان سے ہم کہتے رہیں اور عملاً ہم کچھ اور کرتے رہیں اس سے ملک نہیں چلیں گے۔
ہمیں باہمی اعتماد کی ضرورت ہے، ہمارے اندر قومی سطح پر اور ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگوں کے درمیان اس اعتماد کو بحال کرنا ہے، جب ہمارے اندر اعتماد کا فقدان نہیں رہے گا ہم باہمی طور پر ایک دوسرے پہ اعتماد کریں گے، اختلاف رائے تو ہوتی ہے، ایک حکومت ہے آپ اس کے لیے اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ملک کی سلامتی پر کوئی کمپرومائز نہیں، سب ایک ہو جاتے ہیں۔ اختلاف رائے ہوگا اس سے تعمیر ہوگی، اگر میں حکومت کروں گا اور میری اپوزیشن مجھ پر تنقید کرے گی تو میں صرف تنقید کو نہ دیکھوں جس بنیاد پر وہ تنقید کر رہی ہے میں اپنے کمزوریوں کو بھی دیکھوں اگر میرے اندر واقعی وہ کمزوری موجود ہے تو بجائے اس کے کہ میں اس کو برا مانوں میں اپنی اصلاح کروں۔
اس طرز سیاست کو ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملکی معیشت کو بہتر کرے، ملکی معیشت کی بہتری امن و امان میں ہے، اگر امن نہیں ہے تو معیشت نہیں ہے، اگر معیشت نہیں ہے تو پھر امن نہیں ہے اور جن حالات سے ہمارے چھوٹے صوبے گزر رہے ہیں، جو وہاں رہ رہے ہیں ان کو علم ہے، تو اس ملک کے امن کو کیسے بحال کیا جائے اس کے لیے سوچنا پڑے گا۔ ہم سیاسی لوگ ہیں ریاست ایک پوزیشن لے لیتی ہے یہ اس کا حق ہے، مذاکرات کرنے ہیں اگر یہ پوزیشن لے لی تو جب بھی مذاکرات کا ماحول آتا ہے تو ریاست جا کے مذاکرات کرتی ہے، کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا روز اول سے مؤقف یہ ہے کہ آئیں بات کریں، لیکن جہاں پر ریاست یہ پوزیشن لیتے ہیں کہ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے ہم صرف لڑیں گے یہ اس کا حق ہے، لیکن اگر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایک فریق کی طرف سے مذاکرات کی تجویز آتی ہے تو پھر ہمیں وہ اصول لینے ہوں گے جس اصول کی طرف اللہ رب العزت ہماری رہنمائی کرتا ہے، ہم تو پھر بھی مسلمان ہیں آپس میں لڑ رہے ہیں اگر کفار کے ساتھ بھی لڑائی ہو اور کفر کی طرف سے یہ تجویز ائے کہ آؤ صلح کرتے ہیں تو اللہ رب العزت فرماتے ہیں "کہ اگر وہ صلح کی طرف پر بچھاتے ہیں تو تم بھی صلح کے پر بچھا دو اور اللہ پہ توکل کرو"۔ اگر دشمن سے آپ کو یہ ڈر ہو کہ وہ دھوکہ دے دے گا تو اللہ رب العزت نے فرمایا: آپ جائیں معاہدے کریں اور دھوکہ دے کر وہ آپ کو معاہدے کو توڑے فکر مت کرو اللہ فرماتے ہیں میں آپ کے لیے کافی ہوں"۔
ہمیں اس جذبے کے ساتھ ملک میں رہنا ہے، ہماری جماعت کا ایک نظریہ ہے روز اول سے ہمارے منشور کا حصہ ہے کہ ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے اب وہ اسلامی بلاک اگر او ائی سی کی صورت میں ہے تو یہ علامتی ہے عملی نہیں ہے علامتی ضرور ہے ہمیں اس کو مضبوط کرنا چاہیے، ہم بڑے زمانے سے کہہ رہے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ ہو کشمیر کا مسئلہ ہو دنیا بھر میں مسلمانوں کا مسئلہ ہو، پاکستان اور سعودی عرب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مسلم امہ کی قیادت کریں۔ اگر آج دونوں ملکوں نے ایک دفاعی معاہدہ کیا ہے تو یہ ایک اشارہ ہے کہ ہم مشترکہ مفادات مسلم دنیا کے مفادات کے لیے ایک ہے اور یہ ایک انیشیٹ ہے ہمیں اس کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اگر سعودی حکمرانوں نے ہمارے وزیراعظم کو بلایا ہے اور وہاں پر اس قسم کے معاہدے کا آغاز کیا ہے ہم ان کے شکر گزار بھی ہیں اور ان کو مبارکباد بھی دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اسلامی دنیا میں تقسیم کے اسباب کیا ہیں ؟ کہاں کہاں پر مشکلات ہیں ؟ ان مشکلات کو ایڈریس کرنا ہوگا اور وہاں وہاں پر نرمیاں لانی ہوں گی، معاملات کو ٹھیک کرنے ہوں گے، یہ صورتحال ہمارے ایشیا میں بھی ہے، یہی صورتحال جنوبی ایشیا میں بھی ہے، وسطی ایشیا میں بھی ہے، مشرقی وسطیٰ میں بھی ہے لیکن امت کو ایڈریس کرنا ہوگا اس چیز کو، ہم ایشیا کی بات بھی کرتے ہیں میں خود ایک ایشیاٹک فیڈریشن کا قائل ہوں اور اگر دو سو سال پہلے دنیا کی معیشت ایشیا کے ہاتھ میں تھی بعد میں ہم کالونی بنا دیے گئے اور ہماری ساری معیشت مغرب نے قبضہ کیا اور یورپ محور بن گیا معیشت کا، آج پھر دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور پھر معیشت پلٹ کر ایشیا کی طرف ا رہی ہے۔ ہمارے پاس علامتی فورم ہیں، سارک فورم بھی ہے ہمارے پاس اور آسیان بھی ہمارے پاس ہے لیکن یہ علامتی ہے۔ اس کو ہمیں عملی جامع پہنانا ہوگا، ریجنلائز کرنا ہے دنیا کو، اگر عرب لیگ مظبوط ہے یقیناً ہمارے اسلامی دنیا کا ایک حصہ مضبوط ہے، اگر ایشیائی مسلمان مضبوط ہے تو ہماری دنیا کے ایک خطے کا قوم اور وہاں کا مسلمان مضبوط ہے، ایشیا اپنا ایک کلچر رکھتا ہے، اپنا ایک تہذیب رکھتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان اس کو لیڈ کر سکتا ہے۔ ہمارے داخلی تنازعات، اگر مودی جیسے حکمران ہوں گے تو تنازعات پیدا ہوں گے لیکن اگر صلح جوع اور معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے، نفرتوں سے بالاتر قیادتیں آئیں گی تو یہ اختلافات بھی ہم ختم کر سکتے ہیں۔ اصول کے تحت ختم کرسکتے ہیں، ہم اختلافات کو دور کرنے کے لیے بین الاقوامی ثالثی کے لیے بھی تیار ہیں، لیکن اگر ہندوستان ہٹ دھرمی کرتا ہے تو پھر یکطرفہ مسئلہ تو حل نہیں ہوگا، تو دنیا کو پریشر ڈالنا چاہیے۔
آج جیسے کہ کہا گیا کہ امریکہ معاشی لحاظ سے دنیا کی قیادت کر رہا تھا لیکن آج چائنہ اس وقت برابر کا مد مقابل آگیا ہے۔ چائنہ ایشیا کے اندر وحدت پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور یہ اس کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن ہمیں بھی سوچ کے ساتھ یہاں سے نکلنا چاہیے۔
تو اس اعتبار سے بہرحال ہم عالمی تغیرات کو دیکھیں اور جب نائن الیون ہوا تھا تو ہم نے مسلسل یہ بات دہرائی کہ آج کے بعد عالمی تغیرات نے ابھرنا ہے، دنیا میں انقلابات آئیں گے، نئی تبدیلی آئیں گی اور وہ آج رونما ہو رہی ہے۔ عملاً ہم دیکھ رہے ہیں ان چیزوں کو، جب کہ اس وقت ہمارا ایک خالی تجزیہ تھا۔
تو ان شاءاللہ العزیز یہ جمیعت علماء کی سوچ ہے، یہ اس کا فکر ہے اور اس فکر کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں قومی وحدت کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہمارے ان دوستوں کو جس طرح ہمارے قیصر صاحب نے اکٹھا کیا ہے میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی یہ محنتیں سے رنگ لائیں گی اور آپ کی بزنس کمیونٹی اس حوالے سے ایک بھرپور کردار ادا کرے گی تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہو اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
MFR Speech to Business Communityکراچی:قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا بزنس کمیونٹی سے خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, September 19, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں