رحمت کائنات فاونڈیشن کے زیر اہتمام سیمینار سے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب

اسلام آباد: رحمت کائنات فاونڈیشن کے زیر اہتمام سیمینار سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب

25 ستمبر 2025

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام على اشرف الانبیاء والمرسلین وعلى آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلى یوم الدین، اما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا۔ صدق اللہ العظیم

میں رحمت کائنات فاونڈیشن اور اس اجتماع کے میزبان حضرت مولانا اسد محمود صاحب کا، اور اس عنوان سے ایک منظم کام پوری دنیا میں پھیلانے کی جو وصیت تھی، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب کی اور ان کے صاحبزادہ عمر عبد الحفیظ، جو یہاں موجود ہیں، میں ان کا شکر گزار ہوں، خاص طور پر ہمارے مہمان جو جنوبی افریقہ سے تشریف لائے ہیں، میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں، اور ساتھ ہی یہ گزارش بھی کروں گا کہ میرے حوالے سے جس مبالغے کے ساتھ میری توصیف کی گئی ہے، اس سے خدا کے لیے میری آخرت کو خراب نہ کریں۔

اللہ رب العزت کی صفات میں بہت نمایاں اور تمام صفات پر حاوی، اللہ کی صفت، رحمت کی صفت ہے۔ آپ رحمٰن بھی ہیں اور رحیم بھی ہیں، لیکن نہ اللہ کی ذات کو دیکھا جا سکتا ہے، نہ ان کی صفات کے حوالے سے، نہ ان کی ذات کے حوالے سے، لیکن اللہ رب العزت نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اسے رحمت کا پیکر بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا، انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ اور پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے جو تنہا صفا کی پہاڑی پہ کھڑا ہوا، آج اس کے پیروکار دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہیں۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن لے کر انسانیت کے پاس آئے، اس نے ذات سے لے کر شخصیات، امت و ملت، مملکت اور اجتماعی نظام تک کی رہنمائی دی ہے۔ اس تمام نظام کی ابتدا شخصی امانت و دیانت سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر ایمان ہو اور انسان کے اندر دین ہو، تو یہاں سے انسان کے مقصد تخلیق کا ذکر کیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ، یعنی جن و انس کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا اور عبادت کرنے سے پہلے اللہ کو ماننا پڑے گا۔ تو ایمان شرط اول ہے، اور اس ایمان کی بنیاد پر عمل کی دنیا ہے۔ اگر ایمان نہیں، تو اعمال صالحہ دنیوی زندگی کی حد تک تو معتبر ہیں، لیکن اخروی زندگی کی فلاح سے محروم ہیں۔

ہمارے علماء و اکابرین جو دین اسلام کی تعبیر کرتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي، یعنی میں نے تم پر اپنا دین مکمل کر دیا ہے۔ اکمال دین یہ باعتبار احکامات و تعلیمات کے ہے، کہ زندگی کے تمام ضابطے اللہ نے آپ کو دے دیے ہیں۔ شخصی زندگی سے لے کر مملکتی زندگی تک، آپ کی رہنمائی کر دی ہے۔ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي، اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی۔ اتمام نعمت کیا ہے؟ ہمارے اکابرین کی تعبیر یہ ہے کہ اکمال دین باعتبار تعلیمات و احکامات کے ہے، لیکن اتمام نعمت اس دین کامل کی اقتدار و حکومت کا نام ہے۔ جب مملکت پر، انسانی معاشرے پر، جامعہ انسانی پر اسلام کی حاکمیت ہوگی، اللہ کا دین حاکم ہوگا، تو پھر اس کو نعمت سے تعبیر کیا جائے گا۔ کیونکہ ہمارے استاذ ہمیں پڑھاتے ہیں کہ جو لفظ ذکر ہو مطلق، خارج میں اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے۔ تو نعمت جب اللہ نے کہا کہ میں نے تمام کر دی، تو پھر اس کا فرد کامل کیا ہوگا؟ یہی کہ اللہ کی یہ رحمت حاکمیت کی صورت میں ہمیں قبول کرنا پڑے گا۔

کتنے وسیع النظر تھے ہمارے اکابر، اور کتنی اعلیٰ ترین انہوں نے تعبیرات دیں، اور ہمیں دین کا مقصد سمجھایا۔ وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا، اور اسلام کو بطور نظام حیات کے میں نے تمہارے لیے پسند کیا۔ تو دین اسلام کی وسعت ذات سے لے کر مملکت تک، شخص سے لے کر تمام جامعہ انسانی تک، اس کو اس نظام کے تحت لانا، مقصد کیا ہوگا؟ مقصد ہوگا رحمت، عدل و انصاف ہوگا رحمت، معاشی خوشحالی ہوگی رحمت، امن ہوگا رحمت، جان و مال اور عزت و آبرو اور تمام انسانی حقوق محفوظ ہوں گے رحمت، جہاں سے بھی آپ تعبیر کریں گے، جس صفت سے آپ اللہ کو پکاریں گے، اس کا رحمت ہی احاطہ کرتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی سے لمحہ بہ لمحہ رحمت بن کر انسانیت کے سامنے پیش ہوئے۔ آپ کا ہر حکم، ہر مشورہ، ہر نصیحت، ہر فیصلہ، اس کے پیچھے رحمت چھپی ہے۔ اور ظاہر ہے جب انسان کے اندر ایمان و دیانت بھی ہو، اور پھر اس دین کامل کی حاکمیت بھی ہو، تو حاکمیت کے لیے ریاست بھی چاہیے، مملکت چاہیے، جس کے اندر یہ نظام حاکم ہو۔ دولت و ریاست چاہیے، اور جس دولت و ریاست میں آپ دین اسلام کو حاکم بنائیں گے، پھر اس کا حصار بھی چاہیے۔ اس کی سرحدات ہوتی ہیں، سرحدات کا تحفظ بھی چاہیے، اس تحفظ کے لیے قوت چاہیے۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ، تو فرد سے لے کر طاقت بنو۔ انفرادی طور پر بھی ہمت کرو، دین پڑھاؤ، علمی قوت حاصل کرو، دین پھیلاؤ، دعوت کی قوت حاصل کرو، تحقیق و تصنیف کرو، کتابوں کے ذریعے دین کو پھیلاؤ، تو یہ انفرادی قوت ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک، میں تو ایک طالب علم ہوں نا، وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ، اس قوت میں عموم ہے، اس میں نکارت ہے، خارج میں اس کا کوئی فرد متعین نہیں۔ دین کی کسی بھی شعبے کو آپ نے ہاتھ ڈالا، اس میں طاقت حاصل کرو۔ لیکن وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ، اس میں خصوص ہے، یعنی جنگی ساز و سامان پیدا کرو، مضبوط دفاعی قوت بنو، ایٹم بم تک بناؤ۔

اب جب حاکم، حکمران وہ ملک کی دفاعی طاقت بنے گا، اور معاشرے میں ہر شعبہ زندگی میں آپ کے ماہرین پیدا ہوں گے، تو پھر اتمام نعمت بھی ہوگا اور اکمال دین بھی ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بغیر ہم سوچے کہ دین مکمل ہے، ایک یا دو باتوں کو اٹھا کر ہم کہیں کہ بس یہ دین ہے، تو صرف آپ لوگوں کو رغبت دلا سکتے ہیں، ترغیب دے سکتے ہیں دین کی طرف رخ کرو، نماز پڑھو، روزہ رکھو، لوگوں کے حقوق کا خیال رکھو۔ لیکن مملکت کے نظام کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ تو سب سے پہلے شخصی ایمان و دیانت، اس کے بعد کامل دین کی حاکمیت، اس کے بعد اس کا مضبوط دفاعی حصار، یہ ایک مملکت کے بنیادی اجزاء ہیں۔ اگر دفاع کمزور ہوا، تو آپ بقا کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

آج کے زمانے میں مشکل یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ہوں یا ہمارے حکمران ہوں، کلمہ گو ہونے کے باوجود دین اسلام سے خوف کھاتے ہیں۔ اور ہم کس سے خوف کھا رہے ہیں؟ مغرب کھا جائے گا، امریکہ کھا جائے گا۔ لیکن امریکہ کیسے کھائے گا؟ ہم نے تو روس کو بھی دیکھا چودہ سال افغانستان میں، اور بیس سال امریکہ کو بھی افغانستان میں دیکھا۔ وہ ایک ملک کو قابو نہیں کر سکا اور بھاگنا پڑا۔ پھر بھی وہ سپر طاقت ہے۔ پھر بھی ہماری معیشت، ہماری زندگی، ہمارا روزگار اس کے ہاتھ میں ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت کائنات، فرماتے ہیں: الإسلام والسلطان أخوان، یعنی اسلام اور اس کی حاکمیت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، جڑواں ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نہیں ہو سکتا۔ اسلام ہے تو بنیاد موجود ہے، اور اس کی حاکمیت ہے تو وہ اس دین اسلام کی حفاظت کرتا ہے، اگر بنیادیں نہ ہوں تو عمارت گرتی ہے، اور اگر اس کا چوکیدار نہ ہو، تو مال ضائع ہو جائے گا، نظام ضائع ہو جائے گا۔

میرے مسلمان بھائیو! آپ کے اور ہمارے آنکھوں کے سامنے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اسلامی دنیا کے حکمران اور ان کے ملکوں کے نظام، وہ دین اسلام کو منہدم کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کے حکمران ہم ہیں، لیکن ان کے ہاتھوں اجڑ رہا ہے۔ اور یہ باتیں قوم کو کسی سیکولر بندے نے سنانی ہیں، علماء کرام کا کوئی فریضہ نہیں کہ وہ یہ باتیں قوم کو سمجھائیں۔ کون سمجھائے گا لوگوں کو؟ کون جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نظام کو، جو پوری کائنات کے لیے رحمت ہے، آج خوف دلاتے ہیں۔ یعنی آپ اندازہ لگائیں، اگر امریکہ سپر طاقت ہے، مجھے آپ بتائیں، تو اس کا سربراہ ٹرمپ ہے نا؟ اب ٹرمپ جنرل اسمبلی میں تقریر کر رہا ہے، لیول یہ ہے کہ لندن کے میئر کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے وہ مجھے بہت برا لگتا ہے، وہ لندن میں شریعت نافذ کرتا ہے۔ اب برطانیہ کو دیکھو، لندن کو دیکھو، شریعت کا نفاذ دیکھو، نہ آسمان کا کوئی قلابہ ملتا ہے، نہ زمین کا کوئی قلابہ ملتا ہے۔ یہ سپر پاور کی قیادت کی رسا ذہن ہے، سوچ ہے، کیوں؟ کیونکہ اس کے خلاف بڑاس نکالنے کے لیے شریعت ایک جرم ہے۔ اور اس کا الزام ہم پر لگا رہے ہیں۔ ہم یہاں پر شریعت کی بات کریں گے، تو ان کے نزدیک ہم مجرم ہیں، یہ انتہا پسند ہیں، یہ شدت پسند ہیں۔

بھئی کس بات پر میں شدت پسند ہوں؟ کس بات پر میں انتہا پسند ہوں؟ اس امت کو اللہ رب العزت نے جو ٹائٹل دیا ہے: وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا، اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک میانہ رو امت بنایا۔ اعتدال تو قرآن کریم کی تعلیمات ہیں۔ قرآن کریم سے پہلے کا معاشرہ جاہلیت کا معاشرہ تھا۔ آج بھی ہم کہتے ہیں کہ وہ جاہلیت کا دور تھا۔ اگر اس وقت قرآن اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی جاہلیت کی زندگی تھی، تو آج اس نظام کے بغیر، قرآن و حدیث کے بغیر زندگی کیوں جاہلیت کی زندگی نہیں ہوگی؟ لیکن جاہلیت کی یہ دنیا آج دین والوں کو انتہا پسند کہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بندوق اٹھاتے ہیں۔ میرے نوجوان نے خود بندوق نہیں اٹھائی۔ امریکہ سے لے کر جنرل ضیاء الحق تک، سب نے کہا کہ آؤ، بندوق اٹھاؤ، روس کے خلاف لڑنا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ جب روس چلا جائے گا، تو اس کے بعد امریکہ کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہوگا۔ یہ نہیں سکھایا، بھئی یہ بھی ان کو پڑھاتے کہ صرف روس کے خلاف لڑنا جہاد ہے، آپ کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہے۔

بیس سال تک افغانستان میں لڑائی ہوئی۔ اب ظاہر کہ جب چالیس سال تک ایک قوم مسلسل جنگوں اور لڑائیوں میں ہو، تو میں امریکہ سے بھی پوچھتا ہوں، پاکستان کے جرنیلوں سے بھی پوچھتا ہوں، ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بھی پوچھتا ہوں کہ میرے نوجوان کے ہاتھ میں بندوق تم نے دیا یا ہم نے دیا ہے؟ میرے نوجوان کی جنگی تربیت تم نے کی۔ آج مدرسے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہو کہ مدرسے سے نکلا ہے۔ جب لفظ جہاد ہوگا، تو مذہبی آدمی جائے گا، اس میں سیکولر آدمی نہیں جائے گا۔ تم نے میرے مذہبی طبقے کو مشتعل کیا، تم نے میرے مذہبی طبقے کو اٹھایا، تم نے میرے نوجوان کو بندوق ہاتھ میں دی، تم نے میرے نوجوان کو شہادت کا درس دیا۔ وہ میدان میں نکلا، وہ لڑا۔ آج چالیس سال بعد ہمارے معاشرے میں ایک جنگجو طبقہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس جنگجو طبقے کا خالق نہ مدرسہ ہے، نہ استاد ہے۔ اگر اس کا خالق ہے، تو ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے، یا امریکہ ہے، یا مغربی دنیا ہے۔ وہ خود صاف ہو گئے (زڑہ شوہ پاکیزہ شوہ)، یہ صاف ہو گئے اور سارا الزام ہم پر آ گیا۔

ہم پر الزام نہ لگاؤ۔ پورے ملک کے مدارس، تمام مکاتب فکر، تمام تنظیمیں متفقہ طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑی ہیں، پاکستان کے آئین ساتھ کھڑی ہیں، پاکستان کی پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ لیکن چند لوگوں کو بنیاد بنا کر پورے مذہب کو تہہ تیغ کرنا، مذہبی طبقے کو تہہ تیغ کرنا، مدارس کو تہہ تیغ کرنا، یہ کون سا انصاف ہے؟

تو میرے محترم دوستو! میں اتنا ضرور کہوں گا ٹرمپ صاحب سے بھی کہ،

فریب دے نہ زمانے کو پارسا نہ بنے

اسے کہو کہ وہ بندہ بنے، خدا نہ بنے

وفور دولتِ دنیا تو عارضی شے ہے

اسے کہو کہ تکبر میں باؤلا نہ بنے

کل تک جنہیں گنتا نہ تھا بندوں میں بھی کوئی

بندے نہیں وہ آج، بندوں کے بھی رب ہیں

اسی کا تو ہم انکار کرتے ہیں۔ اسی کا انکار تو توحید ہے۔ خدا کے مقابلے میں ان خداوں سے لڑنا امت مسلمہ پر واجب ہو جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بھئی، ذرا مہربانی، ذرا گزارا، اور یہ اور وہ، کس چیز کا گزارا؟

تو میرے محترم دوستو! ہم کوئی لڑنے والے لوگ نہیں ہیں، ہم کوئی بندوق اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہاں، آج بھی ہمارے علاقوں میں آپ لوگوں کو کہتے ہیں کہ تم بندوق اٹھاؤ، بے دست و پا لوگوں کو۔ آج بھی تم ترغیب دے رہے ہو کہ تم ان سے لڑو۔ تو لڑنے کے لیے پھر آپ کو کیوں تنخواہیں مل رہی ہیں۔

تو میرے محترم دوستو! اسلام کے اس پہلو کو ہمیں سامنے رکھنا چاہیے کہ اسلام اور اس کی حاکمیت کا تصور جدا جدا نہیں ہو سکتا۔ بادشاہت کے بغیر اسلام کا بقا مشکل ہے ہاں، محنتیں جاری ہیں۔ یہ فورم بھی ایک محنت ہے، ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ مدارس بھی ایک محنت ہیں، تبلیغ بھی ایک محنت ہے، مسجدیں اور ان کا منبر بھی ایک محنت ہے۔ سارے نظام چلتے رہیں گے، لیکن یہاں پر بریک لگانا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے اوپر جائیں، آگے بڑھیں، ترقی کی طرف جائیں۔ اسلام ترقی کی طرف جاتا ہے، یہ ترقی کا نظام ہے۔ اسلام آگے بڑھتا ہے۔ یہ تو پوری عیسائیت نے مذہب کو ایک جگہ پر روک دیا، کلیساؤں میں محدود کر دیا۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ، اس کے مؤقف پر تو اعتراض ہے کہ تم قادیانیوں کو غیر مسلم کیوں کہتے ہو؟ تم نے انہیں کافر کیوں قرار دیا؟ بھائی، ان سے بھی تو پوچھو کہ وہ پوری امت مسلمہ کو کیوں کافر کہتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ وحی آئی ہے۔ بھائی، وحی کب آئی؟ کیسے آئی؟ وہ خود لکھتا ہے اپنی کتاب میں کہ میں برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہوں۔ جو برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہے، وہ برطانیہ کا پیغمبر ہو سکتا ہے، خدا کا پیغمبر تو نہیں ہو سکتا۔ اگر وحی آتی تھی، تو ملکہ برطانیہ کی طرف سے آتی تھی۔

تو اس قسم کی چیزیں، دین اسلام کے خلاف جو اٹھتا ہیں، کوئی مفکر اٹھتا ہے، سکالر اٹھتا ہے، آج کے دور میں دین اسلام کی وہ وہ تعبیرات کرتے ہیں جو مغرب کے لیے قابل قبول ہیں۔ نہ اس کی سند ہے، نہ اس کا تواتر ہے، کہیں سے بھی کوئی بات ثابت نہیں۔ لیکن ہم ایسی تعبیریں کریں گے کہ مغرب ہمیں قبول کر لے۔ ہم عقیدہ و نظریہ پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ جو حق آپ کے لیے ہے، وہ حق میرے لیے بھی ہونا چاہیے۔ نظریات کا حق، اس کے پرچار کا حق، جماعت بنانے کا حق، جدوجہد کرنے کا حق، جو آئین نے ہمیں دیا ہے، اس میں ہمیں آگے بڑھنے دو۔ آپ راستہ کیوں روک رہے ہیں؟ ہم کسی کے دشمن تو نہیں ہیں۔

آج غزہ میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ بظاہر کہتے ہیں کہ ستر ہزار شہداء ہیں۔ وہ تو صرف بمباری کی وجہ سے ہیں۔ جو بھوک سے شہید ہوئے، غذا نہ ملنے سے شہید ہوئے ہیں، جو دوا نہ ملنے کی وجہ سے، مرض کی وجہ سے شہید ہوئے، ان کی تعداد تو لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ اور ایک ملک لاکھوں انسانوں کا قاتل ہے۔ وہ میدان کی جنگ نہیں لڑ سکتا، وہ بمبار سے عوامی آبادیوں پر بمباری کرتا ہے۔ امریکہ اس کے پشت پر ہے۔ اس کے انسانی حقوق کہاں گئے؟ مغرب کی وہ انسانیت کہاں گئی؟ اور جو ہمارے دنیا بھر کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سمندری راستوں سے امداد پہنچا رہے ہیں، وہ کن کن مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ ان پر راکٹیں برس رہی ہیں، ان کے جہازوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ جو بھی غزہ کو امداد پہنچا رہے ہیں، ہم ان کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں۔ اس قافلے میں شامل سارے لوگ، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، لیکن اگر اٹلی اور سپین کی کشتیاں آ کر ان کا دفاعی حصار بن سکتی ہیں، تو امت مسلمہ کو جا کر اس کا دفاعی حصار بننا چاہیے تھا۔

ہم قطر میں اسلامی امت کے اجتماع کو ایک اچھی ابتدا کہتے ہیں۔ ہم اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمارا تو منشور ہے کہ دنیا میں ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے۔ اگر اس کی طرف کوئی پیشرفت ہوتی ہے، تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔ اگر سعودی عرب اور پاکستان نے مشترکہ دفاعی معاہدہ کیا ہے، تو یہ بھی مشترکہ دفاع کی طرف، امت مسلمہ کے مشترکہ دفاع کی طرف ایک قدم ہے۔ سفارتی دنیا میں ایسی چیزوں پر مثبت ردعمل دیا جاتا ہے۔ ایسے معاملات پر صرف اس لیے کہ میری جو توقعات وابستہ تھیں، اس کے مطابق نتیجہ نہ آیا، تو پھر بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ شاید سفارتی دنیا کے ضوابط کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

ہم اسلامی دنیا کی وحدت کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ آج دنیا علاقائی تنظیموں کی طرف جا رہی ہے۔ اگر عرب لیگ ہے، تو اچھا ہے۔ عربی دنیا جو ہے، وہ ایک پلیٹ فارم پر ہے۔ ہم تو ایشیا کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہمارے اکابرین نے سوچا کہ ایک ایشیاٹک فیڈریشن ہونا چاہیے۔ ہم تو آج بھی انہی بزرگوں کی بات کرتے ہیں، انہی اکابرین کے فلسفے کو دہراتے ہیں۔ لیکن علاقوں میں، خطوں میں، جو ملکوں کے درمیان چبقلشیں ہیں، وہ ان اتحادوں اور ان مقامی میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اس سمت پر اگر امت مسلمہ سفر کرے گی، تو تب جا کر ہم دنیا میں ایک بہت بڑا مقام حاصل کریں گے۔ اور ہمارا تو مطالبہ ہے کہ پاکستان ہو، سعودی عرب ہو، اور تمام اسلامی دنیا، وہ جائیں اور غزہ کے لوگوں تک غذا پہنچانے والی کشتیوں کی حفاظت کریں اور امداد پہنچانے کی ذمہ داری لیں۔

تو ان تعبیرات کے ساتھ رحمت کائنات فاونڈیشن کا فورم قابل تبریک ہے۔ میں مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور ان شاءاللہ العزیز اسی پر ہم نے امت اور قوم کو متحد کرنا ہے کہ اسلام ایک دین ہے، جو اپنے دل کے ایمان سے لے کر، اپنے اعضاء کے اعمال سے لے کر، مملکت کے نظام تک، اس کو وسیع تر کیا جائے، عام کیا جائے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض 

‎ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments