مولانا فضل الرحمن صاحب کا راولپنڈی میں تحفظ ختم نبوت و دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا راولپنڈی لیاقت باغ میں تحفظ ختم نبوت و دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب

11 ستمبر 2025

الْحَمْدُ للهِ نَحْمَدُه ونستعينُه ، ونستغفرُه ، ونؤمن به، ونتوكل عليه، ونعوذُ باللهِ من شرورِ أنفسِنا ، ومن سيئاتِ أعمالِنا ، مَن يَهْدِهِ اللهُ فلا مُضِلَّ له ، ومَن يُضْلِلْه فلا هادِيَ له ، ونشهدُ أن لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، ونشهدُ أنَّ سيدنا و سندنا و مولانا مُحَمَّدًا عبدُه ورسولُه، صلى الله تعالى على خير خلقه محمد وعلى اله وصحبه وبارك وسلم تسليما كثيراً كثيرا. اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا۔ صدق اللہ العظیم۔ 

جناب صدر محترم، اکابر علمائے کرام، تاجر برادری سے وابستہ معززین، بزرگان ملت، میرے دوستوں اور بھائیوں! عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے زیرِ اہتمام اس عظیم الشان اجتماع کے انعقاد پر میں آپ تمام دوستوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اس بڑے اجتماع میں شرکت کر کے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ قادیانی اس وطن عزیز میں اب دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔

میرے محترم دوستو! ہمیں سن 1974ء کی تحریک بھی یاد ہے، ہمیں 1984ء کی تحریک بھی یاد ہے، جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں دلائل کے ساتھ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ کچھ مشکوک لوگ معاشرے میں اضطراب پھیلاتے ہیں، شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، جس کا مظاہرہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آپ نے دیکھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس محاذ پر بھی ہم نے انہیں وہ شکست دی کہ جس سے ان کی کمر ٹوٹی ہے اور دوبارہ اب وہ اپنی کمر سیدھی نہیں کرسکیں گے۔

لیکن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کہا جا رہا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں، عالمی برادری سے پوچھنا چاہتا ہوں، قادیانیوں کے پشت پناہوں سے پوچھنا چاہتا ہوں، یورپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اسرائیل سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کبھی تم نے قادیانیوں سے بھی پوچھا کہ وہ پوری دنیا کی امتِ مسلمہ کو کافر کہتے ہیں؟ پارلیمنٹ میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر آج حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی زندہ ہوتے، حضرت عمر فاروقؓ بھی زندہ ہوتے، حضرت عثمان غنیؓ بھی زندہ ہوتے، حضرت علی حیدرِ کرارؓ بھی زندہ ہوتے، حضرت فاطمہؓ بھی زندہ ہوتیں، حضرات حسنینؓ بھی زندہ ہوتے اور وہ غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لاتے تو وہ بھی مسلمان نہ ہوتے کافر کہلاتے۔

اتنی جرات! انگریز کا خود کاشتہ پودا، جہاں وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔ ہم نے انگریز کو بھی نکالا اور اس کے خود کاشتہ پودے کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔

میرے محترم دوستو! امتِ مسلمہ کے لئے آج کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ آج ہم فلسطین کو بھی رو رہے ہیں جہاں اسرائیل کی سفاکیت اور اس کی وحشیانہ بمباریوں کے نتیجے میں ستر ہزار فلسطینی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اکثریت چھوٹے بچوں کی ہے، خواتین کی ہے، بوڑھے بزرگ نہتّے لوگ جو جنگ نہیں لڑ رہے، یہ کسی بزدل کی علامت ہوتی ہے کہ وہ غیر مسلح لوگوں پر، بے دست و پا لوگوں کے اوپر بمباری کر رہے ہو، لیکن آپ نے آج دیکھا کہ دوحہ قطر میں حماس کی قیادت پر بھی انہوں نے فضائی حملہ کیا۔ اس سے پہلے وہ لبنان پر حملہ کر چکے ہیں، اس سے پہلے وہ شام پر حملہ کر چکے ہیں، یمن پر حملہ کر چکے ہیں۔ یہ ملکوں کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ ہے اور ہم قطر کے ساتھ بھی اور حماس کی قیادت کے ساتھ بھی من حیث القوم اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ آج کی جنگ نہیں ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے اور پاکستان کے بعد اسرائیل وجود میں آیا ہے۔ جب پاکستان بنا تو قراردادِ پاکستان میں لکھا گیا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کا قیام ناقابلِ قبول ہے اور ہم فلسطینی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ قائداعظم محمد علی جناح کا اعلان ہے۔

جب اسرائیل وجود میں آیا تو اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول میں سے یہ ہوگا کہ دنیا کے نقشے پر ایک نوزائیدہ مسلم ملک کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہوگا۔ تو وہ ہمارے خیالات تھے ان کے بارے میں اور یہ ان کے خیالات تھے ہمارے بارے میں۔ آج کون ہے جو پاکستان میں یہ فضا بنا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے؟ میں حکمرانوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں سیاسی قائدین کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں سیاسی جماعتوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اگر قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دینے کی کوئی پیش رفت تم نے کی، تو تمہیں ملکی سیاست کے میدان سے اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جائے گا۔

اگر تم نے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش کی کسی سرکاری سطح پر، میں سرکار کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ نہ تم رہو گے نہ تمہارا کوئی نام لینے والا رہے گا۔ لیکن ایک بات بتا دینا چاہتا ہوں: تحریکیں کام کرتی ہیں، تحریکیں فضا بناتی ہیں۔ شکر ہے کہ آج امتِ مسلمہ کو احساس ہوا اور وہ چند دن کے اندر پوری اسلامی دنیا کے سربراہوں کا اجلاس دوحہ میں بلا رہے ہیں۔ یہ ایک احساس ہے خدا کرے اسلامی دنیا کے حکمرانوں کا ضمیر جاگے۔

اور میں سوچتا ہوں، جمعیت علمائے اسلام کا منشور ہے کہ ایک اسلامی بلاک وجود میں آنا چاہیے۔ آج میں تجویز دوں گا اپنے حکمرانوں کو بھی، دنیا بھر کے اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو بھی کہ وہ باہمی طور پر ایک مضبوط دفاعی معاہدہ کریں۔ ہم امتِ مسلمہ ایک مشترکہ دفاع کے ذریعے اسرائیلی اور صہیونی قوت کا مقابلہ کریں۔ ہم بحیثیتِ مسلم اُمّہ کے مشترکہ دفاع کے تحت بیت المقدس کی آزادی کے لئے اپنی دفاعی قوت استعمال کریں۔

اگر پاکستان کی فوج میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ چار گھنٹوں کے اندر ہندوستان کی دفاعی قوت کو لپیٹ سکتی ہے تو پھر پاکستان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کو چند گھنٹوں کے اندر لپیٹ سکے۔

میں امتِ مسلمہ کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہوں اور یہ احساس بھی دلانا چاہتا ہوں کہ آج دنیا میں وہی کہا جاتا ہے جو تجویز امریکہ کی طرف سے آتی ہے، جو تجویز ٹرمپ کی طرف سے آتی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ کہتا ہے کہ حماس بات نہیں مان رہی اور جس وقت وہ بات چیت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، میٹنگ میں جمع ہوتے ہیں، تو اسی وقت پر اسرائیل ان پر بمباری کرتا ہے۔ اب اس کا الزام ہم کس کو دیں؟ اسرائیل کو دیں یا ٹرمپ کو دیں؟ کہ اس نے سازش کر کے پہلے فلسطینی قیادت کو اکٹھا کیا اور پھر اسرائیل کے ذریعے ان پر بمباری کرائی۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ قیادت محفوظ ہے، ہرچند کہ آٹھ ہمارے مسلمان بھائی شہید ہو چکے ہیں لیکن قیادت محفوظ ہے۔

آج اگر مسلمان کہتا ہے کہ "دو ریاستی حل"، یہ بڑا پسپائی والا بیان ہے۔ اسرائیل کے لب و لہجے کو بھی تو دیکھو! وہ "گریٹر اسرائیل" کی بات کرتا ہے، وہ ہمارے حرمین شریفین پر قبضے کی بات کرتا ہے، وہ حرمین شریفین تک اسرائیل کی توسیع کی بات کرتا ہے۔ اور ہم کہتے ہیں: دو ریاستیں! اسرائیل بھی اور فلسطین بھی! تو پھر ان کے جواب میں ہمیں کہنا چاہیے کہ ایک فلسطین! اسرائیل کا وجود کسی قیمت پر قابلِ قبول نہیں ہے۔

یہ اسرائیل اور مرزائیل کا اتحاد ہے۔ نہ مرزائیل چلیں گا، نہ اسرائیل چلے گا! صرف مسلمانوں کو ذرا حوصلہ دکھانے کی ضرورت ہے، ہمت کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے ملک کو ٹھیک کرو۔

ہمارے بہت سے ساتھیوں نے "معرکہ حق" کی بات کی، "پاک فوج زندہ باد" کے نعرے لگائے۔ اگر ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان لڑتا ہے، فوج لڑتی ہے اور اس طرح کا کارنامہ سرانجام دیتی ہے، یہی تو ہمیں مطلوب ہے۔ لیکن وہیں تک رہے نا! وہ تو اپنی قوم کو بھی فتح کرتی ہے، ہندوستان کو فتح کرنے کی سوچو، قوم آپ کے ساتھ ہے۔ لیکن اپنی قوم کو فتح کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ قوم آزاد ہے، قوم خود مختار ہے۔ انتخابات میں دھاندلیاں نہ کیا کرو، نتیجے تبدیل نہ کیا کرو۔

میرے محترم دوستو! آج اس وقت جو ہم یہ جلسہ کر رہے ہیں، ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بونیر ہے، شانگلہ ہے، سوات ہے، صوابی ہے، یہاں پنجاب کے علاقے ہیں، جنوبی پنجاب ہے، وسطی پنجاب ہے۔ دریاؤں میں طغیانی ہے، لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنے ان مظلوموں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے۔ یہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے بچے ہیں، ہماری بہنیں ہیں، ہماری مائیں ہیں جو اس وقت اس کرب کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور میں ان تمام کارکنوں کو، جس کا تعلق خواہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہو، چاہے ہمارا انصار الاسلام ہو یا کسی بھی جماعت سے وابستہ کارکن ہو، جس نے اس میدان میں ان مظلوموں کی مدد کی ہے اور میدان کے لئے نکلے ہیں، میں ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر ہماری مذہبی تنظیموں نے جس طرح بروقت اقدامات کئے اور ایک فعال این جی او کا کردار ادا کیا، یہی ان سے مطلوب ہے۔

میرے محترم دوستو! ملکی سیاسی صورتحال پر باتیں ہوتی رہیں گی لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں قادیانی مسئلے کی طرف بھی توجہ رکھنی ہے اور عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت جس طرح اس محاذ پر چوکیداری کر رہی ہے، ہمیں اس پر اطمینان ہے۔ مزید اللہ ان کو توفیق عطا فرمائے۔

اسرائیل کی وحشیانہ حرکتیں، امت مسلمہ کے خلاف اس کی سفاکیت، فلسطینیوں کے خلاف ان کی سفاکیت، ہمیں یہاں سے پیغام دینا ہوگا کہ پوری پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اور سیلاب زدگان کے لئے بھی ہمیں ان کو پیغام دینا ہوگا کہ ہر محاذ پر ان شاء اللہ ان کے تعاون کے لئے ہمارے کارکن فعال ہیں، بیدار ہیں اور اپنے فرض کو سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض 

‎ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat 

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا راولپنڈی لیاقت باغ میں ختم نبوت و دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, September 11, 2025

0/Post a Comment/Comments