قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی موجودہ بین الاقوامی صورتحال پر لاہور میں پریس کانفرنس
30 ستمبر 2025
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میں لاہور کی صحافتی برادری کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے وقت نکالا اور مجھے شرفِ ملاقات نصیب کی۔ ہماری بھی مصروفیات کی نوعیت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کسی پروگرام میں بروقت پہنچنا کئی رکاوٹیں سامنے آ جاتی ہیں، تو اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔
اس وقت جو سب سے ایک اہم سوال پوری دنیا میں اٹھ رہا ہے وہ مسئلہ فلسطین کا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر ہم پاکستان کے اساسی موقف کے پابند ہیں۔ بانی پاکستان نے اسرائیل کے وجود ہی کو عرب دنیا کے پیٹھ میں ایک خنجر قرار دیا تھا۔ اور یہ ایک ناجائز ریاست ہے اور یہاں تک کہ ہم کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم اس اصول کے پابند ہیں۔
آج امریکی صدر ٹرمپ پوری دنیا کے مسائل و معاملات کا جس طرح مالک بن رہا ہے اور ڈنڈا اٹھا کر اپنی بات لوگوں سے منواتا ہے، یہ روش نہ تو سیاسی ہے اور نہ اخلاقی ہے۔ جب تک فلسطین کے مسئلے کے بارے میں خود فلسطینی کوئی فیصلہ نہ کریں، زبردستی ان پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ آپ دو ریاستی حل کی بات کریں لیکن اسرائیل سرے سے فلسطین کے وجود کو قبول نہیں کر رہا اور فلسطینی کسی قیمت پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کر رہے۔
دونوں طرف کے انتہائی موقف اس میں دو ریاستی حل ایک مشورہ تو ہو سکتا ہے، ایک خواہش تو ہو سکتی ہے، لیکن جب تک فلسطین کے عوام کو کوئی حل قابل قبول نہیں ہے، ان پر زبردستی نہیں تھونپا جا سکتا۔ نیتن یاہو کے ساتھ براہِ راست پریس کانفرنس کرنا عالمی عدالتِ انصاف کی توہین ہے، جس عدالت نے ان کو مجرم قرار دیا ہے۔ اگر بعض واقعات کی بنیاد پر صدام حسین کو انسانی مجرم قرار دے کر ان کو پھانسی دی جا سکتی ہے، تو یہاں پر ایک لاکھ تک فلسطینی شہید ہوئے، جو بھوک سے شہید ہوئے، جو دوائی نہ ملنے کی وجہ سے بیماری سے شہید ہوئے۔ وہ لاکھ نہیں بلکہ لاکھوں تک ہیں۔
اس طرح کے مجرم کے ساتھ، جس کو عالمی عدالتِ انصاف نے باقاعدہ مجرم قرار دیا ہے اور اس کی گرفتاری کا حکم دیا ہے، اس کو جنرل اسمبلی میں بلانا اور وہاں اس کی تقریر سننا… میں تو تمام ان ممالک کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کی تقریر سننے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن تعجب تو امریکہ پر ہے کہ وہ کس ڈھٹائی کے ساتھ اس مجرم کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ مجرم کی پشت پناہی سے آدمی خود بھی شریکِ جرم بن جاتا ہے۔ تو ہم تو ان کو یہی کہیں گے کہ آپ انتہا پسندی اور ڈنڈا ماری والی سیاست نہ کریں، معقول سیاست کریں، مسئلے کے پس منظر کو سمجھیں۔
اس وقت انہوں نے اپنی تمام گفتگو اور بیانیہ میں حماس کو لا تعلق کر دیا ہے، جبکہ اصل فریق وہی ہے۔ حماس کو اصل فریق تسلیم کیے بغیر کبھی بھی فلسطین کا مسئلہ آپ حل نہیں کر سکتے۔ ہر چند کہ محمود عباس صاحب فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے صدر ہیں، لیکن اس موجودہ جنگ میں چونکہ حماس ہی فریق ہے اور حماس ہی عوام کی منتخب جماعت ہے۔ ان کی منتخب جماعت کو زبردستی اور جبرًا ختم کیا گیا اور بالآخر انہوں نے غزہ میں فلسطینی ریاست قائم کی۔ لہٰذا وہ ایک منتخب جماعت ہے اس کو بطورِ فریق کے نظر انداز کرنا اس کا معنی یہ ہے کہ آپ وہاں کے عوام کی خواہشات کے علی الرغم ان پر کوئی فیصلہ جبرًا مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جہاں تک ہمارے پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ ہے، میں سب سے پہلے ذکر کروں گا، 17 اکتوبر کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے کا، جو فیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدارت میں ہوا تھا۔ ذرا وہ خود نیویارک کا اعلامیہ اور کور کمانڈر کانفرنس کے دوران جو اعلامیہ جاری ہوا تھا، ان کا باہمی تقابل کریں کہ کتنا فاصلہ ہے اس کے اندر جی۔ جو بات جس زور کے ساتھ شہباز شریف صاحب نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کی، اس کے بعد جو ان کا بیان جاری ہوا ہے، ذرا ان کو بھی میں دعوت دیتا ہوں کہ اپنے جنرل اسمبلی کے خطاب اور اس کے بعد آپ کی ٹویٹ میں کتنا فرق ہے۔
لہٰذا کمزور موقف کے ساتھ عرب دنیا شکست کھا جائے گی۔ اس وقت عرب دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اور اس قسم کی چیزیں… کیا ہمیں یاد نہیں بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا گیا؟ کیا اس مسئلے کا حل پیش نہیں کیا گیا تھا؟ اس کے باوجود وہاں پر لاکھوں مسلمان شہید نہیں ہوئے؟ لاکھوں عورتوں، بچوں کی عزت پامال نہیں ہوئی؟ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر نہیں کر دیے گئے؟
دنیا کو آپ امن کی بات کریں اور امن کی پشت پر ایک خنجر بھی آپ کے ہاتھ میں ہے، کہ اسی قوم کے پیٹھ میں گھونپ دیا جاتا ہے۔ یاسر عرفات نے امن کی طرف سفر کیا، اس نے عسکریت سے دستبرداری اختیار کی۔ اس کا کیا انجام کیا آپ نے۔ اور آج جو ٹرمپ اور نیتن یاہو کا اعلامیہ ہے، یہ اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے یا بیت المقدس کی آزادی کا فارمولا نہیں ہو سکتا۔
پہلے تو اگر وہ واقعتاً کسی مسئلے کے حل پر سنجیدہ ہیں تو پھر بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کے قیام کے دعوے سے دستبردار ہو جائیں، تو ہم سمجھیں گے کہ ہاں کوئی اشارہ ہے، کوئی بیت المقدس کی آزادی کی طرف۔ تمام اسلامی دنیا بیت المقدس کی آزادی کے لیے ایک پیج پر ہے، متفق ہے۔ اور اگر کسی نے دو ریاستی حل کی تجویز دی بھی ہے تو وہ بھی اسی صورت پر ہے کہ آزاد فلسطین ہو جس کا دارالخلافہ بیت المقدس ہوگا۔
تو یہ وہ نکات ہیں کہ اس وقت جو نیویارک میں ہو رہا ہے اس پر عالمی برادری کی نمائندگی نہیں ہے۔ یورپ بھی اس سوچ کے خلاف ہے، اسلامی دنیا بھی اس سوچ کے خلاف ہے۔ عوام کی رائے کو مدنظر رکھا جائے، یہی جمہوریت ہے۔ ورنہ پھر جمہوریت کے بڑے بڑے دعوے ختم کر دیے جائیں۔
سوال و جواب
صحافی: اچھا سر! یہ بتائیں کہ اس وقت جو ملکی حالات ہیں، اس وقت دو بڑے صوبے ہیں۔ ان کے وزراء اور جو ایم این ایز ہیں وہ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی بھی بتا رہے ہیں کہ اچھی نہیں ہے، کوئی کہہ رہا ہے اچھی ہے۔ سیلاب کے حوالے سے صوبہ سندھ اور پنجاب آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اس پر آپ سمجھتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے وزراء اور صوبے کے حکمران آپس میں لڑ رہے ہیں؟ اس پر عوام کی کیا سوچ ہے؟
مولانا صاحب: حضرت! جو "حکمران" کا لفظ آپ استعمال کر رہے ہیں، میرے خیال میں ان میں حکمرانی کی صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔ عوام کو کس طرح رپریزنٹ کیا جاتا ہے، عوام کے حقوق کے لئے کس طرح بات کی جاتی ہے، مشکلات کو حل کرنے کے لئے کن رویوں کی ضرورت ہے… وہ آپ کسی نوجوان کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں جو عام نوجوان ہے ہمارے معاشرے کا کہ وہ جذباتی ہو کر بات کرتا ہے، لیکن ذمہ دار فورم پر پیٹھ کر جو لوگ جذباتی بات کرتے ہیں اور پھر وہ علاقائیت کی بات کرتے ہیں، صوبائیت کی بات کرتے ہیں، وہ تو میرے خیال میں اپنے آئین سے انحراف کر رہے ہیں۔
مولانا صاحب! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کس طرح سے ٹرمپ کے بیانیے کے اوپر ریسپانس دیا ہے؟ کیا یہ درست عمل ہے؟ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا؟ کیا تھوڑا سوچ بچار کے بعد کوئی اور جواب دینا چاہیے تھا؟
مولانا صاحب: میں نے آپ کو یہی کہا کہ ان کے اپنے بیانات میں تضاد نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کے بنیادی موقف میں تضاد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ قائد اعظم کے موقف کی نفی ہورہی ہے تو شہباز شریف صاحب کو بھی سوچنا چاہیے۔ آخر وہ مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور اپنے آپ کو قائد اعظم جا جانشین کہتے ہیں تو ان کو سوچنا ہوگا کہ میں کہی پاکستان کے بنیادی اور اصولی موقف سے انحراف تو نہیں کر رہا ہوں؟
صحافی: کئی ممالک نے نیتن یاہو کے تقریر کا بائیکاٹ کیا لیکن شام کے صدر وہیں بیٹھے ہوئے ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
مولانا صاحب: اب دیکھیے انفرادی طور پر کسی ملک نے اگر نہیں کیا ہوگا کیا وجوہات ہوں گی کیا ان کے مصلحتیں ہوں گی ہر ملک کا اختیار تو ہے لیکن میں مجموعی بات کر رہا ہوں، شام کا صدر اگر پہلی مرتبہ گیا ہوگا ابھی ان کو وہاں سارا ان کو وہاں کے ابھی اٹھنے بیٹھنے کے اداب کو بتائے نہیں ہونگے، تو بہرحال شام کے قربتیں نہیں پڑھ سکتی کیونکہ سب سے پہلے یہ نیا انقلاب جو وہاں آیا تو اسرائیل نے سب سے پہلے شام کی دفاعی قوت پر حملے کئیں ان کو تباہ کیا۔
صحافی: اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا حکومت لگتا ہے لگ رہا ہے کہ تسلیم کر لے کے اگر کیا تو رد عمل کیا ہوگا اور دوسرا میرا سوال تھا کہ یہ محمد علی کے متعلق جو اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ آیا ہے اس پہ کیا کہیں گے۔
مولانا صاحب: دیکھیے میں اسلامی نظریات کونسل کا ممبر نہیں ہوں اور وہ ایک آئینی فورم ہے اور اس کے دو صورتیں ہوتی ہیں کہ کسی مسئلے پر وہ سوموٹو کرے تو ظاہر ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں نہیں آتی کہ وہاں زیر بحث ہو، کچھ چیزیں وہ ہوتی ہیں کہ پارلیمنٹ کو بھیجتی ہے تو چھبیسویں ترمیم کے تحت جہاں پہلے ایوان کے چالیس فیصد اراکین کی منظوری ضروری تھی اب بائیس فیصد اراکین کی منظوری ضروری ہے تو انہوں نے جو بھی فیصلہ کیا ہوگا وہ ہمارا ایک آئینی فورم ہے اور یقیناً انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا ہوگا۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے جس طرح یہ امن معاہدہ ہوا صرف پاکستان نہیں، بلکہ دیگر جو اسلامی ممالک ہیں اس نے انہیں بھی اس کی حمایت کی ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے پاس اس فلسطین میں امن لانے کے حوالے سے کوئی اور دوسرا آپشن موجود نہیں ہے؟
مولانا صاحب: میں حضرت بصد احترام اختلاف رائے رکھوں گا کیونکہ یہ باتیں طے ہونی ہیں مذاکراتی میز پر، جب بھی وقت ائے گا اور وقت سے پہلے اپنے کارڈ ایکسپوز کر دینا یہ شاید حکمت عملی کے خلاف ہے۔ لہذا ہم اس پہ امریکہ یا عالمی قوتوں کے رضامندی حاصل کرنے کی کوشش تو کہہ سکتے ہیں لیکن مسئلہ فلسطین کے لیے ایسی باتیں فائدہ مند نہیں ہیں۔
صحافی: اچھا مولانا صاحب قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ یہود و نصاری ہمارے دوست نہیں ہو سکتے اور اس کے باوجود ایک طرف ہمارے روابط بہت بڑھ رہے ہیں اور دوسرا پاکستان نے جو ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے وہ بڑی زبانیں زد عام بات ہے اس حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے۔ اور دوسرا ساتھ ساتھ یہ بھی ایڈ کیجئے گا کہ ایک غیر اعلانیہ آپ نے سیاسی پارٹی کی کچھ عرصہ قیادت بھی کی، آج کل اس میں کچھ دوریاں نظر آرہی ہیں اس کی کیا وجہ ہے کہ کل کے جلسے میں بھی آپ موجود نہیں تھے جو پشاور میں ہوا تو کیا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو آپ کی قربتیں تھی اس میں کچھ دوریاں آئی ہے یا ویسے ہی ہیں؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں ہم نے کبھی کسی جلسے میں شرکت نہیں کی، نہ انہوں نے ہمارے جلسوں میں کوئی شرکت کی ہے، جہاں تک نوبل انعام کا تعلق ہے کوئی امن کا تو ممکن نہیں ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کو دربدر کر دیا اور اب ہم اس کے لیے امن کی بات کرتے ہیں، کوئی جنگ نوبل انعام ہو وہ چاہیے۔
صحافی: مولانا صاحب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا اور کل اس نے قطر سے معافی مانگ لی، تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام امت مسلمہ ایک پیج پہ ہے؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں قطر سے معافی کس بات پہ مانگی ہے اس لیے کہ وہاں پر فلسطینی موجود تھے، فلسطینی قیادت موجود تھی، کیا وہ غزا کے ایک لاکھ لوگوں کی شہادت اور قتل عام اور ان کی دربدری پر بھی معافی مانگتا ہے، وہ انسانی مجرم ہے، یہ معافی کافی نہیں ہے، امت مسلمہ کے لیے یہ معافی کافی نہیں ہے، اہل فلسطین کے لیے۔
صحافی: مولانا صاحب آپ لازمی یہ بتائیے گا پوری قوم کا دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، جس طرح سے ظلم و ستم ہوتے رہے ہیں، ابھی بھی ہم نے دیکھا کہ جس طرح سے شکست گویا بھارت کو، پاکستان کا جو مقام ہے اس کے بعد سعودیہ کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اور آل جو سینیریو پاکستان ایک گیم چینجر بن سکتا ہے، وہ بن رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تو مدد ہے وہ بھی پاکستانیوں کے ساتھ ہے، اب کس چیز کی کمی رہ گئی ہے جس سے جو ہے وہ اب مسئلہ فلسطین جو ہے وہ حل ہو جائے گا اور پاکستان کو مزید اب کیا کرنا چاہیے؟
مولانا صاحب: حضرت، مسئلہ فلسطین کے لیے فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف حل کی کوششیں پہلے دن سے ہیں۔ برطانیہ اسرائیل کا مؤسس ہے اسی لیے ہی انیس سترہ میں اسرائیل کی بنیاد ڈالی ناجائز طور پر، اور لیگ آف نیشنز کی کمیٹی نے جو اس زمانے میں سفارشات مرتب کرتی، ایک ایک سفارش کی نفی کر کے وہاں اسرائیل ریاست قائم کی گئی اور پھر اس کے بعد آپ مجھے بتائیں کہتے ہیں جی فلسطینیوں نے زمینیں بیچی ہیں، انیس سترہ میں تو اس سرزمین پر یہودی صرف دو فیصد اور سن اڑتالیس میں چھ فیصد ہیں تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جی فلسطینوں نے ان کو زمینیں بیچ دی ہے اور ان کو سرزمین خود ان کے حوالے کیے، لہذا تاریخ کو جھٹلایا جا رہا ہے، حقائق جھٹلائے جا رہے ہیں اور لیگ آف نیشنز کی جو کمیٹی نے اس زمانے میں سفارشات کی تھی کہ پوری دنیا میں یہودی در بدر تھا اور اس کو کہاں آباد کیا جائے، واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فلسطین میں نہیں، اس لیے کہ ایک تو وہ خود گنجان آباد علاقہ ہے اور دوسرے اقتصادی لحاظ سے کمزور علاقہ ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں آباد کیا گیا۔
صحافی: مولانا صاحب آپ ان چند مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں میں چند ایک میں جنہوں نے تقریباً پاکستان کے تمام وزراء اعظم کو بھی قریب سے دیکھا ہے اور عسکری قیادت کو بھی، اگر آج کے سنیاری میں بات کی جائے تو جو موجودہ سیول اور عسکری قیادت ہے وہ فلسطین کے معاملے پر آپ کو کمپرومائز دکھائی دیتی ہے یا وہ سٹینڈ لے گی، جو مذہبی جماعتوں کا جس طرح کا مطالبہ ہے اور دیگر جو مسلمانوں کا مطالبہ ہے؟
مولانا صاحب: میرا جو اپنا ذاتی اندازہ ہے، ممکن ہے غلط بھی ہو سکتا ہے ہمارے جو اس وقت حکمران ہیں ان کے اوپر وہ تین چار گھنٹے کی انڈیا کی جنگ سوار ہے اور وہ جو بھی دنیا میں اپنا مؤقف کبھی صبح شام تو وہ اس لیے کہ امریکہ انڈیا کی طرف نہ چلا جائے، انڈیا کی طرف نظر ہے، یہ اس کے مدنظر ہے، اصول مدنظر نہیں ہے۔ تو یہ جو اس قسم کے ریاستی موقف ہوتے ہیں کہ یہاں پر کور کمانڈر کانفرنس میں آپ ایک مؤقف دے، وہاں پر دوسرا مؤقف دے، جنرل اسمبلی میں دنیا سے آپ خطاب کر رہے ہیں وہاں آپ کا موقف اور ہو، پھر اس کے بعد سائیڈ روم پہ آپ کا موقف بدل جائے، تو یہ میرا خیال ہے پاکستان کے وزن کو کم کر رہا ہے پاکستان کے وزن کو طاقت نہیں دے رہا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کیا چھبیسویں ویں ترمیم سے مطلوبہ نتائج تاج حاصل ہو گئے ہیں یا کسی اور ترمیم کی ضرورت ہے؟
مولانا صاحب: نتائج میں نے نہیں حاصل کرنے، نتائج تو اداروں نے خود طے کرنے ہوتے ہیں، لیکن ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ سیاسی جماعتوں کی جو کمٹمنٹس تھی اور خاص طور پر جو میثاق جمہوریت تھی اس کے تناظر میں یہ ساری چیزیں ہوئی ہیں اور پوری پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر ایک لمبے مذاکرات کے نتیجے میں جس نتیجے پر ہم پہنچے ہیں، اب جو ایک چیز پارلیمنٹ کی سطح پر اور پوزیشن اور حکومت دونوں کے درمیان اتفاق رائے سے جو چیزیں طے ہو جائیں ان کو متنازع بنانے سے کس کو فائدہ ہوگا۔
صحافی: اچھا مولانا صاحب مسلسل دو سال سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے فلسطین میں، ہمارے پاکستان میں نہ سیاسی جماعتوں نے ابھی تک کوئی مشترکہ علامیہ دیا ہے کہ اس پر کیا مؤقف ہونا چاہیے، کیونکہ مسلسل آپ کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا کہ اسرائیل کی جارحیت جو ہے بچوں کو بھی کوئی شہید کر رہے ہیں، عورتوں کو بھی شہید کر رہے ہیں، ہمارے مقدس جو مقامات ہیں ان کو بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں، اس پر سیاسی جماعتوں کو آپ نہیں سمجھتے کہ اس وقت میں اکٹھا ہونا چاہیے؟
مولانا صاحب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا حکمران جماعتیں ہوں یا اپوزیشن کی جماعتیں ہوں وہ مسئلہ فلسطین کو وہ مقام نہیں دے رہی اور نہ ہی وہاں کے عوام کا وہ حق ادا کر رہے ہیں جو ان کا فرض بنتا ہے اس محاذ پر اگر کوئی بڑا کردار ادا کیا ہے تو جمیعت علماء اسلام نے کیا ہے یا دوسرے مذہبی جماعتوں نے کیا ہے، حکومت نے صرف نمائش کی حد تک ایوان صدر میں ایک اجلاس بلایا تھا اور بس کسی نے کوئی ایک ٹویٹ کر دیا اور بس، تحریک کی صورت میں اگر کوئی اٹھا ہے تو ہم نے پورے ملک کے چاروں صوبوں میں ملین مارچ کی ہیں، بہت بڑے عوام جمع ہوئی ہے اور تاریخی اجتماعات ہوئے ہیں، اور میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے۔
صحافی: مولانا صاحب صرف یہ بتا دیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت میعاد پوری کرے گی اور پی ٹی ائی کے ساتھ کوئی مستقبل میں ان کے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں، اور یہ حکومت میعاد پوری کر سکتی ہے اور آل پارٹی کانفرنس آپ بلائیں گے، جس طرح مولانا بلاتے ہوتے تھے اس طرح نوابزادہ نصر اللہ صاحب؟
مولانا صاحب: اگر ماحول بنتا ہے تو ضرور بلائیں گے، اس موجودہ حکومت کے وقت کا دارومدار اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے، اگر وہ پورا کرنے دے گی تو کر لے گی، نہیں کرنے دے گی تو نہیں کر سکتی۔
صحافی: مولانا صاحب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان بڑی آج کل لفظی گولہ باری ہو رہی ہے، کسی تبدیلی کا رخ آپ دیکھتے ہیں؟
مولانا صاحب: یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے حضرت،
صحافی: مولانا صاحب، کیا عمران خان کی رہائی ہونی چاہیے؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں ہونی چاہیے۔ بہت شکریہ بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
تصحیح: #سہیل_سہراب
ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں