فرزند قائد مفتی اسعد محمود صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب
16 اکتوبر 2025
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی الہ واصحابہ اجمعین
صدر اجلاس، اکابر علمائے کرام، زعمائے قوم، اسلام پسندوں، آج میزبان کی حیثیت میں میں سٹیج پر موجود تشریف فرما مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جلسہ گاہ میں موجود مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کے پیروکاروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آج جس ولولے اور جذبے کے ساتھ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ میں جناب غفار بابر صاحب کی اس نظم کے ساتھ مفکر اسلام کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں۔
وہ شبزدوں میں سحر کا دماغ رکھتا تھا
ہوا کے دوش پہ اپنا چراغ رکھتا تھا
جو کر رہا تھا رفو دوسروں کے زخموں کو
وہ شخص آپ دل داغ رکھتا تھا
وہ دشت غم کا مسافر تھا ایک دیوانہ
وہ اپنے دل کو مگر باغ باغ رکھتا تھا
عجیب جاگتی آنکھوں میں خواب رکھتا تھا
وہ نوع کے خار پہ برگ گلاب رکھتا تھا
وہ جس کے عزم پہ قربان جوانیوں کا غرور
وہ مرد پیر بھی کیسا شباب رکھتا تھا
خدا کی ذات پر اس کا یقین کامل تھا
وہ دل میں عشق رسالت مآب رکھتا تھا
کرن کرن کو اجالوں کی بھیک دیتا تھا
نظر نظر میں وہ صدا آفتاب رکھتا تھا
وہ اپنے زیست کے لمحوں کی لاج رکھتا تھا
وہ کل کو اپنے تصرف میں آج رکھتا تھا
وہ ایک خطیب کے شعلا نواں بھی تھا لیکن
غضب کی دھوپ میں شبنم مزاج رکھتا تھا
وہ خار زار محبت میں چل رہا تھا مگر
گلوں پہ قرض وہ اپنا خراج رکھتا تھا
وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا
جو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پہ تاج رکھتا تھا
آج بھی اسی عزم اسی ولولے کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام کا کارکن ان کے اکابر سے ان کے افکار اور عقائد کے امین جماعت کے یہ سر بکف فورس، سر بلند مجاہدین، مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی اس کانفرنس سے تجدید عہد کر رہے ہیں، اپنے قائد کے ساتھ کہ ہم اسلام کی سربلندی کے لیے پاکستان کے لیے آپ کی آواز پر اسی طرح لبیک کہیں گے جس طرح مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء کی آواز پر لبیک کہتے تھے۔
آج موجودہ صورتحال میں پاکستان کے اندر کچھ نا عاقبت اندیش غیر سیاسی عناصر جو کہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر ہم موروثی سیاست کے مقابلے میں سیاست کے علمبردار ہیں، تو میں آج اس مفکر اسلام کانفرنس سے قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم میدان عمل میں اپنے اکابر اور اسلاف کے علمبردار تحریک کے امین ہیں، ان کے پیروکار ہیں۔
جب مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو جمعیت علمائے اسلام پر پابندی لگائی گئی، جمعیت علمائے اسلام کے سیاسی سفر کو ایک مارشل لاء ڈکٹیٹر نے ان کے اکابرین کو قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کیا، اس وقت مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کا یہ فرزند جو جنرل ضیاء کے اس ڈکٹیٹر شپ کے خلاف میدان عمل میں آیا، آئین کی بالادستی کے لیے، قانون کی حکمرانی کے لیے، اس کو سونے کا چمچ وراثت میں نہیں ملا تھا، جنرل ضیاء کی بدترین ڈکٹیٹرشپ ملی، انہوں نے نہ صرف پاکستان میں آئین کی بالادستی کے لیے علم بلند کیا بلکہ ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، قید و بند کی صعوبت برداشت کی، بالآخر اس قوم کو جمہوری آئین کی بالادست حکومت عطاء کی گئی اور پھر آپ کو یاد ہوگا کہ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا پاکستان کے تمام سیاسی قوتیں جنرل مشرف کی گود میں بیٹھی، امریکہ کی اس یلغار کو افغانستان کے اوپر یلغار کہا تو قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ نے کہا انہوں نے نہ صرف افغانوں کو سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ آزادی کے ان مجاہدین کو سیاسی محاذ پر سپورٹ کیا، آج بھی پاکستان جس صورتحال سے دوچار ہے، گزشتہ دو سن 2000 سے 2025 تک پاکستان نے ایک لاکھ شہادتیں اس نام نہاد امریکہ کی جنگ میں حاصل کی، آج بھی ہم یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ریاستیں ہیں، ہم نے افغانستان کی ریاست کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنا چاہتے ہیں۔ میں اپنی بات پر اکتفا کرتے ہوئے آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
و اٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں