فرزندِ قائد سابق وفاقی وزیر مفتی اسعد محمود صاحب کا قلعہ سیف اللہ میں جلسے سے خطاب

فرزندِ قائد سابق وفاقی وزیر مفتی اسعد محمود صاحب کا قلعہ سیف اللہ میں جلسے سے خطاب

14 اکتوبر 2025

الحمد للّٰہ الذی جعل السیاسۃ من سنن الأنبیاء، والصلاۃ والسلام علی من قال: کانت بنو اسرائیل تسوسہم الأنبیاء، وعلی آلہ واصحابہ الذین کانوا خلفاء، وعلی من تبعہم بإحسان إلى یوم الجمع الورى۔ اما بعد! فأعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، وقال النبی ﷺ: یَدُ اللّٰہِ عَلَى الْجَمَاعَةِ۔ صدق اللّٰہ العظیم۔

صدرِ اجلاس، اکابر علمائے کرام، زعمائے قوم، بزرگانِ ملت، غیور اور غیرتمند مسلمان بھائیوں! میں جمعیت علمائے اسلام صوبہ بلوچستان، جمعیت علمائے اسلام کے اضلاع کے تنظیموں کا انتہائی شکر گزار ہوں، جنہوں نے آج اپنے مرشد، قائد، مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللّٰہ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے قلعہ سیف اللہ میں اس عظیم الشان، فقیدالمثال کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یہ صرف مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو خراجِ عقیدت نہیں، بلکہ اس سفرِ عظیم کے اُن رفقائے کار کو بھی خراجِ عقیدت ہے جو مفکرِ اسلام کے ساتھ قدم بہ قدم شریکِ سفر رہے۔ اسی کے ساتھ ہم امامِ انقلاب، قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم العالیہ اور جمعیت علمائے اسلام کے تمام کارکنان و مجاہدین کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے حضرت مفتی صاحبؒ اور اُن اکابر کے امانت و پیغام کے پرچم کو آج بھی سربلند رکھا ہے۔ ان شاءاللہ العزیز آج کا یہ اجتماع اعلان کر رہا ہے کہ ہم رسولِ اکرم ﷺ کے برحق جھنڈے کو ہمیشہ سر فراز اور سر بلند رکھیں گے۔ (پشتو سے اردو ترجمہ)

آج بھی مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ بلوچستان کے یہ غیور مسلمانوں کے ان کے عقائد کے ان کے نظریات کے ان کے افکار کا تحفظ جمعیت علمائے اسلام کے یہ سر بکف اور سربلند مجاہدین کررہے ہیں اور قلعہ سیف اللہ سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ ہمارے اکابر و اسلاف کی امین جماعت ہے اور برملا اعلان کر رہے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کسی فرنگی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی جماعت نہیں ہے، یہ جدوجہد آزادی کے اُن مجاہدین کی بنائی ہوئی جماعت ہے جنہوں نے قابض انگریز کے خلاف جدوجہد کی، قربانیاں دیں، برصغیر پاک و ہند کے مظلوم انسانیت کو فرنگی کے اس جبروت سے آزاد کیا اور مسلمانوں کے عقائد کا تحفظ کیا۔ آج بھی اپنے اسلاف کے دیے ہوئے مشن پر گامزن ہے، اور قائدِ جمعیت، بطلِ حریت حضرت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم العالیہ کی سربراہی میں بین الاقوامی قوتوں کو بھی چیلنج کررہی ہے، اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کررہی ہے کہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر بنا، اسلامی نظام ہی اس ملک کا مملکتی مستقبل ہے، اور آج بھی ہم اپنے اکابر اور اسلاف کے ساتھ یہ عہد و پیمان کرنے کے لیے اس قوت کا مظاہرہ قلعہ سیف اللہ میں کررہے ہیں، کہ ان شاءاللہ العزیز ہم نے نہ انگریز کے جبر کو تسلیم کیا، نہ پاکستان کے اندر کسی فوجی جنرل کے جبر کو تسلیم کرتے ہیں۔ 

آج بھی 78 سال گزر جانے کے باوجود جو ریاست اسلام کے نام پر بنی، 25 سال پاکستان کے ریاست کو ایک آئین نہ دے سکے، اس مملکت خداد پاکستان کو اگر متفقہ آئین دیا تو مفکرِ اسلام اور جمعیت علمائے اسلام کے بدولت ملا، اگر اس ریاست کو اسلامی آئین ملا تو وہ بھی مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ اور جمعیت علمائے اسلام کے مرہون منت ملا، اگر اس مملکت خداد پاکستان میں مدارس کو ایک مضبوط اور منظم پلیٹ فارم دیا گیا وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی صورت میں تو وہ بھی مفکر اسلام مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی بدولت ملا۔ انگریز کی بھی خواہش تھی پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کی بھی خواہش ہے کہ پاکستان کے اندر مدراس کے اس مضبوط قلعے میں شگاف ڈال دیا جائے، لیکن مدارس کے اس مضبوط قلعے کے لیے اسی مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے سیاسی محاذ پر جمعیت علمائے اسلام کا پلیٹ فارم اس قوم کو دیا جو علماء کی سرپرستی میں پاکستان کے مذہبی تشخص کو بھی تحفظ دیے ہوئے ہیں، جو پاکستان میں اسلامی تہذیب کو بھی تحفظ دیے ہوئے ہیں، جو پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات کو بجی تحفظ دیے ہوئے ہیں۔ آج بلوچستان کے عوام بھی جانتے ہیں کہ ان پر کس کی حکومت ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں صوبائی وزیرِ اعلیٰ سے اور میں معذرت چاہتا ہوں اپنے صوبائی کابینہ سے بھی لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ کو جبراً حکومت میں بٹھایا گیا ہے، جمعیت علمائے اسلام جو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لیے آواز بلند کرتی ہے ہم ان شاءاللہ اس قوم کو حقیقی آزادی بھی دلائیں گے، حقیقی جمہوریت بھی دلائیں گے، اور آپ کو بھی اس قابض مافیا سے آزادی دلائیں گے کہ آپ بھی قوم کے ووٹ سے اقتدار میں آئیں۔ 

قوم جانتی ہے کہ بلوچستان کو صرف ایک کرنل نے صرف ایک کرنل نے یہاں پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو کر صوبے کے اندر صوبائی نشستوں کے نتائج تبدیل کیے، قومی اسمبلی کے نتائج تبدیل کیے، آپ بھی اس کرنل کا نام جانتے ہیں سٹیج پر موجود ہمارے اکابرین بھی اس کرنل کا نام جانتے ہیں کہ اس کرنل کا نام۔۔۔ آپ بتائیں کیا نام تھا اس کا؟!؟ میں ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا ہوں ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ یہاں پر فوج کی حکومت ہے اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے یہاں پر سیکٹر کمانڈر کی حکومت ہے یہاں پر کور کمانڈر کی حکومت ہے اور تم جمعیت علمائے اسلام کو مرعوب نہیں کر سکتے، مجھے مجھے اپنے اکابر کے اس آزادی کے تسلسل پر فخر ہے مجھے مفکر اسلام کے اس سیاسی آزادی اور حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد پر فخر ہے جو انہوں نے انگریز کے خلاف لڑی جو انہوں نے جنرل ایوب کے خلاف لڑی جو انہوں نے سکندر اور یحییٰ کے خلاف لڑی، مجھے قائد جمعیت کے وہ سیاسی تاریخ پر فخر ہے کہ جنہوں نے جنرل ضیاء کے خلاف ننگی تلوار کی طرح قوم کے حقوق کی جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کی، جنرل مشرف کے خلاف جدوجہد کی اس جمہوریت کے لیے حقیقی آزادی کے لیے، جنہوں نے جنرل باجوہ کے خلاف جدوجہد کی اور ان کی بنائی ہوئی حکومتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔۔۔

آپ ہمیں طاقت سے نہیں روک سکو گے، ان شاءاللہ العزیز پاکستان کے اس جمہوری قوتوں، آزاد قوموں کی یہ جدوجہد کو جمعیت علمائے اسلام پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ آج پاکستان کے چاروں صوبوں میں اسٹیبلشمنٹ کے پیداوار سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، آپ اپنے جذبات پر قابو رکھیں میں ذرا آپ کو آج کے حکومتوں کا احوال بھی بتانا چاہتا ہوں۔ آج چاروں صوبوں میں یا تو جنرل ایوب کے بچوں کی حکومت ہے، یا جنرل ضیاء کے بچوں کی حکومت ہے، جنرل مشرف کے بچوں کی حکومت ہے، اور یا جنرل باجوہ کے بچوں کی حکومت ہے۔ (پشتو سے اردو ترجمہ)

آج پاکستان کے چاروں صوبوں میں اسٹیبلشمنٹ کے پیداوار سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، نظر دوڑالے یا جنرل ایوب کے بنائی گئی پارٹی کی حکومت ہے، یا جنرل ضیاء کی، اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار پارٹی کی حکومت ہے، یا جنرل مشرف کی بنائی ہوئی پارٹی کی حکومت ہے لیکن ہم پاکستان کے موجودہ ہوں یا پہلے بنائی گئی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ 

آپ نے بھی دیکھا ہوگا پرسوں ایک صوبائی اسمبلی میں ایک وزیراعلی نے استعفی دیا اور وزیراعلی کے استعفیٰ پر گورنر کا اعتراض آگیا گورنر کے اعتراض پر اس وزیراعلی نے دوسرا استعفیٰ لکھا اور جب دوسرا استعفیٰ لکھ رہے تھے اس کی اپنی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ شاید ہمارا وزیراعلی ہمارے ساتھ گیم کر رہا ہے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد لائیں گے، اس نے دوسرا استعفیٰ لکھا اس پر گورنر نے اعتراض لگایا گورنر نے کہا کہ پہلے استعفیٰ اور دوسرے استعفیٰ میں فرق ہے لہذا 15 تاریخ کو آ کر خود کہے خود کہے کہ یہ استعفیٰ میں نے دیا ہے یا نہیں دیا، بجائے اس کے کہ گورنر کے سامنے پیش ہوتا اس نے صوبائی اسمبلی کے اندر اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر کہا میں نے استعفیٰ دیا ہے اسپیکر نے کہا آپ کا استعفیٰ قبول ہے، افسوس کی بات ہے ہم ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ آج بھی ہائی کورٹ کے فیصلے سے میں اختلاف کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ استعفیٰ جب پیش کیا جاتا ہے تو منظور ہو جاتا ہے، میں اپنے صوبائی ہائی کورٹ کے اس چیف جسٹس کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جس کے حق میں آج فیصلہ دیا ہے 2014 میں انہوں نے استعفے دیے قومی اسمبلی سے استعفے دیے ایک سال تک اسمبلیوں کو گالیاں دیتے رہے لعن طعن کرتے رہے کہتے رہے کہ ہم قومی اسمبلی میں دوبارہ نہیں جائیں گے لیکن جنوری 2015 میں جب اسپیکر نے قومی اسمبلی کے اندر ان کے استعفوں کو قبول کرنا شروع کیا وہ عدالت گئے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ہمارے استعفوں کو صحیح طریقے سے منظور نہیں کر رہا، عدالت نے اسی جماعت کے مستعفی اراکین کے حق میں فیصلہ دیا کہ یہ استعفے قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی نے صحیح طریقہ کار اڈاپٹ نہیں کیا، آج جب گورنر خیبر پختون خواہ اس صحیح طریقہ کار کو اڈاپٹ کرنا چاہ رہا ہے تو تم کہتے ہو کہ گورنر کا استعفیٰ قبول کرنا یہ اس کی آئین میں کوئی گنجائش ہی نہیں، کل تم نے کہا کہ سپیکر نے استعفے صحیح ضابطے اور طریقہ کار کے مطابق قبول نہیں کیے، میں پوچھنا چاہتا ہوں عدالتوں سے بھی کہ یا تمہارا کل کا فیصلہ غلط تھا یا تمہارا آج کا فیصلہ غلط ہے، تم سیاسی پارٹیوں کی خواہشات کے مطابق۔۔۔ کبھی کہتے ہو کہ سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر کے پاس پارلیمانی اختیار ہے، کبھی کہتے ہو کہ سیاسی پارٹی کے پارٹی لیڈر کے بارے میں کہ اس کے پاس اختیار ہے۔

لیکن لوگوں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ پاکستان کی جمہوریت دنیا میں 167 نمبر پہ ہے، اور پاکستانی عدالتیں 142 نمبر پر ہیں، نہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور نہ اس میں عملاً آئین لاگو ہے، آج بھی اس قانون کی حکمرانی ہے۔ (پشتو سے اردو ترجمہ)

آج میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں اور عہد لینا چاہتا ہوں کہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کے لیے قائد جمعیت کی آواز پر لبیک کہو گے ان شاءاللہ، قوم کے حقوق کے لیے لڑو گے ان شاءاللہ، بلوچستان کے حق کے لیے لڑو گے ان شاءاللہ، بلوچ کے حقوق کے لیے لڑو گے ان شاءاللہ، پشتون کے حقوق کے لیے لڑو گے ان شاءاللہ، پنجاب کے حق کے لیے لڑو گے ان شاءاللہ، سندھ کے حقوق کے لیے لڑو گے ان شاءاللہ، ہم بھی علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے اندر آئین کی بالادستی اور قانون کے حکمرانی کے لیے اس قوم کو جمعیت علمائے اسلام کی قیادت جو ہدایت دے گی ان شاءاللہ العزیز اس پر لبیک کہتے ہوئے ہم ثابت کریں گے کہ یہ قاسم نانوتوی کے پیروکار ہیں، ہم ثابت کریں گے کہ یہ شیخ الہند کے پیروکار ہیں، ہم ثابت کریں گے کہ یہ حسین احمد مدنی کے پیروکار ہیں، ہم ثابت کریں گے کہ یہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کے پیروکار ہیں، ہم ثابت کریں گے کہ یہ قائد جمعیت کے کارکن ہیں یہ جمعیت علماء اسلام کے کارکن ہیں، ان شاءاللہ العزیز اسی طرح سر بکف اور سر بلند غیرت کے ساتھ اپنی اس منزل کو جاری و ساری رکھتے ہوئے منزل کی طرف بڑھیں گے اور منزل پر ہی جا کر دم لیں گے۔

آپ حضرات کو اس کا میاب فقید المثال کانفرنس کے انعقاد پر ایک بار پھر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ نے ثابت کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد اس طرح کی جاتی ہے، آج آپ نے صرف فٹبال گراؤنڈ نہیں بھرا آج آپ نے ان لوگوں کو بھی اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جن کی کھوپڑی میں بھوسا بھرا ہوا ہے جو پاکستان کے اس غیور اور محب وطن پاکستانیوں کو امن نہیں دے سکتے، جو اس محب وطن قوم کو معاشی نظام نہیں دے سکتے، ہم ان شاءاللہ العزیز اس صوبے کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے اور اس سفر کو اس ترقی کے اس سفر کو جس کو جمعیت علماء اسلام نے ادھورا چھوڑا ہے اس کا بھی آغاز کریں گے۔ 

آپ کو یاد ہوگا کہ گوادر تک بین الاقوامی شہرا موٹروے کی صورت میں قائد جمعیت نے منظور کروائی بلوچستان کے اندر سے ان شاءاللہ گوادر تک اس شاہراہ کو پہنچا کر دم لیں گے ان شاءاللہ۔ آخری بار این ایف سی ایوارڈ اس صوبے کا جمعیت علماء اسلام کے مخلوط دور حکومت میں ہوا، اس وقت سے آج تک 20 سال گزر جانے کے بعد بھی اس صوبے کو 15 ہزار ارب روپے موصول ہوئے، افسوس ہوتا ہے کہ وہ 15 ہزار ارب روپے مختلف حکومتوں نے کرپشن کے نذر کر دیے ان شاءاللہ کرپشن کا یہ راستہ روکیں گے ان شاءاللہ، اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ ان حکمرانوں کی حکومتوں کو مزید نہیں چلنے دیں گے ان شاءاللہ العزیز، یہ پیغام آج قلعہ سیف اللہ سے میں ڈیرہ اسماعیل خان لے کر جاؤں گا ان شاءاللہ، اور وہاں پر مفتی محمود کانفرنس میں آپ کے اس والہانہ عقیدت کو جو مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ سے آپ نے ایک بار پھر ثابت کی اس کا بھی اظہار ان شاءاللہ وہاں جا کر آپ کے اور میرے قائد کو قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کو آپ کے اس شکریہ کے ساتھ پہنچائیں گے ان شاءاللہ۔

جمعیت علمائے اسلام نے اس صوبے کی جو خدمت کی ہے عملی اعتبار سے وہاں جب اس صوبے کا صوبائی بجٹ 87 ارب ہوا کرتا تھا آج اگر اس صوبے کا صوبائی بجٹ 1200 ارب تک پہنچا ہے تو یہ بھی جمعیت علماء اسلام کے مرہون منت ہے یہ بھی جمعیت علمائے اسلام کا کارنامہ ہے۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جےیوآئی سوات

#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments