قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جمیل سٹیڈیم بھکر میں فضلاء اجتماع سے خطاب
19 اکتوبر 2025
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ۔ بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ۔ صدق الله العظیم
جناب صدر محترم، اکابر علماء کرام، فضلائے عظام، علاقے کے معززین حضرات، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھکر میں اس سے پہلے بھی میں بہت سے اجتماعات سے خطاب کر چکا ہوں، لیکن آج کا یہ اجتماع بھکر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہے اور اس عظیم الشان اجتماع کے انعقاد پر میں جامعہ قادریہ، حضرت مولانا صفی اللہ صاحب، ان کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم، ان کے اساتذہ کرام اور جامعہ کے تمام کارپردازان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے آج یہ عظیم الشان اجتماع منعقد کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
یہ اجتماع جامعہ قادریہ کا سلور جوبلی ہے۔ 25 سال کی خدمات اور 300 سے زیادہ فضلائے کرام کی دستار بندی ہو چکی ہے، آپ کے سروں پر جو دستار ہیں یہ اس علم کا اعزاز ہے جو آپ اس جامعہ میں حاصل کر چکے ہیں، یہ ان اساتذہ کی محنت کی علامت ہے کہ جن محنتوں کے نتیجے میں آپ کو جامعہ کے فضلاء کا خوبصورت عنوان ملا ہے، اللہ تعالیٰ اسے مبارک فرمائے اور آپ سب کو اپنی ان پگڑیوں کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میرے محترم دوستو، ہمارے ہاتھوں میں جو دین ہے یہ کامل اور مکمل دین ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے۔ ہمارے اکابر علماء کرام فرماتے ہیں کہ اِکمالِ دین باعتبار تعلیمات و احکامات کے ہے، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک جن علوم کے ذریعے سے جن احکامات کے ذریعے سے انسانیت کو زندگی گزارنے کا نظام دیا ہے وہ اب کامل اور مکمل ہے۔ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے۔ ہمارے حضرات اِتمامِ نعمت کو تعبیر کرتے ہیں اس کامل دین کی حکومت و اقتدار سے۔ ہمارے استاد ہمیں پڑھاتے ہیں کہ جب کوئی چیز مطلق ذکر ہو تو خارج میں اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے، تو وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي، اس نعمت سے خارج میں اس کا سب سے کامل فرد اس نظام کا اقتدار ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس جب حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص لایا گیا اور آپ کے چہرے پہ ڈالا گیا، آپ کی بینائی واپس لوٹ آئی، تو آپ نے پوچھا کہ یوسف کو کہا چھوڑا ہو؟ تو جواب دیا کہ وہ تو مصر کے بادشاہ بن گئے، تو پوچھا کون سے دین پر چھوڑ کے آئے ہو؟ تو اس نے کہا علی دین الاسلام، وہ اسلام کو نافذ کرتے ہوئے میں چھوڑ آیا ہوں، تو آپ نے جواب دیا الآن تمت النعمہ اب ہوئی نا بات کہ دین نعمت تمام ہو گئی۔
حضرات علماء کرام یقیناً بہت سے شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے، اس امت کے اندر ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جن کو ابھی تک کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا، انہیں کسی نے نماز پڑھانی بھی نہیں سکھائی، وہ دین کے بنیادی احکامات سے بھی واقف ہے، اس محاذ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے اندر فتنے اٹھائے جا رہے ہیں، ہر فتنے کو روکنا یہ بھی امت کی ذمہ داری ہے، صرف علماء کرام کی نہیں امت کی ذمہ داری ہے چنانچہ اگر عقیدہ ختم نبوت پر کوئی حملہ اور ہوتا ہے اور اپنی نبوت کا فتنہ کھڑا کرتا ہے تو ایسے فتنوں کا راستہ روکنا بھی تو امت کا کام ہے۔
مشہور یہ کیا گیا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، اور شور مچ رہا ہے کہ آپ نے ان کو کیوں کافر کہہ دیا ہے؟ بھئی ذرا ان سے بھی تو پوچھو جو پوری امت مسلمہ کو کافر کہہ رہے ہیں! اور قومی اسمبلی میں جب جرح ہوئی اور حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے ان پر سوال کیا کہ آپ کا نبی کہتا ہے کہ جو مجھ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے پکا کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اگر آج ابوبکر صدیق زندہ ہوتے اور وہ آپ کے پیغمبر پر ایمان نہ لاتے تو آپ کے خیال میں وہ بھی کافر ہوتے؟ تو اس نے کہا ہاں وہ بھی کافر ہوتے۔ حضرت عمر کا نام لیا گیا حضرت عثمان کا نام لیا گیا حضرت علی کا نام لیا گیا حضرات حسنین کا نام لیا گیا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کہ اگر یہ ایمان نہ لاتے؟ تو جواب یہی تھا کہ ہاں یہ بھی مسلمان نہ ہوتے۔ اتنی بڑی جرات اور اور تب جا کر تیرا دن کی جرح کے بعد ایوان متفق ہو گیا کہ ہمیں تو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے اتنے گندے عقائد ہیں۔ اور پھر کہتا ہے مجھ پر اللہ کی وحی آتی ہے، جھوٹ کیوں بولتے ہو! اللہ کی وحی کہا آتی ہے، تم نے تو خود کتاب میں لکھا ہے کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں، تم نے خود لکھا ہے، تو کہیں انگریز کی وحی شاید آپ پر آتی رہی ہو خدا کی وحی کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
تو میرے محترم دوستو اس قسم کے فتنے پیدا ہوتے ہیں، پھر ہمارے ہی معاشرے میں ایسے لوگ پیدا ہوئے کہ انہوں نے امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک لابی پیدا کی کہ دوبارہ قادیانیوں کو مسلمان کا ٹائٹل دیا جائے، جمعیت علماء اسلام اس میدان میں مقابلے میں آئی اور الحمدللہ ہم نے ان کے ایجنڈے کو ناکام بنایا ہے۔ یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہوئیں، اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنا یہ تو فلسطین کی نفی ہے! جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دو، فلسطین ارض عرب ہے، ارض انبیاء ہے، اس سرزمین پر یہودیوں کو آباد کرنا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی نفی نہیں ہے؟ اور جب ایک صدی قبل دنیا کا عالمی ادارہ لیگ آف نیشن جو اقوام متحدہ سے پہلے بنا اور اس کی کمیٹی نے یہودیوں کے بارے میں سفارشات مرتب کئیں، جب یہودی یورپ میں پٹ چکے تھے دربدر تھے تو ان حالات میں ان یہودیوں کو کہاں آباد کیا جائے اس پر ایک کمیٹی بنی تھی اس وقت اور اس نے سفارش کی تھی کہ ان دربدر یہودیوں کو آباد کرنا یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے، جن یہودیوں کی آباد کاری عالمی برادری کی ذمہ داری قرار دینی چاہیے تھی وہ ساری ذمہ داری فلسطینیوں پہ کیوں ڈالی گئی! اس سفارشات میں کہا گیا ہے کہ سرزمین فلسطین پر ان کو آباد نہ کیا جائے، وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہاں خود فلسطینیوں کی آبادی بہت زیادہ ہے جسے انگریزی میں اوور پاپولیٹڈ ایریا کہتے ہیں لہٰذا یہاں پر مزید آبادی نہ لائی جائے، پھر اس سرزمین پر یہودیوں کو کیوں لایا گیا؟ ان سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین کی اقتصاد کمزور ہے اس کمزور اقتصاد کے اوپر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، پھر فلسطین کے اوپر یہ بوجھ کیوں ڈالا گیا؟ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کسی ملک کو ان کو آباد کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا پہلے ان کی رضامندی حاصل کی جائے گی پھر فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں کو کیوں مجبور کیا گیا؟ کہاں ہے تمہارے عالمی ادارے! کہاں ہیں تمہارے عالمی اداروں کی سفارشات! کہاں ہیں اقوام متحدہ کی قراردادیں! اور آج تک کی صورتحال یہ ہے، آج تک کہ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی وزیراعظم نے نیتن یاہو کو انسانی مجرم قرار دیا ہے، انسانی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا ہے اور اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، ایسے مجرم کو اقوام متحدہ میں بلایا بھی جاتا ہے، ان کی تقریر بھی کرائی جاتی ہے اور ٹرمپ صاحب اپنے پہلو میں بٹھا کر اس سے میٹنگ بھی کرتے ہیں اور پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں۔ جبکہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے بعد اس کا جہاز بھی کسی ملک سے گزر رہا ہو اس ملک کو یہ حکم ہے کہ ان کو اتار کر گرفتار کردے۔
اگر صدام حسین پر مقدمہ چلایا جاتا ہے کہ اتنے لوگوں کو قتل کیا ہے اور ان کو پھانسی چڑھایا جاتا ہے تو فلسطین کے عوام کا قتل عام جس میں 70 ہزار عام شہری جس میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے اور کوئی ایک لاکھ سے زیادہ وہ لوگ کہ جو بھوک کی وجہ سے شہید ہو گئے کہ جو بیماریوں کی وجہ سے شہید ہو گئے جن کو غذا نہ ملی جن کو دوا نہ ملی اور انہوں نے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کی، جہاں ڈیڑھ لاکھ تک لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اتنے بڑے جرائم کے بعد آج آپ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے! اور میں سفارتی اصول کی بنیاد پر بات کرتا ہوں ہم پہلے سے ہی جذباتی بات کر رہے ہیں پہلی سے اپنا کارڈ دکھا دیا ہم نے دو ریاستی حل! دو ریاستی حل بھئی ابھی تو اسرائیل کہتا ہے گریٹر اسرائیل عظیم تر اسرائیل اور اس دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ فلسطین کا کوئی وجود نہیں ہوگا اگر صہیونی قوت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا انکار کرتی ہے اور ابھی تک تو فلسطینی کہتے ہیں کہ صرف فلسطین کی ریاست ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، جب دو اصل مدعی اور اصل مد مقابل وہ اپنے اپنے موقف پر اول روز سے آج تک قائم ہیں دوسری دنیا پہلے انتظار تو کریں، اسلامی دنیا انتظار تو کرے، یہ تو جیسے جبراً آپ ایک حل مسلط کر رہے ہیں، چنانچہ اگر اس پہ کام ہو رہا ہے حماس اس وقت مد مقابل ہے جنگ لڑ رہا ہے جب تک فلسطین کا ایک فریق کسی ایک نتیجے پہ اتفاق نہیں کرے گا ہم اور آپ کون ہوتے ہیں یک طرفہ طور پر ان کا فیصلہ کرنے والے ہیں اور میں نے تو پاکستان کے حکمرانوں کو بھی کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچنا بھی نہیں ورنہ یاد رکھو پھر ہمارے شدید رد عمل کا انتظار کرو۔ مسلمانوں کی عزت و ناموس اور اس کے خون پر کوئی سودا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
میرے محترم دوستو! اگر آپ نے ان چیزوں کو سمجھنا ہے اور اس کے لیے کوئی کردار ادا کرنا ہے تو یاد رکھیں، یہی دینی مدارس ہیں جہاں سے تحریکیں اٹھتی ہیں، یہی سے نظریات پھوٹتے ہیں اور یہی سے امت کی رہنمائی ہوتی ہے۔ لیکن اگر میری ریاست خود قوم کو بھٹکانے میں لگ جائے اور عوام سے کہے کہ مدرسے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو بس مُلا لوگ پیدا کرتے ہیں، تو پھر ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ علم کو قدیم و جدید، دینی و عصری میں تقسیم تم نے کیا ہے، ہم نے نہیں۔ یہ تقسیم انگریز نے کی تھی اور تم آج بھی انگریز کی وراثت پر بیٹھے ہوئے ہو۔ یہ نظریات تمہارے پیدا کردہ ہیں، علم کو تقسیم تم نے کیا ہے۔ ہم تو قرآن والے لوگ ہیں، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سب چیزوں کا علم عطا کیا۔ اب بتاؤ، اس میں کہاں کوئی فرق کیا گیا کہ یہ دینی علوم ہیں اور یہ دنیوی؟ اللہ نے تو مطلقاً فرمایا کہ آدم کو سارے علوم دے دیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنی آدم کے اندر تمام علوم حاصل کرنے کی استعداد رکھی گئی۔
1857 سے پہلے کیا برصغیر میں مدرسے اور اسکول کا کوئی فرق تھا؟ برصغیر سے باہر آج بھی مدرسے اور اسکول میں کوئی امتیاز ہے؟ تو یہ تقسیم کس نے پیدا کی؟ یہ تقسیم تو علی گڑھ نے پیدا کی۔ جب انگریز نے علی گڑھ میں مدرسہ قائم کیا اور اس کا نظام مسلمانوں کے حوالے کیا مگر نصاب خود بنایا، تو اس نصاب سے قرآن، حدیث، فقہ اور فارسی زبان سب کچھ نکال دیا، حالانکہ فارسی اس وقت ہندوستان کی علمی و سرکاری زبان تھی۔ جب مسلمانوں کے تعلیمی ادارے سے قرآن، حدیث اور فقہ کو نکال دیا گیا تو سوچو آنے والی نسلیں کیا سمجھیں گی؟ وہ صرف یہ جانیں گی کہ ہم مسلمان ہیں، مگر اسلام کیا ہے، اس کا پتہ نہیں ہوگا۔ اور یہ بات کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ آج بھی ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں کے پڑھے لوگ قرآن و حدیث سے ناواقف ہیں۔ تقسیم تو تم نے کی، لیکن ہمارا دینی مدرسے کا طالب علم اپنے نصاب کے ساتھ ساتھ کالج اور یونیورسٹی کے امتحانات بھی دیتا ہے۔ صرف دیتا ہی نہیں، بلکہ تین سال مسلسل ہمارے مدارس کے طلبہ نے تمہارے بورڈز میں ٹاپ کیا۔ پھر بھی تمہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ مدرسے کی ضرورت کیا ہے۔ یاد رکھو، مدرسہ ردِعمل میں آیا ہے۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ جب مالٹا سے رہائی کے بعد واپس آئے تو ایک سال سے بھی کم زندگی پائی، مگر اسی عرصے میں علی گڑھ گئے اور وہاں کے طلبہ و اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ "میں اپنا مستقبل آج بھی کالجز میں دیکھ رہا ہوں، میں تمہاری رہنمائی چاہتا ہوں۔ آؤ، نصاب ایک کرو، یہ تقسیم ٹھیک نہیں ہے۔" پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے جو علماء آئے، ان میں حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ وہ 1947ء سے 1951ء تک حکومت سے مذاکرات کرتے رہے کہ اب نہ انگریز ہے نہ ہندو، آؤ مل کر ایک ایسا نصاب بنائیں جو پورے ملک کے لیے ہو اور اسکول و مدرسے کی تقسیم ختم ہو جائے، مگر بدقسمتی سے بیوروکریسی نے اس تجویز کو اہمیت نہ دی اور آخرکار حضرت کو دارالعلوم کراچی قائم کرنا پڑا۔ اب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے علماء اور مدارس کے خلاف۔ کبھی کہا جاتا ہے یہ پانچ وفاق کیوں ہیں، سب ایک ہو جاؤ، اور اب وہی لوگ خود پندرہ بیس نئے وفاق بنا چکے ہیں۔ یہ ہے ہماری بیوروکریسی اور ان کی نیتوں کا حال۔ میرے محترم دوستو! قانون بن چکا ہے۔ اب اگر قانون بن گیا ہے تو مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھلنے چاہییں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا حکم آ چکا ہے، تمام بینکوں کو ہدایت مل چکی ہے، تو پھر اکاؤنٹس کیوں نہیں کھل رہے؟ اگر رجسٹریشن صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں میں قانون سازی ابھی تک نہیں ہوئی، تو وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کیوں کرائی جا رہی ہے؟ اور اٹھارہ سو ساٹھ کے ایکٹ کے تحت کیوں نہیں؟ یہ سب کچھ اس جانبدارانہ رویے کا نتیجہ ہے جو تمہاری بیوروکریسی کے اندر جو تمہارا مائنڈ سیٹ بنا ہوا ہے یہی تصادم کی اصل جڑ ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں، بندے بنو، سمجھدار بنو، مجرم ہم نہیں، مجرم تم ہو۔ جہالت تمہارے اندر ہے۔ تم مدرسے کی حقیقت نہیں جانتے، تم اس کی ضرورت نہیں سمجھتے، اور الزام ہم پر لگاتے ہو۔ قوم کو گمراہ کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کرتے ہو، اینکروں کو استعمال کرتے ہو، روز کوئی نہ کوئی تبصرہ گھڑ لیتے ہو۔ مگر یاد رکھو، ہم اپنے مؤقف پر مطمئن ہیں، ہم اپنے برحق ہونے پر مطمئن ہیں اور تمہارے جبر پر بھی مطمئن ہیں لہٰذا نہ تمہارا جبر چلے گا اور نہ تم ہمیں اپنے جائز حق سے آپ ہمیں ہٹا سکیں گے ان شاءاللہ العزیز۔
ہم چاہتے ہیں آؤ مسئلے کو حل کریں، 2004 تک آپ کے اور ہمارے مذاکرات ہو رہے تھے، 2005 میں آپ نے اور ہم نے دستخط کئیں ہے، 2010 میں پھر ہم نے آپس میں دستخط کیے پھر آپ نے کچھ شرائط لائے ہم نے وہ بھی مان لیے، کہاں پر مدارس نے رکاوٹ ڈالی ہے لیکن آپ یہ سوچتے ہیں کہ ہم یہ تجویز دیں گے تو یہ انکار کر دیں گے پھر ہم ان کے اوپر ڈالیں گے کہ دیکھو یہ تو تجویز نہیں مانتے لیکن مدارس ہر معقول بات کو مانتے رہتے ہیں اور تم پھر شرارت کر کے اگلے دو تین شرائط اور شامل کرلیتے ہو، بدنیت تم ہو جھوٹ تم بولتے ہو اور یا پھر نا سمجھ ہو جاہل ہو، ایک بار تو ضرور ہماری بات مان لو ہم اس ملک کے بچوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتے میں اگر اپنے بیٹے کے بارے میں چاہتا ہوں کہ اس کو انگریزی آئے اس کو پولیٹیکل سانس آئے، اس کو جغرافیہ آئے، معاشرتی علوم آئے تو میں قوم کے بچوں کے بارے میں کہوں گا کہ نہیں ملنا چاہیے اس کو!
تو میرے محترم دوستو ان تمام چیزوں کو ہم نے اگے لے کے پڑھنا ہے، اور ان شاءاللہ العزیز یہ تحریک ہے، جمعیت علماء اسلام ایک تحریک ہے، ایک جدوجہد کا نام ہے، ہمارے اکابر نے ہمیں یہ روشنی دی ہے اور ہم ان کی دیے ہوئے روشنی میں چل رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں، میں نے کبھی بھی دیوبندیت کو مسلک نہیں کہا، دیوبندیت اہل سنت والجماعت کا نشاطِ ثانیہ ہے اسلام کی آفاقیت کا نام ہے، اسلام کے عالمگیریت کا نام ہے، یہ ایک کامل اور مکمل دین کا نام ہے، اس کے حاکمیت کا نام ہے، اس کے لیے جدوجہد کا نام ہے لیکن ہمیں فرقوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہم نے بھی اپنے فرقے کو اور مکتب فکر کو ایک دکان بنا دیا ہے کمائی کا، تو یہ ایک نظریے کا نام ہے، ایک فکر کا نام ہے، ایک عالمگیریت کا نام ہے، یہاں پر جب بات ہوتی ہے اور ختم نبوت کا ذکر ہوتا ہے تو ہم اپنے اکابر کا نام لیتے ہیں، تاثر یہ دیتے ہیں کہ شاید کسی اور مسلک کا کوئی بندہ اس تحریک میں شریک ہی نہیں رہا، بھئی یہ سارے مل کر اس میں بریلوی مکتب فکر کے لوگ بخاری کے ساتھ یہ سب لوگ شامل ہیں اہل تشیع کے لوگ تمام مکاتب فکر اس میں شامل تھے، سن 1974 میں یہ سارے لوگ اکٹھے شامل تھے، اسمبلی کے اندر یہ سب موجود تھے، یہ امت نے جھنگ لڑی ہے اس میں، اس کو خالص ایک مسلکی مسئلہ مت بنائیں، پوری امت اس موقف پر متحد ہے اور ان کے لیے قربانیاں دی اور ان شاءاللہ العزیز یہ جدوجہد جاری رہے گی یہ مدارس بھی قائم رہیں گے مدارس کا سلسلہ بھی قائم رہے گا اور او اگر کوئی مناسب تجویز ہے ہم آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
ہم اس میدان میں بخل سے کام نہیں لے رہے، ہم اس میدان میں تنگ نظری سے کام نہیں لے رہے اور ہم تو ملک میں ایک جمہوری ماحول چاہتے ہیں، جمعیت علماء اسلام ایک جمہوریت پسند جماعت ہے، جمہوری عمل سے ہم نے ایک آئین بنایا ایسا آئین کہ جس کے جس میں ملک کا نظام وہ اسلام ہوگا، قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی، اب لوگ جمہوریت پر بھی بحث کرنے لگ جاتے ہیں یہ اسلام ہے یا کفر ہے، اس سے بڑھ کر جہالت اور ہو نہیں سکتی، ہمیں آئین دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہمارے اکابر نے محنت کی ہے جدوجہد کی ہے، آج اگر کوئی جدوجہد کرتا ہے یہ اس کا حق ہے، اگر مظاہرہ کیا جاتا ہے یہ اس کا حق ہے، سیاسی جماعت ہو مذہبی جماعت ہو کوئی بھی عنوان ہو آئین اجازت دیتا ہے، قانون اجازت دیتا ہے اور اسی لیے ہم نے تحریک لبیک کے حق میں یکجہتی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے اوپر ہونے والا تشدد وہ نہ جمہوری ہے نہ قانونی ہے اور نہ آئینی ہے۔ لیکن ہم یہ بھی ضرور کہتے ہیں کہ تحریکیں بھی چلیں گی ہم نے بھی تحریکیں چلائی ہیں ملین مارچ کیے ہیں آزادی مارچ کیا ہے، 10 10 لاکھ اور 15 15 لاکھ لوگوں کو ہم نے پورے ملک میں اکٹھا کیا لیکن گملہ تک نہیں ٹوٹا، خراش تک کسی کو نہیں آئی، تحریکیں بھی پرامن ہونی چاہیے اور حکومت کو بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کسی کے حق کو سلب نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں فرقہ واریت کی طرف نہیں جانا چاہیے اس ملک میں سب نے رہنا ہے، اس میں ہندو نے بھی رہنا ہے، اس میں عیسائی نے بھی رہنا ہے، اہل کتاب نے بھی رہنا ہے، سکھوں نے بھی رہنا ہے اور جمعیت علماء اسلام کے تو اسمبلی میں ممبران اس میں ہندو بھی ہے اور اس میں سکھ بھی ہے اور اس میں عیسائی بھی ہے، تو ان ساری صورتحال میں ہمیں ایک قومی یکجہتی کی طرف جانا ہوگا، مسلک کو بچاتے بچاتے خون بہا دیتے ہو اور تعصب اور شدت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، بات وہی کے وہی کھڑی رہتی ہے، کیا فائدہ ہے ایسے شدت کی باتوں کا اور کیا فائدہ ہے ایسے تکفیریات کا کہ جس کے نتیجے میں سوائے نفرتوں کے اور کوئی چیز ہمارے ہاتھ نہیں تو ان سب چیزوں کو ہم نے اعتدال کے ساتھ لے کے چلنا ہے، اسلام نام ہے اعتدال کا اور اعتدال ہی کمال ہے، اعتدال نہ ہو تو یا افراط ہے یا تفریط اور افراط اور تفریط دونوں کمال نہیں ہے، تو دین اسلام دین اعتدال ہے وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً اور ہم نے تمہیں ایک میانہ رو امت بنایا، قرآن کریم کی اس میانہ روی کا تصور وہ ہمارے زندگی میں ہونا چاہیے۔ اور ہم جو مدرسوں والے ہیں ہم ہی تو دعویدار ہیں کہ ہم دین کا علم بھی حاصل کرتے ہیں اور علم پر عمل بھی کرتے ہیں، تو اگر میرا قرآن یہ درس ہے میانہ روی کا اور میری زندگی میں میانہ روی نہیں ہے تو میں نے کیسے قرآن کا علم حاصل کیا کہ میری زندگی اس کے مطابق نہیں جا رہی! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ فرماتے ہیں إنّما بعثتُ معلّماً، میں استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں اور دوسری جگہ فرماتے ہیں إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق، میں اعلی اخلاق پہنچانے کے لیے آیا ہوں۔ اب ایک ہے علم اور ایک ہے تربیت، تربیت وہی جو علم کے مطابق۔ تو دین اسلام کی ترجمانی کرو، جدید حالات کے ساتھ چلنا ہے ہم نے، آج اگر امریکہ کہتا ہے کہ میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں ہم کہتے ہیں سرمایہ کاری تو پوری دنیا میں ہوتی ہے امریکہ خود بھی بے نیاز نہیں ہے چائنہ بھی بے نیاز نہیں ہے روس بھی بے نیاز نہیں ہے برطانیہ جرمنی بھی بے نیاز نہیں ہے لیکن بین الاقوامی قوانین ہیں بین الاقوامی قانون کے تحت آؤ میرے ملک کی بھی قوانین ہیں آؤ میرے ملک کے قوانین کی بنیاد پر آؤ باقاعدہ معاہدہ کرو ہمارے پاس وسائل ہیں آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے دونوں کو ملا کر باقاعدہ ایک معاہدات کریں، کھل کر کریں، ملک کا بھی معلوم ہو کہ یہ ملک کا پیسہ ہے، صوبے کا بھی معلوم ہو کہ یہ صوبے کا حصہ ہے اور جس علاقے میں معدنیات ہیں وہاں کے عوام کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔ ہم مخالفت کرتے ہیں چوری چھپے معاہدات کی، عوام سے چھپا کر معاہدے نہ کیے جائے، پارلیمنٹ کو معلوم ہونا چاہیے، سب چیزیں ایوان کے سامنے آنے چاہیے تو ہم بین الاقوامی معاہدات کے کیوں مخالفت کریں گے لیکن ہمارے ملک کے وسائل ہوں اور دوسرے ان کے مالک بن جائیں اور اپنی قوم محروم رہ جائے اس سے ہم اختلاف کرتے ہیں، ہم نے ہمیشہ انصاف کی بات کی ہے اصول کی بات کی ہے۔ تو ان شاءاللہ العزیز یہ جدوجہد ہماری چلتی رہے گی جدوجہد جاری رہے گی اور پوری قوم کی آپ نے رہنمائی کرنی ہے اس نظریات کی بنیاد پر جمعیت علماء کے منشور اور اس منشور کے لیے جدوجہد کرنے کا رویہ، منہج اس کو اپنانا ہوگا اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں