قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا چنیوٹ چناب نگر میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب
30 اکتوبر 2025
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم۔ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ، صدق اللہ العظیم
جناب صدر مجلس، اکابر علماء کرام، مشائخ عظام، بزرگان ملت، میرے جوانو، دوستو اور بھائیو! عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے حسب معمول مجھے اس سالانہ کانفرنس میں دعوت دی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ اس میں میں شرکت کر سکا ہوں۔ اس اجتماع میں شرکت کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں، جو حضرات بھی اس اجتماع میں شریک ہیں اللہ رب العزت کو اپنی رضا کا سبب اور ذریعہ بنائے۔
میرے محترم دوستو! جس فتنے سے ہمیں واسطہ ہے اور ایک طویل عرصہ سے امت مسلمہ اس فتنے کا مقابلہ کر رہی ہے، ہمیں امت کے فقیروں کا تعاون حاصل ہے اور قادیانیت کو عالمی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جو اللہ کے دین کے لیے اٹھتے ہیں تو وہ میدان میں عالمی قوتوں کو شکست دیتے ہیں اور ختم نبوت کے محاذ پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں عالمی قوتوں نے خود مشاہدہ کیا کہ وہ چند فقیروں کے مقابلے میں ہار گئے، شکست کھا گئے۔
اللہ کا فضل ہے امت جاگ رہی ہے اور وقت وقت ہوتا ہے، پچاس سال گزرنے کے بعد ایک اور مرحلہ ایا جب سپریم کورٹ میں ایک بار پھر یہ معرکہ برپا ہوا اور الحمدللہ اللہ نے ہمیں ایسا وار کرنے کی توفیق دی کہ ایک صدی تک ان شاءاللہ وہ دوبارہ اپنی کمر سیدھی نہیں کر سکیں گے۔
میرے محترم دوستو! اج ایک بار پھر عالمی کفر متحد ہے اور میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں، علمائے کرام کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں، ختم نبوت کے مجاہدوں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اپنے حکمرانوں سے یا عالمی مسلم حکمرانوں سے اپ کو کسی خیر کی توقع ہو، توقع مت رکھیں، خود میدان عمل میں بیدار رہیں، زندہ رہیں، کسی کا باپ بھی دین اسلام کا بال بیکا نہیں کر سکے گا۔
میرے محترم دوستو! جہاں ختم نبوت کے محاذ پر ہمارے دوست، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رضاکار پہرا دے رہے ہیں، ہمارے عقائد ہمارا دین اس کی حاکمیت اور اس کی بقا پر مستحکم ادارے جو ہمارے دینی مدارس ہیں اج ان مدارس کو غیر موثر بنانے کی کوشش ہو رہی ہیں۔ دینی مدارس کے کردار کو ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، ہم نے جدوجہد کی، پارلیمنٹ سے قانون پاس ہوا مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے، مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کے حوالے سے اور قانون کی نظر انہی دینی مدارس پر تھی اس قانون کا موضوع یہی اتحاد مدارس تھا، تنظیمات مدارس تھا۔
ہمارے کچھ دوستوں نے شکایت کی کہ ہماری بھی تو تنظیمیں بنی ہیں، ہمیں تو مکمل نظر انداز کر دیا گیا ہے، ہم نے ان سے محاذ آرائی نہیں کی، ہم نے کہا ان کو بھی اپ ضمنا ڈال دے۔ اب ایک بات میں اپ کو واضح کر دوں کہ اگر ہمارے پاس حقیقی معنوں میں مدارس کا کوئی ادارہ ہے تو وہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہے یا دوسرے مکاتب فکر کے جو اتحاد مدارس کی تنظیمات سے وابستہ ہیں لیکن جب ان وفاقوں کو توڑا گیا اور ڈمی قسم کی تنظیمیں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے بنائی جس کا اس قانون سے ضمنا تعلق ہے اصلا کوئی تعلق نہیں، اج دینی مدارس کے ہاتھ مروڑ کر ان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ اپ بھی ان ڈمی قسم کے وفاقوں کا حصہ بنیں تب جا کر اپ کے رجسٹریشن ہوگی۔ میں اپ کو بتا دینا چاہتا ہوں، سرکار کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں، اسٹیبلشمنٹ کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ اپ کا یہ رعب داب نہیں چلے گا اور ہم نے انگریز کے رعب داب کو نہیں چلنے دیا اپ کس باغ کی مولی ہیں کہ اپ دینی مدارس کا راستہ روکیں گے، ڈمی مدارس تم نے پہلے بھی بنائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، اج تم اور ڈمی مدارس بناؤ، سینکڑوں میں بناؤ، ہزاروں میں بناؤ اور اعلان کر دو پچاس ہزار مدارس نے ہمارے ہاں رجسٹریشن کر لی ہے تمہارے پچاس ہزار بھی ڈمی ہے، تمہارے ایک لاکھ بھی ڈمی ہے، تمہارے دو مدرسے بھی ڈمی ہیں اور اگر حقیقی مدرسہ ہے تو وہ وہی ہے جو وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ ہیں۔
میرے محترم دوستو! ہمیں کچھ خیر کی توقع تھی کہ شاید پی ڈی ایم کی تحریک سے وابستہ مسلم لیگ نون کچھ تو عقل سے کام لے گی، اج انہیں ہمارے مساجد کے ائمہ کو دس ہزار روپے سے خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، محترمہ جان لو! یہ تجربہ خیبر پختون خواہ میں ہوا تھا اور چھ سات سال پہلے اس وقت بھی دس ہزار روپے تھے اور اج مولوی کے لیے وہیں دس ہزار روپیہ ہے، کوئی شرم انی چاہیے تمہیں، یہ دس ہزار روپیہ اس اسٹیج سے میں پورے مکاتب فکر اور تمام مدارس کی طرف سے اپ کے منہ پر مارتا ہوں۔ ہمارا مدرسہ ہو، ہمارے مدرسے کا استاد ہو، ہمارے مدرسے کا مہتمم ہو، ہمارے مدرسے کا طالب علم ہو، ہماری مسجد ہو، مسجد کا خطیب ہو، مسجد کا امام ہو یہ دنیا میں اپنی پہچان رکھتا ہے اور خودداری اس کا پہچان ہے۔ ہماری پہچان یہ ہے کہ ہم نے اس نظام کو اور اس تحریک کو جاری رکھا ہے تو سرکار کی مداخلت اور اس کے پیسے کے بغیر جاری رکھا ہے، اور ہم واضح طور پر اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس پہ اپ کی مداخلت کو قبول نہیں کیا جائے۔ تم نے تو تاریخ میں دینی علوم کو ذبح کیا، انگریز کے زمانے سے لے کر اٹھہتر سال تمہارے یہ سب کے سب دینی علوم اور مدارس کو ذبح کرنے کی تاریخ ہے تمہاری، اج بھی ہم اس کو اپ کے حوالے کر دیں، اپ پر اعتماد کر دیں، ہم میں اپ پر کوئی اعتماد نہیں تمہارے ہاتھ میں جو مدرسہ لگا وہ سکول بن گیا، تمہارے ہاتھ میں جو دارالعلوم لگا وہ کالج بن گیا اور اج وہاں کوئی دینی علم موجود نہیں، اس طرح کی تجربے تو ہم مزید روز روز نہیں کر سکتے۔
میرے محترم دوستو! امت مسلمہ مظلوم ہے اور جو کچھ اج فلسطین میں ہو رہا ہے جس طرح فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور جس طرح امت مسلمہ خاموش ہے، ضمیر خراٹے مار رہا ہے، کوئی احساس ان کو نہیں ہے کہ مسلم امہ پر کیا گزر رہی ہے، ستر ہزار عام شہری صہیونی قبضہ گروں کی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں، بیماریوں سے بھوک کی وجہ سے شہید ہو گئے، لیکن اسلامی دنیا کا ضمیر جاگ نہیں رہا اور جب بھی دیکھو ہمارے حکمران جہاز میں بیٹھ کر دوڑ رہے ہیں، کبھی قطر جا رہے ہیں تو کبھی مصر جا رہے ہیں، تو کبھی کہاں جا رہے ہیں، جب پوچھو کیا کر رہے ہو تو کہتے ہیں حضرت خون بہہ رہا ہے، خون روک رہے ہیں، ستر ہزار لوگوں کا خون بہہ گیا ابھی روک رہے ہیں۔ جب خون بہنا اور اس کا سلسلہ اب رک رہا ہے تو یہ بند کرنے کے لیے جا رہے ہے۔ اب تک کہاں سوئے ہوئے تھے، اب تک تمہارا یہ احساس کہاں خوابیدہ تھا کہ اج تمہیں ان مسلمانوں کی فکر ہو گئی اور ابھی بھی جو ہوا اور ہو رہا ہے ایک بات ہمیں اصولی طور پر مد نظر رکھنی چاہیے کہ اصل فریق فلسطینی ہے اور جنگ میں اصل فریق حماس ہے، جب تک وہ کسی معاہدے پہ اتفاق نہیں کرتے، ہمیں ٹرمپ اور ٹرمپ وغیرہ کی کسی کے فارمولے کو قبول نہیں کرنا، کوئی فارمولا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، ہم نے تاریخ میں بہت معاہدے دیکھے یاسر عرفات کے زمانے سے ان معاہدوں کو ہم دیکھ رہے ہیں، مصر کے ساتھ معاہدہ، اردن کے ساتھ معاہدہ، فلسطین کے ساتھ معاہدات اور تمام معاہدات میں اج تک اسرائیل کو مستحکم کیا جا رہا ہے اور فلسطین کو کمزور کیا جا رہا ہے اور معاہدہ بھی ہو گیا جنگ بندی بھی ہو گئی اور بمباری بھی جاری ہے۔ کدھر ہے ٹرمپ صاحب؛ میں نے جنگ بند کرائی، تم نے جنگ نہیں بند کرائی تم نے فلسطینیوں کو سیز کیا اور اسرائیلیوں کو فائر کیا، یہ سیز فائر ہے۔
تو ان تمام صورتحال میں ہماری نظر پوری امت مسلمہ پہ ہونا چاہیے، عقیدہ ختم نبوت نام ہے اس امت مسلمہ کا، کہ اس امت کے بعد کوئی امت نہیں ہے اور عالمی سازشیں ان کو ناکام بنانا ہے، اپنے حکمرانوں کو جھنجھوڑنا ہے، ہم جنگ کی حالت سے نہیں نکل رہے، ہمارے اسٹیبلشمنٹ جنگ پہ اترا رہی ہے او بھئی اللہ نے کوئی تھوڑا پردہ دیا ہے اس کا خیال رکھو، ورنہ مشرقی پاکستان بھی لوگوں کو نہیں بھولا اور کارگل بھی لوگوں کو نہیں بھولا، اج اگر تھوڑی سی عزت ملی ہے تو اتراؤ نہیں، انڈیا سے پنگا لیا اب افغانستان سے پنگا لینے کا شوق رکھتے ہیں اور ہمارے لوگ بیانیہ بنانے میں تو بڑے تگڑے ہیں ماشاءاللہ اپنے دامن کو ایسا دھوتے ہیں کہ اس پر داغ نظر نہیں آتا،
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو کہ کرامات کرو۔
تو میرے محترم دوستو! فلسطین اور فلسطین کی آزادی ہماری منزل ہے، امت مسلمہ کی منزل ہے، دینی مدارس کا تحفظ ہماری منزل ہے اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہماری منزل ہے۔ جنگیں نہ لڑا کرو، مصیبت یہ ہے کہ ہماری فوج جنگ بھی لڑتی ہے اور ہماری فوج مذاکرات بھی کرتی ہے، لڑنے والا مذاکرات نہیں کر سکتا اور مذاکرات والے لڑ نہیں سکتے۔ بھئی یہ کام ہمارے حوالے کرو ہم پہلے بھی کامیاب ہوئے ہیں، ہم اب بھی کامیاب ہوں گے ان شاءاللہ، لیکن پاکستان کو ہر طرف سے مت لڑاؤ، لڑنے والا بیان، جذباتی بیان، شعلے برسانے والا بیان یہ بہت اسان ہے لیکن سنجیدگی، متانت، تنازعات کا حل اور اپنی قوم کو اگ سے بچانا، جنگ کی اگ سے نکالنا یہ ہے اصل قیادت اور یہ ہے اصل سیاست، اگر اپ کو سیاست کرنا نہیں اتا تو پھر سیاست ہمارے حوالے کرو ان شاءاللہ خیر خیریت ہو جائے گی۔
تو میرے محترم دوستو! یہ پیغام لے کر اپ نے پورے ملک میں پھیلنا ہے اور ایک معقول سیاست کو اگے لے جانا ہے، میں حکومت کی طرف سے کسی بھی سیاسی ہو یا وہ مذہبی ہو ان کے مظاہروں کے حق کو روکنا، ان کے مظاہرے پر تشدد کرنا، ان پر گولیاں چلانا، اس کو مسترد کرتا ہوں اور کوئی بھی تنظیم ہو، اگر لبیک کی تنظیم ہو میں نے بڑی کھلے دل کے ساتھ ان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہے، لیکن اپنے بھائیوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ تحریکوں کے انداز اور سیاسی عمل کے اندر تشدد کا عنصر نہیں انا چاہیے، جب تحریک میں تشدد کا عنصر اتا ہے تو پھر وہ منزل پہ نہیں پہنچتی وہ راستے میں ٹوٹ جاتی ہے، وہ ہمارے صوفی صاحبان کہتے ہیں نا افضل کہ سب سے بہترین ذکر وہ ہے جس پر دوام کیا جا سکے۔ تو یہ جو تحریکات ہیں، یہ جو جدوجہد ہے، جہاد ہے، یہ جو معاملات ہم ذمے لے لیتے ہیں ان کو بھی ہمیں اس سطح پہ چلانا چاہیے کہ جس کو دوام حاصل ہو اور الحمدللہ جمعیت علماء اسلام نے بڑے بڑے ملین مارچ کیے، قانون کو سامنے رکھا، حالات کو سامنے رکھا، ایک خوبصورت حکمت عملی کے ساتھ اور اج بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت اگر اس محاذ پر ہے وہ جمعیت علماء اسلام ہے۔
تو اس تحریک کو ان شاءاللہ ہم نے اگے بڑھانا ہے اور یہ جو اپ کے اجتماعات ہیں، ماشاءاللہ اپ بڑے بڑے اجتماعات کر لیتے ہیں لیکن ان اجتماعات کو اپ چادر جھٹک کر یہی چھوڑ جاتے ہیں، ان باتوں کو پلو باندھیں، ساتھ لے جائیں، اپنی زندگی کی تحریک کا حصہ بنائیں، اپنی جدوجہد کا حصہ بنائیں جہد مسلسل کا حصہ بنائیں۔ ان شاءاللہ دنیا کے کوئی طاقت اپ کو شکست نہیں دے سکے گی۔
تو میں حکمرانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں ذرا سنبھل کے اپ لوگ چلیں ہم زندہ ہیں ان شاءاللہ، اتنا بھی اسان نہیں ہے کہ اپ جو چاہیں سر کر سکیں ہم بھی حالات کو سمجھتے ہیں اور حالات کو جانتے ہیں۔ ہم اب بھی اپ کو کچھ تھوڑا موقع دے رہے ہیں، اپ اس کا فائدہ اٹھائیں، جائز فائدہ، ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، ناجائز فائدہ اٹھاؤ گے تو کام خراب ہو جائے گا۔
تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور ان شاءاللہ اللہ کے مدد کی سے ہم چل رہے ہیں، اللہ کی مدد سے ہی کامیابی ملے گی، پورے خود اعتمادی کے ساتھ ہم نے اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں