مولانا فضل الرحمن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب

16 اکتوبر 2025

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

جناب صدر محترم! حضرات علماء کرام، بزرگان ملت، میرے بزرگوں، جوانوں، دوستوں اور بھائیوں، میرے قبلہ گاہ مفکر اسلام حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں یہ فقید المثال کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اج ہم سے جدا ہوئے پینتالیس سال گزر چکے ہیں لیکن اج بھی وہ اپ کے اور پوری امت کے دلوں میں زندہ ہیں، انہوں نے جس شجر سایہ دار کی ابیاری کی تھی اپ نے اپنی جدوجہد، اپ نے اپنی قربانیوں اور اپ نے اپنے محنتوں سے اس کو شجر سایہ دار بنایا، اس کے گھنے پن کو پھیلایا، اس کے سائے کو اپ نے پھیلایا اور اج وہ سایہ پورے آب و تاب کے ساتھ پوری امت پر سایہ فگن ہے اور ان شاءاللہ یہ تحریک بڑھتی چلی جائے گی اور جس طرح مفتی صاحب نے اپنی سیاست کے صرف بیس سالوں سالوں میں انقلاب برپا کر دیا، یہاں پر خوانین کا راج تھا، سرداروں کا راج تھا، انگریز کے غلاموں کا راج تھا، اپ نے ان کو چیلنج کیا، انہیں سرنگوں کیا، ان کے جبر کا خاتمہ کیا اور اج سیاست میں وہ نہیں ہے اور ان کا کارکن میدان میں دندنا رہا ہے۔ اج اپ زندہ ہیں، اج میدان اپ کے ہاتھ میں ہے، بڑھتے چلے جاؤ، یہاں تک پہنچے ہیں، اج اپ ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اس وقت عالمی دنیا کی گزرگاہیں اور سی پیک کے راستے سے اب اپ کے لیے اسلام اباد منزل گاہ کا انتظار کر رہا ہے، وہ اپ کے قدموں کا انتظار کر رہا ہے، وہ اپ کی فتح کا انتظار کر رہا ہے اور ان شاءاللہ اسلام اباد ان جابروں کا نہیں ہوگا، اسلام اباد ان کارکنوں کا ہوگا، ان کے اقتدار کا ہوگا۔

میرے محترم دوستو!

وہ جس کے عزم پہ قربان جوانیوں کا غرور

وہ جس کے عزم پہ قربان جوان کا غرور

وہ مرد پیر بھی کیسا شباب رکھتا تھا

اور وہ اپنی زیست کے لمحوں کی لاج رکھتا تھا

وہ اپنی زیست کے لمحوں کی لاج رکھتا تھا

اور وہ کل کو اپنے تصرف پہ آج رکھتا تھا

اور ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا

وہ ایک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا

جو اپنے پاؤں کے ٹھوکر پہ تاج رکھتا تھا

میرے محترم دوستو! جس راستے پہ ان کی ہڈیاں پگھل گئیں،جس نے اپنے بیس سالہ سیاسی دور میں پوری دنیا میں علماء کے مقام کو اٹھایا، اسلامی نظریے کو پروان چڑھایا، اپنے فکر کو انہوں نے پوری دنیا سے متعارف کرایا، اج اپ خوش قسمت ہیں، اپ اس نظریے کے وارث ہیں، اپ اس نصب العین کے وارث ہیں، اپ اس جری کے وارث ہیں، اپ اس انقلابی کے وارث ہیں اور ان شاءاللہ جس منزل کے لیے انہوں نے نشاندہی کی تھی اپ کے اور میرے لیے نشاندہی کی تھی اور ان شاءاللہ اب اس منزل کے ہم قریب پہنچ چکے ہیں۔

تو ہمت ہارے تو نہیں ہو نا، چھوڑو ان باتوں کو، اب اس کی اہمیت ختم ہو گئی ہے، پارلیمنٹ میں پانچ سیٹیں ہیں، دس سیٹیں ہیں، نہیں ہیں، پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، پارلیمنٹ گھر کی لونڈی ہے اب اسٹیبلشمنٹ کی، اب ایوان کی حیثیت نہیں، اب اس میدان کی اہمیت ہے اس میدان کی حیثیت ہے، یہ میدان زندہ ہے تو ہم زندہ ہیں، تم جانو اور تمہارے ایوان جانے، عیاشیاں کرتے رہو ہم تمہارے اس طرح کے جعلی ایوانوں کو اپنے جوتے کے نوک پر رکھتے ہیں۔

ہم جس جمہوریت کے علمبردار ہیں وہ جمہوریت آئین کی جمہوریت، اسلام کی علمبردار جمہوریت، قرآن و سنت کی علمبردار جمہوریت، عوام کی نمائندہ جمہوریت، ہم اس کے قائل ہیں اور اگر وہاں قرآن و سنت نہیں ہے، اگر وہاں اسلام کی سربلندی نہیں ہے، اعلائے کلمۃ اللہ نہیں ہے، وہاں غلامی ہے، ٹرمپ کی غلامی ہے، امریکہ کی غلامی ہے، غرب کی غلامی ہے تو ہم ایسے نظام پر لعنت بھیجتے ہیں۔

میرے محترم دوستو! مفتی صاحب نے ہر محاذ پر کارہائے نمایاں انجام دیے، اپ نے دینی مدارس کو منظم کیا، اپ نے وفاق المدارس کے قیام کی روح رواں کا کردار ادا کیا، اپ نے ایک اسلامی معاشرے کے لیے اسلام کی بنیاد ڈالی، اسلامی علوم کی بنیاد ڈالی، اسلامی اصول کی بنیاد ڈالی اور اپ دیکھ رہے ہیں اج اپنا محاذ بھی پہچان لو اور اپنے مد مقابل کا محاذ بھی پہچان لو، جہاں بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے، جہاں مغرب کی تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے، جہاں عریانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اس عریانیت کو 

 یہ لوگ اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں، جس عریانیت کو یہ روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہیں، ہم نے اس کے مقابلے میں اواز بلند کی ہے، یہ تمہاری روشن خیالی ہماری نظروں میں تاریکی ہے، جہالت ہے، جہالت کی تاریکی ہے۔ ہم اس سے مرعوب نہیں ہوتے ہم نے اس کو شکست دے دی ہے اور تمہارے ایجنڈے کو ناکام بنا دیا۔

میرے محترم دوستو! اپنے نوجوان کو اٹھاؤ، نئی نسل کو شعور دو، اس کو بیدار کرو اور ان کو بتاؤ کہ اپ کا مستقبل ٹرمپ کی سیاست نہیں ہے، اپ کا مستقبل یہود کی سیاست نہیں ہے، اپ کا مستقبل ہنود کی سیاست نہیں ہے، اپ کا مستقبل مفتی محمود کی سیاست ہے۔

میرے محترم دوستو! جب پاکستان ٹوٹ گیا، کس بنیاد پر ٹوٹا ؟ عوام کی اکثریتی ووٹ، اکثریتی رائے کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا گیا، عوام کے منتخب پارلیمنٹ کا اجلاس اس وقت کے جنرل یحییٰ خان نے کہا تھا کہ نہیں بلانا اور وہ اجلاس ملتوی ہوتا رہا، ہوتا رہا اور کہا گیا کہ اگر کوئی ڈھاکہ گیا تو ہم ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے، یہ مفتی محمود تھا جس نے اپنے وفد کی قیادت کرتے ہوئے ڈھاکہ کی سرزمین پر قدم رکھا اور کہا میں ملک کو توڑنے نہیں دوں گا۔ لیکن جب بڑوں نے فیصلہ کر لیا تھا، ملک ٹوٹ رہا تھا اور پاکستان بچا کچا پاکستان وجود میں ایا، ون یونٹ ٹوٹا، صوبہ سرحد وجود میں ایا تو اس کے پہلے وزیراعلی مفتی محمود بنے تھے اور زیادہ لمبا عرصہ نہیں گزرا، نو مہینے کے بعد جمہوریت پر شب خون مارا گیا، بلوچستان کی حکومت توڑی گئی اور جب بلوچستان کی حکومت توڑ دی گئی تو یہاں صوبہ سرحد کی حکومت کے وزیراعلی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اور پھر یہاں آئین بنا، پاکستان کا پہلا آئین، وہ پاکستان جسے سرزمین بے آئین کہا جاتا تھا، اس سرزمین کو آئین دیا گیا اور پہلی مرتبہ اس آئین میں قرار دیا گیا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، اس آئین میں یہ قرار دیا گیا کہ قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی اور یہ قرار دیا گیا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں ایا، اس کی سفارشات پر قانون سازی ہوگی۔ لیکن میرے دوستو 1973 میں جو اسلامی نظریاتی کونسل بنی، اس کے سفارشات مکمل ہوئے، پارلیمنٹ میں ائے لیکن اج تک کسی ایک سفارش پر بھی قانون سازی نہیں کی گئی، اس میں ڈکٹیٹروں کے دور بھی گزرے، ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر گیارہ سال حکومت بھی کی لیکن کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، قوم کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔

میرے محترم دوستو! وہی دور تھا جب قادیانیت کا کیس پارلیمنٹ میں لایا گیا اور قادیانی قیادت کو پارلیمنٹ کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا، دلیل کا میدان تھا، جذبات کا میدان نہیں تھا، نعروں کا میدان نہیں تھا، کتاب کا میدان تھا، کتاب کے حوالوں کا میدان تھا، تیرہ دن تک وہاں پر جراح ہوئی اور دلائل کی دنیا میں کتابوں کے حوالے سے مفتی محمود اور اس کی ٹیم نے قادیانیت کو ڈھیر کر دیا اور ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کا حصہ نہیں، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

میرے محترم دوستو! ہم نے دیکھا یہاں پھر کچھ لابیوں نے کام شروع کیا، قادیانیت کو دوبارہ بطور مسلمان کی تسلیم کرنے کی باتیں ہونے لگی اور ہماری عدالت عظمیٰ میں ایک چیف جسٹس نے ایک مقدمے میں ایک فیصلہ دیا جس سے قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دینے کی راہ نکلنے لگی، لیکن مفتی محمود کے وارث میدان میں ائے، عدالت کا میدان سجا، ہم وہاں پیش ہوئے اور ایک بار پھر قادیانیت کی پیٹھ پر ایسا ڈنڈا مارا، ایسی کمر توڑی کہ ایک صدی تک ان شاءاللہ وہ دوبارہ اپنی کمر سیدھے کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

میرے محترم دوستو! میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں بیوروکریسی کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں سیاست دانوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں حکمرانوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب 1977 میں پورے ملک میں الیکشن میں دھاندلی کی گئی، اس دھاندلی کے خلاف پورے ملک میں تحریک اٹھی، اس تحریک کی قیادت مفتی محمود نے کی تھی، چوری سے نتیجے برآمد کرنا، الیکشن میں دھاندلیاں کرنا اس کے خلاف سب سے پہلے بڑی تحریک کی قیادت میرے قائد نے کی تھی، مفکر اسلام نے کی تھی، ہماری گٹھی میں یہ بات ڈال دی ہے کہ ہم پاکستان میں چوری کا الیکشن تسلیم نہیں کریں گے۔

چوری ہوئی ہے 2018 میں بھی ہوئی، ہم نے کہا ہم تسلیم نہیں کرتے، 2024 میں ہوئی، پارلیمنٹ میں ہوئی، اس صوبے کی الیکشن میں چوری ہوئی، ہم نے نہ صوبے کی چوری کو تسلیم کیا نہ ہم نے وفاق کی چوری کو تسلیم کیا، نہ ہم نے 2018 کی چوری کو تسلیم کیا، نہ ہم نے 2024 کی چوری کو تسلیم کیا، اور لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ پاکستان کے عوام کو اس کے ووٹ کا حق واپس نہ دلا دے۔

میرے محترم دوستو! یہ وہ سیاست ہے جس کے نام سے کانفرنس منعقد ہو رہی ہے وہی اس نظریے اور اس اصول کے رہبر تھے۔ اگر ہم واقعی ان کے پیروکار ہیں تو پھر ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ ہم نے اصول کی سیاست کرنی ہے، جمہوریت کی سیاست کرنی ہے، اخلاق کی سیاست کرنی ہے، شائستگی کی سیاست کرنی ہے۔ ہم اختلاف کرتے ہیں، ہم اختلاف کریں گے، لیکن ہماری سیاست گالیوں کی سیاست نہیں، بدتمیزی کی سیاست نہیں ہے، بد اخلاقی کی سیاست نہیں ہے، فحاشی اور عریانی کی سیاست نہیں ہے، اعلیٰ اسلامی اقدار کی سیاست ہے۔

ان شاءاللہ جو راستہ ہمیں اپنے راہبر نے دکھایا ہے، ہم اس راستے پر استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں گے اور ان شاءاللہ آج اس ڈیرہ کا شہر جو آج گزرگاہ ہے اگر اللہ نے چاہا اسی راستے سے اسلام آباد پہنچیں گے اور اسلام آباد ہماری منزل گاہ ہوگی۔

میرے محترم دوستو! یہاں اس ملک میں ایک اور تحریک شروع ہوئی کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہمارا بڑا مفاد ہے، لیکن اپ کی طاقت تھی جو میدان میں نکلے، اس نظریے کو مارا، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم کو توڑا اور اج کسی کا مائی کا لال بھی پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جرات نہیں کرسکتا۔

میرے محترم دوستو! اپ کے حکمرانوں کے فلسفے اور ان کی معروضی سوچ وہ قرآن کے مستقل فیصلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، حکمرانوں کی لالچیں، لالچی نظریے، حرص کے نظریے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قطعی فیصلوں کی تردید نہیں کر سکتے، اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اللہ رب العزت نے یہودیوں پر قیامت تک لعنت بھیجی اور یہ وہ سازشی لوگ ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ جب بھی معاہدہ کریں گے یہ توڑیں گے، مسلسل معاہدے توڑیں گے، اج ایک بار پھر معاہدہ کیا جا رہا ہے، دنیا کا ٹرمپ خان ایا ہوا ہے وہ صلح کرا رہا ہے، ہم نے بہت سے صلحیں دیکھے، ہم نے امریکہ کے مداخلتیں دیکھی، ہم نے یورپ کے مداخلتیں دیکھی، اس سرزمین پر کتنے معاہدات ہوئے، کتنے معاہدات ہوئے، لیکن ہر معاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین کو کمزور کیا گیا اور اسرائیل کو طاقتور بنایا گیا۔ اج بھی ہمیں معاہدات کی وہ تاریخ نہیں بھولنی چاہیے اور ہمیں واضح طور پر اپنا یقین رکھنا چاہیے، ٹرمپ صاحب اج اپ کہتے ہیں میں خونریزی روکنا چاہتا ہوں، ہم جانتے ہیں ڈھائی سال تک، دو سال تک تم نے وہاں خون ریزی کرائی، ستر ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کرایا، اپ نے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے 2023 میں 21 ارب ڈالر کی امداد ان کو دی، اپ نے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے ان کو لڑاکا کر تیار فراہم کیے، ان کو راکٹ فراہم کیے، ان کو میزائل فراہم کیے۔ انہوں نے عام مسلمانوں کو، عام انسانیت کو تہہ تیغ کیا اور بارود و آہن کی بارشیں وہاں پر ہوئی، اپ مجھے بتائیں کہ اج جنیوا انسانی حقوق کنونشن کے اصول کسی عام شہری پر بمباری کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا افغان متحدہ کے انسانی حقوق کا چارٹر وہ محفوظ انسانیت پر اس طرح کی بمباری کی اجازت دیتا ہے؟ اپ نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو زخمی کیا ہے، اتنے ہی لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور بھوک کی وجہ سے، بیماریوں کی وجہ سے ہزاروں تک اموات پہنچ گئی ہیں، یہ انسانی جرم ہے، اسرائیل اور نیتن یاہو اس انسانیت، اس انسانی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور عالمی عدالت انصاف نے، عالمی عدالت انصاف نے نیتن یاہو کو انسانی جرم کا مرتکب قرار دیا ہے، اس کو سزا وار قرار دیا ہے، بجائے اس کے کہ اس کو مجرم سمجھ کر گرفتار کیا جائے، امریکہ میں اس کو گرفتار کیا جاتا، ٹرمپ نے اپنے پہلو میں کھڑے ہو کر ان کے ساتھ پریس کانفرنس کی، اج وہ اسرائیل ا کر ان کے اسمبلی سے خطاب کر رہا ہے، ہم مصلحتوں کی بات نہیں کر رہے، اصول کی بات کر رہے ہیں، میں اج بھی سمجھتا ہوں کہ اسلامی دنیا اور ان کے حکمران ہوش کے ناخن لے، جس قوم پر اللہ نے قیامت تک اعتماد نہیں کیا، جس قوم پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک اعتماد نہیں کیا، جس قوم کو اللہ اور اس کے رسول نے مسلمان کا بدترین دشمن قرار دیا، اپ کس امید پر ان کے ساتھ صلح کی طرف جانا چاہتے ہیں، ان سے کیا توقع وابستہ کرنا چاہتے ہیں اور لڑائی رہے گی، قیامت قریب ائے گی، یہی یہودی اور مسلمان اپس میں لڑیں گے، مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی درخت کے پیچھے چھپیں گے، پتھر کے پیچھے چھپیں گے، حدیث میں اتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب یہ پتھر کے پیچھے چھپنے لگیں، جب یہ درخت کے پیچھے چھپنے لگے تو اس وقت پتھر پکارے گا یا مسلم یا عبداللہ، اے مسلمان اے اللہ کے بندے، یہودی میرے پشت پہ چھپا ہوا ہے مارو اس کو، درخت کہے گا یا مسلم یا عبداللہ! خدا کی قسم تمہیں پتھر بھی پناہ نہیں دے گا، تمہیں درخت بھی پناہ نہیں دے گا اور تم نیست و نابود ہوگے، ان شاءاللہ مسلمانوں کے ہاتھوں تمہیں نیست و نابود ہونا پڑے گا۔

فرق واضح ہے، یہودی دجال کا انتظار کر رہے ہیں اور دجال کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں، مسلمان حضرت مہدی کا انتظار کر رہے ہیں اور وہ مہدی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں، ان شاء اللہ بالاخر فتح مسلمانوں کی ہوگی اور یہودیوں تمہارا منہ کالا ہوگا، تم پر مسلمان کبھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا۔

میں پاکستان کے سیاست دانوں کو بتانا چاہتا ہوں یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے ہیں جو احادیث میں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں اور قائد اعظم نے کہا تھا، قائد اعظم نے اسرائیل کی حکومت بننے کے بعد سب سے پہلا بیان دیا تھا کہ یہ ایک ناجائز ریاست ہے، اس نے جس کو ناجائز ریاست کہا اور جس کو انہوں نے عربوں کی پیٹھ پہ گھونپا ہوا خنجر قرار دیا، اج قائد اعظم کا نام لینے والے بانی پاکستان کے پیروکار کہلانے والے انہی کے اصول اور ان کے فیصلے کو روند رہے ہیں، تمہیں شرم نہیں اتی، اور صرف یہی نہیں جب اسرائیل وجود میں ایا تو اسرائیل کے سربراہ نے جو پہلا خارجہ پالیسی کا بیان دیا تو اس میں اس نے خارجہ پالیسی کی بنیادی اصول بتائے اور اس میں یہ بھی کہا کہ ہمارا نصب العین ایک نوزائیدہ ملک کا خاتمہ ہے اور وہ نوزائیدہ ملک پاکستان ہے، ان کی سوچ بھی واضح ہے، پاکستان کی سوچ بھی واضح ہے، ہم پاکستان کی سوچ کو قبول کرتے ہیں، ہم پاکستان کے اصول کو قبول کرتے ہیں اور جب تک ہم زندہ ہیں میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں اور ان ساری قوتوں کو آگاہ کرتا ہوں جب تک ہم زندہ ہیں تمہارا باپ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکے گا۔

میرے محترم دوستو! ہم نے اس ملک میں سفر کرنا ہے، اپنے نظریات اور اپنے اقدار کی حفاظت کرنی ہے، ہم اس ملک میں جنگوں کے متحمل نہیں ہے۔ذرا سوچو خدا کے لیے، حکمران ہو ذرا سوچو، سن 1950 سے لے کر امریکی قرضے لے لے کر تم نے اج تک صرف ان کے قرضوں پر اپنی زندگی گزاری، اج تمہارا حشر کیا ہے، ہندوستان معاشی لحاظ سے ترقی کر رہا ہے، چین ترقی کر رہا ہے، بنگلہ دیش ترقی کر رہا ہے، افغانستان کی حالت ہم سے بہتر ہے، ایران ترقی کر رہا ہے اور اس پورے خطے میں ایک پاکستان ہے جو ڈوب رہا ہے۔ کن پالیسی کی وجہ سے ڈوب رہا ہے، تمہارے غلامانہ پالیسیوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے۔ تمہارے اندر خودداری نہیں ہے، تم فکری لحاظ سے غلام ہو، تمہیں صرف اپنے قوم کے بچوں کو قتل کرنا اتا ہے، تمہارے اندر پاکستان کو ترقی دینے کی صلاحیت نہیں ہے، اج چین کا اعتماد اٹھ رہا ہے، خطے میں پاکستان تنہا ہو رہا ہے، ہندوستان ہمارا دشمن اور افغانستان سے بھی لڑائی، ایران سے بھی لڑائی، کہاں گئی ہماری خارجہ پالیسی، پرامن خارجہ پالیسی، پاکستان کے بقا و استقلال کی پالیسی، پروپیگنڈوں سے کچھ نہیں ہوگا، پروپیگنڈوں کی زبان روک دو، جنگ کی زبان روک دو، میں افغانستان سے بھی کہنا چاہتا ہوں، میں پاکستان سے بھی کہنا چاہتا ہوں، افغانستان پاکستان کی لڑائی نہ پاکستان کے مفاد میں ہے نہ افغانستان کے مفاد میں ہے۔ ایک طرف ہم انڈیا سے لڑے، دوسری سرحد پر ہم افغانستان سے لڑے، ہم نے پاکستان کو کہاں جا کر کھڑا کر دیا اور ہم جب بندی کے لیے کہہ رہے ہیں، صرف جنگ بندی کے لیے نہیں زبان بندی کے لیے بھی کہہ رہے ہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بولنا روکو، غلط پروپیگنڈے روکو، ایک بھی کہتا ہے میں بے گناہ ہوں دوسرا کہتا ہے میں بے گناہ ہوں، ایک کہتا ہے میں صرف دفاعی جنگ لڑ رہا ہوں دوسرا بھی کہتا ہے میں دفاعی جنگ لڑ رہا ہوں۔ ان چیزوں سے مقام نہیں بنتا، جمعیت علماء اسلام پہلے بھی کردار ادا کر چکی ہے اور اس سفارتی کردار میں ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، تمہاری پوری وزارت خارجہ جو مقصد حاصل نہیں کر سکی وہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے حاصل کی اور جب تم نے الیکشن میں دھاندلی کی اور جمعیت علماء اسلام اپوزیشن میں بیٹھی، بنی بنائی باتیں تمہارے ہاتھوں سے بگڑ گئی، تمہارے اندر تو معاملات، طے شدہ معاملات کو اگے بڑھانے کی اہلیت و صلاحیت بھی نہیں ہے۔ ہم اج بھی دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کردار کے لیے ماحول دینا پڑے گا، دنیا چاہتی ہے، امریکہ چاہتا ہے، مغرب چاہتا ہے کہ افغانستان میں اسلام کیوں ایا، امارت اسلامیہ کیوں قائم ہوئی، ان کے پیٹ میں درد ہے، ہم نے بہت پراکسی جنگ لڑ لی، کمیونسٹ آئے ہم نے مجاہدین کا ساتھ دیا، مجاہدین ائے اپس میں لڑے ہم نے دوسرے مخالف کا ساتھ دیا، طالبان آئے وہ لڑے ہم نے طالبان کا ساتھ دیا، طالبان کے خلاف ہم نے کرزئی کا ساتھ دیا، ہم نے اڈے دیے، امریکہ کو اڈے دیے، جہاز اڑائے اپ ہمارے فضاؤں سے گزرے اور افغانستان پر بمباری کرتے رہے، اج کہتے ہیں افغانستان پر قابض حکومت، قابض حکومت، کیوں بھئی قابض، کہتے ہیں جنگ کرکے ائے ہیں، عوام کے منتخب نہیں ہیں، تو میں نے کہا ملا عمر بھی تو جنگ کر کے ایا تھا وہ بھی تو عوام کے انتخاب سے نہیں ایا تھا تو اپ نے سرکاری طور پر ان کو تسلیم کیا یا نہیں، اپ نے ان کو وہاں سفارتخانہ لیا وہاں اور یہاں ان کو سفارت خانہ دیا، اپ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو سفارت خانے کے اعلیٰ معیار پہ قائم کیا، اج کیا ہو گیا ہے؟ اپنی قبلہ سیدھا کرو، دوسروں کے قبلوں پہ بحث نہ کیا کرو، اپنا قبلہ ٹھیک کرو۔ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں، ہم پاکستان کو ایک پرامن ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، پرامن ہوگا تو پھر اس کے بعد پاکستان معاشی ترقی کر سکے گا، اپنے پالیسیوں پہ نظر ثانی کرو، ملک میں اگر مسلح گروہ پھر رہے ہیں، تو پاکستان کے اندر تو مسلح گروہ موجود ہے اور جاتے ہو افغانستان میں بمباری کرنے کے لیے، تو درون درد چہ کر دی کہ بیرونِ خانہ آئی، تو نئی نئی باتیں بنانا اور معصوم بن کر جنگ کے لیے جواز فراہم کرنا، اب وہ وقت گزر چکا ہے، چالیس سال پینتالیس سال سے لوگ اپ کو اسی طرح دیکھ رہے ہیں، اپ ہمیشہ مظلوم ہوتے ہیں، اپ ہمیشہ معصوم ہوتے ہیں، اپ ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں، اس کے باوجود حالات کیوں ٹھیک نہیں ہو رہے، اپ پیچھے کیوں جا رہے ہیں۔ اپنی پالیسیوں پہ نظر ثانی کرو بیٹھو دوبارہ، اور میں اپنے حکمرانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دوسروں کا گلہ نہ کیا کرو، ذرا تھوڑا جی اپنے منجھی تھلے ڈانگ بھی پھیرو ذرا، کہیں تمہارے اندر گھس بیٹھیے اس طرح حالات تو نہیں پیدا کر رہے ہیں۔

اس کا احتمال افغانستان میں بھی ہے اس کا احتمال یہاں بھی، اُدھر بھی کچھ لوگ ہیں جو افغانستان کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں بھی کچھ لوگ ہیں جو پاکستان کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں، اور اگر ان دو ممالک میں نہ ہو تو یورپ اور امریکہ میں ضرور ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جنگ پھر سے شروع ہو۔

ہمیں امریکہ اور مغربی خواہشات کے تابع سیاست نہیں کرنی اور یہ کہنا کہ پاکستان، اور ہم تو پاکستان کے لیے کر رہے ہیں، ہم اتنے بھولے بھالے نہیں ہیں، مشرف نے کہا تھا سب سے پہلے پاکستان، ہم نے اس کو بھی کہا تھا جھوٹ بولتے ہو، تم کسی کے نمائندہ بن کر جنگ لڑ رہے ہو، اگر میں مشرف کے اس مؤقف کے خلاف علی الاعلان میدان میں ا سکتا ہوں، تو اج بھی میں میدان عمل میں سچی بات کر سکتا ہوں۔ ہم مرعوب ہونے والے لوگ نہیں ہے، ہم دباؤ میں ا کر بات کرنے والے نہیں ہے، ہاں ہم بہتر سوچنے والے، ہم ملک کے لیے سوچنے والے لوگ ہیں۔ ہم وطن عزیز کی بھلائی چاہتے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات اس کا درس ہمیں سیکھنا چاہیے اور یہ درس اگر سیکھنا ہے تو پھر مفتی محمود کے فلسفے اور نظریے سے سیکھو، وہی اپ کو بتائے گا کہ ملک کیسے چلتے ہیں، خارجہ پالیسی کیسے چلتی ہے، ملکی مفاد کے لیے کس طرح کام کرنا پڑتا ہے، طاقت کے نشے میں سمجھنا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں یہ بہت بڑی ایک گمراہی اور غلط فہمی ہے۔

تو میرے محترم دوستو! ان شاءاللہ العزیز مفتی محمود نے جہاں سے سفر شروع کیا اور جو نشان راہ ہمیں انہوں نے عطا کیا اج پاکستان کا ہر نوجوان، ہر طرف پھیلا ہوا وہ اج ان کے نظریے کو اگے بڑھا رہا ہے اور اسی طرح کانفرنسیں ان شاءاللہ ملک بھر میں ہوں گی اور ہوئی ہیں اور اپ نے تاریخ ساز اجتماع کیے ہیں اج کی اس تاریخ ساز اجتماع کی طرح اگر عوام کا جمیعت علماء اسلام پر اعتماد ہے اور بحر بے کراں جمیعت علماء کے جلسوں میں شرکت کرتی ہے، ان کی دعوت پر لبیک کہتی ہے تو پھر ان کے ووٹ کے ساتھ زیادتی کرنا اس کی بھی پھر ہم جنگ لڑنا جانتے ہیں۔

ان شاءاللہ العزیز یہ مشن جاری رہے گا، ٹھیک ہے، حوصلہ تو نہیں ہارو گے نا، تھکو گے تو نہیں، اکابر کی تعلیمات تو نہیں بھولو گے، ان شاءاللہ اسی راستے پر جائیں گے اور کامیابیاں حاصل کریں گے، بے فکر رہو، ان شاءاللہ مستقبل آپ کا ہوگا اور کامیابی آپ کی ہوگی اور ان شاءاللہ امن کے راستے یہ سفر ہمیں اپنے منزل تک پہنچائے گا۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

 ،‎ضبط تحریر: #محمدریاض #سہیل_سہراب

‎ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments