مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا موجودہ حالات پر پشاور میں اہم پریس کانفرنس

قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا موجودہ حالات پر پشاور میں اہم پریس کانفرنس

08 اکتوبر 2025

آپ سب کا بہت شکریہ کہ مجھے بات کرنے کا موقع عنایت فرمایا، میں اپنی بات کا آغاز یہاں سے کرنا چاہوں گا کہ سولہ اکتوبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں تاریخی، فقید المثال مفتی محمود کانفرنس ہوگی اور اس کے لیے ایک امن مارچ کوہاٹ سے روانہ ہوگا جو جلسہ گاہ پہ اختتام پذیر ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا جب سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو طوفان الاقصی شروع ہوا تھا تو اس وقت یہاں پشاور میں مفتی محمود کانفرنس تھی جس کے ساتھ ہم نے طوفان الاقصی بھی شریک کر لیا تھا اور وہ بھی جلسے کا عنوان اور موضوع بنا تھا۔ اب بھی ان موجودہ حالات میں جو مسائل اہل غزہ پر ڈھائے گئے، ستر ہزار کے قریب وہاں بچے، خواتین نوجوان، بوڑھے جو غیر مسلح تھے، عام شہری تھے وہ شہید ہو چکے ہیں اور جو اموات وہاں پر بھوک کی وجہ سے ائی ہیں، غذا نہ ملنے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے ائی ہے، دوائیاں مہیا نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس سے تو پھر تعداد لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں ہم نے امن مارچ کے ساتھ اسرائیل مردہ باد کا عنوان بھی شامل کیا ہے اور اس کانفرنس میں ہم اہل غزہ کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا اظہار کریں گے، یہ ایک عوامی اجتماع ہوگا اور عام پبلک اس میں جائے گی، اس میں شریک ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ملک کے اندر جو ہمارے معروضی مسائل ہیں وہ بھی زیر بحث اتے ہیں لیکن خصوصی طور پر یہ عنوانات اور یہ موضوعات اب ہمارے اس اجتماع کا حصہ رہیں گے۔ اس سے اگے اگر آپ کے کوئی سوالات ہیں تو فرمائیے تاکہ میں اس کے جوابات دے سکوں۔

سوال و جواب

صحافی: مولانا صاحب موجودہ صورتحال پر اپنا تبصرہ کیجیے، جہاں ایک طرف جو ہمارے بیرونی دشمن ہیں وہ اپنے ناخن تیز کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف اندرونی جو اختلافات سامنے آرہے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، معافی بھی مانگی جاتی ہے، آپ اپنا اس پہ پوائنٹ آف ویو واضح کیجیے گا مولانا صاحب، کے اس موجودہ صورتحال میں سیاسی تناظر میں اس کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے ہمیں ہر وہ بات کرنی چاہیے کہ جو حقیقت پسندانہ ہو، بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر ہمیں پسند نہیں ہوتی لیکن ہمیں پس پردہ حقیقت کا بھی علم نہیں ہوتا اور ہم ہوا میں پتھر پھینک دیتے ہیں اور کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ پتھر کہاں جا کے لگتا ہے۔ جس سے سوائے اور پشیمانی کے اور کچھ نتیجہ سامنے نہیں اتا۔ تو اس حوالے سے میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف جو لوگ کورٹ میں گئے ہیں یہ تو ہر ایک پاکستانی کا حق ہے کہ اگر اس کو کسی مسئلے پر آئینی، قانونی حوالے سے اعتراض ہو تو وہ کورٹ میں رجوع کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے پی ٹی آئی کے دوست وہ کس طرح فریق بن گئے اور کس طرح وہاں پر یہ کہہ کر کہ ہم تو ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آئے ہیں۔ تو یہاں دو باتیں ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم میں جو بھی ہماری گفتگو حکومت کے ساتھ چلتی رہی اور ہم نے جس طرح ان کو 34 یا 35 شقوں سے دستبردار کیا اور پھر اس کے بعد جو اکیس یا بائیس نکات رہ گئے تھے، اس میں ہم نے شامل کرایا کہ سود کا خاتمہ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر بحث اور قانون سازی کی منزل تک ان کو پہنچانا اور وفاقی شرعی عدالت کو طاقتور بنانا، ان کے اختیارات میں اضافہ کرنا، ان کے فیصلوں کو مؤثر بنانا، یہ شقیں ہم نے شامل کی اور اس طرح کل ستائیس شقوں پر مشتمل چھبیسویں ویں ترمیم تیار ہوئی، پھر ایسا بھی نہیں کہ کوئی چھپ چھپا کر میں انتہائی احترام کرتا ہوں ہمارے بڑے سینیئر وکیل ہیں حامد خان صاحب اور علی ظفر صاحب، کہ وہ ہمارے ساتھ آخری نشست میں موجود رہے اور ان کی تائید حاصل کرنے کے بعد ہم نے پریس کانفرنس کی، وہ پریس کانفرنس بھی مشترکہ تھی، پھر سینٹ کے اجلاس میں اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں انہوں نے ہماری تعریف کی اور حکومت نے بھی ہماری تعریف کی، انہوں نے پینتیس نکات سے دستبردار ہونے کا کوئی شکوہ نہیں کیا اور یہاں سے پینتیس نکات سے دستبرداری پر ہماری تائید کی گئی، اتنا کچھ ہونے کے بعد آج کیا ہو گیا ہے، پھر یہ بات کہنا کہ ہم ججوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے آئے ہیں جیسے اسد قیصر صاحب نے آج بیان دیا ہے، یعنی کیا اس کیس کے اندر واقعی ججوں کا کوئی مفاد وابستہ ہے اور جس معاملے میں کسی جج کا مفاد وابستہ ہو جائے کیا جج پھر اس کیس کو سن سکتا ہے۔ تو اس طریقے سے صورتحال کو مشکوک بنایا جا رہا ہے جیسے کہ نہ کوئی سیاسی تجربہ ہے، نہ قانونی آئینی حوالے سے کوئی تجربہ ہے اور ہم صرف سیاست جیسے وہ ہم کہتے ہیں سیاست ہو رہی ہے۔ تو جو چیزیں طے شدہ ہوتی ہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ اس پر ہم آپس میں ڈیبیٹ کریں۔ پی ٹی آئی ہمیں دعوت دے، ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ ہم اس بات کو جانچیں کہ اس وقت جب کوئی اعتراض باقی نہیں رہا تھا اس کے بعد کون سے اعتراضات سامنے ائے ہیں کہ جس کے اوپر عدالت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

تو ان چیزوں کو بھی ہمیں بڑے سنجیدگی کے ساتھ متانت کے ساتھ سوچنا چاہیے اور نئے کٹے ہمیں نئے کھولنے چاہیے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ وفاق میں مینڈیٹ چوری ہوا ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے، بالکل اسی طریقے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں اور بلوچستان میں مینڈیٹ چوری ہوا ہے اور جے یو ائی کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔ تو اس حوالے سے جو ڈیڑھ سال گزر گیا ہے اور ہم ان کی خدمت میں درخواست کر رہے ہیں کہ باقاعدہ کسی اتحاد کی طرف جانے سے پہلے جمیعت علماء اسلام کی تحفظات کو دور کیا جائے وہ نظریاتی ہیں، کل وقتی نہیں ہے کہ آج کسی ایک خاص مسئلے کے لیے ہم اٹھ کھڑے ہوں اور کل وہ مسئلہ رہے یا نہ رہے، نہ کسی معروضی مسئلے پر ہم بات کر رہے ہیں، نہ کوئی وقتی مسئلے پہ بات کر رہے ہیں، باقاعدہ کچھ نظریاتی معاملات تھے جس پر ہم گزشتہ کوئی بیس سال سے گفتگو کرتے چلے آ رہے ہیں۔

تو ان ساری چیزوں کو، تحفظات کو دور کرنے میں ان کو دلچسپی ہونی چاہیے تھی اس کو اہمیت دینی چاہیے تھی اور ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن اب تک ناخن برابر بھی کوئی پیشرفت انہوں نے نہیں دکھائی اس حوالے سے، تو ہم اب بھی منتظر ہیں کہ اگر وہ جمیعت علماء اسلام کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے تیار ہیں، یہ بات نہ کی جائے کہ کسی معروضی وجوہ کی بنیاد پر کسی کے بارے میں آپ کہیں گے کہ یہ اپوزیشن کا ساتھ نہیں دے رہے، یہ تو حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، ایسی باتیں نہیں ہیں۔ ہم بڑے سنجیدہ سیاسی لوگ ہیں اور سنجیدہ موضوعات کو اٹھاتے ہیں، سیاست میں ہم گپ شپ اور مذاق پر یقین نہیں رکھتے اور نہ یہ کوئی طنز و مزاح کا ایک میدان ہے کہ پوائنٹ سکورنگ کی جائے بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ مسائل اٹھائے جائیں، بات چیت کی جائے اور پھر جب ہم دونوں وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھے ہیں تو ہمارے اندر بات چیت کے لیے کیا معنی ہیں، ہم ہر وقت بیٹھ سکتے ہیں لیکن دلچسپی ڈیڑھ سال سے کیوں نہیں دکھائی جا رہی۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے کہ اس وقت حکومت اور حکومتی اتحادیوں کے درمیان جو محاذ آرائی چل رہی ہے ملکی مسائل پر، ایک طرف پنجاب اور سندھ، دوسری طرف سے این پی اور مسلم لیگ، یہ آپس میں الجھے ہوئے ہیں ایک دوسرے کے خلاف، کیا یہ کوئی ڈرامہ بازی ہے؟

مولانا صاحب: حضرت میں کسی کی داخلی معاملات میں تو مداخلت نہیں کروں گا، نہ میں نے آج تک کوئی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کی اتحاد پر کوئی بات کی ہے البتہ اتنا ضرور کہا تھا کہ میری نظر میں پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ہے، اس کے پاس صرف ریاستی عہدے ہیں حکومت میں کوئی عہدہ ان کے پاس موجود نہیں ہے، کیا اس صورتحال میں وہ صرف حکومت کی حمایتی ہے، کیا صرف وہ کسی وقت ووٹ دینے کی پابند ہے یا وہ باقاعدہ حکومت کا حصہ ہے۔ تو یقیناً وہ حکومت کا حصہ تو نہیں تھے جس کی بنیاد پر میرا مؤقف یہ تھا کہ اقلیت حکومت کر رہی ہے۔ تو یہ بحران جو پاکستان کے اندر سیاسی لحاظ سے ایا ہے یہ 2024 کے فروری کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے ایا ہے، یہ حرکتیں کیوں کی جاتی ہیں کہ جس سے سیاستدان بدنام ہوں، جس سے سیاسی لوگ آپس میں الجھے، جس سے سیاستدان ایک دوسرے کو گالیاں دیں، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں اور پھر تو ظاہر ہے جی کہ عوام کی دلچسپی تو سیاستدان میں ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ یا بیوروکریسی تو پس پردہ کھیل رہی ہوتی ہے۔

تو اس ساری صورتحال میں جو لوگ اصل ذمہ دار ہیں دھاندلی کرنے کے، مینڈیٹ چوری کرنے کے، ہمیں اس طرف بھی بات کرنی چاہیے۔

صحافی: مولانا صاحب پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، پاکستان حکومت کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں ان کے ٹھکانے ہیں، یہ تربیت وہاں سے لے رہے ہیں، لیکن افغان حکومت نے اس کا تردید کیا اور انہوں نے کہا کہ ہماری زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو رہا، تو آپ کیا کہہ رہے ہیں اس حوالے سے؟

مولانا صاحب: افغانستان کی سرزمین ہو یا پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف اسے استعمال نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم یہ تردید کر سکتے ہیں کہ افغانستان میں جو بیس سال سے جنگ رہی تو پاکستان سے مجاہدین نہیں گئے اور کیا اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں نہیں گئے، کیا کرزئی صاحب نے یا اشرف غنی نے وہاں سے احتجاج کیا کہ پاکستان سے مداخلت ہو رہی ہے افغانستان کے اندر، کیا بیس سال کی اس جنگ میں ہم نے امریکہ کو اڈے نہیں دیے، ہم نے امریکہ کو فضائیں نہیں دی، ان اڈوں اور فضاؤں سے گزر کر افغانستان پر حملے نہیں کیے گئے، وہاں کے طالبان حکومت نہیں پلٹی گئی، بیس سال تک بمباریاں ہوئیں کیا وہاں سے کوئی شکایت آئی کہ آپ کے سرزمین سے جہاز اڑ رہے ہیں، آپ کے فضائیں استعمال ہو رہی ہے، ہم پر بمباریاں ہو رہی ہیں، تو اگر آدمی خود مضبوط ہو، ان کے اعصاب مضبوط ہوں اور خود اعتمادی اندر موجود ہوں تو پھر مسئلہ بنانے کے لیے بہانے تلاش نہیں کرنی چاہیے۔ کیا آج تک اگر یہاں پر افغانی پکڑے گئے ہیں یا افغانی مارے گئے ہیں، کوئی افغانستان کے امارت اسلامیہ سے احتجاج ایا ہے کہ ہمارے لوگوں کو کیوں مارا ہے، یا ہمارے لوگوں کو کیوں گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف آپریشن کیوں کیا گیا ہے۔

تو اس لیے ایک طرفہ طور پر سوائے اس کے کہ ہم افغانستان میں دوبارہ ایک بے قراری کی طرف جائیں گے اور کیا ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ افغانستان میں استقلال نہیں چھوڑنا، وہاں ہم نے بے قراری رکھنی ہے اور پھر اپنا دامن صاف رکھنا ہے اور سارا گند دوسرے کے دامن پہ پھینکنا ہے، خود صاف اور شفاف بن کر بے گناہ بن کر دوسروں کو گنہگار قرار دینا یہ ایک پالیٹکس ہے اور ہمیں اس پالیٹکس سے نکلنا چاہیے۔ بے قرار اور غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہو سکتا اور افغانستان کے اور بھی پڑوسی ہیں لیکن سب سے طویل ترین سرحد پاکستان سے ملتی ہے کوئی ڈھائی ہزار کلومیٹر پاکستان کے ساتھ مل رہے ہیں اس کے، اس کے دونوں طرف ایک ہی قوم آباد ہے اور وہ پشتون قوم ہے۔ تو کیا ان طریقوں سے ہم پشتون قوم کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ساری وہ پالیسیاں ہیں کہ جس پر میں سمجھوں گا کہ ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے، پاکستان کا چپا چپا ہمیں عزیز ہے، ہم پاکستان کے چپے چپے کے لیے قربانی دینے کو تیار ہیں، اگر انڈیا کے خلاف جنگ ہوتی ہے ہم نے ایک صف ہو کر فوج کے پشت پر کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا اور آج بھی ہم اسی جذبے سے بات کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ جب معاملات پیچیدہ ہوں تو اس کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہم اپنے ملک کے ساتھ ہیں، ملک کے وفادار ہیں، ملک کی بہتری کے لیے سوچیں گے اگر حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کوئی غلط فیصلے کرتی ہے یا وہ ملکی مفاد کے خلاف ہمیں نظر اتے ہیں، اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور نشاندہی کرنا ہمارا حق ہے۔

صحافی: مولانا صاحب یہاں پہ وزیراعلی کی تبدیلی کی خبریں چل رہی ہیں اگر ایسا ہوا تو کیا آپ کی جماعت خیبر پختون خواہ اسمبلی میں اگر ان کو ضرورت پڑی کسی ایک گروپ کو، تو اس کو سپورٹ کریں گے پی ٹی ائی کے اندر؟

مولانا صاحب: ابھی تک تو یہ بات کوئی زیادہ واضح نہیں ہے اور سوشل میڈیا پر کچھ خبریں چل رہی ہیں تو اس لیول پر اکر میں کوئی پارٹی پالیسی نہیں بتا سکتا، نہ ہم اس طریقے کے اوپر کھڑے ہو کر ہم کوئی فیصلے کرتے ہیں۔ جو بھی صورتحال بنے گی اس پر ہماری نظر ہے اور سنجیدگی کے ساتھ اس ساری صورتحال کو دیکھا جائے گا، البتہ یہ بات تو بڑی واضح تھی کہ صوبے میں بد امنی انتہا پہ ہے، کرپشن انتہا پہ ہیں اور کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، کوئی رٹ حکومت کی نہیں ہے۔

تو ظاہر ہے کہ اگر اس کا ادراک خود پی ٹی ائی نے کر لیا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے اور اب وہ کیا فیصلہ سامنے ا رہا ہے کیا ہوگا آگے، تو جو جو صورتحال سامنے آئے گی ہم اس کے اوپر اپنا مؤقف دیں گے ان شاءاللہ

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا بلوچستان میں کچھ عرصہ پہلے مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے بل پاس ہوا تھا اس میں نے یو آئی کے اراکین کہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا تھا، ان کو باقاعدہ شوکاز دیے گئے ان کا کیا بنا اور دوسرا سوال یہ کہ آپ نے ہمیں یہاں پہ کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں اگر اس طرح بدامنی جاری رہی اور حکومت نے اس طرح غیر سنجیدگی دکھائی تو پھر جو ہے جے یو آئی مزاحمت پر اتر آئے گی۔

مولانا صاحب: مجھے بھی یاد ہے کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی تھی لیکن جہاں تک منرلز اینڈ مائنز ایکٹ کا تعلق ہے تو اس پر یقیناً ہم نے یہ کہا تھا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے، صوبے کے حقوق کا مسئلہ ہے اور اسی طریقے سے صوبوں کی حکومتوں کو بے اختیار اور بے خبر رکھتے ہوئے ایسی چیزیں لانا، اب ظاہر ہے کہ اگر بلوچستان میں حکومت ایسا بل لاتی ہے تو وہ بھی اس کی اپنی سوچ نہیں ہو سکتی، کہیں سے ان کو کاغذ پکڑوا کر اس میں ملایا گیا ہے، اگر یہاں پر بھی کوئی ایسی چیز آئی یا انی تھی، تو بھی ان کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ صوبہ کیا ہے اور صوبے کے اختیارات کیا ہیں، تو اس پر بلوچستان میں مسئلہ پیدا ہوا تھا کہ ہمارے کچھ ایک آدھ رکن نے اس کا ساتھ دیا تھا، جس پر ہم نے جو متنبہ کیا اس کو شوکاز دیا، اس کی رکنیت معطل کی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے، لیکن میرے سامنے غلط تصویر پیش کی گئی اور اس کا معاملہ ختم ہوگیا جی، تو اب وہ دوبارہ اگر کوئی بل لائیں گے تو پھر مشاورت ہوگی، بات چیت ہوگی کہ کیا کا رہے ہیں، باقی رہی بات یہ کہ اس وقت ہمارے صوبے میں یا بلوچستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کی بات چل رہی ہے اور امریکہ بہت بڑی دلچسپی لے رہا ہے ان دو صوبوں کے پہاڑوں میں، معدنی ذخائر کے حوالے سے سرمایہ کاری میں، اور چائنہ اور روس بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ایک بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ قوم کو بے خبر نہ رکھا جائے، ہم سرمایہ کاری کے خلاف نہیں ہے، سرمایہ کاری تو امریکہ میں بھی ہوتی ہے، وہ بھی نیاز نہیں ہے، رشیا میں بھی ہوتی ہے، چائنہ میں بھی ہوتی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں جو ہیں وہ ہر جگہ پر انویسٹ کرتی ہے تو اگر امریکہ بھی انویسٹ کرتا ہو اور ہمارے ملک میں کرتا ہو تو یہ کھلا معاہدہ ہونا چاہیے، ہمارے پاس اگر وسائل ہیں اور ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے ہمیں شراکت داری میں باقاعدہ اپنے ملک کا حصہ متعین ہونا چاہیے، عوام کا حصہ متعین ہونا چاہیے، صوبے کا حصہ متعین ہونا چاہیے، جس علاقے میں یہ معدنی ذخائر اٹھتے ہیں اس علاقے کے عوام کا حصہ معلوم ہونا چاہیے، اس ضلعے کا حصہ معلوم ہونا چاہیے۔

تو یہ سارے حقوق ہیں جو ہمارے عام لوگوں کے ہیں جس ضلع میں یہ معدنی ذخائر اٹھتے ہیں اس ضلعے کے عوام کے حقوق ہیں، ان کی ملازمتیں ہیں ان کے روزگار کا مسئلہ ہے اور ان کے رائلٹیز کا مسئلہ ہے، وہ ساری چیزیں ان کے حقوق واضح ہونی چاہیے، یہ جو ہم چھپ چھپا کے کسی ایک خاص ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں اور ملک اور ملک کے عوام کے مفادات کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں اس سے مشکلات پیدا ہوتی ہے، تو اگر کھلے عام اس قسم کے معاہدات ہوتے ہیں پبلک کے سامنے ساری صورتحال اور تفصیل رکھی جاتی ہے، پارلیمنٹ میں یہ ساری صورتحال اتی ہے اور وہاں پر ڈسکس ہوتی ہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

صحافی: جو اس وقت صورتحال ہے تو کیا ایکشن ایکٹ قوانین کو آپ واپس لینے کا مطالبہ کریں گے جو خیبرپختونخواہ میں اس وقت موجود ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے بات یہ ہے کہ ایک کام ایک دفعہ ہو جاتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ہم نے اس وقت اس قانون پہ اعتراض کیا تھا یہ تو جیسے آپ ہمارے دفاعی اداروں کو ضلعوں کی حد تک انوالو کرنا چاہتے ہیں لیکن دہشت گردی کے ایشو کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ایک جواز پیدا کیا اور سول اداروں کو سپورٹ دینے کا ایک قانون اس وقت پاس ہوا تھا، اس وقت فاٹا مرجر نہیں ہوا تھا، فاٹا بھی اپنی جگہ پر تھا، پاٹا بھی اپنی جگہ پر تھا، سیٹل ایریا اپنی حیثیت میں تھے۔ تو اس وقت ہم نے کہا تھا کہ اگر یہ قانون پاس ہو گیا تو پھر کوئی فاٹا نہیں کوئی پاٹا نہیں، کوئی سیٹل ایریا نہیں، سب علاقے ان کے لیے برابر ہو جائیں گے اور جب سے ہمارے دفاعی ادارے ہیں ہمارے عوام کے صفوں میں ائے ہیں، روڈوں پہ ائے ہیں، گلیوں میں ائے ہیں، کوچوں میں ائے ہیں، صحراؤں میں ائے ہیں اس کے بعد سے ہمارے ملک کے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

تو ان پالیسیوں پر، سب پر نظر ثانی ہونی چاہیے، اب ایک کام ہو جاتا ہے، مرجر ہوگیا، غلط ہو گیا میں آج بھی کہتا ہوں غلط ہوا ہے دیکھیں اگر اس میں دوبارہ لائیں گے پھر کیا صورتحال بنتی ہے یہ پھر الگ ایک سوال ہوگا، ازسرنو ایک مسئلہ ہوگا، تو ان ساری چیزوں کو ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے، اس پر غور کرنا چاہیے، یک طرفہ فیصلے جو ہوتے ہیں جب ایک ادارہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ایک فیصلہ کرتا ہے اور پھر اسمبلی میں بھیج کر کہتا ہے کہ اس پر قانون سازی کرو اور وزیراعظم کو بھیجتا ہے کہ اس پر عملدرآمد کرو اور وزیراعلی کو بھیجتا ہے کہ اس پر عملدرآمد کرو، اس سے پھر عوام میں سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ایک اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔ تو عوام کو بے خبر رکھ کر جمہوری ماحول میں، میرا خیال میں یہ کوئی جائز بات نہیں ہوتی۔

بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments