مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چنیوٹ چناب نگر میں مقامی صحافیوں سے گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چنیوٹ چناب نگر میں مقامی صحافیوں سے گفتگو

30 اکتوبر 2025

سوال و جواب

صحافی: مولانا صاحب نومبر آرہا ہے، کیا ہونے جا رہا ہے نومبر میں؟

مولانا صاحب: نومبر پہلے بھی گزرا ہے، اب بھی گزر جائے گا۔

صحافی: ایسے ہی گزرے گا؟

مولانا صاحب: جی، ایسے ہی گزرے گا۔

صحافی: آپ کی طرف سے کوئی تیاری وغیرہ؟

مولانا صاحب: میں تو اب بھی کہتا ہوں تیاری کرو۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا افغانستان کے ساتھ جو معاملات ہے وہ انتہائی کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ بھی، موجودہ صورتحال پر آپ کی کیا رائے ہے؟

مولانا صاحب: ہماری تو رائے یہی ہوگی کہ ہم دو برادر اسلامی، پڑوسی ملک ہیں اور دو ہزار چھ سو کلومیٹر کی ایک سرحد ہمارے بیچ میں ہے اور اس ڈھائی ہزار کلومیٹر کے آر پار ایک ہی قوم پشتون وہاں پر رہتی ہے۔ تو ایسی صورتحال میں جب انڈیا سے بھی ہماری دشمنی ہو اور سی پیک کے حوالے سے چین کا بھی ہم اعتماد کھو بیٹھے ہوں، ہم نے پچھتر سال چین کے ساتھ دوستی رکھی، گہری دوستی، بلند دوستی، مضبوط دوستی آج ہم امریکہ اور مغرب کے دباؤ میں سی پیک کو آگے نہیں بڑھا سکے، ہماری شکایت تو عمران خان سے تھی کہ انہوں نے اس منصوبے کیوں ترک کیا لیکن اب ان کی بھی ڈیڑھ سال ہو گئے، کوئی پیشرفت اس حوالے سے آگے نہیں ہو رہی اور افغانستان کے وہاں پر حالات کبھی پرسکون رہے ہی نہیں، ایک پچاس سالہ طویل اضطراب کا دور ہے، عدم استحکام کا دور ہے اب اگر ایک حکومت وہاں وجود میں آئی ہے تو اس کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اور ان کے درمیان کوئی شکایات کا سبب بن سکتا ہے۔ دیکھئے ایک بات بڑی واضح ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جنرل مشرف کے زمانے میں بگڑا ہے اور چودہ سال ہم نے کمیونسٹ انقلاب کے مقابلے میں جہاد کو سپورٹ کیا، پھر ان کی لڑائیوں میں ہم فریق بنے، پھر ملا عمر کی تحریک کو ہم نے سپورٹ کیا، اس کے بعد نائن الیون ہو گیا تو پھر اسی ملا عمر کو ہم نے سزا دی، ظاہر ہے امریکہ کے کہنے پہ دی، ظاہر ہے یورپ کے دباؤ میں دی اور اس کے بعد ہم نے امریکیوں کو اڈے دیے، فضائیں دی، انہوں نے افغانستان میں ان پر بمباریاں کی اور دوسری طرف ہم نے یہ بھی سوچا کہ طالبان واحد ایک فورس ہیں افغانستان کی کہ جو پرو پاکستانی ہیں، جو پرو انڈین نہیں ہیں، پرو پاکستانی ہیں۔ اب اس قسم کی صورتحال میں یقیناً پاکستان کے لیے پریشانیاں ہیں اور ان پریشانیاں کی نوعیت یہ ہے کہ وہاں سے نوجوان آتے ہیں ٹی ٹی پی کی صورت میں افغان نوجوان اور پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں یقیناً یہ ایک بڑی شکایت ہے پاکستان کی اور صرف پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کی نہیں، فوج کی نہیں، عوام کی بھی شکایت ہے۔ لیکن طاقت کے ذریعے، رعب دبدے کے حوالے سے ہم یہ سوچیں کہ مسئلہ حل ہو جائے گا، تو ہمیں ایک چیز واضح کر دینی چاہیے کہ جہاں ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کو کسی قیمت پر کمپرومائز نہیں کر رہے، ہمیں افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کو بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے اور نہ یہ خواہش رکھنی چاہیے کہ ہم اپنی بالادستی ان پر قائم رکھیں، ایک برابری کی بنیاد پر، برادر اسلامی ممالک بھائی بھائی تعلقات کی بنیاد رکھیں اور اگر وہاں پر کوئی ایک فورس ہے جو پرو پاکستانی ہیں ان کو ہم نے ضرور ہندوستان کی گود میں پھینکنا ہے، ہم اگر شکایت کرتے ہیں کہ وزیر خارجہ جو ہے افغانستان کا، انڈیا کیوں گیا تو اس کو تو پاکستان آنا تھا پاکستان آنے کا شیڈول آ چکا تھا، کیوں منسوخ ہوا، وہاں کی وزیر داخلہ کا پاکستان آنے کا شیڈول آ چکا تھا پھر کیوں منسوخ ہوا، اگر وزیر داخلہ افغانستان، وزیر خارجہ افغانستان دونوں پاکستان آ رہے ہیں اور تھوڑے تھوڑے فاصلے کے ساتھ آ رہے ہیں، پورے شیڈول طے ہو چکے ہیں، جب آپ ان کے دورے کینسل کریں گے اور منسوخ کریں گے، تو وہ بھی تو ملک ہے، دورے کریں گے، کسی سے بات تو کرنی ہوتی ہے۔

تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں جس پر ہمیں بڑی سنجیدگی کے ساتھ ذمہ دارانہ سٹیٹ کی بنیاد پر اور گہرے سیاست کے ساتھ ہمیں ان پر غور کرنا ہوگا تاکہ ہم کسی بڑی مشکل کی طرف نہ جائیں۔

صحافی: مولانا صاحب میرا یہ سوال ہے کہ جو ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کر دیا ہے اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں ایک بار پھر انہوں نے فلسطینیوں کے ہاتھ باندھ لیے اور اسرائیل کے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اب بھی بمباریاں کر رہے ہیں، اب بھی فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، سیز فائر کے باوجود قتل عام ہو رہے ہیں، تو فلسطینیوں کو تو سیز کر دیا گیا اور اسرائیل کو فائر کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح تو سیز فائر نہیں ہوتا۔

اس ساری صورتحال میں ہمارے حکمرانوں نے سوائے اس کے کہ ہم بہت جلدی کر رہے ہیں ٹرمپ کی خوشامد کرنے میں اور ڈیڑھ دو لاکھ فلسطینیوں کی شہادتوں سے جو ان کی انگلیاں سرخ ہیں اور ان سے ان کا خون ٹپک رہا ہے، ان کے لیے امن نوبل انعام کی بات کرنا، مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہم کس چیز کی سیاست کر رہے ہیں اور جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو دیکھیں پہلی مرتبہ امریکہ کی داخلی سیاست وہ باہر کی دنیا پر ایمپلمنٹ ہو رہی ہے، کہ بائیڈن انڈیا کے قریب تھا تو ٹرمپ انڈیا سے دور ہو گیا، بائیڈن پاکستان سے دور تھا تو ٹرمپ پاکستان کے قریب آ گیا، تو اس طرح سے جہاں ان کی خارجہ پالیسی اس میں کوئی فرق نہیں آیا کرتا تھا پہلی مرتبہ اس میں کچھ چینجز نظر آ رہی ہے، لیکن اگر ہم اتنی سی بات پہ ایسے فیصلے کریں جس سے چین جیسا دوست ہم سے اعتماد کھو بیٹھے تو یہ بہت بڑی قیمت ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں، ہمیں اس مسئلے کے لیے اتنی بڑی قیمت ادا نہیں کرنی چاہیے، ہمیں چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو، باہمی تعاون کو مضبوط رکھنا چاہیے، پاکستان میں اگر وہ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو اس کی سرمایہ کاری کو تسلسل دینا چاہیے اور کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہمیں عمران خان سے شکایت تھی کہ انہوں نے سی پیک روک دیا ہے، تو انہوں نے تو آگے ایک انچ نہیں رکھی اور ایک قدم آگے نہیں بڑھے ہیں۔

تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ اگر خطے میں ہم تنہا ہو جائیں، چین کا اعتماد بھی نہ رہے ایران کے ساتھ بھی تعلقات میں ہم سرد مہری ہو اور پھر یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے ایران پر الزام لگایا ہے اور بار بار لگایا ہے کہ علیحدگی پسند جو ہے وہ ایران میں رہ رہے ہیں، وہاں ان کی تربیتیں ہو رہی ہیں، وہاں ان کے کیمپس ہو رہے ہیں، تو پھر ایران اور افغانستان دونوں کے ساتھ رویوں میں فرق کیوں ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی بیرونی دباؤ کے تحت ہم ایسا کچھ کر رہے ہیں۔

یہ ساری چیزیں جو ہیں وہ تحفظات ہیں ہماری اور اس حوالے سے ہم کوئی جذباتی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں ہر قدم ملک کے مفاد میں اٹھائیں گے، اگر میں نے جنرل مشرف کے اس نعرے پر جب اس نے کہا تھا سب سے پہلے پاکستان اور میں نے اس نعرے کو بھی غلط کہا تھا اور میں نے اس پالیسی کو بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف سمجھا تھا، تو میں آج بھی بڑے جرآت کے ساتھ کہہ سکوں گا کہ یہ پالیسیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

صحافی: کے پی کے میں جو تیزی سے حالات خراب ہو رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں اس کے لیے جرگے ہوئے ہیں اور جو فیصلے ہوئے ہیں، آپ اس کے متعلق کیا کہیں گے؟

مولانا صاحب: جرگے تو خیر وہاں روزانہ ہوتے ہیں، ہم بھی کرتے ہیں، دوسرے پارٹیاں بھی کرتی ہیں، کل بھی میرے پاس ایک وفد آیا تھا پی ٹی آئی کا کہ ہم ایک قومی جرگہ بٹھا رہے ہیں، میں نے کہا ٹھیک ہے بٹھائیں، تو جرگے تو ہوتے رہتے ہیں وہاں پر، بات یہ ہے کہ عام آدمی اس وقت گھر سے باہر نہیں جا سکتا، گلی میں نہیں جا سکتا، گاؤں سے باہر نہیں جا سکتا، تو اس سارے صورتحال کو کنٹرول کرنا یہ ایک بڑا چیلنج ہے اس وقت وہاں پر، اور خاص طور پر جو وہاں پر عسکریت پسندی ہے وہ بہت پھیل گئی ہے، تو بجائے اس کے کہ ہم افغانستان کے اندر جا کر کارروائیاں کریں، اپنے گھر میں ہم نے کیا کیا ہے، اپنے گھر میں تو کم سے کم جو چیز ہے اس کو کنٹرول کریں طاقت استعمال کرنی ہے تو وہاں استعمال کریں جو مجھے نقصان دے رہا ہے۔

صحافی: حضرت نومبر میں تحریک انصاف مارچ کرنے جا رہی ہے، اگر آپ کو دعوت دیتے ہیں تو آپ ان کا ساتھ دیں گے ؟

مولانا صاحب: نہیں ان کے ایونٹس اپنے ہیں ہمارے ایونٹس اپنے ہیں۔

صحافی: حضرت آزاد کشمیر کے جو الیکشن ہے اس میں آپ محمود خان اچکزئی کو سپورٹ کر رہے ہیں، ہی ٹی آئی بھی انہی کو سپورٹ کر رہی ہے۔

مولانا صاحب: آزاد کشمیر الیکشن میں محمود خان اچکزئی کہاں سے آگیا۔

صحافی: حکومت پنجاب کی طرف سے ائمہ مساجد کے لیے پچیس ہزار روپے دیے جا رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

مولانا صاحب: ہم نے اس کو مسترد کر دیا ہے، پچیس کو بھی مسترد کر دیا اور پچیس لاکھ کو بھی مسترد کرتے ہیں، علماء کرام کو خریدنا، ان کے ضمیر کو خریدنا یہ ہمیشہ حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے، ہم نے عمران خان کے زمانے میں خیبرپختونخواہ میں اس قسم کے افر کو ٹھکرایا تھا اور ہم آج بھی اس آفر کو ٹھکرا رہے ہیں۔ 

صحافی: مولانا صاحب ہر دو تین سال بعد ایکسٹینشن کے باتیں چل پڑتے ہیں، اب چوبیس نومبر کو میٹنگ ہو رہی ہے آپ اس حق میں ہیں؟

مولانا صاحب: حضرت جب باجوہ صاحب کے ایکسٹینشن ہوئی تھی تو میں نے اس وقت بھی ان کو انتظامی مسئلہ کہا تھا اور حالانکہ بعد میں پھر قانون سازی کی گئی، قانون سازی کی ضرورت نہیں تھی لیکن کر لی گئی، اور آج بھی یہ انتظامی معاملہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ وہاں کیا سوچا جا رہا ہے۔ اور ہمارے آرمی چیف آپ نہیں بنیں گے وہ فوجی ہوگا۔

صحافی: مولانا صاحب ٹی ایل پی پر جو پابندی لگی ہے اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیں پابندیاں لگانا کبھی پاکستان کی تاریخ میں مسئلہ کا حل ثابت نہیں ہوا ہے، بیسیوں پارٹیوں کے اوپر پابندیاں لگتی رہتی ہیں، پھر اٹھ جاتی ہے، پھر نئے ناموں سے کام شروع ہو جاتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جھگڑا کہاں پر ہے، تنازعہ کہاں ہے، تاکہ اس کو ایڈریس کیا جائے اور اس کو حل کیا جائے۔

صحافی: حکومت جو ہے وہ ستائیسویں ترمیم لانے کی تیاری کر رہی ہے، اگر حکومت ترمیم لے کر آتی ہے تو کیا آپ حمایت کریں گے؟

مولانا صاحب: مجھے تو کچھ پتہ نہیں ہے کہ ستائیس ویں ترمیم کیا ہوگی، اس کا ڈرافٹ کیا ہوگا، وہ کیا چاہتے ہوں گے، جب تک یہ ساری چیزیں واضح نہ ہوں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

بہت شکریہ جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض

، ‎ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments