مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کنونشن سنٹر اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کنونشن سنٹر اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو

14 اکتوبر 2025

صحافی: ٹی ایل پی کے اوپر حکومت نے جو آپریشن کیا ہے، یا ٹی ایل پی کے دھرنے یا احتجاج کے حوالے سے ٹی ایل پی کو کیا مشورہ دیں گے اور حکومت کو کیا مشورہ دیں گے؟

مولانا صاحب: دیکھیں ہم نے ہمیشہ ٹی ایل پی کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، پہلے بھی اور آج بھی، اور میرے ساتھ رابطہ بھی کیا، میں مسلسل رابطہ میں بھی رہا ہوں ان کے ساتھ، میری یہی رائے رہی ہے کہ تحریکوں میں تشدد کا عنصر داخل نہیں ہونا چاہیے، تاہم میں اصولی طور پر احتجاج، مظاہرہ، اظہار رائے اس کو ایک آئینی حق سمجھتا ہوں، اگر کوئی بھی تنظیم اپنے اس آئینی حق کو استعمال کرتی ہے تو حکومت کو اس کا راستہ روکنے کی کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اس کے اوپر جو تشدد کیا گیا ہے اور ریاستی قوت استعمال کی گئی ہے اس طرح کے واقعات کے ہم حمایت نہیں کر سکتے۔

صحافی: مولانا صاحب خیبر پختونخوا کے جو وزیراعلی ہیں ان کے انتخاب کا طریقہ کار درست تھا یا نہیں تھا، اگر آپ اس کو غلط سمجھتے ہیں تو کیا حکمت عملی آگے ہوگی؟

مولانا صاحب: دیکھیں اس وقت تو معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت کو چاہیے کہ وہ انتظامی کسی حکم کی طرف جانے کے بجائے اس کو قانون و آئین کے رو سے کیس کی سماعت کرے اور قانون و آئین کے رو سے جو انصاف کا تقاضا ہو اسے پورا کریں۔

صحافی: مولانا افغانستان کی جو صورتحال ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جس طرح سے جھڑپوں سے معاملہ آگے جنگ تک چلا گیا اور اب انڈیا جا کے جو کچھ امیر خان متقی نے کہا کہ آپ اپنے بارڈر کی حفاظت نہیں کر سکتے تو ہم پہ کیوں ڈالتے ہیں؟ 

مولانا صاحب: دیکھیں یہ ساری چیزیں کیوں پروان چڑھی؟ کیسے پروان چڑھی؟ اس کے پیچھے کیا اسباب تھے؟ بظاہر تو دونوں کے لئے دلائل بھی موجود ہیں، نظائر بھی موجود ہیں، ہر ایک کے پاس اپنے دعوے کے لئے کچھ کہنے کی موقعی مواد بھی موجود ہوتا ہے، لیکن ہمیں بنیادی طور پر سوچنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسری کے لئے کتنا ضروری ہے، ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ ہندوستان جو حال ہی میں ہم پر حملہ کر چکا ہے اور ہم اس وقت بھی ان کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور ہندوستان اب بھی دھمکیاں دے رہا ہے، کیا مغربی محاذ کھولنا یہ ایک بہترین جنگی حکمت عملی ہے؟ کیا یہ ریاست کے لئے مفید راستہ ہے؟ ان سارے عوامل کو دیکھ کر ہمیں پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کو اول رکھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ہمیں پڑوسی ممالک کے استحکام، استقلال اور داخلی امن کو اپنے لئے ایک مفاد تصور کرنا چاہیے اور اس کے حفاظت کیلئے پھر ہمیں حکمت عملی کے ساتھ جانا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان میں ایک نئی حکومت ہے، تین چار سالوں میں وہ اتنی بالغ النظر نہیں بن جاتی کہ ہم ان سے عالمی معیار کے مطابق سفارتی توقعات رکھے، سیاسی توقعات رکھیں، تجارتی توقعات رکھیں یا ان سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اتنی منظم کوئی فوج وہاں پر وجود میں آگئی ہے، نہیں ہے، وہاں کی انٹیلیجنس کا نیٹورک ابتدائی مراحل میں ہے، جبکہ پاکستان ہر لحاظ سے اس حوالے سے عالمی معیار پر پورا اترتا ہے، اپنے سیاسی پالیسیوں کے حوالے سے، سفارتی پالیسیوں کے حوالے سے، دفاعی قوت کے حوالے سے، انٹیلیجنس کی ایک مضبوط نیٹورک کے حوالے سے پاکستان کو دنیا میں ایک اہمیت حاصل ہے، میں اپنی حکومت کو بھی یہ مشورہ دوں گا کہ ہم اس سارے معاملے کو انتہائی تحمل، بردباری، سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ دیکھیں اور میں یہ کوشش کروں گا کہ دونوں ممالک وہ رابطے میں آ جائیں اور بات چیت کے ذریعے سے اپنے ایک دوسرے کے شکایات کو دور کریں اور ایک مستقل دوست پڑوسی کی طرح رہنے کا عہد کریں۔

صحافی: آپ نے ماضی میں ایک کردار ادا کیا تھا آپ نے دورہ بھی کیا تھا، وزارت خارجہ سے بریفنگ لے کے گئے تھے، واپسی آ کے بتایا گیا ایک قومی لیڈر کے حیثیت سے، تو کیا اب بھی کوئی کردار ادا کرنے کو تیار ہے؟ 

مولانا صاحب: بلکل ہم تیار ہیں اس کے لیے، لیکن بہرحال کچھ زمین ذرا ہموار کرنی ہوگی، دونوں طرف اگر گرمی کے ماحول میں ہم بات کرتے ہیں تو ممکن ہو وہ نتائج سامنے نہ ائے جو تھوڑا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب جنگ بندی بھی ہوگئی ہے، تو میں سوچتا ہوں کہ اب زبان بندی بھی ہونی چاہیے، ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا، بیان بازیاں کرنا، اس سے اگر ہم رک جائیں تو ایک ماحول بن جائے گا کہ ہم باہمی رابطوں سے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

صحافی: افغانستان کے ساتھ اگر آپ کی بات چیت ہوتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

مولانا صاحب: جہاں تک میری معلومات ہیں انہوں نے ہماری اس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر معاملات کو طے کریں اور یہ بھی اس حقیقت کو زمینی حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ کچھ ہمیں اس کے لیے زمین ہموار کرنی چاہیے، ماحول بنانا چاہیے۔

صحافی: بھارت کا اس میں جو کردار ہے افغانستان بھارت کی، آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی تسلط میں ہے، اس کی اثر میں ہے یا نہیں ہے اس وقت آزاد ہے؟

مولانا صاحب: اس پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان ان حالات میں جبکہ انڈیا کے ساتھ ان کی سرحدی گرما گرمی چل رہی ہے اور باہمی تعلقات میں انتہائی کشیدگی ہے، ایسے ماحول میں ہم اپنے پڑوسی ممالک ان کی طرف کیوں دھکیلیں اور انڈیا کو ایسے مواقع کیوں فراہم کریں کہ آج ہم امیر خان متقی کے دورے پہ اعترضات تو کر رہے ہیں لیکن یہ مواقع ہمیں ان کو نہیں مہیا کرنے چاہیے، یہ حکمتی عملی ہماری ہونی چاہیے کہ پڑوسی ملک پاکستان کے قریب تر رہے۔

صحافی: اچھا متقی صاحب نے جو ایک سٹیٹمنٹ دی تھی کہ کشمیر جو ہے وہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت ہی نقصان پہنچا ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات اور کشمیری عوام کے جذبات انہیں بہت ٹھیس پہنچی ہے۔

مولانا صاحب: میرے خیال میں اس کے اوپر بحث کرنے سے پہلے ہم خود بحث کریں کہ کشمیر پر ہمارا کردار کیا ہے، ماضی میں کیا رہا ہے، ہم نے کشمیر پر کتنی رائے کتنی پالیسیاں بدلی ہیں اور کیا ہم واقعتاً اس کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کی تحت حل کرنے کے جا رہے ہیں یا ہندوستان کی بالادستی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ گہرا سوال ہے اور پہ ہمیں خود بھی غور کرنا چاہیے۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض 

‎ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments