مظلومیت کا بیانیہ یا آئینی بغاوت؟ ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

مظلومیت کا بیانیہ یا آئینی بغاوت؟

✍🏻 محمد اسامہ پسروری
 گزشتہ روز بیکن ہاؤس یونیورسٹی لاہور میں سٹوڈنٹس افیئرز کی انچارج رابعہ نامی لڑکی نے ایک سیشن کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا "قادیانیوں پر مظالم کی تاریخ"۔ ابتدائی نظر میں یہ عنوان ایک تحقیقی اور تعلیمی نشست لگتا ہے، مگر حقیقت میں عنوان یہ ہونا چاہیے تھا "قادیانی آئینِ پاکستان کے باغی"۔ یہی اصل نکتہ ہے جس پر تعلیمی اداروں میں بحث ہونی چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے اس پہلو کو نظرانداز کر کے ایک مغالطہ پیدا کیا گیا کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم و ستم ہوا۔ حالانکہ آئینِ پاکستان نے قادیانیوں کو واضح حدود میں رکھا ہے، ان کی فکری اور سیاسی سرگرمیوں کو ملکی آئینی ڈھانچے کے مطابق محدود کیا ہے، اور انہیں غیر مسلم اور آئین سے انحراف کرنے والا گروہ قرار دیا ہے۔
حقیقت کو چھپانا یا مسخ کر کے پیش کرنا طلبہ کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ تعلیمی ادارے صرف علم کے مراکز نہیں بلکہ فکری رہنمائی کے ستون بھی ہیں۔ اگر استاد ہی طلبہ کو حقیقت سے منحرف کرے تو یہ تعلیمی فضا کو آلودہ کر دیتا ہے اور آئندہ نسل کے فکری معیار پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ سیشن کے دوران حقیقت کو مسخ کرنا، مظالم کے زاویے سے پیش کرنا اور آئینی حیثیت کو نظرانداز کرنا دراصل فکری دھوکہ اور ملک کے آئینی اصولوں کے خلاف ایک خفیہ کوشش ہے۔
موجودہ حالات میں یہ بات بھی اہم ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں قادیانی لابی کے زیرِاثر سیشنز اور ورکشاپس کے ذریعے طلبہ کو حقیقت سے منحرف کرنے کی کوششیں بڑھ گئی ہیں۔ یہ پروگرام ایسے زاویوں سے پیش کیے جاتے ہیں جو مظلومیت کا تاثر دیتے ہیں مگر قانونی اور آئینی حدود کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں دنیا بھر میں اقلیتوں اور فکری گروہوں کے حوالے سے جو بیانیہ سوشل میڈیا اور مغربی اکیڈمیاں میں تشکیل پا رہا ہے اس کا اثر ہمارے طلبہ پر بھی پڑ رہا ہے اس کے نتیجے میں آئینی شعور کمزور اور فکری توازن بگڑ رہا ہے۔
آج کے نوجوان زیادہ تر سوشل میڈیا سے متاثر ہیں ایسے ماحول میں جب انہیں تعلیمی اداروں میں بھی یکطرفہ اور گمراہ کن سیشنز دکھائے جائیں تو ان میں آئینی اور دینی شعور مزید کمزور ہو جاتا ہے۔ بعض یونیورسٹیوں میں قادیانیوں کے فکری دعووں کو مظلومیت کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا گیا، تاکہ آئینی اور دینی حقائق کو ثانوی حیثیت دی جا سکے۔ اس طرزِ فکر کے نتیجے میں ایسے طلبہ پیدا ہوتے ہیں جو اپنے مذہبی، معاشرتی اور قومی اصولوں سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ صورتِ حال اس امر کی متقاضی ہے کہ تعلیمی اداروں میں فکری شفافیت اور حقیقت پسندی کو اولین ترجیح دی جائے۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو صرف معلومات نہ دیں بلکہ حقیقت کا شعور بھی منتقل کریں تاکہ آئندہ نسلیں حقائق اور فریب میں تمیز کر سکیں۔ سچ کو چھپانا، مسخ کرنا یا مظالم کے زاویے سے پیش کرنا کسی تعلیمی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ آئینی انحراف اور اخلاقی بددیانتی ہے۔
یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قادیانی اپنے لٹریچر یا مباحث میں آزادیِ اظہار کے نام پر اپنی بات کرتے ہیں تو اشتعال کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر بیکن ہاؤس یونیورسٹی خود کو آزادیِ اظہار کا علَم بردار سمجھتی ہے تو اسے چاہیے تھا کہ وہ اس موضوع پر آئینی ماہرین اور مذہبی اسکالرز کو بھی مدعو کرتی تاکہ طلبہ کو دونوں پہلو سننے اور سوالات کرنے کا موقع ملتا۔ بصورتِ دیگر، ایسا یکطرفہ اور جانبدار سیشن دراصل فکری مغالطے اور آئینی شعور کی کمی پیدا کرتا ہے۔
ہر تعلیمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سیشنز، لیکچرز اور ورکشاپس میں حقیقت، تحقیق اور آئینی حوالہ جات کو بنیاد بنائے۔ کیونکہ فکری دفاع، تحقیقی ایمانداری اور آئینی تحفظ صرف نظریاتی مسئلہ نہیں بلکہ قوم و ملت کی بقاء کا معاملہ ہے۔ آئندہ نسلوں کو دھوکے اور فریب سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر آئینی و فکری شعور پیدا کیا جائے، تاکہ تعلیم روشنی بنے، گمراہی نہیں۔ یہی شعور ہی دراصل پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور فکری استحکام کی اصل ضمانت ہے۔
 

0/Post a Comment/Comments