خیبر پختونخوا میں سیاسی ہلچل، ایک زوال پذیر صوبے کا مستقبل؟ تحریر: سہیل سہراب

خیبر پختونخوا میں سیاسی ہلچل، ایک زوال پذیر صوبے کا مستقبل؟

تحریر: سہیل سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹننٹ جنریٹر رائٹرز گروپ

خیبر پختونخوا، جو کبھی اپنی ثقافتی عظمت، بہادری اور غیرت کی پہچان تھا، آج سیاسی انتشار، بدامنی اور معاشی بدحالی کا شکار نظر آتا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں میں اس صوبے نے بارہا سیاسی نعرے، تبدیلی کے وعدے اور ترقی کے خواب سنے، مگر حقیقت میں عوام کے حصے میں صرف محرومیاں، مایوسیاں اور بڑھتی ہوئی مشکلات آئیں۔

صوبے کی معیشت اس وقت قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ترقیاتی بجٹ کم ہوتا جا رہا ہے، جب کہ آمدنی کے ذرائع سکڑ رہے ہیں۔ صنعتی زوال، غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی، اور حکومتی عدم توجہی نے معیشت کو کمزور سے کمزور تر بنا دیا ہے۔ اکثر ترقیاتی منصوبے کاغذوں تک محدود ہیں، جبکہ عوامی سطح پر بنیادی سہولیات ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔

صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی، اقربا پروری، اور غیر شفاف پالیسیوں نے گورننس کا نظام تباہ کر دیا ہے۔ پولیس اصلاحات اور بلدیاتی نظام کے دعوے محض سیاسی نعرے ثابت ہوئے۔ ممبران اور سرکاری ادارے نااہلی اور کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عام شہری کا کوئی پرسان حال نہیں، اور انصاف کا حصول دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کی نئی لہر، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، اور قبائلی اضلاع میں بڑھتی بے چینی نے صوبے میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ وہ خیبر پختونخوا جو کبھی امن کے قیام کی علامت بننے کا خواب دیکھ رہا تھا، آج ایک بار پھر عدم استحکام کے سائے میں جی رہا ہے۔

تعلیم کے میدان میں صوبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ ہزاروں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، بنیادی سہولیات کا فقدان، اور سیاسی بھرتیوں نے تعلیمی نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ صحت کے شعبے میں اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، ادویات کی کمی، آلات کی خرابی، اور تربیت یافتہ عملے کی قلت نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

مہنگائی نے عام شہری کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ آٹا، چینی، تیل، گیس، اور بجلی کے نرخ روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ مزدور طبقہ، کسان، اور سرکاری ملازمین سب ہی اپنے محدود وسائل میں پس رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے عوام کو اب ایک نئے سیاسی شعور کی طرف بڑھنا ہوگا۔ صرف وعدوں سے تبدیلی نہیں آتی، اب کارکردگی دکھانی ہوگی۔ یہ بات بھی سمجھنا لازم ہے کہ صوبے کے حالات وزیراعلیٰ بدلنے سے نہیں، بلکہ پالیسیوں کے بدلنے سے بہتر ہوں گے۔ اگر نظام وہی رہے اور صرف چہرے بدلے جائیں تو نتیجہ بھی وہی رہے گا۔

اگر آنے والی قیادت نے شفاف حکمرانی، امن کے قیام، اور عوامی خدمت کو ترجیح نہ دی تو صوبہ مزید انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر اگر نیتیں درست ہوں، پالیسیاں زمینی حقائق کے مطابق بنائی جائیں اور ادارے مضبوط کیے جائیں، تو یہ صوبہ ایک بار پھر ترقی، امن، اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

#سہیل_سہراب


0/Post a Comment/Comments