مفتی فضل غفور صاحب کی بحالی روزگار سکیم۔ تحریر: سہیل سہراب

مفتی فضل غفور صاحب کی بحالی روزگار سکیم

تحریر: سہیل سہراب

ممبر مرکزی کونٹننٹ جنریٹر رائٹرز گروپ، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا، پندرہ اگست کے سیلاب نے جہاں ملک بھر میں تباہی مچائی، وہیں ہزاروں خاندانوں کو بے گھر اور بے روزگار بھی کر دیا۔ کھیت کھلیان، دکانیں، ورکشاپس اور محنت مزدوری کے دیگر ذرائع لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ متاثرہ عوام کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اب زندگی کا پہیہ کیسے چلایا جائے؟

ایسے کڑے وقت میں جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کے نائب امیر اور امیر ضلع بونیر مفتی فضل غفور صاحب نے ضلع بونیر میں بحالی روزگار سکیم کا آغاز کر کے نہ صرف متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھا بلکہ انہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا عملی موقع فراہم کیا۔ یہ سکیم محض امداد نہیں بلکہ عزتِ نفس کے ساتھ روزگار کی بحالی کا منصوبہ ہے۔

سکیم کے مقاصد

1. سیلاب زدگان کو فوری طور پر روزگار کے ذرائع فراہم کرنا

اس کا مقصد یہ تھا کہ متاثرہ لوگ فوری طور پر محنت مزدوری کر سکیں تاکہ ان کے گھروں کا چولہا بجھنے نہ پائے۔

2. متاثرہ خاندانوں کو مستقل طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا

محض وقتی امداد نہیں بلکہ ایسا نظام بنایا گیا جس سے خاندان مستقل طور پر کما سکیں اور دوسروں پر بوجھ نہ بنیں۔

3. محنت کش طبقے کو قرض یا محتاجی کے بوجھ سے بچا کر باعزت روزی کمانے کا موقع دینا

اس منصوبے نے لوگوں کو بھیک یا قرض کی محتاجی سے بچایا اور انہیں اپنے ہنر کے مطابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔

4. معاشرتی بحالی کے ساتھ ساتھ معیشت میں مثبت کردار ادا کرنا

جب لوگ روزگار پر واپس گئے تو اس سے نہ صرف ان کے گھروں کا نظام چلا بلکہ مقامی معیشت میں بھی بہتری آئی۔

 ابتدائی عملی اقدامات

5. ایمبولینس سروس اور کفن و تابوت کی فراہمی (163 افراد مستفید)

یہ خدمت متاثرہ خاندانوں کے دکھ کو بانٹنے اور فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے تھی تاکہ وہ مشکل وقت میں سہولت محسوس کریں۔

6. گھروں، دکانوں اور مساجد کی صفائی (513 گھر، 18 مساجد، 400 دکانیں)

صفائی مہم سے لوگ دوبارہ اپنے گھروں اور کاروبار کی طرف لوٹنے کے قابل ہوئے۔ یہ بحالی کا پہلا قدم تھا۔

7. 33 گھروں اور دکانوں سے لکڑی کا ملبہ ہٹایا گیا

لکڑی کا ملبہ صاف کرنے سے جگہ دوبارہ رہنے اور کام کے قابل ہو گئی، ورنہ یہ رکاوٹ بنا ہوا تھا۔

8. پینے کے صاف پانی کی فراہمی (50 گھرانے مستفید)

پانی کی سہولت کی بحالی صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری تھی اور اس سے بیماریوں کا خطرہ کم ہوا۔

9. بجلی کی بحالی (90 گھروں اور دکانوں میں)

بجلی واپس آنے سے نہ صرف گھروں کی روشنی بحال ہوئی بلکہ کاروباری سرگرمیوں کو بھی سہارا ملا۔

10. گھروں اور دکانوں کے گیٹ و شٹر کی مرمت (73 مقامات پر)

یہ مرمت حفاظتی اقدامات کے طور پر ضروری تھی تاکہ لوگ اپنا سامان محفوظ رکھ سکیں۔

11. نکاسِ آب کا نظام بحال (223 گھروں میں)

نکاسی آب سے بارش یا پانی کے جمع ہونے کا خطرہ ختم ہوا اور صحت کے مسائل کم ہوئے۔

بحالی اور دینی خدمات

12. مدارس کے لیے 25,000 اسکوائر فٹ کارپٹ کی فراہمی

سیلاب سے مساجد و مدارس کے قالین تباہ ہوگئے تھے۔ نئے کارپٹ دینے سے دینی مراکز کی رونق بحال ہوئی اور طلبہ و نمازی سکون سے بیٹھنے لگے۔

13. 200 گھروں کے بجلی کنکشن بحال کرنا

بجلی کے کنکشن دوبارہ لگانے سے گھریلو زندگی آسان ہوئی اور لوگ جدید سہولتوں سے پھر جُڑ گئے۔

14. قرآن مجید کے 1200 نسخے تقسیم کرنا

دینی ماحول کو زندہ رکھنے کے لیے قرآن مجید فراہم کیے گئے تاکہ گھروں، مدارس اور مساجد میں تلاوت اور تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔

15. 100 علماء کرام کو دینی کتب دینا

یہ اقدام علماء کو علمی اور تدریسی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تھا تاکہ وہ عوام کی بہتر رہنمائی کر سکیں۔

16. 297 گھروں اور 5 مساجد کو خیمے دینا

بے گھر لوگوں کے لیے خیمے فوری پناہ گاہ بنے تاکہ وہ کھلے آسمان تلے رہنے کے بجائے محفوظ چھت میں رہ سکیں۔

17. 2,500 گھرانوں کو فوڈ آئٹمز فراہم کرنا

یہ اقدام بھوک کے مسئلے کا فوری حل تھا، تاکہ متاثرہ لوگ کھانے پینے کی فکر سے آزاد ہو کر دیگر مسائل پر توجہ دے سکیں۔

18. 177 گھرانوں کو چارپائیاں، مچھر دانیاں، برتن اور رضائیاں دینا

یہ بنیادی گھریلو سامان زندگی گزارنے کے لیے لازمی ہے، اس سے لوگوں کو سہولت اور آرام ملا۔

19. 263 گھرانوں کو نقد رقوم فراہم کرنا

نقد رقم سے لوگ اپنی فوری ضرورت کے مطابق اشیاء خرید سکے اور خود فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کیا۔

20. واٹر سپلائی اسکیم (1,170 گھرانوں کو ٹینک اور بورنگ)

یہ بڑا منصوبہ تھا جس سے ہزاروں لوگ پینے کے پانی کے مستقل حل سے فائدہ اٹھا سکے۔

21. ایکسکیویٹر سے حفاظتی پشتے اور راستے ہموار کرنا (350 گھنٹے کام)

یہ کام سیلاب کے دوبارہ نقصان سے بچاؤ کے لیے کیا گیا اور متاثرہ علاقوں کی آمدورفت آسان بنائی گئی۔

22. یتیموں اور بیواؤں کے لیے 3 گھروں کی زمین خریدنا

بے سہارا خاندانوں کے لیے یہ بڑا سہارا تھا تاکہ وہ اپنے لیے محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں۔

مزید بحالی کے اقدامات

23. 65 گھرانوں کے مالی و جانی نقصان کو سرکار کے ساتھ رجسٹر کرنا

اس اقدام سے متاثرہ خاندانوں کو سرکاری امداد اور معاوضہ حاصل کرنے کا موقع ملا، جو ان کا حق تھا۔

24. 45 مقامات پر انجینئرنگ کی خدمات فراہم کرنا

جہاں تعمیرات یا مرمت کا کام مشکل تھا، وہاں ماہر انجینئروں کی مدد سے پائیدار بحالی کی گئی تاکہ دوبارہ نقصان نہ ہو۔

25. 224 گھروں کو سولر سسٹم فراہم کرنا (224 پلیٹس اور بیٹریاں)

بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے سولر توانائی مہیا کی گئی، جس سے متاثرہ خاندانوں کو مستقل روشنی کا ذریعہ ملا۔

26. "خپل کور منصوبہ" کے تحت 28 گھروں، 5 مساجد اور ایک شمشان گھاٹ کی تعمیر

یہ اقدام بے گھر خاندانوں کو نیا سہارا دینے اور عبادت گاہوں کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے تھا۔ شمشان گھاٹ سے اقلیتی برادری کو بھی سہولت ملی۔

27. خپل کور منصوبہ کے تحت مختلف ڈونرز کی مدد سے 40 گھروں کی تعمیر

باہر سے آنے والے اداروں اور افراد کی شمولیت سے زیادہ متاثرین کو رہائش ملی اور منصوبہ مزید وسعت اختیار کر گیا۔

28. پاک ایڈ کی مدد سے 2 گھر تعمیر کرنا

یہ اقدام چھوٹا سہی مگر متاثرہ خاندانوں کے لیے امید کی کرن بنا کہ ان کے لیے نئی زندگی کی بنیاد رکھی گئی۔

29. اپرہینڈ آرگنائزیشن کی مدد سے 20 گھر تعمیر کرنا

اس ادارے کی شمولیت سے مزید کئی خاندان محفوظ چھت کے مالک بن گئے۔

30. روزگار کی بحالی اسکیم کا آغاز

یہ سب سے نمایاں قدم تھا جس کے ذریعے متاثرہ افراد کو دوبارہ اپنے پیشوں میں کھڑا ہونے کا موقع دیا گیا۔

31. 12 نان فروشوں کو تندور فراہم کرنا

یہ چھوٹا مگر مؤثر اقدام تھا جس سے یہ لوگ نہ صرف اپنا روزگار بحال کر سکے بلکہ دوسروں کی روٹی پکانے کی سہولت بھی ملی۔

32. 63 درزیوں کو سلائی مشینیں اور سامان دینا

اس اقدام سے خواتین و مرد درزی دوبارہ محنت مزدوری شروع کر سکے اور گھریلو معیشت مضبوط ہوئی۔

33. 25 ہئیر ڈریسرز کو نیا سامان دینا

متاثرہ نائی حضرات کو دوبارہ اپنا کام شروع کرنے کا موقع ملا، جو نہ صرف روزگار ہے بلکہ سماجی ضرورت بھی ہے۔

روزگار کی بحالی کے مزید اقدامات

34. 14 موٹر سائیکل مکینکس کے لیے روزگار شروع کرنا

موٹر سائیکل مرمت کرنے والوں کو دوبارہ کام پر لگایا گیا تاکہ مقامی ٹرانسپورٹ کا نظام بھی بحال ہو اور ان کا ذریعہ معاش بھی چل سکے۔

35. 12 الیکٹریشن مکینکس کو سامان فراہم کرنا

بجلی کے کاریگروں کو اوزار ملنے سے وہ گھروں اور دکانوں کی مرمت کر کے اپنا روزگار جاری رکھ سکے۔

36. 23 افراد کو موبائل ریپیرنگ کے اوزار دینا

موبائل ایک عام ضرورت ہے، ان کاریگروں کو سہولت دینے سے روزگار بھی چلا اور عوام کی خدمت بھی ممکن ہوئی۔

37. 105 ریڑھی بانوں کو ریڑھیاں اور 30,000 روپے نقد فراہم کرنا

یہ اقدام سبزی، فروٹ اور کھانے پینے کے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے تھا، جس سے کئی گھرانوں کا گزر بسر ممکن ہوا۔

38. 9 نانبائیوں کو دیگیں اور دیگر آلات دینا

نانبائیوں کو ضروری سامان ملنے سے وہ دوبارہ بریانی، کھانے اور دیگر پکوان تیار کر کے کاروبار چلا سکے۔

39. 32 افراد کو آٹا مشینوں کی بحالی کے لیے 20 لاکھ روپے اور 12 کٹر دینا

اس سے پسائی اور آٹے کی فراہمی کا نظام بحال ہوا، جو علاقے کے لوگوں کی بنیادی ضرورت ہے۔

40. 28 افراد کے لیے ہوٹل کاروبار کھولنا

متاثرہ افراد کو کھانے پینے کے ہوٹل دوبارہ کھولنے کا موقع ملا، جس سے آمدنی کے ساتھ مقامی لوگوں کو سہولت بھی ملی۔

41. 10 چائے کیفے کھولنا

یہ چھوٹے کاروبار مقامی نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے فوری آمدنی کا ذریعہ بنے۔

42. 7 افراد کو فوٹو اسٹیٹ مشینیں فراہم کرنا

فوٹو کاپی اور پرنٹنگ کا کاروبار دوبارہ چلنے سے تعلیمی اداروں اور دفتری کاموں میں سہولت ہوئی اور روزگار بھی ملا۔

43. 11 افراد کو پنکچر کاروبار کے لیے سامان دینا

ٹائر پنکچر کی سہولت سے گاڑی مالکان کو فائدہ ہوا اور یہ افراد اپنی کمائی کرنے کے قابل بنے۔

44. 15 گاڑی میکینکس کو ڈینٹر اور ویلڈنگ کا سامان دینا

یہ اقدام بڑے پیمانے پر گاڑیوں کی مرمت کے لیے تھا، جس سے نہ صرف میکینکس کا روزگار چلا بلکہ ٹرانسپورٹ نظام بھی بحال ہوا۔

روزگار اور سہولیات کی مزید بحالی

45. 8 موچیوں کو نیا سامان دینا

جوتے مرمت کرنے والوں کو دوبارہ اوزار ملنے سے وہ اپنے پیشے پر واپس آئے اور لوگوں کو بھی سہولت میسر آئی۔

46. 25 دکانداروں کو ریڈیو بیٹری اور الیکٹرانکس ریپئرنگ کے آلات دینا

یہ اقدام دکان داروں کو اپنی دکانیں دوبارہ آباد کرنے اور ٹیکنالوجی مرمت کے کام میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تھا۔

47. 80 لوڈر، چنگ چی اور دیگر گاڑیوں کی مرمت کرنا

ٹرانسپورٹ بحالی کا یہ اہم قدم تھا، جس سے متاثرہ علاقوں میں آمدورفت اور روزگار دونوں آسان ہوئے۔

48. 16 گھڑی سازوں کو گھڑیاں اور مرمت کا سامان دینا

گھڑی سازوں کو روزگار ملنے سے وہ دوبارہ اپنی دکانیں سنبھال سکے اور لوگوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں میسر آئیں۔

49. 25 افراد کو آفس اور اسکولوں کے لیے لیپ ٹاپ فراہم کرنا

یہ اقدام جدید دور کے مطابق نوجوانوں اور طلبہ کو ڈیجیٹل روزگار اور تعلیم میں سہولت دینے کے لیے تھا۔

50. سیلاب زدہ گراؤنڈ کی صفائی اور 10 ٹیموں کو سپورٹس کٹ دینا

اس قدم نے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا اور ان کے اندر کھیلوں کا شوق دوبارہ زندہ کیا۔

51. بیشونئی گاؤں میں 12 وائرلیس سیٹ فراہم کرنا

ہنگامی صورتحال میں بروقت رابطے کے لیے یہ سہولت دی گئی تاکہ لوگ حادثات اور نقصانات سے محفوظ رہ سکیں۔

52. بٹئی گاؤں کے لیے قبرستان کی زمین خریدنا

متاثرہ گاؤں کے لوگوں کے لیے یہ بہت اہم قدم تھا کیونکہ سیلاب سے ان کا پرانا قبرستان متاثر ہو چکا تھا۔

53. پرائیویٹ اسکولوں کو کتب فراہم کرنا

اس سے تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوئیں اور بچوں کی تعلیم میں تسلسل آیا۔

54. پرائیویٹ اسکولوں کو بیگز دینا

یہ اقدام بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تھا تاکہ وہ دوبارہ شوق سے اسکول جائیں۔

55. پرائیویٹ اسکولوں کو فرنیچر فراہم کرنا

اسکولوں میں بیٹھنے اور پڑھنے کے لیے ماحول بہتر بنایا گیا تاکہ بچے سکون سے تعلیم حاصل کر سکیں۔

56. حال ہی میں ایک کروڑ سے زائد مالیت کے رکشے متاثرین کے حوالے کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دو بیس خاندانوں میں راشن بھی تقسیم کی گئی ہے۔

امید کی کرن

یہ سکیم اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو مشکلات کے اندھیروں میں بھی امید کی شمع جلائی جا سکتی ہے۔ مفتی فضل غفور صاحب کی یہ کاوش متاثرہ عوام کے لیے نئی زندگی کی شروعات ہے اور ایک پیغام ہے کہ اصل خدمت صرف باتوں میں نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے میں ہے۔

نوٹ: یہ سکیم ابھی رکا نہیں ہے بلکہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ جاری ہے۔

#سہیل_سہراب


0/Post a Comment/Comments