تبدیلی کی پہلی سیڑھی: خود اور خاندان
تحریر: سہیل سہراب
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹر رائٹرز گروپ
آج کے دور میں نظریاتی استقامت ایک نایاب خوبی بن چکی ہے۔ فکری انتشار، میڈیا کے اثرات اور مادی سوچ نے ہمیں اپنی بنیادوں سے دور کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی شخص کسی نظریے، جماعت یا دینی فکر کے ساتھ خلوص نیت سے وابستہ ہے تو یہ معمولی بات نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف ذاتی وابستگی کافی ہے؟ یا ہمیں اپنی دعوت کو اپنے گھر، خاندان اور ماحول تک پھیلانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے؟
ہم اکثر کتابی چہرے پر پڑھتے ہیں کہ "الحمدللہ، گھر میں اکیلا بندہ ہوں جو جمعیت کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ مجھے اس پر خوشی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ خوشی اس بات کی کہ چلو، کم از کم ایک بندہ تو حق کا ساتھ ہے۔ اور افسوس اس بات کی کہ کیا ہم اپنے گھر والوں کو گمراہی سے نہیں بچا سکتے؟
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے محنت نہیں کی ہوگی، لیکن یہ ممکن ہے کہ شاید ہم نے وہ محنت نہیں کی جس کا ہم سے تقاضا کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم خود کو نظریاتی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ابتدا اپنے آپ سے اور اپنے خاندان سے کرنی ہوگی۔ ہمارے ایک ووٹ سے تبدیلی نہیں آنے والی۔ پورے ملک میں تین، چار یا چلو پانچ فیصد مذہبی لوگ ہوں گے، باقی سب سیکولر اور لبرل ہیں۔ اب چار یا پانچ فیصد لوگوں کی وجہ سے کامیابی کے خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اگر ہم واقعی ایک نظریاتی انقلاب کے خواہاں ہیں تو ہمیں نعرے بازی سے آگے بڑھ کر فکر، اخلاق اور کردار کے میدان میں محنت کرنا ہوگی۔ تبدیلی کتابوں یا تقریروں سے نہیں بلکہ گھروں، محفلوں اور دلوں سے جنم لیتی ہے۔
جب تک ہم اپنے اہل خانہ، دوستوں اور ماحول کو اپنی فکر سے روشناس نہیں کرواتے، اس وقت تک کوئی بھی اجتماعی کامیابی محض خواب ہی رہے گی۔
اس لیے اصل جدوجہد یہ نہیں کہ ہم اکیلے جمعیت کو سپورٹ کر رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم کتنے دلوں کو اپنے نظریے کے قریب لا سکے ہیں۔
#سہیل_سہراب
ایک تبصرہ شائع کریں