ستائیسویں ترمیم: آئین کی روح یا اقتدار کی نئی ترتیب؟ ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

ستائیسویں ترمیم: آئین کی روح یا اقتدار کی نئی ترتیب؟

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

ملک ایک بار پھر آئینی ترمیم کے موڑ پر کھڑا ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم پر جاری بحث نے نہ صرف پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو بھی نئی سمت میں موڑ دیا ہے۔ ترمیم ابھی منظور نہیں ہوئی، مگر اس کے خدوخال اور ممکنہ اثرات پر ہونے والی سیاسی کشمکش یہ واضح کر رہی ہے کہ اصل لڑائی قانون کی نہیں بلکہ اختیار کی ہے۔ ہر جماعت آئین کی تشریح اپنے مفاد کے مطابق کر رہی ہے اور ہر ادارہ اپنے دائرے کو مزید وسیع کرنے میں مصروف ہے۔

یہ ترمیم دراصل ایک بڑے پس منظر کا تسلسل ہے، جو 9 مئی کے واقعات، فوجی ٹرائلز اور عدلیہ کے متضاد فیصلوں کے بعد سامنے آیا۔ حکومتی حلقے اسے قومی سلامتی کے تقاضوں سے جوڑ رہے ہیں، جبکہ وکلا، سول سوسائٹی اور اپوزیشن اس میں شہری آزادیوں کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ آئینی ماہرین کے مطابق اگر یہ ترمیم اپنے مجوزہ متن کے ساتھ منظور ہوگئی تو پارلیمنٹ کی آڑ میں چند افراد کو وہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے جو ماضی میں عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھے، یا کم از کم ان کے ساتھ مشترک ہوں گے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے اختلاف کی لکیر شروع ہوتی ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم کا مقصد عدلیہ و انتظامیہ کے درمیان تنازع ختم کرنا، فیصلوں میں توازن پیدا کرنا، اور ریاستی پالیسیوں کو واضح سمت دینا ہے۔ لیکن حزبِ اختلاف کے نزدیک یہ آئین کی روح سے انحراف ہے۔ ان کے خیال میں یہ قدم عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرے گا اور پارلیمانی اکثریت کو آئینی بالادستی کے نام پر مطلق العنان اختیارات دے گا۔ کچھ ماہرین اسے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان ایک “پاور شیئرنگ ڈیل” بھی قرار دے رہے ہیں، جس کے ذریعے مستقبل کی سیاسی صف بندی کا خاکہ تیار کیا جا رہا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ آئینی ترمیم سیاسی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا مرکز بنی ہو۔ ہماری تاریخ میں ہر ترمیم کسی نہ کسی سیاسی سمجھوتے یا دباؤ کا نتیجہ رہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کو صوبائی خودمختاری کا سنگ میل کہا گیا، بائیسویں اور تئیسویں ترامیم کو انسدادِ دہشت گردی کا ہتھیار قرار دیا گیا، اور اب ستائیسویں ترمیم کو استحکامِ ریاست کا ضامن بتایا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہر ترمیم نے ریاست کو مضبوط کیا، یا اس نے اداروں کے درمیان مزید عدم اعتماد پیدا کیا؟

اس مجوزہ ترمیم کے تحت عدالتی دائرہ کار اور فوجی عدالتی نظام کے درمیان نئی سرحدیں متعین کی جا رہی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ بعض کیسز کو “قومی سلامتی” کے دائرے میں لا کر مخصوص عدالتوں کے سپرد کیا جائے، مگر انسانی حقوق کے ادارے اور وکلا برادری اسے بنیادی انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ یہ وہی خدشہ ہے جو ہر بار جنم لیتا ہے کہ جہاں “ریاستی سلامتی” کی تعریف سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں آجائے، وہاں شہری حقوق کی ضمانت کمزور ہو جاتی ہے۔

ستائیسویں ترمیم پر جاری بحث نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کر دیا ہے کہ پاکستان میں اصل بالادستی آئین کی ہے یا طاقت کے مراکز کی؟ اگر آئین واقعی سب سے بالا ہے تو اس کی ترمیم محض قانونی تقاضہ نہیں بلکہ اجتماعی ضمیر کی آواز ہونی چاہیے۔ مگر جب ترمیم کے الفاظ ایوانوں سے زیادہ ڈرائنگ رومز میں طے ہوں، تو قوم کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ اصل مقصد اصلاح نہیں بلکہ طاقت کی نئی تقسیم ہے۔

جمہوریت میں آئینی ترامیم ناگزیر ہوتی ہیں، لیکن ان کی بنیاد سیاسی اتفاقِ رائے اور شفاف نیت پر ہونی چاہیے۔ اگر ترمیم ایک فریق کے مفاد اور دوسرے کے نقصان پر کھڑی ہو تو وہ قوم کو متحد نہیں کر سکتی۔ آج ستائیسویں ترمیم کے گرد جو فضا قائم ہے، وہ دراصل عدم اعتماد، مصلحت اور طاقت کے خوف کی پیداوار ہے۔ اگر یہی ماحول برقرار رہا تو نہ پارلیمنٹ کو استحکام ملے گا، نہ عدلیہ کو وقار، اور نہ عوام کو یقین کہ آئین واقعی ان کے حق میں بول رہا ہے۔

یہ لمحہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں کے لیے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ کیا ہم آئین کی بالادستی چاہتے ہیں یا اختیار کی مرکزیت؟ کیا ہم اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے اہل ہیں یا ہر تنقید کو “ریاست دشمنی” کا نام دیں گے؟ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جس ملک میں آئین کمزور اور افراد طاقتور ہو جائیں، وہاں قانون محض ایک نعرہ بن کر رہ جاتا ہے۔

اگر ستائیسویں ترمیم کو قومی اتفاق اور شفاف نیت کے ساتھ نہ لایا گیا تو یہ بھی ماضی کی ترامیم کی طرح اختلاف اور افتراق کا نیا باب بن جائے گی۔ قوم کو آئین پر یقین چاہیے، کسی کے اختیار پر نہیں۔ کیونکہ جس دن ہم نے آئین کو طاقت سے بالاتر مان لیا، وہی دن ریاست کے استحکام کا دن ہوگا۔ 


0/Post a Comment/Comments