سرحدوں سے آگے تک — مولانا فضل الرحمٰن کی عالمی پزیرائی
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
مولانا فضل الرحمٰن صاحب اس وقت بنگلہ دیش کے دورے پر ہیں اور یہ دورہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے معمولی سفری مشغولیت نہیں بلکہ پاکستان کی مذہبی و سیاسی قیادت کی اس ساکھ کا عملی ثبوت ہے جو برسوں کی نظریاتی جدوجہد، علمی وزن اور بین الاقوامی اعتماد کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈے کے برخلاف یہ حقیقت پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ آج بھی اگر جنوبی ایشیا میں کوئی ایسی قیادت موجود ہے جس کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے تو وہ جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت ہے جو نہ مفادات کے تابع ہے نہ کسی عالمی ایجنڈے کی غلام مولانا کا یہ دورہ اسی تسلسل کا حصہ ہے جس میں امت کے مسائل سے لے کر عالمی اسلام کی پالیسی، مدارس کے کردار سے لے کر خطے کی بدلتی سیاسی صورت تک ہر فورم پر ان کا وزن اور اثر نمایاں ہے اور یہ وہ بات ہے جو پاکستان کے اندر بیٹھے بعض حلقے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب وہ میڈیا میں بیٹھ کر طنز اور بے وقعت گفتگو کرتے ہیں مولانا اسی وقت دنیا کے سفارتی، علمی اور روحانی مراکز میں پاکستان کے اصل مذہبی تشخص کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں بنگلہ دیش میں اہلِ علم، مشائخ، عوام اور سیاسی قیادت کی جانب سے جو غیر معمولی محبت اور احترام ملا وہ اس بات کا اعلان ہے کہ امت صرف تقریروں سے لیڈر نہیں مانتی وزن، کردار، تاریخ اور نظریاتی استقامت سے مانتی ہے اور یہ ساری چیزیں مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیت کا جزوِ لازم ہیں وہاں کے علماء نے ایک بات پر پورا اتفاق کیا کہ برصغیر میں دینی قوت کی اصل علامت آج بھی جمعیۃ ہے اور اس کی پہچان مولانا فضل الرحمٰن ہیں یہی وجہ ہے کہ اس دورے میں نہ کہیں سیاسی تناؤ محسوس ہوا نہ کسی نے سوال اٹھایا بلکہ ہر جگہ انہیں ایک ایسے قائد کے طور پر سنا گیا جو امت کے لیے سوچتا ہے، امت کے لیے بولتا ہے اور امت کے اتحاد کے لیے جدوجہد کرتا ہے پاکستان کے وہ طبقات جو ہر وقت یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ مولانا کی سیاسی قوت کم ہو گئی ہے وہ شاید یہ منظر دیکھ کر سمجھ جائیں کہ لیڈر وہ نہیں ہوتا جو اپنے ملک کے چند اینکرز کے رحم و کرم پر زندہ رہے لیڈر وہ ہوتا ہے جو سرحدوں سے باہر بھی اپنے نام سے پہچانا جائے مولانا کا یہ سفر اس حقیقت کا اعلان ہے کہ خطے کی سیاست ہو یا عالمی اسلام کا بیانیہ، مذہبی آزادی کا مسئلہ ہو یا امت کی وحدت کا پیغام، ہر جگہ ان کی رائے کو وزن دیا جاتا ہے اور یہی وہ اعتماد ہے جس پر جے یو آئی کی پوری سیاسی اور عوامی طاقت قائم ہے اس دورے نے یہ بات پھر ثابت کی کہ جمعیۃ علماء اسلام صرف پاکستان کی جماعت نہیں بلکہ امت کا ایک فکری مرکز ہے اور مولانا اس مرکز کی وہ آواز ہیں جو نہ جھکتی ہے نہ بکنے کے لیے تیار ہوتی ہے یہی وہ استقامت ہے جو دوسروں کو کھٹکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اندرونِ ملک سازشیں اور باہر عزتیں بڑھتی رہتی ہیں بنگلہ دیش کا یہ سفر جے یو آئی کے کارکنوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ آپ کے قائد کا مقام عالمی ہے ان کی حیثیت سرحدی سیاست سے کہیں آگے ہے اور امت کا اعتماد کسی میڈیا مہم سے کم نہیں کیا جا سکتا آنے والے وقتوں میں برصغیر کے اندر مذہبی سیاست کا جو نقشہ بن رہا ہے اس میں مولانا فضل الرحمٰن کا یہ دورہ ایک نئے باب کی بنیاد ہے اور تاریخ ہمیشہ اسی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے کہ قوموں کی ترجمانی کون کر رہا تھا آج بنگلہ دیش میں ہونے والی پذیرائی نے یہ بات طے کر دی ہے کہ برصغیر میں دینی قوت کی اصل قیادت مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے اور رہنی چاہیے بھی کیونکہ سیاسی سوجھ بوجھ، مذہبی غیرت، علمی وراثت اور بین الاقوامی وقار کا ایسا حسین مجموعہ کسی اور کے پاس نہیں۔

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں