مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سما ٹی وی کے پروگرام ڈیبیٹ افتخار احمد کے ساتھ میں گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سما ٹی وی کے پروگرام ڈیبیٹ افتخار احمد کے ساتھ میں گفتگو

09 نومبر 2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میرے آج کے مہمان مولانا فضل الرحمان امیر جے یو آئی اکیس اگست انیس سو ترپن کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کرنے کے بعد ملت ہائی سکول ملتان سے میٹرک کیا، اس کے بعد ملتان کے نواحی علاقے جھوک وینس اور ضلع ڈیرہ غازی خان کے قریب لتڑی جنوبی گاؤں میں صرف و نحو کی ابتدائی کتب پڑھیں۔ 1981 میں بطور سیکرٹری جنرل جمیعت علماء اسلام اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم ار ڈی کی تحریک کے سربراہ، انیس سو اٹھاسی میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن، دو ہزار اٹھارہ میں متحدہ مجلس عمل کے صدر بنے، دو ہزار چار سے دو ہزار سات تک قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے خدمات سر انجام دی، دو ہزار آٹھ سے دو ہزار اٹھارہ تک چیئرمین کشمیر کمیٹی رہے، دو ہزار بیس میں جب کی ڈی ایم بنی تو اس کی قیادت کی، مولانا فضل الرحمان افغان پالیسی، کشمیر پالیسی اور حکومت مخالف تحریکوں میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے، آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں۔

میزبان: مولانا صاحب اپ کیسے ہیں؟

مولانا صاحب: بسم اللہ بسم اللہ

میزبان: مولانا صاحب ایم ار ڈی کی تحریک میں آپ کا بہت رول ہے اور اس تحریک کی بنا پر ایک آمر کو پیچھے ہٹنا پڑا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کے حالات کے مطابق ملک میں جمہوریت لانے میں آپ کو کامیابی ہو گئی، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ 1973 کے آئین کو بحال کروا لیں گے، ایسا کیوں کر ممکن نہیں ہوا؟

مولانا صاحب: حضرت اس میں مجھے کچھ اپنے سیاسی دنیا سے شکایت کرنی پڑے گی کہ میرا خود یہ سوال ہے اور میں نے پی ڈی ایم کے اکابرین کی موجودگی میں بھی یہ سوال اٹھایا ہے، ایک سے زیادہ مرتبہ اٹھایا ہے کہ میں ذاتی طور پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف، ان کے مارشل لاء کے خلاف، تحریک کا حصہ رہا ہوں، آپ اور ہم سب لڑتے رہے ہیں اس ساری طرح لڑائی میں ہم نے آج تک کیا حاصل کیا، یعنی جمہوری قوتیں، جمہوری ادارے کمزور ہو رہے ہیں، تمام ایریاز جو ہمارے ہونی چاہیے تھی، جو عوام کے ہونے چاہیے تھی، جو پولیٹیشنز کے ہونے چاہیے تھی، جو سویلینز کی ہونی چاہیے، وہ کسی اور کے پاس جا رہی ہیں۔

میزبان: اور میرا اگلا سوال آپ سے یہ ہے کہ انیس سو اٹھاسی میں ایم ار ڈی کے موقف کے برعکس نوابزادہ نصر اللہ خان کے بجائے غلام اسحاق کو صدر منتخب کیا گیا، کیا اس موقع پہ جنرل اسلم بیگ نے آپ کو جی ایچ کیو میں بلا کے کوئی دھمکی دی تھی ؟

مولانا صاحب: آپ خطرناک سوال کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انہوں نے بلایا اور جنرل حمید گل صاحب ان کے ساتھ موجود تھے، اس زمانے میں جنرل حمید گل صاحب کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں، میرے انتہائی قابل احترام رہے، یعنی کہ جنرل کی حیثیت میں جب وہ بیٹھے تھے، چونکہ نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب کے مجوز معید ہم تھے، خود تو تنہا تھے جے یو ائی سے ہم نے دو ممبران کی تجویز و تائید کی ان کی، تو ان کا خیال یہ تھا کہ آپ اپنی تجویز و تائید واپس لیں، جس پر میں نے کہا کیوں، یہ ہمارا حق ہے، یہ الیکشن ہے، الیکشن میں مقابلہ ہوتا ہے۔

میزبان: تو کیا جواب تھا ان کے پاس ؟

مولانا صاحب: تو انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا، لیکن میں نے ان کے ساتھ بحث کی اور بالآخر ان کو یہاں لانے پر میں نے آمادہ کیا کہ اچھا ہم دوبارہ مشورہ کر لیتے ہیں، لیکن پھر یہ ہوا کہ نہیں، تو میں نے کہا جی ہم بھی واپس نہیں لے سکتے۔

میزبان: کیا آپ موروثیت کے حامی ہیں، کیونکہ آپ کہتے ہیں "اگر کوئی شخص مجھے مفتی محمود کے بیٹے سے ہٹ کر اس کے نظریات کے صحیح جانشین کے طور پر اپناتا ہے اور مجھ پر اعتماد کرتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے"، کیا آپ اسی فلسفے کو دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی استعمال کریں گے؟

مولانا صاحب: میں لفظ موروثیت کو یورپ کی اصطلاح سمجھتا ہوں، یورپ کی سیاست سمجھتا ہوں۔

میزبان: اس کی جگہ آپ متبادل لفظ کیا استعمال کریں گے؟

مولانا صاحب: میں عرض کر لینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی وارث اپنے مورث کے نقش قدم پہ چلتا ہے، ان کے نظریات اور ان کے اعتقادات اور ان کے نصب العین کو امانت سمجھتا ہے تو دنیا میں سب سے بڑا منصب اگر ہے دنیا میں وہ نبوت کا ہے، کیا نبوت میں باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا اور پڑ پوتا انبیاء نہیں بنے ہیں، اللہ رب العزت نے صرف وراثت کی بنیاد پر حق نبوت کسی خاندان سے چھینا ہے، یہ ساری روایات جو ہیں اگر انبیاء کی منصب عالی شان کے بارے میں اللہ رب العزت نے ان کو برقرار رکھا ہے اور قرآن کریم کی بعض آیات سے کہ ایسی اولاد کو بابرکت اولاد کہا گیا ہے کہ جو اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے ابا و اجداد کی مرتبے و مقام مقصد تک پہنچ سکے، میں اس میں ان چیزوں کو جو پاکستان میں روزانہ موروثیت اور موروثیت، اب جس کی وراثت ہی نہ ہو وہ کہہ رہے ہیں۔

میزبان: ہم سیاسی بات کر رہے ہیں۔

مولانا صاحب: چھوڑو سیاست کو، میں صحافت کی بات کرتا ہوں، آپ جس مقام پر ہیں آپ کے دوسرے کولیگ جس مقام پر ہیں آپ کے بزرگ جو دنیا سے گزر چکے ہیں اگر آج ان کی اولاد صحافت میں وہ مقام حاصل کرتی ہے، ان کی جگہ لیتی ہے، آپ کے لیے باعث فخر ہے سیاست میں یہ بات قابل فخر کیوں نہیں ہے، قابل اعتراض کیوں ہے

میزبان: سر کیا یہ حقیقت ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے مطابق وزیراعلی اکرم درانی کے خلاف انے والی تحریک عدم اعتماد اور جنرل مشرف کے وردی میں الیکشن لڑنے کے حوالے سے آپ بھی اور جنرل مشرف کے درمیان کوئی معاملہ طے پا گیا تھا؟

مولانا صاحب: دیکھیے جنرل مشرف اور چودری شجاعت ایک پیج پہ تھے اور ہم بالکل اپوزیشن میں تھے، ہم نے اس وقت، دیکھیے کچھ چیزیں سمجھنی چاہیے، میں ابھی بھی لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ چھبیسویں ترمیم۔

میزبان: آر یو اے گوڈ ٹیچر؟

مولانا صاحب: نہیں میں ایک طالب علم ہوں، استاد تو بہت بڑی چیز ہے، میں چھبیسویں ترمیم اور وہ جو اس زمانے میں سترہ ویں ترمیم ہوئی تھی، اس کا یہی فرق بتاتا ہوں کہ اس وقت تو جنرل مشرف صاحب نے عدالت کے ایک اجازت کی بنیاد پر ایک ایف او کو آئین کا حصہ بنا لیا تھا، ہماری محنت تھی کہ کتنا ہم کھینچ سکتے ہیں، کتنا ہم آئین سے نکال سکتے ہیں، تو جتنا ہمارے بس میں تھا ہم نے وہ نکلوایا، جتنا بس میں نہیں تھا اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ہم نے اس کو صاف کر دیا جی، آج ہم نے ڈلوانا تھا کہ آئین میں ہم کن کن چیزوں کو ڈلوائیں، تو دونوں کے نتائج یقیناً مختلف ہوں گے۔

میزبان: ایم ایم اے کے پانچ سال دو صوبوں میں آپ اقتدار میں رہے مگر حقیقت ہے کہ کوئی بنیادی تبدیلیاں ان دونوں صوبوں میں نہیں ائی، جس کی بنا پہ آپ کا ووٹ بینک بھی جو ہے ان دونوں صوبوں میں منتشر ہو گیا، یہ حقیقت ہے؟

مولانا صاحب: دیکھیے ہمارے ملک میں جس طرح ہم سیاسی طور پر سوچتے ہیں کہ عوام فیصلہ کرتے ہیں عوام کے فیصلوں کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوتا ہے وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے جی، ہمارے ساتھ تو اس حد تک زیادتی ہوتی رہی کہ ایک چیف منسٹر جو صبح سے شام تک مصروف رہتا ہے، سیمینارز میں جاتا ہے، میٹنگوں میں جاتا ہے، مختلف شعبوں کے لوگوں سے ملتے تھے، ان کی کوریج جو ہے وہ ٹیلی ویژن پہ نہیں ا رہی ہوتی تھی، گورنر صاحب جو صرف گورنر ہاؤس میں بیٹھتا ہے وہاں سے ہم نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ان کے ارادے اب ہمارے لیے کچھ اور ہیں، اور ہم تعلیم کے میدان میں جائیں، ہیلتھ کے میدان میں جائیں، ہمارے بعد انے والے حکمرانوں کے وزیروں نے میرے سامنے اعتراف کیا ہے کہ آپ کے وقت میں جو کچھ ہوا ہے ہم اس کا عشر عشیر بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

میزبان: کوئی پانچ ایسی چیزیں جو ایم ایم اے کے دور میں ہوئے ہوں جس پہ آپ فخر کرتے ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے ہم نے پہلی مرتبہ صوبے میں خواتین کی یونیورسٹی بنائی، ہم نے پہلی مرتبہ صوبے میں تین یونیورسٹیوں سے تعداد نو اور دس تک لے گئے، ہم نے پہلی مرتبہ مفت تعلیم کا رواج ڈالا اور پہلے بجٹ میں ہم نے پرائمری سکول تک کتابیں سرکاری سکولوں میں رجسٹر طلباء کو دی، ہم نے اگلے سال مڈل تک پھر اس سے اگلے سال ہم نے میٹرک تک اور ہمارے منشور میں میٹرک تک مفت تعلیم کا ذکر ہے، لیکن اگلے سال بجٹ ہمیں ملا تو ہم نے ایف اے، ایف سی تک بھی کتابیں مفت فراہم کر دی۔

میزبان: لیکن مولانا پھر کیا ہوا کہ آپ کی جگہ دوسری پارٹیاں لے گئی؟

مولانا صاحب: اور میں عرض کر رہا ہوں جی، حضرت دوسری پارٹیوں کا لینا، نہ لینا یہ عوام کا کام ہی نہیں ہے، عوام ووٹ ڈالتے ہیں، آپ کی تائید میں ڈالتے ہیں، پھر کوشش کرتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بے خبر رکھیں اس وقت سوشل میڈیا بھی نہیں تھا اور جو میڈیا تھا وہ ان کے کنٹرول میں ہوتا تھا اور ہم نے جو اصلاحات کی، آپ مجھے بتائیں کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ علاج مفت ہوگی چنانچہ علاج مفت شروع کر دیے گئے، ایمرجنسی مفت کر دی گئی، دوائیاں باہر سے مفت لائی جائیں گے اور تمام اضلاع میں اے لیول ہاسپٹلز بنانے کا ہم نے پروگرام بنایا، ہم بارہ ضلعوں تک کامیاب ہو سکے، اگے ہم جا نہیں سکے۔

میزبان: اتنی اچھی کامیابیوں کے باوجود۔۔۔

مولانا صاحب: ایسا ہی ہوتا ہے، آپ کے خلاف ایک چھوٹی سی کمزوری اٹھا کے پھیلا دی جاتی ہے اور پھر آپ کے ووٹوں کو تبدیل کیا جاتا ہے، یہ سارے کھیل ہمارے ملک میں ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہماری مرضی کی۔۔۔

میزبان: اس کا مطلب ہے ایم ایم اے کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے؟

مولانا صاحب: ہوا ہے، کیا شک ہے، یعنی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یا میرے 72 سیٹیں ہو قومی اسمبلی میں، یہاں میں 15 سیٹوں پہ آجاؤں یک دم۔

میزبان: سر یہ بات بتائیں دو ہزار دو میں آپ پرائم منسٹر کے امیدوار تھے، آپ کو ایک ایسے شخص نے ووٹ دیا جس کو آپ یہودی ایجنٹ کہتے ہیں۔

مولانا صاحب: نہیں میں اس وقت یہودی ایجنٹ نہیں کہتا تھا۔

میزبان: اس کو نہیں کہتے تھے ؟

مولانا صاحب: اس کو نہیں کہتا تھا کیونکہ اس وقت کوئی ایسی کوئی چیز تھی نہیں، میں کوئی ذات کا دشمن تھوڑی ہوں جی، لیکن جب ہمیں کچھ نظریاتی شکایات پیدا ہوئی اور یہ کہ ہماری ملکی معیشت کو آپ مغرب کی معیشت کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور پھر یہاں پر مستقل طور پر ہمارا پورا نظام سود کے تابع چل جائے گا اور امکانات ختم ہو جائیں گے کہ جیسے قائد اعظم کا ویژن تھا کہ مغرب کے نظام معیشت نے دنیا کو تباہ کیا ہے اور ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق جو سٹیٹ بینک کا افتتاح کر رہے تھے۔ تو وہ سارے اصول جو پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے متعین کیے تھے جب وہ چیزیں ہمیں خطرے میں نظر آئیں تو ہم تنقید کی ہے۔

میزبان: ٹھیک ہے، بلوچستان حکومت کیا آپ نے نواب اکبر بگٹی کے رویے کی بنا پر ختم کی، اس سے آپ علیحدہ ہوئے؟

مولانا صاحب:جی کچھ شکوے شکایتیں جب پیدا ہوئی اور ہمارے منسٹرز نے یہ سوچا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں چل سکتے تو ہم نے آرام سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی حکومت تو رہی اس کے باوجود بھی، لیکن بہرحال وہ ایک دبنگ شخصیت تھے، میں ان کی شخصیت سے ہمیشہ متاثر رہا ہوں اور ان کی جراتمندانہ گفتگو، جراتمندانہ موقف، سیاست میں اختلاف بھی اتے ہیں اتفاق بھی اتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ان کی جو شخصیت تھی وہ اپنی ذات میں سحر انگیز تھے۔

میزبان: اب اگلا سوال ہے کہ وزیراعظم گیلانی نے جب اعظم سواتی کو برطرف کیا تو آپ حکومت سے علیحدہ ہو گئے تھے، یہاں پہ کیا وجہ تھی؟

مولانا صاحب: ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہمارے منسٹر کو جب کابینہ سے علیحدہ کیا گیا تو اس کے بعد پھر حکومت میں رہنا اور کوئی جواز نہیں رہا۔

میزبان: ویسے اعظم سواتی کے ساتھ آپ کی ہمدردیاں اب بھی ہیں؟

مولانا صاحب: ذات کی بات نہیں ہے، ہم سے بے وفائی کی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن ہم ذات کی بات نہیں کر رہے، میرے خیال آپ نے کبھی ان کا نام بھی ہمارے زبان پہ نہیں سنا ہوگا اور اگر آپ سوال نہ کرتے تو میں جواب ہی نہ دیتا، جب میرے میری پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر نکالا جائے گا تو پھر اصولی سیاست تو یہی ہے۔

میزبان: آپ کا مؤقف ہے پاکستان میں اصلی کردار کی مالک اسٹیبلشمنٹ ہے، وہ اگر درمیان سے ہٹ جائے تو عوام دینی جماعتوں کو ووٹ دیں گے؟ اگر اپ کی بات کو تسلیم کر لیا جائے تو انیس سو ستتر میں کیوں کر پی این اے وہ کامیابی حاصل نہ کر سکی حالانکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں تھی؟

مولانا صاحب: دیکھیے اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی ابتدا میں اور ہمارا اعتراض نتائج پہ تھا جی، قومی اسمبلی کے الیکشنز ہوگئے، صوبائی کا بائیکاٹ ہو گیا کیونکہ دو دن کے بعد تھا وہ الیکشن، تو اس پہ تحریک چلی، دوبارہ الیکشن کے حوالے سے معاہدہ ہوگیا، بتیس نکات پی این اے کی طرف سے پیش کیے گئے، بتیس نکات میں سے ایک مطالبہ جو ہے وہ خود پی این اے نے وڈرا کیا، 31 مطالبات بھٹو صاحب نے مان لیے، صبح دستخط ہو رہے تھے اور مارشل لاء اگیا۔

میزبان: سر یہاں پہ تو اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہی تھی، بھٹو کے خلاف تھی، تو آپ یہ کیوں نہیں جیت پائے؟

مولانا صاحب: حضرت اگر اس وقت یہی اعتراض تھا کہ حکومت نے خود دھاندلی کی اور سب ثبوت تو بھٹو صاحب کے سامنے پیش کر دیے گئے تھے، ساری چیزیں امنے سامنے ہوئی تھیں۔

میزبان: اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا رول؟

مولانا صاحب: اسٹیبلشمنٹ تو اس وقت چونکہ پاکستان ٹوٹ چکا تھا اور نئی صورتحال میں ابھی سیاسی جماعتوں کی گرفت تھی، سیاست دانوں کے گرفت موجود تھی اور ایک لمبے عرصے تک سیاستدانوں کی گرفت موجود رہی، رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے نا۔

میزبان: تیرہ اگست دو ہزار تیرہ کو آپ کو نوٹس دیا تھا عمران خان نے، لیگل نوٹس بھیجا تھا تو اس کا کیا بنا؟

مولانا صاحب: مجھے آج تک نہ نوٹس ملا ہے، نہ مجھے آج تک اس کا علم ہے۔

میزبان: ایک بڑے اہم حوالے سے سوال ہے سر آپ سے، دو ہزار تیرہ میں نواز شریف کا یہ فیصلہ درست تھا کہ پی کے میں حکومت مخلوط نہ بنائی جائے؟

مولانا صاحب: انہوں نے خود اعتراف کیا کہ میرا فیصلہ غلط تھا۔

میزبان: میں آپ سے پوچھا رہا ہوں کہ۔۔۔۔

مولانا صاحب: وہی عرض کر رہا ہوں نا، کہ ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہم حکومت بنا سکتے ہیں، ہمیں حکومت بنا لینی چاہیے، لیکن انہوں نے کہا لارجر گروپ وہی ہے، تو جمہوری تقاضہ یہ ہے کہ ان کو حکومت بنانے دیا جائے، تو ہم نے کہا کہ یہ تو آپ کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی ہمارے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

میزبان: وہ فیصلہ اتنا غلط ثابت ہوا کہ ابھی تک آپ اس کے غلط فیصلے سے باہر نہیں نکل پائے۔

مولانا صاحب: میرے خیال میں اس پر تبصرہ حالات کو کرنے دیں، میرے تبصرے تو ہو چکے ہیں اور آئندہ لوگ اس کے اوپر تبصرے کریں گے۔

میزبان: آپ نے اکیس ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کن وجوہات کی بنا پر کی تھی؟

مولانا صاحب: بات یہ ہے حضرت، کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس کو ڈیپ سٹیٹ کے حوالے سے سوچیں گے، اس پر تبصرہ آپ نہیں کر سکیں گے۔

میزبان: نہیں، آپ وجوہات بتا دیں۔

مولانا صاحب: یہی عرض کر رہا ہو نا کہ بعض دفعہ جیسے امریکہ کی پالیسی ہے کہ جہاں دنیا میں وہ پھیلنا چاہتی ہے، جس ملک پہ اترنا چاہتی ہے، پہلے وہاں پر جھگڑا پیدا کرتی ہے، لڑائیاں پیدا کرتی ہے، پھر اس کے بعد جواز پیدا ہو جاتا ہے۔

میزبان: وہ جو کچھ بھی واقعہ ہوا اور جو کچھ واقعات وہاں پہ ہو رہے ہیں، انسانوں کی جانیں جا رہی ہیں، فوجیوں کی بھی جا رہی ہیں، سول ملٹری اداروں کی جا رہی ہیں، تو کوئی نہ کوئی تو ذمہ دار ہے نا؟

مولانا صاحب: حضرت اس میں ہم بجائے اس کے، کہ ایک دوسرے پپ ذمہ داری ڈالیں، اس کو ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اس معاملات کو پارلیمنٹ میں لائے، مشترکہ کوئی کمیٹی بنائے، سیکورٹی جو ہماری کمیٹیاں پارلیمان کی اس میں لائی جائیں اور اس کو ان کیمرہ ڈسکس کیا جائے، تاکہ سب چیزیں سامنے آئیں ورنہ اس طرح تو ہم ان سے شکایت کریں گے وہ ہم سے شکایت کریں گے، تو شکایتوں شکایتوں میں وہ جو وحدت ہے وہ پارہ ہو جاتی ہے۔

میزبان: اچھا یہ بڑی انٹرسٹنگ چیز نظر ائی جو میں آپ کی سٹڈی کر رہا تھا، "ایز ایٹ اے فیکٹ دیٹ یو ار ریگولر آفیشل گیسٹ اف چائنیز کمیونسٹ پارٹی"؟

مولانا صاحب: جی مجھے انہوں نے دعوت دی تھی ہمارے فارن افیئرز کمیٹی میں دعوت دی تھی انیس سو پچانوے میں، اور اسی میں ہم نے سی پیک کی تجویز وہاں ان کے سامنے رکھی تھی اور اسی میں ہم نے کاشغر سے لے کر گوادر تک، وایا پاکستان ٹریڈ کے باقاعدہ دلائل دیے تھے، وہ تحریری طور پر موجود ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی فارن افیئرز کمیٹی کے ایفرٹس کے ساتھ سی پیک کا آغاز ہوا تھا۔

میزبان: تو اب پرماننٹ کی آپ وزٹ کرتے ہیں چائنہ کا؟

مولانا صاحب: اس کے بعد میں دو تین دفعہ گیا ہوں۔

میزبان: یہ کس حد تک درست ہے کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر عمران خان کے خلاف ووٹ اپ نو کانفیڈنس کی تحریک لائی گئی؟

مولانا صاحب: ووٹ اف نو کانفیڈنس کی تحریک پیپلز پارٹی نے چلائی، میں نے اس سے مخالفت کی تھی کہ نہ کرو اس طریقے سے تحریک بڑی طاقتور ہے اور پورے طاقتور تحریک کے ذریعے سے آپ تبدیلی لائیں اور اگر ایسے وقت میں آپ نے تبدیلی لائی کہ جہاں ملک اقتصادی لحاظ سے بیٹھ چکا ہے اور ہم حکومت ہاتھ میں لیں تو یا تو ہم فوری طور پر اگر عدم اعتماد بھی لائے تو فوراً الیکشن کا اعلان کر دے جی، پھر حکومت نہ چلائیں، ورنہ ہم سے ملک اٹھے گا نہیں اور ان کا گراف دوبارہ اٹھے گا ہمارا گراف نیچے جائے گا، یہ ساری چیزیں ہم نے ان کے سامنے رکھی لیکن پھر جب اس کے بعد مسلم لیگ بھی ان کے حامی ہو گئی اور انہوں نے بھی کہا کہ عدم اعتماد کی طرف جانا چاہیے اور اسی میں پھر کچھ آزاد لوگ، کچھ پی ٹی ائی کے لوگ، باپ پارٹی کے لوگ، پھر ایم کیو ایم والے یہ سارے آگئے عدم اعتماد کی طرف، تو پھر انہوں نے کہا جی چلایا رکھو، اس چلائے رکھنے کا جو فلسفہ تھا یقیناَ ہم نے پی ڈی ایم کو نہیں توڑا، ہم نے اس وقت علیحدگی اختیار کر کے بحران نہیں پیدا کیا لیکن رائے ہماری بڑی واضح تھی جو ہم اس کا بار بار اظہار کر چکے ہیں۔

میزبان: کیا یہ حقیقت ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے آپ سے کہا تھا کہ فاٹا کا انضمام اس لیے ضروری ہے کہ ان پر امریکیوں کا دباؤ تھا؟

مولانا صاحب: بالکل کہا تھا، شاہد خاقان عباسی صاحب بھی بیٹھے تھے، میں بھی بیٹھا تھا۔

میزبان: آپ نے اس دباؤ کی وجوہات پوچھی؟

مولانا صاحب: میں نے تو اس سے اختلاف کیا تھا۔

میزبان: نہیں، آپ نے یہ اختلافات کی بات پوچھی کہ کیوں دباؤ ڈال رہے ہیں؟

مولانا صاحب: یہ تفصیل تو انہوں نے نہیں بتائی لیکن جو میں نے چار چیزوں پر حکومت کو دستبردار کرنے پر آمادہ کر لیا تو اس کے بعد ہم نے کہا کہ باقی چیزیں تو وہاں پر لوگوں کی خدمات کے حوالے سے ہیں، بیس پچیس نکات ہیں، ہمارے اگر چار پانچ مطالبے نکل جاتے ہیں، ہمارے اس پہ اعتراض ہیں، تو نکل جانے دے، پھر اس کے بعد ہمارا اختلاف ختم ہو جائے گا۔ تو وہ مان گئے جی، ماننے کے بعد یہاں پر ایک امریکی افسر وہ بذات خود میرے گھر آیا اور انہوں نے ڈیڑھ گھنٹہ میرے ساتھ بات کی اور اس میں جب بات چیت طے نہیں ہوئی تو اس نے مجھے اپنے گھر پہ کھانے کی دعوت دی ایک ہفتہ کے بعد، وہاں پر ایک دو گھنٹے بات چیت ہوئی لیکن ان کی ضد تھی کہ فاٹا مرجر از مسٹ، اب آپ مجھے بتائیں کہ یہ سب کا کے کہنے پہ ہوا۔

میزبان: لیکن سر یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ امریکن یہ چاہتے تھے کہ آپ اس ملک کے پرائم منسٹر بن جائے؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں یہ بات آپ اس لیے نہ کریں کہ ہمارے پرائم منسٹر بننے میں رکاوٹ ہی امریکہ ہے، اور میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کسی زمانے میں، میں قومی اسمبلی کے فارن افیئرز کمیٹی کا چیئرمین بن رہا تھا، ہے ہوگیا لیکن تین چار مہینوں تک نوٹیفیکیشن نہیں ہو رہا تھا، تو مجھے پتہ چلا کہ یہ رکاوٹ ہے کہ آپ فضل الرحمان کو چئیرمن بنائیں گے۔

میزبان: مولانا صاحب آپ سمجھتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کو اگے لے جانے کے لیے تمام ملک میں انتخابات لوکل باڈیز کے ہو جانے چاہیے؟

مولانا صاحب: لوکل باڈیز الیکشنز تو آئین کا تقاضا ہے۔

میزبان: اٹھارویں ترمیم میں جو اختیارات صوبوں کو دیے گئے، عملی طور پہ عوام تک پہنچنے کے لیے۔۔۔

مولانا صاحب: نہیں، ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں مزید اس میں ضرورت ہے کہ اصلاحات کی جائے، جو چیزیں طے ہوئی ہے اس پر عمل درآمد نہ ہونے سے بد اعتمادی بڑھتی ہے، دوسری بات ہے این ایف سی ایوارڈ کی، اس میں آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ صوبوں کے حصص جو ہیں اس میں اضافہ تو کیا جا سکتا ہے، کمی نہیں ہو سکتی، اب اگر یہ کم کرنے کی طرف سے جانا چاہیں گے آئینی ترمیم کے ذریعے سے، کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہوگا۔

میزبان: مولانا صاحب جب اس بات پہ اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی، تو اب یہ معاملہ دوبارہ کیوں زیر بحث آگیا؟

مولانا صاحب: یہ ایک مسئلہ ہے کہ جو چیزیں، دیکھیں اصولی بات میں کرنا چاہتا ہوں ایک سال نہیں گزرا، ایک سال پورا ہو رہا ہے، اس ایک سال کے اندر جس چیز پر انہوں نے اتفاق کیا تھا عدالتوں کے حوالے سے، ججوں کے حوالے سے اور آئینی عدالت کے بجائے ایک آئینی بینچ پر ایک اتفاق ہوا تھا، تو یہ اس وقت ایک اتفاق رائے کی طرف معاملے کو لے جانا اور ایک درمیانی راستہ تلاش کرنا جس پر اپوزیشن اور حکومت کا ایک اتفاق ہو جائے، اب اگر ان ساری چیزوں کو جس سے کہ پینتیس شقوں سے حکومت دستبردار ہو گئی تھی۔

میزبان: آپ کی وجہ سے اور آپ کی مذاکرات کی وجہ سے.

مولانا صاحب: جس چیز سے وہ دستبردار ہو گئی تھی آج اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوئی تعداد پوری کر لی ہے اور ہم اب، یہ پارلیمنٹ سے بھی تو غداری ہے، یہ آئین 

سے بھی زیادتی ہے۔

میزبان: چھبیسویں آئینی ترمیم آپ نے ووٹ دے دیا، آپ کہتے ہیں کہ گیارہ افراد ایسے ہیں جو خریدے گئے، کیا یہ حقیقت ہے؟

مولانا صاحب: بالکل حقیقت ہے، انہوں نے اپنی گنتی پوری کر لی تھی لیکن یہ تھا کہ پی ٹی ائی اور ہم نے اتفاق کیا اس بات کے اوپر کہ ہم نے کہا کہ پی ٹی ائی ووٹ نہیں دے گی اس لیے کہ ان کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ حکومت کو ووٹ کر سکے لیکن ان کی رضامندی لے کر ہم نے ووٹ دیا ورنہ گیارہ آدمی اگر ووٹ دے دیتے تھے تو پہلا ڈراپ پاس ہوتا۔

میزبان: چیف منسٹر پنجاب، علماء کرام کو پچیس ہزار روپے وظیفہ دینا چاہتی ہے، آپ اس کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ان کی مدد کرنا چاہ رہی ہے آپ مخالفت کر رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ؟

مولانا صاحب: ہمیں رشوتیں نہ دیا کریں، ہمارے ضمیروں کو نہ خریدا کریں۔

میزبان: وہ تو مدد کرنا چاہ رہے ہیں۔

مولانا صاحب: نہیں کس مد سے کر رہے ہیں، حکومت کا کون سا مد ہے بتائیں نا۔

میزبان: ایک سیکنڈ سر، میں آپ کی بات سمجھنا چاہ رہا ہوں، سر آپ کن بنیادوں پر اس قسم کی چیزوں کی مخالفت کر رہے ہیں؟

مولانا صاحب: میں عرض کر رہا ہوں جی، اگر کوئی کالج میں ایک مولوی صاحب ہے، پڑھا رہا ہے، اسلامیات پڑھا رہا ہے، دینیات پڑھا رہا ہے، عربی پڑھا رہا ہے، کوئی اوقاف کی مسجد ہے وہاں کوئی خطیب ہے، امام ہے، کوئی مؤذن ہے تنخواہ دے رہا ہے، مجھے اس پر کیوں اعتراض نہیں ہے، کیوں کہ وہ معلوم ہے کہ کہاں سے اور کیوں لے رہا ہے۔ لیکن اگر آپ مساجد میں جا کر اور مدارس میں جا کر کہیں کہ جی یہ آپ کو ہم عطیہ دے رہے ہیں، پھر آپ نے اس کے شرائطیں پڑھے ہیں، صرف یہی سنا ہے کہ ان کو پیسے دیے جا رہے ہیں، یہ شرائط جو ان کے سامنے لگائے جا رہے ہیں یہ علماء کرام پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں کہ آپ نے خطبہ ہماری مرضی سے دینا ہے اور آپ نے حکومت کی کسی غلط بات پہ تنقید نہیں کرنی۔

میزبان: مولانا صاحب یہاں پر خطبے کی بات ہے کئی اسلامی ممالک میں خطبہ جو ہے ان کی ریاست ان کو دیتی ہے وہ پڑھتے ہیں یہ حقیقت نہیں ہے؟

مولانا صاحب: وہ بادشاہتیں ہیں یہ جمہوریتیں ہیں، یہاں آزادیوں کا ماحول ہوتا ہے، یہ جمہوریت صرف ووٹ لینے کے لیے میرے پاس ہے؟ اظہار رائے کہ آزادی کے لیے اور مسجد میں گفتگو کرنے کی نہیں ہے، غنیمت سمجھو پاکستان کو، کہ یہاں علمائے کرام موجود ہیں، یہاں پر بھی معصوم جملوں کے ساتھ آپ اپنے مسجد، اس کے منبر، اس کے محراب، ان کی آواز اس کو دبانے کے لیے لوگوں کو لالچیں ہی دے رہے ہیں۔

میزبان: سر گارنٹی دی ہے۔۔

مولانا صاحب: میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں حضرت آپ میری بات سنیں، یہ جو پچیس ہزار روپے دیے جا رہے ہیں یہ دکھاوے کے دانت ہیں، آپ مجھے بتائیں چھبیسویں ترمیم کا ایک سال پورا ہو گیا ہے آج تک ہمارے مدارس کو قانون کے مطابق پاس ہو چکا ہے نہ صوبوں میں قانون سازی ہو رہی ہے نہ دینی مدارس کو انیس سو ساٹھ کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت ابھی تک رجسٹر کیا جا رہا ہے، کچھ باتیں واضح ہونی چاہیے کہ ہم ایسی چیزوں سے بہلائے نہیں جا سکتے۔

میزبان: اچھا مولانا ویسے ایک بات ہے، برا نہ منائیے گا، جو مدارس ہیں ان کو گرانٹس ملتی ہیں یہ تو حقیقت ہے یا نہیں ہے؟

مولانا صاحب: دیکھیے ایک ہے گرانٹس ملنا، ایک ہے مدارس کا اصول

میزبان: ٹھیک ہے سر، آپ دو مرتبہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو موجودہ وہاں پہ عوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبات کی اور کہا کہ مہاجرین کی نشستیں ختم کر دی ہیں، کیا آپ کے دور میں بھی کبھی یہ ایشو آپ کے سامنے ایا تھا؟

مولانا صاحب: ہمارے دور میں حضرت کوئی ایشو نہیں آیا، میں کشمیر کے ان کیمپوں میں گیا ہوں کہ جہاں آج تک کوئی چیئرمین نہیں جا سکا، میں نے مظفرآباد میں مہاجرین کے ساتھ اتنی میٹنگیں کی ہیں۔۔۔۔

میزبان: یہ سوال نہیں، میرا تو سوال تھا کہ جو یہ مطالبہ مان لیا گیا ہے کیا یہ قابل عمل ہے یا اس پہ عمل ہو جائے گا؟

مولانا صاحب: اب یہ تو اس وقت تھوڑا سا قانون کے حوالے سے تھوڑا سوچنا پڑے گا.

میزبان: سر آپ طالبان کے بھارت کے ساتھ جو قریبی تعلقات ہیں ان کو کیسے دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: حضرت میں انڈیا کے مقابلے میں طالبان کو پرو پاکستانی دیکھنا چاہتا ہوں۔

میزبان: اچھا پاکستان اور افغانستان کے جو مذاکرات، آپ ان کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے مذاکرات ہونے چاہیے، یہی راستہ ہے مسائل کے حل کرنے کا، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ، سرحدات کے اوپر کشیدگی، تجارتی راستوں کا بند ہونا یہ سارے وہ چیزیں ہیں جو تو مستقل پڑوسیوں کے درمیان تلخیوں کا سبب بن رہے ہیں اور جس افغانستان سے ہمیں یہ توقع ہے کہ وہ ایک پرو پاکستان افغانستان ہمیں چاہیے ہماری ڈپلومیسی کیوں اتنی کمزور ہے کہ ہم الٹی سمت پہ سفر کر رہے ہیں اور جس طرح پاکستان کا مفاد چاہیے اس طرف ہمارے قدم نہیں بڑھ رہے ہیں۔

میزبان: مولانا صاحب کیا یہ حقیقت نہیں کہ جو دوحہ میں مذاکرات ہوئے جب امریکنز نے ان کے ساتھ اور اس سے پہلے جب مذاکرات ہوئے، تو اس وقت مہاجرین کے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا یہ حقیقت ہے یا نہیں ؟

مولانا صاحب: دیکھیے مہاجرین نے تو جانا ہی جانا ہے، مہاجرین کہتے اسے ہے کہ وہ عارضی یہاں پر پناہ گزین ہیں اور کب تک ہیں اب جب ایک دفعہ ایک لوگ مہاجر بن کر کسی ملک میں چلے جاتے ہیں اور وہاں پر سالہا سال تک قیام کرتے ہیں، پھر یہ دو طرفہ معاشی بن جاتا ہے اب وہ مہاجرین کی واپسی کا معاملہ افغانستان اور پاکستان کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس کو جب تک مشترکہ میٹنگ میں اور مذاکرات میں طے نہیں کیا جاتا، یک طرفہ اقدامات جو ہیں وہ تلخیاں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

میزبان: ابھی ایک افغانستان سے ان کے وزیر خارجہ گئے ہندوستان میں، انہوں نے کہا کہ وہ اس بارڈر کو نہیں مانتے، یہ ڈسپیوٹڈ بارڈر ہیں اور وہ نہیں مانتے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

مولانا صاحب: یہ مرجرز کے وقت بھی میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ ہم اس کو ایک مستقل بارڈر کہتے ہیں لیکن افغانستان نہیں کہتا۔

میزبان: سر ان کے نہ کہنے کی کیا وجہ کیا ہے؟ آپ ایک انڈیپنڈنٹ ریاست ہیں اور آئین کے اندر جو آپ کی ڈیفینیشن ہے۔۔؟

مولانا صاحب: دیکھیں یہ تو آپ ان سے پوچھیں کہ آپ۔۔۔

میزبان: نہیں میں آپ سے پوچھوں گا..

مولانا صاحب: میں تو بارڈر تسلیم کرتا ہوں جی، میں تو پاکستانی ہوں۔

میزبان: آپ ڈیورنڈ لائن کو مانتے نہیں ہیں، آپ وہ انٹرنیشنل۔۔۔

مولانا صاحب: ڈیورنڈ لائن کی اصطلاح اور لفظ آج بھی تو استعمال ہو رہا ہے نا، جہاں لائن کلر استعمال ہوگا وہاں بارڈر اور لائن میں فرق دیکھنا ہوگا، لائن تو میرے خیال میں عارضی ہوتی ہے۔

میزبان: آپ کے نزدیک کیا چیز ہے؟

مولانا صاحب: میرے نزدیک بارڈر ہے، میں پاکستانی ہوں، میرا پاکستانی موقف ہیں لیکن افغانستان کا موقف ہے جس کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ یہ تنازعہ ہے، ایک فریق کہتا ہے میں نہیں مانتا تو تنازعہ تو رہ گیا۔

میزبان: سر اس تنازعہ کے تحت جو نقصان اٹھا رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔

مولانا صاحب: نہیں حضرت، دنیا میں پوری دنیا میں سرحدات کے تنازع ہیں، لیکن خاموش پڑے رہتے ہیں۔

میزبان: عام طور پہ تجویز دی جاتی ہے کہ پاک افغان سرحد پر آمد و رفت بغیر قانونی کاغذات کے ہونی چاہیے کیونکہ دونوں مسلمان ممالک ہیں، میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ یا مسلم ممالک موجود ہیں اور ان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں کیا اس قانون کا اطلاق وہاں بھی ہونا چاہیے؟

مولانا صاحب: دیکھیے دنیا میں جہاں بھی ملکوں کے سرحدات ملتے ہیں وہاں سرحدی علاقوں کو کچھ مراعات ضرور دی جاتی ہے، یہ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان میں بھی ہے۔ اور یہاں پر بھی حضرت ہم نے دیکھا کسی زمانے میں پشاور میں ریڈ کارڈ ملتا تھا اور اس کے ذریعے سے لوگ کابل جاتے تھے، تجارت کرتے تھے، وہاں سے واپس اتے تھے اور کچھ ایک چھوٹا موٹا نظام ضرور ہوتا تھا تاکہ شناخت ہو کے کون اُدھر گیا ہے کون ادھر ایا ہے، لیکن ہم نے ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں چودہ سالہ جہاد کے دوران تو بالکل ہی سرحدات کھول دیے تھے،اتو جب سرحدات بالکل ہی کھول دیے تھے تو اس کے بعد اب گلا کس سے کر رہے ہیں۔

میزبان: سر افغانستان سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان سمگل کی جا رہی ہیں، یہ آئیس ہماری یونیورسٹی تک بھی پہنچ گئی ہے، ہماری نوجوان نسل کو خراب کر رہی ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

مولانا صاحب: اس کے بارے میں حضرت بات یہ ہے کہ اس کی شکایت ہمیشہ رہی ہے چودہ سالہ روس کے خلاف جنگ کے دورانیہ سے، کہ کلاشنکوف اور افیون اس زمانے میں دنیا کی طرف چلنا شروع ہوا اور پاکستان کے راستے سے ہی چلتا ہے جی، لیکن ملا عمر کے زمانے میں افغانستان میں پوست کی کاشت زیرو کر دی گئی تھی اور اس کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے۔

میزبان: آپ سر اتنے سال سے سیاست میں ہیں آپ کو نہیں لگتا کہ سیاست اور جمہوریت ماضی کے مقابلے میں بدتر ہوتی جا رہی ہے؟

مولانا صاحب: بالکل میں اس کا اعتراف کرتا ہوں، اور یہ سیاستدانوں کو اجتماعی طور پر سوچنا پڑے گا۔

میزبان: آپ نے پوری سیاسی زندگی میں نظام کی اصلاح کا نعرہ لگایا لیکن نظام نہیں بدلا، کمی کہاں ہو رہی ہے؟

مولانا صاحب: نظام نہیں بدلا ہم بدلے ہیں، دیکھیے آپ نے جو کچھ کرنا ہے اپنے استطاعت کے اندر ہی کرنا ہوتا ہے، پھر جدوجہد کریں نتائج اللہ پہ چھوڑنے پڑتے ہیں جی، ہم نے جدوجہد بھی کی ہے، ہم نے اپنے موقف کو بھی تبدیل نہیں کیا، ہم نظام کی تبدیلی اب بھی سمجھتے ہیں کہ ہونی چاہیے۔

میزبان: خرابی ہو کہاں رہی ہے، مجھے یہ سمجھا دیجئے؟

مولانا صاحب: حضرت ایک ہے مساجد، نمازیں، روزہ، حج یہ انفرادی عمل ہے، ایک ہے مملکتی عمل، مملکتی عمل یہ ہے کہ ہم ملک کو کون سا قانون دینا چاہتے ہیں سو قرآن و سنت کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات، اس کے مطابق قانون سازی ہونی چاہیے، تاکہ ملک کو جن قوانین کی ضرورت ہو اور جن تبدیلیوں کی ضرورت ہو وڈ ان دی کانسٹیٹیوشن، کیوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل تو انہی قوانین پر غور کرتی ہے جو اس کے اندر موجود ہیں۔

میزبان: آپ کے نزدیک قومی ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے جس کی بنا پر ساری سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ جائیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے ایک بات ذہن میں رکھیں، سیاسی جماعتیں ہمیشہ نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے کے حریف ہوتی ہیں، حلیف نہیں ہوتی، جہاں پر ہمارے ملک کا نظام ہے یہاں پر اگر مکاتب فکر اتفاق کر لے تو سیکولر جماعتیں بھی کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے ہم بھی مسلمان ہیں اگر سب اتفاق کرتے ہیں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اس کے اوپر، چنانچہ اسلام نظریاتی کونسل جب بنا تو ولی خان بھی موجود تھا، اس میں بزنجو صاحب بھی موجود تھے، اس میں قادر بلوچ بھی موجود تھا، اس میں سارے لوگ موجود تھے اور سب نے قبول کیا اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے تو بنایا اس کو جی، تو ان کی سفارشات پر قانون سازی کیوں نہیں کی جا رہی۔

میزبان: تو انہوں نے جو سفارشات دیے ہیں ان پر اگر عمل درامد کر دیا گیا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ میرا جو یہ سوال تھا کہ اس بنا پر ساری جماعتیں اکٹھی ہو سکتی ہیں؟

مولانا صاحب: سارے جماعتیں اس پر اکٹھی ہیں، میں بتاتا ہوں آپ کو، جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے انیس سو باون کے اندر اکیس اسلامی دفعات پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق آج بھی وہ متفقہ ڈاکومنٹ ہے، کسی مسلک نے اس سے اختلاف نہیں کیا، قرارداد مقاصد جو نوابزادہ لیاقت علی خان نے پیش کی جس کا مسودہ علامہ شبیر عثمانی رحمت اللہ علیہ نے پیش کیا تھا، آج بھی وہ متفقہ ڈاکومنٹ ہے، 1973 کے آئین میں تمام اسلامی دفعات متفقہ ڈاکومنٹ ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات آج بھی متفقہ ڈاکومنٹ ہے۔

میزبان: اچھا اب آخری سوال ہے اگر آپ کو ماضی کا کوئی ایسا سیاسی فیصلہ واپس لینے کا موقع ملے تو وہ کون سا سیاسی فیصلہ ہوگا؟

مولانا صاحب: یہ بات مجھ سے نہ پوچھیے، یہ بات میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ سن سینتالیس سے لے کر آج تک کون سا صحیح فیصلہ کیا ہے تم نے کہ اس پہ آپ کہتے ہیں کہ بڑے ہم نے زبردست حکومت کر رہے ہیں، یہ اعتراض تو میرا ہے سب کے اوپر۔

میزبان: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کون سا ایسا سیاسی فیصلہ زندگی میں آپ نے جو کیا وہ درست نہ تھا؟

مولانا صاحب: دیکھیے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں مثلاً تریہتر کا آئین بن رہا ہے اب یہ تو نہیں ہے کہ سن تریہتر کا آئین کے سارے دفعات ہماری مرضی کے بنے، ایسے بھی ہوئے ہوں گے کہ اکثریت ان کی طرف سے وہ جیت گئے ہم ہار گئے۔

میزبان: سر ڈیبیٹ بہت ہوئی 73 کے آئین کو بنانے میں بہت ڈیبیٹ ہوئی اور آپ کے بزرگوں کی بڑی کنٹریبیوشن ہے۔

مولانا صاحب: تبھی تو متفقہ آئین آئی ہے نا جی، تو ہم کچھ چیزیں اپنی مرضی کی بھی ڈال لیتے ہیں، بہت سی چیزیں ہماری مرضی کے خلاف بھی ا جاتی ہیں، جب سترہ ویں ترمیم ہوئی تو جنرل مشرف کے ساتھ اس زمانے میں جب بات چیت رہی تو بہت سی چیزیں ہم نے ایل ایف او کی آئین سے نکالی لیکن بہت سی چیزوں کو نہیں نکال سکے جی، ہمیں یہ ضرور احساس تھا کہ کچھ چیزوں پر ہم نے کمپرومائز کیا ہے، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد جب ہم نے ان کا صفایا کر دیا تو ہمیں بھی اطمینان ہوا کہ ہم نے واپس کر دی ہے ۔تو کچھ چیزیں ہو جاتی ہیں لیکن جب موقع ملتا ہے تو اس کی تلافی بھی ہو جاتی ہے۔

میزبان: مولانا صاحب آپ اس مہینے نومبر کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟

مولانا صاحب: ہنگامہ خیز ہوگا ذرا، میں تو یہ سوچتا ہوں کہ ستائیس ویں آئینی ترمیم آنی ہی نہیں چاہیے، کیوں ملک کو ہنگامے کے حوالے کیا جا رہا ہے، کیا ضرورت ہے اس قسم کی ترامیم لانے کی۔

میزبان: مولانا صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ

مولانا صاحب: اللہ تعالیٰ عافیت فرمائے بہت شکریہ آپ کا جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض

‎ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments