مولانا فضل الرحمن کا جامعہ اسلامیہ حلیمیہ مدہی پور منشی گنج بنگلہ دیش میں درس بخاری کے موقع پر علمی بیان

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا جامعہ اسلامیہ حلیمیہ مدہی پور منشی گنج بنگلہ دیش میں درس بخاری کے موقع پر علمی بیان

16 نومبر 2025

حضرت مولانا عبدالحمید صاحب، جامعہ اسلامیہ حسینیہ کے تمام زمہ داران، اساتذہ کرام، طلبہ عزیز! میں شکر گزار ہوں حضرت مولانا محترم کا کہ انہوں نے ہمیں اپنے اس جامعہ میں حاضر ہونے کا موقع عنایت فرمایا، اور ہمیں یہ سعادت بخشی کہ طلباء کے اس اجتماع میں آپ حضرات سے ملاقات ہو اور کچھ علم کی باتیں ہوں۔ الحمدللہ آپ اہل علم ہیں اور علم دین کے حصول کے لئے گھروں سے آئے، یہاں مدرسے میں بیٹھے، جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے فرمایا؛

ما اجتمع قومٌ في بيتٍ من بيوت الله يتلون كتابَ الله ويتدارسونه بينهم، إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة، وحفّتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده۔

جو لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب کو پڑھیں اور ایک دوسرے کو سمجھائے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر کچھ نقد انعام نازل فرماتے ہیں، پہلا انعام یہ کہ ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے، سکینہ، سکون، اطمینان، طمانیت، یہ ضد ہے اضطراب، پراگندگی اور پریشانی کی، اور علماء فرماتے ہیں کہ سکینہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس وقت اس کے اوپر انوار کا نزول ہو رہا ہوتا ہے۔ اور دوسرا انعام کہ اس مجلس کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور تیسرا انعام یہ کہ اللہ کے فرشتے اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں اور چوتھا انعام یہ کہ پھر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی مجلس میں یاد کرتے ہیں، تو جو لوگ اللہ کی کتاب سے وابستہ ہوئے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سنت کو سمجھنے کے لیے حدیث کی تعلیم حاصل کرنے لگے، تو یہ وہ لوگ ہیں جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا؛

الرَّحْمَٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْآنَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ، عَلَّمَهُ الْبَيَانَ

اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر تمام دنیا کی نعمتوں میں سے سب سے ممتاز اور عظیم نعمت جو قرآن کی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطاء کی، جب ہم نے یہ امانت آسمانوں کے سامنے پیش کی، پہاڑوں کے سامنے پیش کی، زمین کے سامنے پیش کی، تو انہوں نے امانت کا یہ بار اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس امانت کو، اس کے بار کو اٹھانے سے خوف کھانے لگے، ڈرنے لگے گئے، پھر انسان تیار ہو گیا اس کے لیے اور انسان نے یہ بار اٹھایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے پیدا کیا؛

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا

اور پھر تمام چیزوں کے نام، ہر چیز کا علم اللہ نے حضرت آدم کو دیا، اب ظاہر ہے جس چیز کا نام امانت ہو، تو پھر امانت اسی چیز کو کہتے ہیں کہ پھر آپ کو اپنے خواہشات چھوڑنی ہوں گی اور اس امانت کی حفاظت کو سب سے عظیم ذمہ داری سمجھنی ہوگی، سو اگر کسی نے انکار کر دیا، کفر کر دیا، وہ عذاب کا مستحق ہوا، اور جس نے اس پر ایمان لایا اور ایمان کے باوجود اس سے تقصیر ہو گئی، لاپرواہی ہو گئی، تو اللہ نے اس کو معاف کر دیا۔ تو اس کو احساس ہو گیا کہ اس سے کمزوری ہو گئی، امانت میں جو میرے اوپر فرض تھا میں نے وہ فرض ادا نہیں کیا، میں نے گناہ کر دیا، اللہ کو ناراض کر دیا اور پھر فوراً وہ اللہ کے سامنے شرمندگی کا اظہار کرتا ہے، معافی مانگتا ہے، استغفار کرتا ہے، توبہ کرتا ہے، تو پھر اللہ نے اس کو معاف کر دیا یہ ایمان کی برکت ہے، لیکن اللہ رب العزت نے جب یہ امانت انسان کے حوالے کی تو یہ اتنا سچا دین تھا کہ اس سچے دین کو جھٹلانا ممکن نہیں تھا، اب وحی پر تو وہ کوئی الزام لگا نہیں سکتے تھے تو پھر وحی لانے والی ذات اس پر انگشت نمائی کی، ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ امانت روئے زمین پر بھیجنے کے لئے حضرت جبریل کے حوالے کی، تو یہ افواہیں اڑا دی گئیں کہ اتنے دور سے ایک وحی آ رہی ہے اور راستے میں شیطان بھی ہیں اور وہ وسوسے بھی ڈال رہے ہیں اور جگہ جگہ پر وہ اس میں شکوک و شبہات ڈال رہے ہیں زمین تک پہنچتے پہنچتے، تو شاید اس میں کوئی تبدیلی آگئی ہوگی یا شاید وہ چیز نہ ہو جو اللہ نے حوالے کی ہے۔ تو اللہ نے اس پورے پروپیگنڈے کو خود رد فرمایا اور فرمایا؛

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ۔ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ۔ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ

اتنا طاقتور، اور پوری قوت کے ساتھ اور محافظ دستے بھی ساتھ ساتھ آ رہے ہیں، ممکن نہیں ہے کہ اس کے ایک حرف کو کوئی تبدیلی لا سکے اور تبدیلی کی کوشش کرے اور کامیاب ہو سکے۔ تو یہ پروپیگنڈہ بھی ختم، اب پروپیگنڈہ کر دیا کہ روئے زمین پر رسول اللہ ﷺ کو جو وحی دی گئی ہے اور جس طرح یہ کلام سنا رہے ہیں اور جس طرح یہ معجزات دکھا رہے ہیں یہ کلام کسی شاعر کا ہو سکتا ہے اب شاعر والی باتیں تو تخیلات کی باتیں ہوتی ہیں لہذا وہ قابل اعتبار تو نہیں ہے یا پھر یہ کوئی جادوگر ہے کرتب دکھا رہا ہے، تو وہ بھی قابل اعتبار چیز نہیں ہوتی، تو یہاں پر اللہ رب العزت نے فرمایا؛

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ۔ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ۔ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ۔ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ

اب جو اللہ کا دین بیان کرے گا اس پر امتحانات آئیں گے، اس پر تہمتیں لگیں گی، تاکہ معاشرے کے سامنے وہ مشکوک ہو جائے، آج کل مولوی صاحب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، قرآن حدیث کو تو نشانہ بنا نہیں سکتے، اس سچ کا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، اس پر کوئی تہمت لگے گی خود ان کا منہ کالا ہو جائے۔ تو معاشرے کے لیے اس کو ناقابل قبول بنانے کے لیے جو لوگ اس کا تحمل کرتے ہیں، جو اس امانت کو اٹھاتے ہیں، جو اس کا علم حاصل کرتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس قسم کی الزامات کا۔ تو اس حوالے سے اگر علماء جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهماً، إنما ورّثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر۔

علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی وراثت روپے پیسہ نہیں ہے، ٹکہ مکا نہیں ہے، ان کی میراث وہ تو یہ علم ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس سے پہلے تمام انبیاء اکرام علیہ السلام انہوں نے کتنی مشقتیں برداشت کی اس امانت کی حفاظت کے لئے، نبی علیہ الصلاة والسلام نے کتنی آزمائشیں برداشت کی اس امانت کا بار اٹھانے کے لئے، تو جو اللہ کے اس دین کو اس کے پرچم کو بلند کرے گا اس کا نام اٹھائے گا، اس دین کی حاکمیت کی بات کرے گا، اس کی حکومت کی بات کرے گا، تو پھر آزمائشیں تو آئیں گی، پھر تکلیفیں تو آئیں گی اور سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء پر آئیں۔ تو اب جب آپ حضرات نے دین کا یہ علم حاصل کر لیا ہے تو یہ احساس ہر وقت ہوگا کہ میرے پاس جو امانت ہے یہ وہ امانت ہے جس کو قبول کرنے کے لئے نہ آسمان تیار ہوئے اور نہ پہاڑ تیار ہوئے نہ زمین تیار ہوئی، یہ تو انسان نے قبول کیا اور وہ امانت رفتہ رفتہ میرے پاس آئے گی، رفتہ رفتہ میرے پاس آئے گی۔ تو یہ امانت آج آپ کے ہاتھ میں ہے اور طلباء کرام سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ طالب علم جب گھر سے نکلتا ہے اور مدرسے میں پہنچتا ہے تو تین چیزوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے ایک مدرسے کے ساتھ، ایک کتاب کے ساتھ، ایک استاد کے ساتھ، مدرسہ اس کا مادر علمی ہے جس کی گود میں وہ نشونما پا رہا ہے اور کتاب اس کی روحانی نشونما کا غذا ہے، غذا کا ذخیرہ ہے کتاب اور استاد وہ باپ ہے جو ساری رات مطالعہ کرتا ہے اور اس ذخیرے سے اپنی اولاد کیلئے چن چن کر غذا سے وہ اس کو حوالے کرتا ہے اس کی استعداد کے مطابق، تو ان تینوں کے ساتھ اگر آپ کا تعلق ہے ادب کا، احترام کا، تو پھر تو آپ اکتساب فیض کر سکیں گی، کچھ ان سے حاصل ہو جائے گا، کچھ ان کی برکتیں آپ میں آ جائیں گی، اور اگر اس میں کوتاہی ہوئی، نہ مدرسہ کی عزت، نہ کتاب کی عزت، نہ استاد کی عزت، غیبت کرو تو استاد کی کرو، بائیں ہاتھ سے کتاب اٹھاؤ، سرہانے کے نیچے کتاب رکھو، مدرسہ کی دیوار کا سامنے کھڑے ہو کر حاجت پوری کرو، اس قسم کی بے ادبیاں اور گستاخیاں یہ اس اکتساب علم کے راستے۔۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں اس علم کا، اس مدرسے کا اور اس استاد کے ادب کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ تو ادب وہ چیز ہے کہ جو آپ کے علم میں نور پیدا کرتا ہے، آپ کی زندگی میں نور پیدا کرتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض

‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat 

0/Post a Comment/Comments