مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ملتان میں خدمات و تحفظ مدارس دینیہ کنونشن سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ملتان میں خدمات و تحفظ مدارس دینیہ کنونشن سے خطاب

01 نومبر 2025

الحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعالَمِینَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى أَشْرَفِ الأَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِینَ، وَعَلَى آلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَمَن تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَى یَوْمِ الدِّینِ۔ اَمَّا بَعْدُ، فَأَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِين صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیمُ۔

گرامی قدر، برادر مکرم حضرت مولانا قاری محمد حنیف صاحب دامت برکاتہم، اس اجتماع میں موجود میرے تمام اکابر علماءِ کرام، میرے بزرگ، میرے دوست، میرے بھائیو! آج جس عظمت کے ساتھ آپ یہاں جمع ہیں، ہم دنیا کو اس میدان سے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں کی قربانیاں ایک اسلامی مملکت کے لیے دی تھیں۔ تاریخ کے دو دھارے اپنے اپنے کردار کے ساتھ زندہ ہیں۔ انگریز نے اپنی نگرانی میں علی گڑھ کا مدرسہ بنایا، اسے اپنی مرضی کا نصاب دیا اور اس نصاب سے انہوں نے قرآن کے علوم کو نصاب سے خارج کیا، انہوں نے حدیث کے علوم کو نصاب سے خارج کیا، انہوں نے فقہ کے علوم کو نصاب سے خارج کیا۔ فارسی زبان برصغیر کی سرکاری زبان تھی، اس زبان کو نصاب سے خارج کیا اور پھر ان علوم کے تحفظ کے لیے دیوبند میں مدرسہ کا قیام عمل میں لایا۔ حضرت قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنے ایک شاگرد کو، ایک استاد کے سامنے ایک مسجد میں، ایک درخت کے نیچے بٹھایا، وہاں سے آغاز ہوا۔ اور میں یہاں پر علماء کرام کی خدمت میں اپنی ایک بات کہتا ہوں، ممکن ہے لوگ اس سے اتفاق نہ کریں، لیکن علماء کرام دیوبندیت کے بارے میں، ان کے بنیادی عناصر کی بات کرتے ہیں۔ میرے نزدیک دیوبندیت کے بنیادی عناصر دو ہیں، محمود حسن ایک طالب علم جس سے مدرسہ کا آغاز ہوا، اور وہی محمود حسن جب شیخ الہند بنا اور اس مقام پر فائز ہوا تو انہوں نے جمعیت علماء کی بنیاد رکھی۔ تو مدرسہ اور جمعیت یہ دو عناصر اکٹھے ہیں جو دیوبندیت ہے ورنہ دیوبندیت ناقص ہے، اور دیوبندیت ہر چند کہ انگریز نے کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوا کہ اسے ایک مسلک کے نام سے محصور کیا گیا، لیکن دیوبند اور دیوبندیت یہ اہل سنّت و الجماعت کی برصغیر میں نشاط ثانیہ کا نام تھا۔ اور اس مکتب فکر کو اہل سنّت و الجماعت کا نام نہ آپ نے دیا، نہ میں نے دیا، نہ کسی اور نے، یہ نام بھی اس کا صدر اول میں پڑا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: یَوْمَ تَبْیَضُ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُ وُجُوہٌ، یعنی یَوْمَ تَبْیَضُ وُجُوہٌ اہلِ سنّت و الجماعت کے، وَتَسْوَدُ وُجُوہٌ اہلِ البدع و الضلال، ہم اس کا عنوان ہیں اور یہ دینِ اسلام کی جامعیت کی تعبیر ہے ان الفاظ میں، یہ تنگ نظری کا نام نہیں ہے، اور میں علماءِ کرام کی خدمت میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر کی نظر میں اسلام کی آفاقیت کا جو تصور تھا، ہمارے اکابر کی نظر میں آزادی و حریت کا جو تصور تھا، اس کی آفاقیت و عالمگیریت اگر دیوبندی کے مدنظر ہے تو تب تو وہ اسلام کا نمائندہ ہے؛ ورنہ پھر وہ ایک فرقہ پرست اور تنگ نظر ملا ہے، اس کے علاوہ کوئی حیثیت اس کی نہیں ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ انگریز ہمیں فرقوں میں لڑائے گا، امریکہ اور مغرب ہمیں فرقوں میں لڑائے گا، ہمارا کشت خون کرے گا، لیکن اپنے اہداف کا تعین اور اس کے لیے حکمت عملی یہ ہم نے خود بنانی ہوگی۔ آج اس کردار کو ہمارے ریاستی سطح پر ختم کیا جا رہا ہے، مسئلہ معمولی نہیں ہے، دینی مدارس کے خلاف ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہماری بیوروکریسی کا یہ رویہ، اس کا اپنا نہیں ہے، یہ باہر سے ان کو دیا گیا ہے، یہ بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ اور اس بین الاقوامی ایجنڈے کا راز بتا دوں آپ کو، اسی بین الاقوامی ایجنڈے کا راز یہ ہے کہ مذہبی نوجوان کو مشتعل کیا جائے اور پوری اسلامی دنیا میں وہاں کے مذہبی نوجوان کو مشتعل کر کے اپنی اپنی ریاست سے لڑایا جائے، اور ریاستی قوت سے اس نوجوان مذہبی نسل کا خاتمہ کر دیا جائے۔

اس کے بعد دوسری راز کی بات کرتا ہوں کہ مسلح تنظیمیں زبانی طور پر ان کی دشمن ہیں، اندر سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکمت عملی کامیاب ہے، ہم نے نوجوان کو مشتعل کر کے اسلحے کی طرف لے گئے، اپنی ریاست سے ان کو لڑایا۔ لیکن اگر ان کو غصہ ہے اور اندر سے وہ کڑ رہے ہیں، وہ جمعیت علماء اور وفاق کے لیے کڑ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی نوجوان کو کیسے بچایا، کس طرح ان کو مثبت راستہ دیا، کس طرح انہیں امن کا راستہ دیا اور کس طرح انہوں نے اس ریاست کو بچانے کے لیے ان کے مذہبی کردار کو زندہ رکھا۔

اس پہلو کو نظرانداز مت کریں۔ اور یہ رپورٹس ہم نے پڑھی ہیں کہ ان کا زیادہ غصہ ہمارے اوپر ہے کہ انہوں نے ملاوں کو بچا لیا، مذہب کو بچا لیا، مدرسے کو بچا لیا، طالب علم کو بچا لیا، اشتعال سے بچا لیا، اس بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے خطرناک ہیں، اسی لیے مدارس پر دباؤ ڈالنا شروع کیا گیا۔ ادارہ الزام ہے اس کے اوپر، آپ تشدد پڑھا رہے ہیں، آپ کے مدرسے کے اندر کے نظام تعلیم سے تشدد پیدا ہوتا ہے، تشدد سے دہشتگرد پیدا ہوتا ہے، دہشتگردی سے فساد پیدا ہوتا ہے، یہ ایک مفروضہ ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ نظریات پیدا ہوئی ہیں، یہ تقسیم مغرب کی ہے اور امریکہ میں مستقل ادارے بنے ہوئے ہیں جو اس طرح کی اصطلاحات گھڑنے کے لیے کام کرتے ہیں، یہ شدت پسند ہے، یہ روایت پسند ہے، یہ اعتدال پسند ہے، یہ انتہا پسند ہے اور آخری جو سب سے بہترین طبقہ ہے یہ روشن خیال ہے۔ روشن خیال کا مطلب کیا ہے؟ اپنا بندہ ہے۔

مذہب سے لا تعلق ہو جاؤ، مذہب کی رہنمائی لینے سے بے نیاز ہو جاؤ، یہ ہے روشن خیالی، رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے جب دین کی روشنی نہیں تھی تو اُس زمانے کو کیا کہا جاتا ہے؟ زمانہ جاہلیت کہا جاتا ہے۔ اس دور کو تاریک دور کہا جاتا ہے، یہ اصول میرے نزدیک صرف اس وقت کے لیے نہیں تھا، آج بھی اگر کوئی مذہب سے، دینِ اسلام سے بے نیاز ہو کر انفرادی زندگی ہو یا مملکتی زندگی گزارنے کا نظریہ رکھتا ہے تو وہ خود دورِ جاہلیت کی یادگار ہے، اسی کا تسلسل ہے، علم آپ ہیں، روشنی آپ ہیں ہاں، مدرسے کو دھکیل دیا گیا ہے اصحاب کہف کی غار کی طرف، کہ بس ان مسجدوں اور مدرسوں میں محصور رہیں، ہم علم کو تقسیم کرنے والے نہیں ہیں۔ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سارے چیزی بتا دیے، سارے علوم انہیں عطا کر دیے، وہاں تو کوئی تقسیم نہیں ہے، دینِ علوم اور عصری علوم، جدید علوم اور قدیم علوم کا، حضرت نوح علیہ السلام کو لکڑی کا علم تھا تو کشتی بنائی، داود علیہ السلام کو لوہے کا علم تھا تو ہتھیار بنائے گئے، سلیمان علیہ السلام کے پاس بادشاہی کا فن تھا تو پورے کائنات کی حاکمیت اُن کو عطا کی گئی، یوسف علیہ السلام کے پاس حساب کتاب اور ریاضی کا علم تھا تو آپ کو خزانے کا قلم دان عطا کیا گیا۔ اسی بنیاد پر ہمارے اکابر نے جو تعلیم دی ہے: "اَلیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ"، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اَکمالِ دِین بہ اعتبار تعلیمات و احکامات کے ہیں، اور "وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی، اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اتمامِ نعمت اس کامل و مکمل دین کی اقتدار و حاکمیت کا نام ہے۔ یہ نعمت کا فرد کامل ہے۔

اور علماء کرام کے سامنے یہ باتیں کرنا مُجھ جیسے طالبِ علم کے لیے زیب نہیں دیتا، لیکن آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیض اپنے بھائی کو دی اور کہا جاؤ، میرے والد تک پہنچاؤ، اور والد نے جب اس کو اپنے چہرے پہ ڈالا تو بینائی لوٹ آئی، پوچھا یوسف کو کہاں چھوڑا ہے؟ کہا ملک مصر، وہ تو مصر کا بادشاہ بن گیا ہے، "عَلَى أی دِينٍ تَرَكْتُہُ"، آپ نے انہیں کس دین پر چھوڑا ہے؟ تو جواب دیا "تَرَكْتُهُمْ عَلَى دِينِ الْإِسْلَامِ"، میں نے اس کو اسلامی نظام نافذ کرتے دیکھا، وہاں ہمارے اکابر کہتے ہیں "وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی" نعمت سے مراد اقتدار اور حاکمیت ہے۔ اور یہاں یعقوب علیہ السلام جواب دیتے ہیں "الْآن تَمَّتِ النِّعْمَةُ"، یہ علماء کرام اس نظریے کے لوگ ہیں۔

ہمارے حکمرانوں سے جب بات کرو تو کہتے ہیں ہم بھی کلمہ پڑھتے ہیں، ہم بھی نماز پڑھتے ہیں، ہم بھی تلاوت کرتے ہیں، اوہ بابا! میرا آپ کے کلمہ سے کوئی جھگڑا نہیں، تیری تلاوت کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں، تیرے روزے کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں، بنیادی بات یہ ہے کہ اپ مملکت کو کیا دینا چاہتے ہیں، جس آئین میں لکھا ہے کہ 'اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا' جس آئین میں لکھا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، جس آئین میں لکھا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا اور قرآن و سنت کے مطابق قانون تجویز کرنا، قانون کی سفارش کرنا، اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی۔ اور اس اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے ماہرینِ شریعت اور آئین و قانون کے ماہرین نمایاں طور پر موجود تھے اور سفارشات مکمل ہوئیں۔ انیس سو تہتر میں یہ ادارہ بنا اور دو ہزار پچیس آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی ایک سفارش پر ایک قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ بڑے چالاک ہیں، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور حکمران یہ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ جب کونسل بنی تو تمام مکاتبِ فکر کی اس کی اندر نمائندگی آئی اور سب لوگوں نے متفقہ سفارشات پیش کیں۔ اب ضروری ہو گیا نا کہ تمام مکاتبِ فکر مل کر حکمرانوں کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیں، تقاضا یہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے ہمیں فرقوں میں لڑانا شروع کر دیا، ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان میں جا کر پڑ گئے، ہم نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا اور وہ مطمئن ہو گئے کہ اب اسلامی قانون سازی کے لیے ہم پر ان کا دباؤ نہیں پڑ سکتا۔ یہ خود آپس میں لڑ رہے ہیں، اس پہلو پر کیوں غور نہیں کیا جا رہا؟ سوائے اپنے جذبات کی تسکین، ایک دوسرے کو قتل کر دو، فتویٰ بازیاں کر لو، تلخیاں پیدا کر لو، دشمنیاں پیدا کر لو، اور اسلامی قانون سازی کے لیے ماحول نہ بنے۔

اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اسلامی نظریاتی کونسل کے اندر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام یہ اس وقت کونسل کے رکن بن سکتے ہیں اگر وہ کسی دینی مدرسے کے فاضل ہوں؟ اب اگر مدرسہ ہی نہ رہا یا مدرسے کا وہ نصاب ہی نہ رہا، جس کو پڑھنے کے بعد اس کا معیار بنتا ہے، اس کی ایک صلاحیت اور استعداد بنتی ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بن سکیں، تو آپ بتائیں یہ کس تضاد کا شکار ہے؟ ایک طرف مدرسہ کا فاضل ہونا اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت کے لیے ضروری ہے اور دوسری طرف آپ مدارس کے کردار کو ختم کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے اندر کوئی ایسا بندے کا پتر نہ ہو کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بن سکے۔

اور یاد رکھیں حکمران، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ فساد بھی مچاتی ہیں تو معصوم جملوں کے ساتھ کہتے ہیں 'ہم تو امن کے قیام کے لیے جا رہے ہیں، افغانستان کو تباہ و برباد کر دیا اور کہتے ہیں 'ہم تو افغانستان میں قیام امن کے لیے آئے، عراق کو برباد کر دیا اور کہتے ہیں 'ہم تو عراق میں امن کے لیے آئے'، لیبیا کو برباد کر دیا اور کہتے ہیں 'ہم تو لیبیا میں امن کے لیے آئے'، ان کے پاس الفاظ بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی کہتے ہیں 'ہم تو مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں'، وہ قومی دھارا تم جانتے ہو پورے پاکستانی قوم کو چاہے وہ پشتون ہو، بلوچ ہو، سندھی ہو، پنجابی ہو، سرائیکی ہو، سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دو اور مدارس سے ان علماء کو نکال کر ان کے صفوں میں جا کر کھڑا کر دو، یہ عوام کی طرح نظر آئیں گے اور تمہاری کالجز یونیورسٹیوں سے جو لوگ نکلیں گے وہ کہیں گے شاید برطانیہ سے کوئی مخلوق آئی ہے، تم معاشرے سے الگ تلگ نظر آ رہے ہو، خود کو قومی دھارا کہتے ہو اور ہم عوام کے رنگ میں زندگی گزار رہے ہیں، ان کی صفوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں کہتے ہیں قومی دھارے میں ائے، ہم آپ کے نظریے کے مطابق قومی دھارے میں آنے کے لیے تیار ہیں، لیکن سودا تو کرو، تم آؤ اسلامی دھارے میں، ہم آئیں قومی دھارے میں۔

یہ کیا پاکستان ہے؟ اپنے آپ کو اسلام سے یعنی حقوقِ نسواں کے نام پر زنا کے راستے کھولے جائیں گے؟ اور آج نئے نئے قوانین تجویز ہو رہے ہیں، اٹھارہ سال سے کم نکاح نہیں ہوگا ورنہ جرم ہوگا، یعنی جائز نکاح کے لیے مشکلات اور حرام زنا کے لیے آسانیاں پیدا کرنا۔ یہ پاکستان کا کردار ہے، یہ ہمارے حکمرانوں کا کردار ہے۔ اس قسم کے قوانین اسمبلی میں لائےجاتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی آپ ذرا مدنظر رکھیں کہ اس پاکستان میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون کے نام پر جو قوانین لائے جا رہے ہیں، قرآن و سنت کے منافی ہیں، میں نے خود ایک وزیر سے سنا جو اس وقت وزیر قانون تھا، مجھے کہا 'ہم ایک ایسا قانون بنا رہے ہیں کہ پورا مسودہ پڑھنے کے بعد، وہ وزیر کہہ رہا ہے کہ میں نے کہا ' یار اتنا لمبا مسودہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ بس آئین میں جہاں عورت کا لفظ ہے وہاں مرد لکھ دو اور جہاں مرد کا لفظ ہے وہاں عورت لکھ دو۔

مغرب کی پیروی میں "لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ"، آپ قدم قدم، بالشت بالشت، تم اس طرح ان کی پیروی کرو گے کہ اگر وہ گوہ کی غار میں گھسنے لگے تو تم وہاں ان کے پیچھے جاؤ گے۔ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور کون ہوسکتا ہے۔ آج انہی کی پیروی میں ہم نے دن رات ایک کیا ہوا ہے اور پھر قانون آتا ہے 'جنس کی تبدیلی'، یہ مغرب کا قانون ہے، اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ اللہ تعالٰی کی تخلیق اور تخلیق کی حکمت، کس کو وہ مرد بنا کر پیدا کرتا ہے، کس کو وہ لڑکی بنا کر پیدا کرتا ہے، یہ اللہ کا حکم ہے۔ جہاں آپ قانون کے تحت اجازت دے رہے ہیں تو یہ مغرب کی سوچ ہو سکتی ہے، یہ اسلام کا مزاج ہی نہیں ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ہمیں ان پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہے، میرے پاس جو دین کا علم ہے اس پر اس کو اعتراض ہے۔ اور آج کل ایک قانون آ رہا ہے اوقاف کا، نیا قانون، میں نے وزیراعظم سے بھی بات کی، میں نے کہا 'آپ کو پتا ہے اوقاف ایک شرعی اصطلاح ہے، واقِف، وقف، موقوف، یہ ساری اصطلاحات ہماری فقہی اصطلاحات میں ہیں اور اس کے اپنے قواعد و قوانین ہیں۔ آپ کا پورا قانون شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہے۔ کہنے لگا "اچھا ہم نے ایسے کیا ہے" پھر میں نے کہا آپ سمجھتے ہوں گے کہ پاکستان بڑا خودمختار ملک ہے اور ہم اپنے ایجنڈے کے تحت ایسا کر رہے ہیں، کہا 'ہاں ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے لیے کیا ۔ میں نے کہا 'جناب! یہ جو قانون آپ پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کر رہے ہیں بہ عینہ اول تا آخر یہی قانون ہندوستان کی پارلیمنٹ پر بھی پیش ہوا ہے، اس قانون میں 'انڈیا' کا لفظ تھا اور یہاں 'پاکستان' کا لفظ لکھا گیا ہے بس، اور وہاں بھی ہمارے علماءِ کرام نے اس قانون کو خلافِ شریعت کہتے ہیں، اور مسلمانوں کے حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔

یہ ہماری پارلیمنٹ ہے۔ اب اس پارلیمنٹ میں ایک دفعہ میں ایک شہر گیا تو صحافی حضرات آئے، ایک صحافی بڑے دھڑلے سے مجھ سے پوچھتا ہے 'آپ نے اسلامی نظام کے لیے کیا کیا؟' میں نے کہا 'آپ نے مجھے اسلامی نظام کے لیے کتنے ووٹ دیے ہیں؟' پنجاب والوں کچھ اٹھو گے یا نہیں؟ کچھ ہوش آئے گا یا نہیں؟ اور آج مدارس، مساجد کے ائمہ کو پچیس پچیس ہزار روپے دیے جا رہے ہیں، یہ تجربہ ہمارے خیبر پختونخوا میں ہو چکا ہے۔ وہاں بھی دس ہزار روپے تھے اور یہاں بھی دس ہزار تھے، جب تنقید ہوئی کہ بھئی سات آٹھ سال کے بعد بھی وہی قیمت ہماری، تو پچیس ہزار کر دیے۔ ہم تو علماء کو روزگار دینا چاہتے ہیں، وہ غریب لوگ ہیں، بیچارے پانچ پانچ، سات سات ہزار روپے میں گزارا کرتے ہیں؛ کب سے تمہارے اندر یہ ہمدردی آگئی؟ فضل الرحمان تو علماء کے حق پر ڈاکہ مار رہا ہے، ان کی بھلائی نہیں چاہتا، سنو! میرا مولوی اگر کالج میں پروفیسر ہے، اسلامیات کا استاد ہے، سکول میں استاد ہے، عربی ٹیچر ہے، سرکاری ٹیچر ہے، میں نے اس کی ملازمت اور تنخواہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن جو مسجد سرکاری نہیں ہے، جو مولوی صاحب ملازم نہیں ہے سرکار کا، تم کس مد میں اس کو پچیس ہزار دے رہے ہو، سوائے ضمیر خریدنے کے تمہارا اور کوئی دھندا نہیں ہے، ہر وقت یہ سوچتے ہو کہ ملا کی ضمیر کو کیسے خریدا جائے، مسجد میں تم نے ہمارے رائے کے مطابق خطبہ دینا ہوگا۔ اور پھر کہتے ہیں 'سعودی عرب میں ایسا ہو رہا ہے، امارات پہ ایسا ہو رہا ہے، کویت میں ایسا ہو رہا ہے'، اوہ بابا پھر بادشاہت لاؤ نا، پھر جمہوریت ختم کرو؟ ایک مولوی کے لیے وہ مثال بنتا ہے، نظام کے لیے نہیں ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے، اس کی اپنی تاریخ ہے۔ ہم برصغیر کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں اور میرے سامنے جو علماء کرام ہیں، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کسی بھی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو، برصغیر کی ڈھائی سو سالہ تاریخ آپ کے پشت پر ہے، وہ قربانیاں آپ کے پشت پر ہیں، اس کی سیاست آپ کے پشت پر ہیں۔ اور کوئی پاکستان میں سیاسی لحاظ سے شاید اتنا طویل تجربہ نہیں رکھتا جتنا آپ علماء کرام کے پاس ہے۔ لیکن پورا سبق بھلا دیا آپ لوگوں نے، سبق نہ بھلاؤ، یہ آپ کا سبق ہے، یہ ہمارے اکابر کا سبق ہے، ڈھائی سو سال کی تاریخ، جب ہم بیٹھتے ہیں تو ہمارے سامنے ڈھائی سو سال کی کتاب پڑی ہوتی ہے۔ ہم کسی بھی مسئلے پر غور کرتے ہیں کیا پالیسی بنانی ہے تو پوری تاریخ سامنے رکھتے ہیں فلاں موقع پر یہ حکمت عملی ہمارے اکابر نے بنائی کامیاب ہوئی، فلاں حکمتِ عملی بنائی ناکام ہوگئے، کامیاب حکمتِ عملیاں ہمارے سامنے ہیں، ناکام حکمتِ عملیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ ہم اس وقت کے حالات میں ایک حکمتِ عملی بنانے میں کامیاب ہو سکے۔

تو یہ ساری چیزیں ہماری متاع ہیں، ہمارا اثاثہ ہے، تاریخ ہمارا اثاثہ ہے۔ تو اوقاف کا قانون بنایا جا رہا ہے، زبردستی اوقاف کی ملکیت کو قبضہ میں لیا جا رہا ہے، جو شریعت کے خلاف ہے۔ آج مدارس پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ میں اس کے بحث میں نہیں جانا چاہتا، قاضی صاحب نے بتفصیل اس حوالے سے بات کر لی۔ ایک تجویز آئی تھی کہ جی کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک کنونشن ہونی چاہیے، تو میں نے کہا 'حضرت! کنونشن سنٹر سے معاملہ آگے نکل گیا ہے، اب تو کسی سڑک کا نام لو، کس سڑک پر ہم نے اکھٹا ہونا ہے اور آپ کو کرنا ہوگا۔ ہمیں مجبور نہ کرو کہ ہم اپنے حق کے لیے، اپنی آزادی و حریت کے لیے، اپنے مدرسے اور مذہبی اداروں کے حریت کے لیے، اس کی حرمت کے لیے مجبور ہو جائیں، اور پورے ملک سے صرف مدارس نہیں، عوام بھی مارچ کرتے ہوئے اسلام کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ کوئی وقت نہیں لگے گا، چوبیس گھنٹے چاہیے ہمیں صرف چوبیس گھنٹے۔

ان کی تاریخ قربانیوں کی ہے، پچاس پچاس ہزار علمائے کرام کو بیک وقت میں توپوں کے سامنے کھڑا کیا گیا، پھانسیوں پہ چڑھایا گیا، یہ آپ کی تاریخ ہے، اپنے دین کی آزادی، اپنی تعلیم کی آزادی، اپنے مدرسے کی آزادی، مسجد اور مدرسے کی حرمت، اس پر مر مٹنا آپ کی تاریخ ہے۔ آپ آ کر ہمیں کہتے ہیں حضرت ہمیں تو فورتھ شیڈول میں ڈالا جائے گا، بھاڑ میں جائے تمہارا فورتھ شیڈول۔ آپ عوام کی خدمت کرتے ہوئے تو نظر نہیں اتے، سیلاب آیا، کہاں گئی تھی حکومت اس وقت، اگر مصیبت اور تکلیف میں آپ عوام کے ساتھ نظر نہیں آ رہے، اور تکلیف میں یہ غریب، فقیر، یہ میدان میں نظر آ رہے ہیں، پانی میں اتر کر متاثرین کو بچانے کے لیے میدان میں اتر آرہے ہیں تو پھر حکومت کرنا بھی ان کا حق ہے تمہارا حق نہیں ہے۔ اس لیے 'وَاتممت عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی' کی طرف آپ کو پھر متوجہ کرنا چاہوں گا، یہ کام آپ نے کرنا ہے انہوں نے نہیں کرنا، ان سے توقعات وابستہ نہ رکھیں۔ ہم حکومت میں تھے، مجھے کہا گیا 'آپ حکومت میں ہیں اور اسلام کے لیے کچھ نہیں ہوا'۔ میں نے کہا 'تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں اتنا سادہ آدمی ہوں کہ حکومت میں ہوں تو ان سے توقع رکھو کہ یہ اسلام لائیں گے؟

لیکن ان شاء اللہ العزیز ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ پنجاب کو جگاؤ، جنوبی پنجاب کو جگاؤ، قوم کو اپنے ساتھ کھڑا کرو، قوم آپ کے ساتھ ہو گی۔ جاؤ قوم کی طرف، قوم کو اپنے ساتھ کھڑا کرو، اپنی پشت پر قوم کو لاؤ، ان کی تکلیف میں ان کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ، غریب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ، متاثرہ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ، عوام کے ساتھ آپ کھڑے ہوں گے تو پھر یہ قرآن کا تقاضہ ہے۔ شریعت کو 'گھاٹی' سے تعبیر کیا گیا ہے، اس 'گھاٹی' میں کوئی ایک مشکل گذرگاہ ہے۔ اس کا پہلا تقاضا آزادی ہے، اس کا دوسرا تقاضا ہے معاشی خوشحالی، اس کا تیسرا تقاضا ہے کہ پسماندہ طبقوں کو اٹھاؤ، ان کا خیال رکھو، یہ دینِ اسلام کا تقاضا ہے۔ اور مشکل گذرگاہ کا تقاضا یہ ہے: آئیں ہم اس میدان میں کام کریں، ہمت کریں، عوام میں بیداری پیدا کریں، ان کا اعتماد حاصل کریں، ان کو بتائیں کہ اگر کسی جاگیرداری نے تمہارے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اس جاگیرداری کا ہاتھ توڑ دیں گے۔ جب تک یہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا، جب تک آزادی و حریت کا درس، آپ اپنے اکابر کا دور نہیں دہرائیں گے، آپ کو غلامی کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور آپ کو باندھا جا رہا ہے، ان شاء اللہ ہم آزاد ہیں۔ حریت کے علمبردار ہیں، ہماری تاریخ حریت کی ہے، حریت کے لیے قربانیوں کی ہے، اور آج بھی یہ جذبہ زندہ ہے، ان شاءاللہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو غلام نہیں بنا سکتی۔

رجسٹریشن کے لیے قانون بن چکا ہے اور علماء کرام آپ کو ایک نقطہ میں بتانا چاہتا ہوں قانون کیا ہے، قانون یہ ہے کہ مدارس 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوں گے، یہ قانون ہے، وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن یہ تو بعد میں شامل کیا گیا ہے یہ تو ضمنی ہے، اب جو ضمنی چیز ہے اس کے لیے علماء کے ہاتھ مروڑے جا رہے ہیں کہ وہاں رجسٹریشن کراؤ، اگر اپ نے یہ رویہ رکھا تو پھر یاد رکھو! ہم وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے، جائز بات کو عملی جامع پہناؤ اور اگر کوئی ادھر جاتا ہے جائے میرے نزدیک وفاق المدارس العربیہ، اتحاد المدارس یہ اصل مدارس ہے اور اس سے ہٹ کر جتنے اتحاد ہیں نئی تنظیمیں ہیں ان کے مدارس ہیں یہ ڈمی مدارس ہیں ہم ڈمی مدارس کو تسلیم نہیں کرتے، اور سرکار اگر ان کو تحفظ دینا چاہتی ہے، کوشش کرلیں، کچھ حاصل نہیں ہوگا ان شاءاللہ، یہ مدارس ہیں یہ حقیقت ہے اور ان شاءاللہ یہ مدارس زندہ رہیں گے، اور پاکستان کو جنگوں کی طرف نہ لے جاؤ پاکستان کو معاشی طور پر خوشحال کرو۔

میرے محترم دوستو! وقت بہت ہو چکا اور میرے خیال میں مشکل سے ابھی مکروہ وقت داخل نہیں ہوا، آپ بھی عصر کی نماز پڑھ لے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض 

‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments