قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا جامعہ انڈیٹ انسٹیٹیوش ڈھاکہ میں مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کی یاد میں منعقدہ عظیم الشان کانفرنس سے خطاب
13 نومبر 2025
الحمد للہ رب العالمین، الصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین، وعلی آلہ وصحبہ امن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
اما بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَـٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ۔ صدق اللہ العظیم
گرامی قدر حضرت مولانا مودود مدنی صاحب، فدائے ملت فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے صدر مولانا مسرور صاحب، اسٹیج پر موجود اور پنڈال میں تشریف فرما اکابر علمائے کرام، مشائخِ عظام، بزرگانِ ملت، میرے دوستو اور بھائیو! میرے لیے یہ سعادت اور اعزاز کی بات ہے کہ میں حضرت امیر الہند، فدائے ملت، جانشینِ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں منعقدہ اس سیمینار میں شریک ہو رہا ہوں، اور آپ حضرات سے مخاطبت کا موقع حاصل کر رہا ہوں۔
فدائے ملت اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، آپ کی ہمہ جہت زندگی، مجموعہ کمالاتِ زندگی، آپ کو اپنے اکابر اور حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے امانت میں ملی، اور پھر جس جانفشانی، امانت و دیانت کے ساتھ آپ نے اس امانت کی حفاظت کی، بلکہ اس امانت کو پروان چڑھایا، اس کی ہمہ گیریت، آفاقیت اور عالمگیریت میں اضافہ کیا، یہ آپ ہی جیسی خصوصیات کے حامل شخصیت کا کردار ہو سکتا ہے۔ ایسا کردار جو تاریخ کے صفحات پر نقش ہو چکا ہے اور رہتی دنیا تک ان شاءاللہ ان کے اس کردار سے اور تاریخ سے استفادہ کرتی رہے گی۔
ہم سب اس شجر طیبہ کے خوشہ چیں ہیں، دارالعلوم دیوبند، ہم سب کا مادرِ علمی ہے۔ ہماری سند حدیث دارالعلوم دیوبند سے گزر کر باب الحدیث فی الھند حضرت امام شاہ ولی اللہ تک پہنچتے ہیں۔ اور جب ہم برصغیر کی تاریخ پہ نظر ڈالتے ہیں تو آج جو ہماری تحریکات ہیں، مدارس کی صورت میں، دعوت کے میدان میں، علم کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور حضرت مجدد رحمہ اللہ تک پہنچتی ہیں۔
ہم ایک ہی تاریخ کے حامل ہیں، جغرافیائی دنیا منقسم ہوسکتی ہے لیکن ایک روحانی دنیا بھی ہے جو کبھی تقسیم کو قبول نہیں کرتی۔ ہم ایک روحانی دنیا کے شہری ہیں۔ ہماری تاریخ ایک ہے، ہماری سند ایک، ہماری ثقافت ایک، اور جب ہم اپنے اکابر کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسی میں ہمیں شریعت بھی ملتی ہے، طریقت بھی ملتی ہے، اور اسی میں ہمیں سیاست بھی ملتی ہے۔
ہمارے اکابر نے اس موضوع پر بہت اچھی تعبیرات کی ہیں اور ان تعبیرات سے علمی دنیا استفادہ کرتی ہے۔ ایک تعبیر ہے "تعلیم الأحکام" کی جسے ہم عام الفاظ میں "شریعت" کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ دوسری تعبیر ہے "تہذیب الاخلاق" کی جسے ہم "طریقت" کا نام دیتے ہیں۔ اور تیسری تعبیر ہے "تنظیم الأعمال" کی جسے ہم "سیاست" کا نام دیتے ہیں۔
یہ تینوں موالید اسلام ہیں، تینوں باہم مربوط ہیں۔
شریعت ایک راستہ ہے۔ اگر دنیا میں آئے اور دنیاوی زندگی میں راستہ ہی معلوم نہ ہو تو جاوگے کدھر؟ منزل کیا ہوگی؟
جب آپ نے راستہ معلوم کر لیا تو پھر اس راستے پر چلنے کا ایک اسلوب بھی ہوتا ہے۔ طریقت کی دنیا میں ہم شریعت کے اس راستے پر چلنے کا اسلوب سیکھتے ہیں۔ اور جب آدمی سفر کرتا ہے تو اس سفر میں مشکل گزرگاہیں بھی آتی ہیں، پہاڑی علاقہ بھی آتا ہے، سنگریزے بھی آتے ہیں، جھاڑیاں بھی آتی ہیں، پانی بھی آتا ہے۔ سو ان مشکل گزرگاہوں کو عبور کرنا یہی "سیاست" ہے۔
اور ظاہر ہے کہ جب اس قسم کے سفر کے اس مرحلے میں آپ داخل ہوتے ہیں تو پھر اس مشکل کو دور کرنے کے لیے کچھ ہتھیار بھی اپنے ساتھ لینے پڑتے ہیں، کوئی لوہا، کوئی اوزار، جس سے آپ پتھر توڑ سکیں، جھاڑیاں کاٹ سکیں۔
اور جب ان ہتھیاروں کو آپ استعمال کرتے ہیں تو اس سے کچھ آوازیں بھی پیدا ہوتی ہیں، شور و شرابہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیاست کے راستے میں شور و شرابہ ہوتا ہے۔
ہمارے حضرات نے ان تینوں کے درمیان تلازم کو بیان کرتے وقت اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اگر یہ تلازم نہ ہو تو پھر شریعتِ محض ہو اور شریعت و سیاست معاون نہ ہوں تو پھر اس طرح کا شریعت تنگ نظری پیدا کرتا ہے، اور اسلام تو وسعت نظر کا داعی ہے، اسلام تو عالمگیریت کا قائل ہے، آفاقیت کا ہے، ہمہ گیریت کا ہے، تو پھر تو رنگ نظر ملا ہی پیدا ہوگا، جو حجرے میں بیٹھ کر دین کو سکیڑ دے گا اور چھوٹے چھوٹے باتوں پر جذباتی ہوکر فتویٰ بازیاں شروع کر دے گا، یہ ہمارے ہاں جو کچھ تنگ نظر مولوی فتویٰ بازیاں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف شریعت تک محدود رہتا ہے اور طریقت و سیاست میں معاونت نہیں کرتے۔ اور اگر صرف طریقت ہو، شریعت و سیاست معاون نہ ہو تو پھر طریقت محض وہ رہبانیت پیدا کرتا ہے وہ میدانوں سے آپ کو سکیڑ کر حجروں تک محدود کر دیتا ہے اور اسلام کا مزاج رہبانیت کا نہیں ہے، اسلام تو بحرو بر پر سوار ہونے کا نام ہے، اس کی حاکمیت کا نام ہے، اسلام انسانیت کو بڑی عظمت عطاء کرتا ہے۔ اور لفظ بنی آدم استعمال ہوا ہے، انسان کو محترم بنایا ہے، اسی کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اس کی جو وسعت ہے وہ طریقت کی صورت میں تبھی ہوگا جب شریعت و سیاست اس کے معاون ہوں گے، اور اگر سیاستِ محض ہو اور شریعت و طریقت معاون نہ ہوں تو پھر سیاست محض میں تکبر پیدا ہوتا ہے۔ اکثر سیاست دان جو خالی سیاستدان ہوتے ہیں ان میں شریعت کے لیے راہنمائی نہیں ہوتی، طریقت کا اسلوب نہیں ہوتا، تو ان میں تکبر آ جاتا ہے کہ شائد میں کوئی بہت بڑی چیز ہوں۔ جیسے سٹیج پر ہم لوگ بیٹھتے ہیں تو اور آپ حضرات ہماری تعریفیں شروع کر دیتے ہیں تو یہ بھی نقصان دہ تباہ کن ہے۔
تو یہ جو ہمارے اکابرین نے ہمیں اسلوبِ زندگی عطا کیا۔ اب میں نے لفظِ سیاست کی بات کی ہے تو یہ دراصل راستے کی مشکل کو دور کرنے والا کام، حکمرانوں سے آپ کی لڑائی، سیاسی جماعتوں سے اپ کی لڑائی، ان سے اختلاف رائے، طاقتوروں سے اپ کا اختلاف رائے، اس کا کس حکمت کے ساتھ آپ نے مقابلہ کرنا ہے۔ کا طریقے سے اس کے دلیل کو توڑنا ہے، یہ بڑا سخت میدان ہوا کرتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام جب صرف عبادت کی بات کرتے تھے تو دنیائے کفر نے اسے اپنے لیے کوئی چیلنج نہیں سمجھا۔ اور اس وقت کے آئمہ کفر بھی ان باتوں کو بُرا نہیں مانتے تھے لیکن جب انبیائے کرام نے توحید کا درس دیا کہ ایک اللہ کا نظام چلے گا، ایک اللہ کا حکم چلے گا، ایک اللہ کی حاکمیت قائم ہوگی، تو اس وقت کے خداؤں اور بادشاہوں کو اندازہ ہوا کہ یہ تو ہماری خدائی اور بادشاہت کے خلاف نکلے ہیں، پھر آزمائشیں آتی تھیں، تکلیفیں آتی تھیں۔ اس لیے اللہ رب العزت نے ہمارے اور آپ کے لیے کام کرنے کی کچھ ترجیحات متعین فرمائی ہیں۔ اور اگر میں نے "مشکل گزرگاہ" کی بات کی ہے اور اس سے گزرنے اور اسے عبور کرنے کو میں نے "سیاست" سے تعبیر کیا ہے۔
تو اللہ رب العزت نے بھی اسی مشکل گزرگاہ کا ذکر فرمایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ"
تو اللہ تعالیٰ گھاٹی کا نام لیتا ہے اور جب تم گھاٹی میں داخل ہوگے تو مفسرین فرماتے ہیں کہ گھاٹی سے مراد شریعت ہے، یعنی شریعت ایک مشکل گزرگاہ ہے اور میں اس کی قسم کھاتا ہوں اور تمہیں کیا پتہ کہ مشکل گزرگاہ کیا ہے اس مشکل گزرگاہ کا اولین تقاضا اس کو ہمارے اکابر نے سمجھا بھی اور ہم جیسوں کو سمجھایا بھی، وہ ہے “وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ؟ فَكُّ رَقَبَةٍ” وہ ہے گردن چھڑانا۔
اگرچہ شان حروف میں تو یہی مطلب ہوگا کہ غلام کو آزاد کرانا، لیکن جب یہ قرآن کے کلمات ہیں اور قرآن کائنات پر ایک نظام کا نام ہے، تو اللہ کی حاکمیت کی وسعت اور اس کے دیے ہوئے نظام کی وسعت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ایک فرد کی آزادی سے لے کر قوموں کی آزادی کی جنگ اور ازادی و حریت کی جنگ دینِ اسلام کا اولین تقاضا ہے۔
آج ہم جہاں کھڑے ہیں ہماری آزادی کی تحریکیں ان سے وابستہ ہیں، اگرچہ حکمرانوں کو ملک سے نکالنے کے لیے ہمارے اکابر نے جو قربانیاں دی، پچاس ہزار سے زیادہ علمائے کرام کو بیک وقت کہیں توپوں سے اڑا دیا گیا، کہیں سولیوں پر چڑھا دیا گیا، کہیں درختوں پر لٹکا دیا گیا۔ اور ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے: "میں موجود تھا، جب بھی ہم نے کسی عالم کو توپ کے سامنے کھڑا کیا، ہم نے اس سے خفیہ طور پر صرف یہ کہا کہ اتنا لفظ کہہ دو: ‘میرا اس تحریکِ آزادی سے کوئی تعلق نہیں۔ سب کو اڑا دیے مگر کوئی ایک آدمی بھی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہوا کہ میرا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تو ظاہر ہے کہ سب سے اولین چیز انسان کی آزادی ہے۔ اور پھر انسان کی کفالتِ معیشت ہے، بھوک کے اندر کسی کو کھانا کھلانا، اور فرد سے شروع ہو کر پڑوس تک، اور پھر پوری قوم کی خوشحال معیشت کی طرف اشارہ دیتا ہے۔ اور پسماندہ اور مفلوک الحال “أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ، يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ، أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ” یہ ہے ہمارے مفلوک الحال طبقے، کسی کے بدن پر کپڑا نہیں ہے، کسی کا بدن گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے، بیچارے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان طبقات کا خیال رکھنا، مملکتوں کے نظام میں ہمیشہ ان اصولوں کو سامنے رکھا گیا ہےاور انسان کی جو فطری زندگی ہے اور اس کے جو طبعی تقاضے ہیں ہمیشہ دین اسلام نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے، سو آج بھی مفلوک الحال طبقات کو ہماری توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہے کہ ان کی طرف ہم متوجہ ہو لیکن آج اس کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
ہماری نوٹس میں ہے کہ دنیا میں کتنی نجی ادارے کام کر رہے ہیں اور وہ کسمپرسی کی عالم میں، مفلوک الحال طبقے ان کو تاڑتے ہیں، جنگ زدہ علاقہ ہو، لوگ جنگوں سے دربدر ہوکر کیمپوں میں ہو، سیلاب زدہ علاقہ ہو، گھر تباہ اور بیچارے دربدر میدانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، زلزلہ زدہ علاقہ ہو اور لوگ دربدر ہیں، کھانے پینے کو کچھ نہیں، تعلیم تباہ، غربت ہے کہیں پہ، جہالت ہے، تو کہیں کچھ پیسے دے دیے اس کو خرچ کرنے کے لیے، کوئی چھوٹا سا سکول کھول دیا، مکتب کھول دیا اور اس طبقے تک رسائی حاصل کر کے ان کی ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اس طرف متوجہ نہیں ہیں، ہمیں اپنے فرض کا احساس نہیں ہے کہ اس انسانیت کا ہمارے اوپر بھی حق ہے وہ لاکھ روپیہ دے سکتا ہے میں کم از کم ہزار پانچ سو تو دے سکتا ہوں، لیکن اس کو احساس تو ہو کہ میرے اندر مسلمانوں میں بھی ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری اس حوالے سے علماء کرام کی بنتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام محراب مصلے اور منبر سے اگے نہیں ہے، نہیں آپ کے سامنے تو دنیا ہے جہاں ہے انسانیت ہے، انسانیت کی ہمدردی ہے، انسانیت کی آزادی ہے، انسانیت کی معیشت ہے۔
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنۢعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اللہ رب العزت ایسی آبادیوں کا مثال دیتا ہے کہ جہاں پر امن بھی ہے اور اطمینان بھی ہے، جہاں امن ہے مانا کہ تمام انسانی حقوق محفوظ ہیں، جان کے حوالے سے حقوق، مال کے حوالے سے حقوق، عزت و ابرو کے حوالے سے حقوق، جب محفوظ ہے تو اس کو ہم امن سے تعبیر کرتے ہیں اور مکمل اطمینان سکون کی زندگی، کیوں؟ معیشت فراخ ہیں، لیکن اگر ہم اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں، کفر کرتے ہیں، عیاشیاں کرتے ہیں، بداخلاقیاں کرتے ہیں، دین سے روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی کا ہم سبب بنتے ہیں تو پھر دنیا میں دو طرح کے عذاب ڈالتا ہے ایک بدامنی کی اور ایک بھوک کی۔
ہماری اسلامی دنیا آج کہاں کھڑی ہے۔ کہاں کہاں پہ یہ حالات نہیں ہے، ہم نے اپنی امت کو اس حالات سے نکالنا ہے، حضرت فدائے ملت کا اگر ہم نام لیں گے، اگر ہم حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا نام لیں گے، اگر ہم حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا نام لیں گے تو ان کے ہاں تنگ نظری نہیں ہے، وہ اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت کی تعبیر ہے اس کے مبلغ ہیں۔ قران کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس کا مظہر ہیں اور پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اللہ کا دین، ایسا بھی نہیں کہ ادھورا ہے، کوئی چیز رہ گئی ہے، قیامت تک کی انسانیت کے لیے رہنما ہے،
اَلْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي، وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور اسلام کو بطور نظام حیات کے تمہارے لیے پسند کر لیا ہے، اب اکمال دین بہ اعتبار تعلیمات اور احکامات کے اور اتمام نعمت اس دین کامل کی حکومت و اقتدار کا نام ہے، کیونکہ جو چیز بھی مطلق ذکر ہوگی تو فارغ میں فرد کامل ہوگا نا، تو بظاہر فرد کامل اسی دین کامل کی حاکمیت ہے۔
چنانچہ آپ علماء کرام ہیں جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض لائی گئی، آپ نے چہرے پہ ڈالا، آپ کی بصیرت اور آپ کی بینائی دوبارہ بحال ہو گئی تو آپ نے پوچھا کہ یوسف کو کہاں چھوڑا آئے ہو ؟ تو اس نے کہا وہ تو مصر کے بادشاہ ہیں، اندازہ لگ گیا کہ خواب کی تعبیر یہی ہوسکتی ہے، آپ نے کس دین پہ اس کو چھوڑا ؟ تو جواب دیا دین اسلام، یہ جملہ کہنا تھا حضرت یعقوب نے جواب دیا الآن تمت النعمہ۔
یہ تعلیمات ہیں، عام مسلمان کا بلکہ عام انسان کا ہمارے اور آپ پر یہ حق ہے کہ ہم دین اسلام کی ان تعبیرات کو ان کے سامنے رکھیں اور اس کے لیے اپنی صفوں کو مضبوط رکھیں، جمیعت علماء ہند جب 1919 کو قائم ہوئی اس کے بنیادی اسباب میں بھی یہی ہے کہ اسلام امت کا نظام ہے، ملت کا نظام ہے، قوم کا نظام ہے، مملکت کا نظام ہے، تو مملکتی معاملات قومی معاملات اس میں فرد عالم کی رائے حجت نہیں، لہذا علماء کی جماعت ہونی چاہیے تاکہ شورائی نظام کے ذریعے سے اجتماعی رائے قائم کر کے ہم امت کے رہنمائی کرے۔ آج وہ مقاصد آپ کے اور ہمارے سامنے ہے اور اسی طرف امت کے متوجہ کرنا ہے۔ یہ سب تبھی ہو سکتا ہے کہ جب پہلے اپنا اندر اللہ پر ایمان لائے، وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ اولین چیز یہ ہر شخص کے اندر کی امانت و دیانت ہے اور پھر جب یہ امانت و دیانت حاصل ہو گئی پھر ان سب کی ملاپ کے ساتھ ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور ضرورت پڑتی ہے اجتماعی کوششوں کی، اجتماعی کوششیں بغیر جماعت کے نہیں ہو سکتے "علیکم باالجماعتہ ولاطاعہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا متحد رہو یہ رحمت کی علامت ہے، آپس میں لڑو گے یہ عذاب کی صورت ہے"۔
تو ان تمام تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے اکابر کی پیروی کرنی چاہیے، کتنی محنت کری انہوں نے قوم کو جوڑنے کی، امت کو جوڑنے کی، مملکت کو جوڑنے کی، بعض دفعہ دو سو سال پہلے کے جو حالات اور اس دوران کے جو باتیں ہیں وہ شاید سو سال کے بعد حالات مختلف ہو جائیں تو اس کے لیے حکمت تو پھر ہم نے خود بنانی پڑے گی، جس ملک میں جو رہ رہے ہیں انہوں نے اپنے کام کے لیے خود ہی حکمتیں متعین کرنی ہے، اگر تبلیغی جماعت دنیا کو یہ سبق پڑھا سکتی ہے کہ دین پورے انسانیت کا ہے کوئی اس کے حدود نہیں ہے ایک ایک گلی اور ایک ایک مسجد میں دنیا بھر کے اندر دین کی بات کر سکتے ہیں تو علماء کرام اسی علم، اسی شریعت، اسی طریقت اور اسی سیاست کو بھی اسی طرح تعارف کرا سکتے ہیں یہ علمی بات ہے اور عملی طور پر آپ اس کے نمونہ بن سکتے ہیں۔
تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں اگر ہم فدائے ملت کے پیروکار ہیں، اگر ہم حضرت شیخ الاسلام کے پیروکار ہیں، اگر ہم مفتی محمود کے پیروکار ہیں، اگر ہم شیخ الہند کے پیروکار ہیں تو پھر ان کی زندگی کو سمجھنا ہوگا اور انہوں نے قران و سنت کو سمجھا، حضرت فدائے ملت رحمہ اللہ، میں بہت چھوٹا تھا، اس وقت سکول میں پڑھتا تھا، غالباً چھیاسٹھ کا زمانہ تھا جب وہ ملتان تشریف لا رہے تھے پہلی مرتبہ ا رہے تھے، تو والد صاحب نے بہت بڑے استقبال کا انتظام کیا تھا، اور خود ملتان ریلوے اسٹیشن پر استقبال نہیں کیا، کراچی سے ارہے تھے تو بہاولپور جا کر وہاں سے ان کے ساتھ ڈبے میں سوار ہوئے اور ان کے ساتھ ائے اور رش اتنا زیادہ تھا کہ حضرت کو بہت تکلیف ہوئی اور مجھے یاد ہے گاڑی میں جب ہم بیٹھے تو مفتی صاحب نے مولانا اسعد صاحب سے ذرا معذرت کے انداز میں کہا کہ حضرت آپ محسوس نہ کریں دراصل یہ لوگوں کا حضرت شیخ الاسلام سے محبت کا اظہار ہے تو آپ کی صورت میں، تو فرمایا میں سب سمجھتا ہوں۔ پھر جمعہ کا دن خطبہ دیا انہوں نے قلعہ پرانا قاسم باغ پہ اور دنیا ائی ہوئی تھی خطبہ سننے کے لیے، اس کے بعد بھی والد صاحب کی حیات میں ایک مرتبہ تشریف لائے اور ان کی وفات کے بعد تو پھر حضرت میرے گاؤں تک ائے میری والدہ سے انہوں نے مفتی صاحب کی تعزیت کی اور ان کے موجودگی میں، اس زمانے میں ہمسفر تھے ہم اور میری گرفتاری ہوگئی، جس کا اسے بہت دکھ بھی تھا، لیکن بہرحال پھر تو زندگی بھر ان کی سرپرستی اور ان کی رہنمائی حاصل رہی اور جو محبت مجھے ملی وہاں سے یقیناً اپنے والد کی شفقت اور ان کی محبت اور اپنی جگہ مسلم ہے لیکن حضرت فدائے ملت نے جس طرح ایک بیٹے کی طرح میرے سر پہ ہاتھ رکھا، آج بھی میں اس رہنمائی سے استفادہ کر رہا ہوں اور اللہ کرے کہ ہماری یہ نسبت قائم رہے اور جغرافیائی تقسیمیں آتی رہتی ہیں اور آتی بھی رہیں گی لیکن ہمیں باہمی جوڑ، خطے کے امن، باہمی تعاون دوستی اس کا راستہ اپنانا چاہیے اور اپنے جو ہمارے سفارتی وسائل ہیں، اقتصادی وسائل ہیں وہ ایک دوسرے کے نفع پہنچانے کے لیے کام ائیں نہ کہ ہم ایک دوسرے کے دشمنی میں اسے صرف کریں۔
اللہ تعالی امت مسلمہ کو عافیت نصیب فرمائے اور جمعیت علماء جہاں جہاں بھی کام کر رہی ہے اللہ تعالی ان کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے اپنے ملکوں میں دین اسلام کی خدمت کرنے کی انہیں بھرپور توفیق عطا فرمائے۔
میں ایک بار پھر اپ کا بہت شکر گزار ہوں آپ نے دعوت بھی دی، آپ نے ذکر بھی اس کا کیا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب آپ نے دعوت دی تو میرے پاس ہاں کرنے کے علاوہ کوئی صورت نہیں تھی۔
اللہ تعالی ہماری حاضری کو قبول فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں