ستائیسویں آئینی ترمیم اور دیگر اہم موضوعات پر قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی رات گئے صحافیوں سے تفصیلی گفتگو
06 نومبر 2025
آپ لوگ آئے ہوئے ہیں، کافی آپ نے انتظار کیا ہے۔ تو ملاقات بھی آپ لوگوں سے ہو جائے گا۔
سوال و جواب
صحافی: مولانا صاحب یہ فرمائیں کہ ستائیسویں آئینی ترمیم، پہلے تو اسحاق ڈار صاحب لندن میں کہتے تھے ابھی تو ہم نے چھبیسویں ہضم نہیں کی ہے تو آپ ستائیسویں کی بات کر رہے ہیں۔ نہ نہ کرتے ہاں ہو گئی ہے۔
مولانا صاحب: میرے خیال میں اسحاق ڈار صاحب نے صحیح بات کہی تھی اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اس وقت تک تو چھبیسویں ترمیم کے خلاف جو لوگ کورٹ میں گئے تھے، تو وہ کورٹ کے زیر سماعت ہے اور ہم نے دوسرا لقمہ جو ہے وہ حلق میں گھسیڑ دیا، دوسری بات یہ ہے جی کہ دیکھئے یہ تاثر بالکل نہیں جانا چاہیے کہ جیسے آئین کو کھلواڑ بنا دیا گیا ہے اور پھر ایک ایسی اسمبلی کہ جس کی نمائندگی پر بھی سوالات ہیں کہ وہ عوام کی حقیقی نمائندہ ہے یا نہیں اور ہمارا موقف بڑے وضاحت اور سراحت کے ساتھ، ایک دفعہ نہیں بارہا سامنے آیا ہے کہ یہ الیکشن جو ہے یہ عوام کی نمائندگی نہیں کرتی اور بنے بنائے نتائج کے ساتھ انہوں نے حکومتیں بنائی ہیں۔
تو ظاہر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے تو دو ہزار اٹھارہ میں بھی تسلیم نہیں کیا تھا، دو ہزار چوبیس میں بھی تسلیم نہیں کیا، تو اس حوالے سے ایسی اسمبلی کو اور ایسی پارلیمنٹ کو آئین نہیں چھیڑنا چاہیے اور یہ تاثر بھی ہے کہ جس طرح پہلے باجوا صاحب نے خود اپنی نگرانی میں قانون سازی کرائی اور اپنی ایکسٹینشن کے لئے انہوں نے راستہ کھولا، تو اس تاثر کو اور مضبوط کیا جا رہا ہے کہ طاقتور قوتیں جو ہیں وہ اسمبلی کو مجبور کر رہی ہیں اور جبر کے تحت اس قسم کے ترامیم ہو رہی ہیں۔ جہاں حکومتیں اتنی کمزور ہوں کہ وہ مقتدرہ کے دباؤں میں قانون سازی کرے یا آئین میں ترمیم کرے پھر اس کے بعد عوام کی نظر میں ایسی ترمیم کی کیا وقعت رہ جائے گی۔ اور اس بات کا بھی خیال ہونا چاہیے سب کو کہ آئین ایک میثاق ملی ہے اور پورا ملک اگر ایک قوم ہے اور ایک پاکستان ہے تو میثاق ہمارے درمیان وہ ایک ہی ہے اور وہ ہے آئین پاکستان، تو اس حد سے آگے نہیں گزرنا چاہیے ان کو، کہ ملک کے اندر جو ہے پھر وہ آئین متنازع ہو جائے، ایک متفقہ آئین کا ٹائٹل موجود ہے۔
رہی بات یہ کہ یہ بات ہم نے اس وقت کیوں نہیں کی جب ہم چھبیسویں ترمیم کی طرف جا رہے تھے، آج ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت جو رعایت دی، بات چیت کی مذاکرات کیے اور ہم نے چونتیس شقوں سے حکومت کو دستبردار کیا یا دستبردار ہونے پر آمادہ کیا اور صرف بائیس شقیں جو ہیں وہ رہ گئی تھی جس میں ایک شق پیپلز پارٹی کی کہنے پر بھی ختم ہوئی، تو اس ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ جو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم ان چیزوں سے دستبردار ہو رہے ہیں اب ستائیس ویں ترمیم کے ذریعے سے وہی جبر ملک کے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو وہ جو ہم نے ایک رعایت کی، ہم مذاکرات میں شریک ہوئے ہم نے ایک جمہوری راستہ اختیار کیا، بات چیت کا راستہ اختیار کیا یہ اپنے اس ناکامی کو چھپانے کے لیے یا اس ناکامی کی دوبارہ تلافی کرنے کے لئے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو اس وقت نہیں کر سکے۔ اب ایک سال پہلے تو آپ ان باتوں پر آمادہ ہو گئے کہ ہاں یہ نہیں کرنا، یہ نہیں کرنا، یہ نہیں کرنا، ایک سال کے بعد آپ وہ سب کچھ کر رہے ہیں یہ جبر بھی ہے، یہ بدنیتی بھی ہے اور پھر ایسی پارلیمنٹ کے جس پر عوام کو بھی اعتماد نہ ہو اس کو اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیے۔
تو یہ ہماری ابتدائی سوچ ہے، اس وقت تک ابتدائی سوچ ہماری یہی ہے ہمیں مسودہ نہیں ملا ہے جب مسودہ آئے گا تو ہم پارٹی کا اجلاس بلائیں گے اور اس کا ہم پھر ہم پورے اپوزیشن مل کر ایک موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو میری ابتدائی رائے ہے پھر ہم متفقہ طور پر جو رائے بنائیں گے وہ سارے اپوزیشن کی ایک ہی ہوگی، ہم نے اس وقت بھی اپوزیشن کو تقسیم نہیں ہونے دیا ہر چند کی حکومت کی یہ کوشش تھی کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے راستے جدا ہو جائیں اور دونوں الگ الگ راستوں پہ جائیں لیکن ہم نے ان کو اپنے ساتھ وابستہ رکھا اور آخری لمحے تک ہم اکٹھے رہے اور ہم ایک ایک چیز سے ان کو آگاہ بھی کرتے رہے اور ان کا اتفاق رائے بھی حاصل کرتے رہے، جہاں ان کو کسی شق پر اعتراض ہوتا تھا ہم اس حوالے سے دوبارہ گورنمنٹ کے ساتھ بات کرتے تھے۔
تو یہ ساری چیزیں جو ہیں اس حوالے سے بالکل واضح ہیں اور ملک میں قوم کو تقسیم نہ کیا جائے، ایک معتدل قسم کا جو ماحول ہے اس کو شدت کی طرف لے جائے جا رہا ہے اور حکومتیں جو ہیں وہ حالات کو دیکھتی ہیں، ایسا کوئی قدم اٹھانا جس سے ملک تقسیم ہو، عوام تقسیم ہو، قوم تقسیم ہو میرے خیال میں آئین کے حوالے سے ہمیں بہت احتیاط کے ساتھ ہر قدم اٹھانا چاہئیے۔ کل تک تو اسحاق ڈار صاحب کہتے تھے کہ جی مجھے تو کچھ پتہ نہیں ہے، کیا ضرورت پڑ گئی ہے ہمیں تو ابھی چھبیسویں ترمیم ہضم نہیں ہوئی تو دوبارہ کون سی ترمیم، اب وہ معمولی آدمی تو نہیں ہے نائب وزیر اعظم ہے، وزیر خارجہ ہے، اور یکدم سے کیا ایسی صورت حال ایمرجنسی آگئی کہ ہم اسمبلی میں اس قسم کی چیزیں لا رہے ہیں، میڈیا کے دنیا میں باتیں چلتی رہتی ہیں لیکن ایک حکومتی ایک منصب پر فائز بڑا شخص جب اس قسم کی بات کرتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی ایک دم سے کوئی چیز آگئی ہے اور اگر جس طرح آپ لوگوں نے کہا جی کہ ان کے ایک منسٹر کہتے ہیں میں تین مہینے اس پر کام کر رہا ہوں اسی سے اس کی غیر سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے اسی سے اندازہ چلتا ہے کہ یہ کہاں سے آئی ہے، یہ آدمی کیا خود اتنا بڑا کام کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے یا یہ کہ کسی نے ڈیوٹی لگائی ہوگی، وہ ڈیوٹی کر رہا ہے۔
تو اس قسم کی چیزیں نہیں ہونے چاہیے ملک کے اندر اور ہم ویسے بھی کچھ اچھے حالات میں نہیں ہیں، ہمارے بہت سے سوالات ہیں اور ان سوالات کے کوئی جواب نہیں دیا جا رہا، انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ مشرقی سرحد پر ہماری جنگ، مغربی سرحد پر ہماری جنگ اور سوشل میڈیا کے زور سے ہم جنگ جیت رہے ہیں اور ہم جنگ جیت رہے ہیں اور ہم جنگ جیت رہے ہیں اس کا کیا فائدہ ہے، تو ہمیں کیوں جنگ لڑنی چاہیے؟ ہمارے پاس کیا کوئی میکینزم نہیں ہے، کیا کوئی نظام ہمارے پاس موجود نہیں جس میں ہم کوئی خارجہ پالیسی بنا سکے ہیں، ایشوز آتے ہیں، اب یہ بات کہنا کہ افغانستان میں وہ مسلح گروہ کہ جو پاکستان میں آ کر کاروائی کرتے ہیں ان کے مراکز ہیں تو ہم اندر جا کر سٹرائک کریں گے، اب جو صورت حال آپ کو افغانستان کے ساتھ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیا یہی بات، یہی الزام آپ نے ایران پہ نہیں لگایا تھا کہ بلوچستان کے مسلح گروہ جو ہیں ان کے مراکز ایران میں ہیں، کیا اسی بنیاد پر آپ نے ایران میں سٹرائک نہیں کیا تھا، کیا اس کے جواب میں انہوں نے سٹرائک نہیں کیا پاکستان کے علاقے میں، آج دونوں ممالک کے حوالے سے تمہارا الزام ایک اور رویہ دو کیوں ؟ ایک پڑوسی کو آپ اور طرح سے ڈیل کر رہے ہیں دوسرے پڑوسی کو آپ اور طرح سے ڈیل کر رہے ہیں، تو پھر بھی ہم یہ سوچتے ہیں کہ بھئی مذاکرات چل رہے ہیں اور ہم مذاکرات کو ایک اچھے نتیجے تک پہنچنے کے منتظر ہیں، ہمیں ایک پرو پاکستان افغانستان چاہیے اور جو پاکستان نے اگر کہتا ہے کہ ہم نے تو بڑا آپ کو سپورٹ کیا، آپ کی مدد کی تو افغانستان کو اپنا دشمن بنانے کے لئے تو نہیں کی، دوست بنانے کے لئے کی، ساری غلطیاں دوسروں کے اوپر تھوپ دینا اگر آپ پاکستان میں کوئی دہشتگرد ہیں تو یہ اپنا داخلی مسئلہ ہے اور ان کے ساتھ تو نمٹ لو پھر باہر جاؤ، پھر دوسروں سے بات کرو۔
تو یہ ساری چیزیں ہیں اس میں ہم اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ امریکہ یا مغربی دنیا اس کا نظریہ کیا ہے اس وقت ؟ نائن الیون کے بعد مغربی دنیا اور امریکہ کی جو ذہنیت ہے اس کا تسلسل برقرار ہے کہ ان کو مذہب سے، اسلام سے، مذہبی شناخت سے، داڑھی پگڑی سے، مسجد اذان سے نفرت ہو گئی ہے، اب افغانستان میں جنگ کے ذریعے سے وہ ان کا خاتمہ نہیں کر سکتے تھے، ان کو افغانستان چھوڑنا پڑا، نیٹو کو بھی بھاگنا پڑا، امریکہ کو بھی بھاگنا پڑا، اب اس وقت اگر پاکستان افغانستان میں کارروائی کرتا ہے تو دنیا میں تاثر یہی جائے گا کہ امریکہ اور مغربی دنیا افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام کو برداشت نہیں کر سکی تو پاکستان جو ہے وہ اب وہاں پر فوجی کارروائی کے لئے تیار ہو گیا ہے، تو ضیاء الحق کے زمانے بھی ہم تیار ہو گئے تھے افغانستان میں، مشرف کے زمانے بھی ہم تیار ہو گئے تھے، اب ایک بات پھر ہم اس کے لئے تیار ہو رہے ہیں، بظاہر قوم کے سامنے ہم اور وجوہات رکھتے ہیں۔ اگر آپ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے وجہ سے افغانستان سے شکایت کر رہے ہیں تو پاکستان کے اندر دہشت گردی کو تو ختم کرو، اس میں آپ کو کس نے روکا ہے، وہ تو آپ کا داخلی معاملہ بنتا ہے جی، تو یہ بذات خود اپنی چیزیں ہیں پھر دیکھیے تازہ تازہ انڈیا نے ہمارے دو مراکز پر حملہ کیا ایک بہاول پور میں اور ایک مریدکے میں، اگر ہم کہتے ہیں کہ وہاں پر مراکز ہیں اس لئے ہم وہاں سٹرائیک کر رہے ہیں تو کیا آپ انڈیا کے الزام کو جائز تو نہیں قرار دے رہے ہیں، ہر چیز کو فوری طرف دوسرے پہلو سے بھی دیکھنا چاہیے، تو اگر افغانستان میں اسی دلیل کے ساتھ آپ وہاں پر کاروائی کا حق اپنے پاس رکھتے ہیں تو یہی چیز جو ہے پھر تو انڈیا کے لئے بھی آپ جواز دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں کر سکے گی۔
لہذا جو چیز اصولاً غلط ہے تو پھر وہ ہر جگہ غلط ہے، ہم انڈیا کی رائے کو بھی غلط سمجھتے ہیں، پاکستان بھی اس طرح کی رائے قائم نہ کرے اور بلا وجہ جو ہے جنگوں کے شوق میں نہ رہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے عافیت مانگا کرو، اور دشمن کا سامنا کرنے کی تمنا نہ کیا کرو، ہاں اگر آگیا آمنے سامنے ہوگئے پھر ڈٹ جاؤ، تو ہم تو جیسے خود جنگوں کو دعوت دے رہے ہیں، شوق ہے ہمیں کہ اس سے بھی لڑنا ہے، ادھر بھی لڑنا ہے، اس سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے، پاکستان کے معیشت متاثر ہو رہی ہے اور اختلاف ہمارا وہاں افغانستان کے ساتھ ہے بدلہ ہم مہاجرین سے لے رہے ہیں، مہاجرین تو چالیس سال سے رہ رہے ہیں، ان کا کیا گناہ ہے کہ آپ ان کو اٹھا اٹھا کے پھینک رہے ہیں، ان کے بچے رو رہے ہیں، عورتیں دربدر ہیں اور انسانیت کو بھی ہم مد نظر رکھ کر ان کے ساتھ رویہ نہیں رکھنے کو تیار ہیں، تو افغانی اور پاکستانی کے سوال پیدا کرنا یہ کوئی پاکستان دوستی نہیں ہے، یہ کوئی پاکستان کی خیرخواہی نہیں ہے، ہمیں ایک دوست پڑوسی چاہیے اور ان کے ساتھ بات چیت کرو، اس لڑائی سے پہلے اگر ہم بات چیت کرتے تو کیا گناہ تھا، کہ اب ہم کر رہے ہیں۔ تو ہم اب بھی بات چیت کو جائز سمجھتے ہیں اور چلیں سمجھیں ایک دوسرے کو اور جو ممالک بیچ میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں قطر ہے یا ترکی ہے، ہم ان کے شکر گزار ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ان کا احترام کیا جائے، وہ ہمارے خیر کیلئے سوچ رہے ہیں۔
تو یہ تو ہمارا اس حوالے سے ایک رائے ہے اور اس رائے کو سمجھنا چاہیے ان کو، ہم آنکھیں بند کر کے ساتھ دینے والے نہیں ہیں، نہ ہمارا آرمی چیف سے کوئی لڑائی ہے، نہ ہمارا نواز شہباز سے کوئی لڑائی ہے، نہ ہماری فوج سے کوئی لڑائی ہے، نہ ہماری بیوروکریسی سے کوئی لڑائی ہے، ہم اپنے ملک میں ایک رواداری کا ماحول ہر وقت دیکھنا چاہتے ہیں، جمیعت علماء اسلام نے مسلسل اس رواداری کے ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے یعنی یہاں تک کہ ہم پر تنقیدیں شروع ہو گئی ہیں، پھر اپنے ملک کے اندر آپ محاذ پہ محاذ کھول رہے ہیں، مسلح گروہوں کے ساتھ آپ کی الگ جنگ ہے، خیبرپختونخواہ میں آپ کی الگ جنگ ہے، بلوچستان میں آپ کی الگ جنگ ہے، پنجاب میں آپ نے دینی مدارس کا ناک میں دم کر رکھا ہے، یعنی اس حد تک ہمارے ادارے علماء کرام کے پاس جا کر ان سے کہتے ہیں تمہارا قد کتنا ہے، یہ بھی ایک مدرسے کے مہتمم سے یا ان کے منتظمین سے پوچھنے کا سوال ہے تمہارا قد کتنا ہے، تم بتاؤ تمہارے آنکھوں کا رنگ کیا ہے، یہ سوالات ہیں یعنی یہ علماء کرام ان لوگوں کے توہین کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں، جو تمہارے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ان کو تعلیم دے رہے ہیں یہ مذاق تو انگریز نے بھی نہیں کیا تھا علماء کرام کے ساتھ، جو آپ کر رہے ہیں۔
تو ہم نے تو ظاہر ہے یہ کہ بڑی کوشش کی ہے کہ مسلم لیگ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ایک رواداری کا ماحول رہے لیکن اگر وہ دینی مدارس کے اندر اتر کر پہلے ان کے تنظیم کو توڑتے ہیں، آپ مجھے بتائیں کہ فیض حمید غلط تھا، باجوہ غلط تھا، مشرف غلط تھا، لیکن دینی مدارس کے لحاظ سے پالیسی میں تسلسل کیوں ہیں؟ اس لیے کہ باہر کے دنیا یہی چاہتی ہے اور ہم باقی سارے معاملات چاہیں کہ ہم اپنی مرضی سے کریں اور اگر ہم اپنی مرضی کرتے ہیں تو پھر باہر کے دنیا جو ہے وہ ہم سے اُلجھتی ہے، تو ہم دینی مدارس اس کو زبح کر کے ان کے ساتھ تعلقات بنائیں، میرے خون اور میری عزت پر وہ امریکہ اور مغرب سے تعلقات کو بہتر رکھیں کہ ہمارے مذہبی انتہا پسندوں سے واسطہ ہے فلاں ہیں فلاں ہیں، مدارس پاکستان کے ساتھ ہیں، آپ کے آئین کے ساتھ ہیں، آپ کے قانون کے ساتھ ہیں اور بس ٹھیک ہے آپ طاقتور ہیں ہماری یہ رپورٹیں ہیں، تمہارے رپورٹیں جھوٹی ہیں، کوئی رپورٹ نہیں ہے، جھوٹ پر وہ بڑی رپورٹوں کے بنیاد پر آپ بہانے بناتے ہیں کبھی مدارس کے ساتھ لڑ رہے ہیں پنجاب میں اور اتنا توہین آمیز رویہ اور اس توہین آمیز رویہ کے توقع ہم مسلم لیگ سے کریں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم تو مدرسوں کو پچیس پچیس ہزار، اماموں کو دیں گے، کس مد سے دے رہے ہو؟ بجٹ کا کون سا مد ہے کہ کوئی شخص آپ کا ملازم نہیں ہے اور آپ اس کو پیسہ دے رہے ہیں؟ کہتے ہیں تم غریب لوگوں کے لئے ہم مدد کر رہے ہیں اور آپ اس کا لحاظ نہیں رکھ رہے ہیں، بھئی اگر وہ پروفیسر ہے اور اسلامیات پڑھا رہا ہے، عربی پڑھا رہا ہے، سکول ٹیچر ہے، آپ کا ملازم ہے، اوقاف کا امام ہے، خطیب ہے، موزن ہے وہ تنخواہ لے رہے ہیں ہم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، وہ کوئی جاگیردار تو نہیں ہیں، اتنی تنخواہ لیتے ہیں جس میں مہینہ کو مشکل سے گزرتا ہے۔
تو ہم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اب عمران خان کے پارٹی اس کے حکومتی صوبے میں انہوں نے دس ہزار کا اعزازیہ دیا، کیوں دے رہے ہو بھئی ؟کس چیز پہ؟ اور پھر جو انہوں نے پیسے دینے کے لئے جو پچیس ہزار پیسے دینے کے لئے جو شرائط لکھے ہیں ذرا ان شرائط کو تو پڑھ لو، پھر پتہ چلے گا کہ تم غریب کے ساتھ ہمدردی کے لئے پیسے دے رہے ہو یا مساجد کے نظام کو کنٹرول کرنے کے لئے اور عالم دین کو کنٹرول کرنے کے لئے، بھئی یہ بات ذہن میں رہنے چاہیے کہ مسجد کا امام جو ہے اگر وہ اوقاف کا ملازم بھی ہو یا وہ سکول کا ملازم بھی ہو ان کو دوسرے ملازمین کی طرح نہ سمجھا جائے ان کی حیثیت ایک امام کی ہوتی ہے، بطور عالم دین جب وہ آپ کے کوئی ایسی عمل کو دیکھتا ہے جو از روئے شریعت ان کے نظر میں غلط ہو وہ آپ کے رہنمائی کر رہا ہوتا ہے، اس پر تو شکر کریں، آپ کہتے ہیں جی ہم پہ تنقید کیوں کرتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو اندازہ لگ گیا کہ میرے رعب اور دبدبے کی وجہ سے شاید میرے سامنے کوئی حق نہیں بول سکتا تو جلسے میں عوام سے پوچھا مجتمع میں کہ اگر تم عمر کو کجروی کرتے ہوئے دیکھو گے تو کیا کرو گے؟ تو سارا مجمع سہم ہوا، تو ایک آدمی اٹھا تلوار نیام سے نکالی اور لہرا کر کہا کہ اگر ہم نے تیرے اندر کجروی دیکھی اس تلوار سے سیدھا کر دیں گے۔ تو اس طرح حضرت عمر نے کیا جواب دیا کہ "اللہ کا شکر جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ایسے لوگ بھی پیدا کیا ہیں جو عمر کی کجروی کو تلوار سے سیدھا کر سکتے ہیں"۔ ہم ایک امام کی نصیحت اس کے ایک تنقید اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، اور اپنے آپ کو حکمران کہتے ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ یہ حکمران نہیں ہے، جس حکمران کے اندر خود اعتمادی نہ ہو، اور اپنے اختیار کے استعمال کے آزادی سے طریقوں کو نہ جانتا ہو، اس زمانے میں اس میں کچھ نہیں ہے۔
صحافی: مولانا صاحب آج استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے جا رہا ہیں، اس میں عسکری قیادت بھی مذاکرات کے لئے، انٹیلیجنس کے لوگ بھی ہیں اور بیوروکریٹس بھی، آپ نہیں سمجھتے کہ یہ مذاکرات سیاسی سطح پر ہونے چاہیے تھے اور پاکستان سے اعلیٰ جو سیاستدان ہیں، بڑے لوگوں کو جانا چاہیے تھے مذاکرات کے لئے؟
مولانا صاحب: ہمارے ہاں اصول نہیں چلتا، ہمارے ہاں طاقت چلتی ہے ان کو بھی پتا ہے کہ طاقت ہمارے پاس ہے اور ہمیں بھی پتا ہے کہ طاقت کا محور وہ ہیں، سیاستدان اس سطح پر جا کے اس خود اعتمادی کے ساتھ شائد مذاکرات نہ کر سکیں جتنے کہ ہمارے مقتدرہ کر سکتی ہے، تو وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے گئے ہیں کہ ہم ہی کر سکتے ہیں اور ہمارے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا اور ہم نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ وہ ہی کر سکتے ہیں ہم نہیں کر سکتے، تو یہ چیزیں اب تسلیم کرنی پڑ رہی ہیں اور وہ یہی ہم سے منوانا چاہتے ہیں کہ ہم ہی ہیں بس، میرے خیال میں اس سے ملک نہیں چلے گا جی، بد اعتمادی پیدا ہوگی، دیکھیں ریاست، تو فوج ریاست کی محافظ ہے، ریاست کی حکومت نہیں ہے وہ، تو ریاست کا محافظ بھی بنے پھر محافظ کے بعد حکومت بھی آپ کے ہاتھ میں ہو، پھر حکومت بھی بلدیات کی حد تک اور حکومت بھی معدنیات کی حد تک، ساری کے سارے آپ کے پاس ہو، تو آپ بتائیں کہ یہ کل کلاں عوام کیا سمجھیں گے جی؟ لہذا اعتدال آنا چاہیے ہر ایک اپنے اپنے مقام پہ جا کر اپنے ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
میں آپ کو ایک اور مسئلہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں آپ کو بڑا تعجب ہوگا اس سے، کہ کوئی بین الاقوامی فوج غزہ بھیجی جا رہی ہے اور وہ اسرائیل کہ جس کے ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور ترکی ان کو تسلیم کرتا ہے بطور ریاست کے اور اسرائیل ان کو تسلیم کرتا ہے بطور ریاست کے، اس کے مقابلے میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اسرائیل پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا، ہمارے پاسپورٹ پر لکھا ہوا ہے کہ اس پاسپورٹ پر ہر ملک کا ویزہ رکھ سکتا ہے سوائے اسرائیل کے، کیا وجہ ہے کہ ترکی کی فوج کو غزہ بھیجنے پر اسرائیل کو اعتراض ہے اور پاکستان کی فوج کو وہاں غزہ بھیجنے پر اعتراض نہیں ہے، کس کس کو روئیں ہم، اب ظاہر ہے جی کہ ہم اب اس وقت کن الفاظ سے تبصرہ کریں اور پھر جنرل ضیاء الحق جب بریگیڈیئر ضیاء الحق تھا اور اس نے جب فلسطین میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا عرب دنیا کے اندر، وہ آج تک وہ نہیں بھولے، اب اس وقت تو حضرت جنگ بندی تو ہوئی ہے اور حماس نے بھی حالات کے ساتھ سمجھوتا کر کے کچھ چیزیں وہاں کی ضرورت تھی لیکن اسرائیل کی طرف سے تو کوئی مہربانی نہیں ہوئی ابھی تک، بمباری کر رہے ہیں، لوگوں کو قتل کر رہے ہیں اور اس ساری صورتحال میں جنگ لڑی ہے حماس نے، ستر ہزار لوگ غزہ میں شہید ہوئے ہیں یا اس علاقے میں شہید ہوئے ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں، اسی طرح اس کے قریب قریب لوگ بیماریوں سے اور بھوک سے مر گئے ہیں، شہادتیں پائیں۔ یہ ساری چیزیں اتنے بڑے نقصانات کے بعد ہم سب کچھ ہاتھ باندھ رہے ہیں حماس کے ہاتھ باندھ رہے ہیں اور ہم حماس کو ایک تنظیم کہتے ہیں اور اتھارٹی کی بات کرتے ہیں فلسطین اتھارٹی اور اتھارٹی، جنگ کون لڑ رہا ہے شہداء کون دے رہا ہے، قربانیاں کون دے رہا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اس کو ہم سرے سے سٹیک ہولڈرز نہیں سمجھتے جی، کیسے ہوگا جی، جہاں پر اگر حماس نہیں بیٹھے ہوگا وہ معاہدہ ہوگا؟
تو اس لحاظ سے مذاکرات بھی بری چیز نہیں ہے، جنگ بندی ہو جاتی ہے تو بہت ضروری ہے، اسرائیل اگر جنگ لڑتا ہے تو فلسطینی مجاہدین کے ساتھ لڑیں جو مسلح ہیں، عوام کو قتل کرنا کیا مطلب ہے، پھر ایک شخص انسانی مجرم ہے عالمی عدالت انصاف نے اس کو مجرم قرار دیا ہے، اس کی گرفتاری کا حکم دیا ہے، اس کے باوجود پورے دنیا میں گھوم رہا ہے، ملکوں سے گزر رہا ہے، امریکہ جا رہا ہے، ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کر رہا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں ہمیں دیکھنی چاہیے کہ یہ ہم کر کیا رہے ہیں، ہم نے تو یہ دیکھا کہ ہمارے آرمی چیف گئے، ہمارے پرائم منسٹر گئے، ٹرمپ نے جناب ان کی تعریفیں کی، آپ بڑے اچھے لوگ ہیں، بڑے گریٹ لوگ ہیں، آپ پرائم منسٹر آئے ہیں آپ وہ میرے دوست کو نہیں لائے وہ جو بہت اچھا آدمی ہے اور دس سال کا معاہدہ انڈیا کے ساتھ، دفاعی معاہدہ امریکہ نے کر دیا ہے یا نہیں کر دیا ہے۔ آپ کہاں کھڑے ہیں ؟ کدھر ہے آپ کی ڈپلومیسی؟ بس امریکہ کی ایک تھپکی سے آپ راضی ہو گئے اور اُدھر سے انہوں نے اتنا ایڈوانس کیا، تو فوج کو تو حضرت یہ کرتب بہت آتے ہیں کہ دشمن جو ہے اُس کو کھڑا کر دے اور خود ایڈوانس کریں گے۔ یہاں پر ہمارے والے جو ہیں وہ کھڑے ہو گئے اور اُدھر انہوں نے ایڈوانس کر دیا ہے۔ اب یہ لطائف ہیں حضرت، یہ ہمارے ساتھ ہو رہے ہیں، مذاق ہو رہا ہے ہمارے ساتھ، ایک تھپکی پر ہم کرگئے اور انہوں نے انڈیا کے ساتھ معاہدہ کیا، جس میں انٹیلیجنس کا تبادلہ بھی ہے، جس میں دفاعی پیداوار میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ہے اور بہت سے شعبوں میں اور ہیں وہ دفاعی حوالے سے، تو ہم کہاں کھڑے ہیں ہم کیا کر رہے ہیں، امریکہ نے تھپکی دی تو ہم خوش ہو جاتے ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب آج آپ بھی ایوان میں موجود تھے، جب ملک عامر ڈوگر صاحب نے یہ کہا کہ نوٹیفکیشن کیا جائے، تو ڈپٹی سپیکر صاحب نے کہا کہ ۔۔۔ کے حوالے سے عدالتی معاملہ ہے آپ کل آکے سپیکر سے ملیں، تو یہ اگر کوئی عدالتی معاملہ سامنے اس طرح سے آتا ہے مقصد تو ان کو روکنا ہی ہے؟
مولانا صاحب: یہ فیصلہ میرا نہیں ہے یہ پی ٹی آئی کا فیصلہ ہے اور پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو بطور لیڈر آف اپوزیشن تجویز کیا ہے مجھے اس کے تفصیلات و جزویات کا علم نہیں ہے، تاہم چند دن پہلے بھی پی ٹی آئی کے لوگ آئے تھے میں نے کہا مجھے محمود خان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اگر وہ لیڈر آف اپوزیشن بنتا ہے کھلے دل سے ہمیں قبول ہے، کوئی مسئلہ ہمارے لیے نہیں ہے، آگے میں نے یہ کہا ہے کہ محمود خان سے ہمارا کیا جھگڑا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب غزہ والے معاملے پہ یا سعودیوں کے ساتھ ڈیل ہوئی اس معاملے پہ یا امریکہ کے ساتھ جو معاہدہ ہو رہا ہیں اس معاملے پہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
مولانا صاحب: کسی کام میں حضرت اعتماد میں نہیں لیا جا رہا، آئینی ترمیم میں بھی اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے پہلے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں ابھی جس طرح افغانستان کے لوگوں کو ڈی پورٹ کیا جارہے ہیں، یہاں میلوڈی پارک میں تین سو سے زائد فیملیز جو ہے وہ کھلے اسمان تلے اور ایک ہفتہ دس دن پہلے ایک ماں نے نومولود بچے کو پیدائش دی ہے تو اس سردی میں وہ راتیں گزارتے ہیں، آپ اس میں کچھ ان کی ہیلپ کریں گے کہ حکومت سے گزارش کی جائے کہ ان کو ڈی پورٹ نہ کیا جائے یا پھر ان کو گھر وغیرہ دوبارہ دیے جائیں؟
مولانا صاحب: دیکھیں یہ بات آج کی نہیں ہے یہ ابھی جب نواز شریف صاحب کی حکومت تھی اس وقت کی ہے اور اس وقت بھی جب صوبہ خیبر پختونخوا سے کچھ قافلیں اٹھائے گئے اور بھیجے گئے تو ہم نے ہی اس پہ احتجاج کیا اور ہم نے کہا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے آپ نے گھر میں مہمان ٹھہرایا ایک مہینہ ٹھہرایا، دو مہینہ ٹھہرایا، چھ مہینہ ٹھہرایا اور گھر سے باہر نکال کے اس کو پیچھے سے لات مار دیا آپ نے اس کو جی، تو ساری مہمان داری ختم، ایک لات سے ساری مہمان داری ختم ہو جاتی ہے جی، چالیس سال اگر وہ ہمارے ہاں مہمان رہے ہیں تو مہمان کو اس طرح نکالا جاتا ہے، ذلیل کرکے گالیاں دے کے اور صحراؤں میں پھینک کر، بھوک پیاس کے ساتھ، جیلوں سے اٹھا کے سیدھا بس میں اور سیدھا بارڈر پہ لے گئے، یہ انسانیت ہے جو ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں، پھر ان سے ہم چاہتے ہیں کہ جواب میں وہ ہم سے محبت کی بات کریں، جواب میں وہ ہمیں دوست سمجھیں گے، تو ہم نے اُس وقت بھی یہ کہا تھا کہ عقلمندی سے کام لو، اس کے لیے کوئی سٹریٹیجی بناؤ، لوگ افغانستان کے ہیں پناہ پاکستان میں لیا ہوا ہے یہ دو ملکوں کا برابر کا معاملہ ہے دونوں ملک آپس میں بیٹھیں اور اس کے لیے ایک میکنزم بنائیں، ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ کیٹیگریز بنائیں جن لوگوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے، جن کے ہمارے بینکوں میں پیسے ہیں اور ایسے پیسے کہ اگر وہ نکال لیں تو بینک دیوالیہ ہو جائے، آپ ان کو تحفظ دیں تاکہ پاکستان میں جو سرمایہ کاری ہے ان کا پیسے کا عمل ہے پاکستان استفادہ کرتا رہے، وہ بھی کاروبار کریں گے ہمیں پہ فائدہ ہوگا۔ جو ہمارا سکل ہے ہمارے ہاں ڈاکٹر بنا ہے، ہمارے ہاں انجینئر بنا ہے، مختلف شعبوں سے مہارت حاصل کی ہے یہ کیوں نہ پاکستان کہ کام آئے اور کیوں آپ دھکیلیں ان کو افغانستان کی طرف، تو ان کے لیے الگ کٹیگری مقرر کریں پاکستان میں شہریت دیں یا ان کو پاکستان میں ویزے دیں اور پاکستان میں ملازمت دے دیں تاکہ ہمارے ملک کی خدمت کر سکے، پڑے یہاں ہیں، انویسٹمنٹ ہماری ہوئے ان کے اوپر، پھر اسی طریقے سے وہ بچے جو ابھی پڑھ رہے ہیں، اب اگر آٹھویں جماعت میں پڑھنے والا، دسویں جماعت میں پڑھنے والا، بارویں جماعت میں پڑھنے والا اگر آپ آج دھکیل کر ادھر لے جائیں گے تو وہاں پر نصاب اور، یہاں نصاب اور، تو اس کے تو آٹھ دس سال کی تعلیم آپ نے ضائع کر دی۔ تو یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
صحافی: مولانا صاحب اس میں وزیر داخلہ جو ہے وہ بہت ایکٹیو ہے اور اس کے وزیر محسن نقوی صاحب ہیں، محسن نقوی صاحب آپ سے بڑے قریب ہیں، آپ سے ملاقاتیں بھی ان کی ہوئی ہیں، اس حوالے سے ان سے آپ نے تو کوئی بات کی ہے ؟
مولانا صاحب: نہیں وہ ان کو پتہ ہے کہ میں جاؤں گا تو وہ مجھے روکے گا اور اس وجہ سے پھر وہ ذرا آگے پیچھے رہتا ہے۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض
ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں