مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو

25 نومبر 2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی مجلسِ شوریٰ کا دو روزہ اجلاس 23 اور 24 نومبر کو یہاں اسلام آباد میں ہوا۔ اس اجلاس میں 27 ویں آئینی ترمیم اور بعض ایسے قوانین، جو اس دوران پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے یا پاس کیے گئے، اس پر تفصیلی غور کیا گیا۔ جمعیت علماء اسلام نے 27 ویں آئینی ترمیم کو کلیتاً مسترد کر دیا ہے اور پارلیمنٹ میں ہمارے پارلیمانی اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ مرکزی مجلسِ شوریٰ نے اپنے پارلیمانی اراکین کے اس فیصلے اور مخالفت کی توثیق کر دی ہے۔

سب سے پہلے بنیادی مسئلے کو دیکھنا ہے کہ ایک سال قبل 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں لائی گئی، اور ایک ماہ ایک ہفتے تک جمعیت علماء اسلام کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ہوتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف آن بورڈ تھی اور ہم آئینی ترمیم کے حوالے سے ہر پیش رفت سے ان کو آگاہ کرتے رہے، ان کو اعتماد میں لیتے رہے، ان کی تجاویز بھی لیتے رہے، اور ان کی تجاویز پر ہم اسٹینڈ بھی لیتے رہے اور حکومت کو وہ مطالبات منوانے پر ہم مجبور بھی کرتے رہے۔ یعنی وہ ترمیم ایک باہمی مشاورت کے مراحل سے گزری اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ترمیم پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور ہوئی۔

ہماری یہی کوشش رہی کہ آئین میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو کہ پاکستان کے آئین کے متفقہ ٹائٹل مجروح ہو جائے۔ لیکن 27 ویں ترمیم کے دوران ان کا فرض تھا کہ وہ اپوزیشن سے مشاورت کرتے، یا کم از کم جمعیت علماء اسلام کے 26 ویں ترمیم ہمارے ساتھ ایک عہد و پیمان تھا، انہوں نے ایک فریق کو اس دفعہ مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ نظر انداز کیوں کیا؟ اس کے وجوہ بالکل واضح ہیں کہ انہوں نے جبری طور پر ارکان کو توڑا پارٹیوں سے اور ایک جعلی اکثریت بنائی۔ یہ پارلیمنٹ کی فطری اور طبعی اکثریت نہ تھی بلکہ یہ دو تہائی اکثریت جبری اور جعلی تھی۔ یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے اقدار کے خلاف ہوا۔ اس سے حکومت کی عزت میں بھی اضافہ نہیں ہوا، جو قوتیں اس ترمیم کو لانے میں مصر تھیں ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، اور اس طرح عوام میں حکومت کی مقبولیت بڑی تیزی سے گری ہے۔

اس 26 ویں ترمیم میں جن چیزوں سے حکومت دستبردار ہوئی تھی، 27 ویں ترمیم میں انہوں نے ارکان کے ہاتھ مروڑ کر دو تہائی اکثریت بنائی، اور ایک سال پہلے جس کو حکومت نے کہا کہ یہ غلط ہے ہم دستبردار ہوتے ہیں، آج وہ چیزیں کس طرح صحیح ہو گئیں؟ آج وہ کس طرح آئین کا تقاضہ بن گیا؟ آج وہ کس طرح جمہوری عمل ٹھہر گیا؟ جبکہ آپ سب جانتے ہیں 26 ویں ترمیم پر ہر پاکستانی کو حق ہے کہ وہ اختلاف رائے کرے۔ اگر اس کے ذہن میں اشکال ہے، اگر اس کے ذہن میں ابہام ہے اور وہ عدالت میں جاتا ہے، ہم ان کے اس حق کو سلب نہیں کر سکتے۔ چنانچہ لوگ گئے، خاص طور پر اس ترمیم کا جو عدلیہ سے متعلق تھا، اس پر لوگ کورٹ میں گئے اور ابھی تک وہ مقدمہ کورٹ میں زیرِ سماعت تھا۔ اور دوسری ترمیم لاکر اب ایسی پیچیدگیاں پیدا کی گئیں کہ خود عدالت کو بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کرے۔

اصولی طور پر جمعیت علماء اسلام آئینی عدالت کے حق میں تھی لیکن پارلیمان کا اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے لیے ہم نے عدالتی بینچ پر اکتفا کیا تھا۔ یہ تو جب آئین بھی بن رہا تھا تو اس وقت بھی مختلف معاملات پر مختلف پارٹیوں کے موقف مختلف تھے۔ اس وقت بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت تھی لیکن انہوں نے آئین سازی میں پارلیمنٹ کے اتفاقِ رائے کو ترجیح دی، چھوٹے صوبوں کو راضی کیا، ان کے اتفاقِ رائے کے ساتھ آئین بنا۔ حالانکہ وہاں پر تو کوئی ہارس ٹریڈنگ کی بھی ضرورت نہ تھی، ایک واضح دو تہائی اکثریت تھی، لیکن اپوزیشن کو اعتماد میں لینا، چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لینا، ہر مکتب فکر کو اعتماد میں لے کر آئین بنانا، اس کو ترجیح دی گئی۔

میں نہیں سمجھتا کہ آج پاکستان پیپلز پارٹی کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے رویّوں کے بالکل برعکس جہاں ان سے توقع تھی کہ جن چیزوں پر انہوں نے 26 ویں ترمیم میں اتفاق کیا تھا، آج یہاں وہ اس کا راستہ روکیں گے، لیکن وہ راستہ نہیں روک سکے اور انہوں نے بھی جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود جمہوریت کی نفی میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہم ان سے ایک دوستانہ شکوہ ضرور رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی روایات کو برقرار نہیں رکھا اور ایک غیر جمہوری عمل میں حکومت کا ساتھ دے دیا۔

آئین ایک قومی امانت ہے، آئین ایک قومی اثاثہ ہے، آئین ایک میثاقِ ملی ہے، یہ پاکستان کی قومی وحدت کی علامت ہے۔ اگر خدا نہ کرے آئین متنازعہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ایک ملک نہیں رکھ سکتی اور پاکستانیوں کو ایک قوم نہیں بنا سکتی۔ اس آئین پر ہماری کمٹمنٹ ہے، بارہا اس ایوان میں ہم اس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

بعض اہلِ منصب کو تاحیات استثناء دیا گیا۔ فوجی حکومت میں آٹھ سال تک زرداری صاحب جیل میں رہے اور ان پر الزامات تھے۔ زندگی کا ایک لمبا عرصہ انہوں نے ان الزامات کے دباؤ میں گزارا، عدالتوں میں ان کی پیشیاں ہوتی رہیں۔ آج اسی کو کہا جا رہا ہے کہ تاحیات آپ کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہو سکے گا۔ میرے ان پر کوئی الزامات نہیں ہیں، لیکن پاکستان، پاکستان کے ادارے، پاکستان کا قانون کیا ان کو 10-15 سال مسلسل عدالتوں میں پیش نہیں کرتا رہا؟ کس بنیاد پر مختلف مقدمات؟ آج وہ یک دم اس منصب پر فائز ہونے کے بعد ایسا معصوم انسان کا روپ اختیار کر گئے کہ اب تاحیات اس کے بارے میں کوئی مقدمہ ہی درج نہیں ہو سکے گا، اس کے بعد پھر وہ جو کچھ کرے اور جیسا کرے، ان کو اتھارٹی دے دی گئی ہے کہ آپ سب کچھ کر سکتے ہیں۔

فوجی سربراہان، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ہندوستان کے مقابلے میں ان کے جرات مندانہ جواب کی ہم نے سب سے پہلے تائید کی۔ ہم ان کی بہادری پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کی پاداش میں اس آئینی ترمیم کے ذریعے ان کو جو تاحیات مراعات دی گئی ہیں، یہ شاید انوکھی قسم کی ایسی مراعات ہیں کہ پاکستان کا جمہوری معاشرہ اس کا بالکل بھی تقاضا نہیں کرتا۔

میں تو صدرِ مملکت سے بھی کہنا چاہتا ہوں، میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس ترمیم کے تحت دیئے ہوئے استثناء یا اس ترمیم کے ذریعے دی گئی مراعات کو از خود مسترد کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم ایک وفادار عام شہری اور ایک وفادار سپاہی کی طرح سب کے ساتھ برابر کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہ آئین تو طبقاتی نظام پیدا کرے گا، کچھ لوگ آئین سے ماورا ہوں گے اور کچھ پاکستانی وہ آئین کے پابند ہوں گے، قانون کے پابند ہوں گے، اور کچھ آئین و قانون سے ماورا ہوں گے۔ یہ کیا طبقاتی نظام ہے ملک کے اندر، مساوات کے نعرے لگانا اور اس کے بالکل تضاد کا قانون پاس کرنا میرے خیال میں کسی جمہوریت پسند اور نظریاتی شخص یا جماعت کے لیے شایانِ نشان نہیں۔

صرف یہ نہیں کہ اس قسم کا عمل معاشرتی لحاظ سے، جمہوری لحاظ سے غلط ہے بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس آئین میں قرآن و سنت کو اس ملک کی قانون سازی کا اساس قرار دیا گیا ہے۔ تو اسلامی تعلیمات میں بھی یہ مناسب نہیں۔ اگر خلفائے راشدین عدالت کے سامنے پیش ہو سکتے تھے، عام شہری انہیں عدالت میں لا کر کٹہرے میں کھڑا کر سکتا تھا، تو ہمارے حکمران خلفائے راشدین سے بھی بلند مرتبے کے ہو گئے ہیں؟ تاریخِ اسلام میں اسلامی دنیا کے سربراہ عدالتوں میں لائے گئے، عدالتوں میں پیش ہوئے، عدالت کے فیصلے ان کے بارے میں ہوئے۔ لیکن یہاں مساوات کی باتیں ہو رہی ہیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، تو قائد اعظم کے اصول جو پاکستان کے لیے تھے، یہ تو ان کی بھی نفی ہے۔

یہاں پر جب آئینی عدالت بنائی گئی، ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا اور یہاں ابہام موجود ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کون کہلائے گا؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا آئینی عدالت کے چیف جسٹس؟ اور یہ کہ وفاقی شرعی عدالت کے کسی بھی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے وابستہ شریعت اپیلیٹ بینچ موجود ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کی صورت میں اگر شریعت بینچ کا فیصلہ یا شریعت کورٹ کا فیصلہ آئین سے متعلق ہوا تو سپریم کورٹ کہے گا میں تو اس کی سماعت نہیں کر سکتا اس لیے کہ یہ آئینی مسئلہ ہے، اور آئینی کورٹ کہے گی کہ اس کا دستور میں ہمارے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

وفاقی شرعی عدالت اور شریعت کے فیصلوں کا کیا بنے گا؟ پاکستان میں ان کے مستقبل کا سوچا ہی نہیں گیا۔

ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ کو فعال بنایا جائے۔ فیڈرل شریعت کورٹ ایک لمبے عرصے سے نامکمل ہے۔ دو علماء کرام ان کے مستقل اراکین ہیں تاکہ شریعت کی رو سے عدالت کی رہنمائی کر سکیں، لیکن ان دو ججز کا علماء کی صورت میں آج تک انتخاب نہیں ہو رہا، ان کی نامزدگی نہیں ہو رہی۔ اس لیے ایک تو شریعت کورٹ کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے، اور دوسرا اس بات کو واضح کرنا کہ اگر کسی کیس کا تعلق آئینی معاملات کے ساتھ ہو تو اس کی اپیل کہاں کی جائے؟ اس کو آئین میں واضح نہیں کیا گیا۔

جمعیت علماء اسلام کی نظر میں 27 ویں آئینی ترمیم سے نہ تو دستور میں کوئی بہتری آئے گی، نہ عوامی مفاد کا کوئی تقاضہ پورا کرے گی، اور نہ اسلام کی رو سے اس کو کوئی جائز قانون قرار دیا جا سکے گا، جس کی بنیاد پر ہم مکمل طور پر 27 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں۔ اس پر تو قانونی ماہرین بھی رائے دے رہے ہیں کہ خاص طور پر عدالتوں کو حکومتی کنٹرول میں لانا، اگر تو اس میں پارلیمنٹ کا رول ہے تو پارلیمنٹ کے رول کی حد تک تو بینچ میں بھی ہم نے اس پر اتفاقِ رائے کیا تھا اور ترمیم آئی تھی، لیکن اس میں مزید جو تبدیلیاں کی گئی ہیں اس کے بعد حکومت ان کو ہر لحاظ سے اپنے پنجے میں رکھنا چاہتی ہے، تو آزاد عدلیہ کا تصور کہاں رہے گا؟

یہ تو ہوا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے ہمارا موقف۔

اس کے علاوہ کچھ قانون سازیاں ہوئی ہیں، 18 سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کے نکاح کے بارے میں قانون سازی، ٹرانس جینڈر کے حوالے سے قانون سازی، گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازی۔ 18 سال عمر سے کم کو نابالغ کہنا، کس شریعت میں، کس مکتبِ فکر نے اس پر یہ بات کی ہے؟ اور پھر قانون کو یہاں تک سخت کرنا کہ اگر 18 سال سے پہلے شادی ہوئی، نکاح ہوا، تو اس کو جنسی زیادتی کہا جائے گا، اسے زنا بالجبر سے تعبیر کیا جائے گا، اور اس کی سزا دی جائے گی۔

مشرف کے زمانے میں تو حقوقِ نسواں کے نام سے ایک قانون لایا گیا جس کا خلاصہ یہی تھا کہ زنا کے مرتکب کو سہولت مہیا کی جائے۔ اس پاکستان میں زنا کے مرتکب کو سہولت دینے کا قانون پاس کیا گیا۔ اس میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے ووٹ دیا تھا، اور آج بھی جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، اس پر قدغن لگائی جا رہی ہیں۔ اب عجیب بات یہ ہے، لطیفہ یہ ہے کہ 18 سال سے پہلے نکاح اس کو جنسی زیادتی بھی کہا جائے گا، اسے زنا بالجبر بھی کہا جائے گا، اور اگر اس سے اولاد پیدا ہو گئی تو اولاد جائز کہلائے گی، اور اس کے والد کو پابند کیا جائے گا کہ اس کو نان نفقہ دے اور ان کا خرچہ برداشت کرے۔ عقل، دانش، روایت، سب چیخ اٹھتی ہیں کہ یہ کیا بنا دیا گیا ہے؟

آئینِ پاکستان پارلیمنٹ کو پابند کرتا ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی۔ آئینِ پاکستان پارلیمنٹ کو پابند کرتا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں ہوگی۔ آئینِ پاکستان اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب قرار دیتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو کل کائنات کا بلا شرکت غیرہ حاکمِ مطلق مانتا ہے۔ اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کے مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے۔ اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جس طرح قرآن پاک اور سنت میں اس کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں گے۔ یہ ہمارا آئین کہتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کہتی ہے، جو آئین کا حصہ ہے: آرٹیکل 2 اور آرٹیکل 227۔

لیکن ہمارے ان قوانین کے اغراض و مقاصد میں واضح کیا گیا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ایجنڈے کی بنیاد پر ہم یہ قانون پاس کر رہے ہیں۔ اسی کا نام غلامی ہے۔ اب وہ دور ختم ہو گیا کہ دنیا کو آپ کالونی بنا لیں، لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو غلام بنانے کے لیے عالمی سطح کے ادارے اور عالمی معاہدات سیاسی، دفاعی، اقتصادی حوالے سے وہ ہمیں اس طرح غلام بنا رہی ہے کہ اگر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کنونشن، عالمی عدالت انصاف، عالمی اقتصادی ادارے، وہ کوئی پالیسی بنائے، قانون بنائے تو ہمارے جیسے ممالک میں ہمارے اپنے ملک کا آئین اور قانون غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور ان کے فیصلے ہم پر لاگو ہوتے ہیں۔ اسی کو غلامی کہتے ہیں جو کالونی سسٹم کے ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رکھا گیا ہے عالمی سطح پر اور پاکستان کے حکمران بڑی خوشی سے اس غلامی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔

تو ہمارا تو جہاد غلامی کے خلاف ہے۔ ہم نے تو برصغیر میں 300 سال تک غلامی کے خلاف جنگ لڑی ہے، قربانیاں دی ہیں۔ کسی قیمت پر بھی اس طرح کی قانون سازی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

ٹرانس جینڈر، یعنی مرضی کی صنفی شناخت تبدیل کرنا۔ اگر تو پیدائشی طور پر یہ واضح نہ ہو کہ یہ مرد ہے یا عورت، اور وہ شناخت کے لیے ہسپتال جاتے ہیں، تو وہاں تو کچھ گنجائش ہے۔ لیکن جس کو اللہ تعالیٰ نے مکمل مرد پیدا کیا ہے یا مکمل خاتون پیدا کیا ہے، کیا جواز ہے کہ ہم صرف مغرب کی تقلید میں، شاید وہاں بھی ان کو اتنی آزادی نہ ہو، جو آزادی ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دی ہے، میاں شہباز شریف سے ہمیں یہ توقع نہیں تھی۔ مسلم لیگ سے ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس حد تک جائے گی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ وہ مسلم لیگ نہیں جو انگریز کی وفادار تھی۔ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اب یہ پاکستانی مسلم لیگ ہے۔ لیکن ان کے اندر آج بھی غلامی کے دور کے جراثیم زندہ ہیں، اور جس کے مظاہر آج ہم اس جماعت کے اندر دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ان سے توقع نہیں تھی۔

اس سلسلے میں میں ایک اور بات بھی کہنا چاہوں گا کہ دینی مدارس کے حوالے سے جو رجسٹریشن کا قانون پاس ہوا تھا، نہ اس پر ابھی تک کوئی عمل ہو رہا ہے، نہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو زیرِ بحث لانے کے لیے اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا، ایک سال ہو گیا ہے ایک سفارش بھی آج تک زیرِ بحث نہیں لائی گئی۔ یعنی عمل درآمد یا تو ہوتا نہیں، یا نیتیں اور ارادے اس کے برعکس ہیں۔ وہ دینی مدارس کے ساتھ بھی، اور ان کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی کے ساتھ بھی، اور اپنے کیے ہوئے قانون سازی کے ساتھ بھی منافقت کر رہے ہیں۔ اور وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے ساتھ بھی منافقت کر رہے ہیں۔ ان کو سیدھی راہ لینی چاہیے۔ حکمران پر آئین کی پیروی بہت لازم ہے۔ عام شہری سے غلطی ہو جاتی ہے، لیکن حکمران وہ اپنے آپ کو قانون و آئین سے ماورا نہ سمجھیں۔

ہم اس سلسلے میں اتحادِ مدارسِ دینیہ، وفاق المدارس العربیہ اور تمام مکاتبِ فکر سے رابطہ کر رہے ہیں، اور ان شاء اللہ پورے ملک میں سیمینارز منعقد کیے جائیں گے۔ ایک احتجاجی سلسلہ اس حوالے سے شروع کیا جائے گا اور اس کا شیڈول ان کی مشاورت کے بعد طے کر لیا جائے گا ان شاء اللہ۔

تو یہ ہمارا موجودہ حالات پر موقف ہے۔

سوال و جواب 

صحافی: کیا ہم یہ سمجھیں کہ اس وقت جے یو آئی دوبارہ اس پوائنٹ پر آ گئی ہے کہ تمام دینی سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے اور…؟

مولانا صاحب: میں ایک گزارش کروں، یہ میں نے اپنی رائے نہیں دی آپ کو، یہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کا بیان ہے۔ اور میرے خیال میں اس کو سوال جواب میں گڑ بڑ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو اسی طریقے سے پبلک کر لینا چاہیے جس طرح میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے۔

صحافی: مولانا صاحب، 29 تاریخ مطلب نوٹیفکیشن کی بھی بات ہو رہی ہے فیلڈ مارشل یا چیف آف آرمی صاحب کی۔ کیا مرکزی مجلسِ شوریٰ میں اس چیز پر بھی بات ہوئی ہے کہ نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے یا مزید پانچ سال ملنے چاہئیں؟

مولانا صاحب: حضرت! جس چیز کو ایک خاص شخص کے لیے مراعات کہا جائے اور زمرے میں تصور کیا جائے، اس سے ملک کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ ہم اپنی فوج کا احترام کرتے ہیں۔ حافظ صاحب ہمارے لیے محترم ہیں، ہندوستان کے مقابلے میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں ان کی اس کارکردگی سے کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن ملک کے اندر ایسی نئی روایات نہ ڈالی جائیں جن میں شہریوں کے درمیان تفریق آئے اور قانون کی نظر میں ایک اور طرح ہو اور دوسرا اور طرح۔

صحافی: 27 ویں ترمیم پر آپ نے تنقید کی، لیکن اسی ترمیم کو پاس کرنے کے لیے ایک سینیٹر آپ کی پارٹی کے انہوں نے ووٹ دیا

مولانا صاحب: تو ہم نے نکال دیا، بات ختم

صحافی: مولانا صاحب! یہ جو ستائیسویں آئینی ترمیم کے جو خدشات ہیں، آپ سے وقتاً فوقتاً سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ملتی رہیں، تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ آپ نے منظوری سے قبل اس پر کوئی جملہ نہیں کہا نمبر ون، اور دوسری بات، 28، 29، 30 ترامیم کی بھی باتیں ہو رہی ہیں، تو اس کے لیے کیا حکمت عملی ہے؟

مولانا صاحب: دیکھیں، میں گزارش کر رہا ہوں۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں بنگلہ دیش کے سفر پر جا رہا تھا اور میں سفر میں تھا کہ جب خبر آئی کہ اس قسم کی چیزیں رکھی جا رہی ہیں۔ ہم نے اسی وقت وہیں سے فون کیا کہ میں 22 کو پہنچ رہا ہوں پاکستان اور 23 کو فوراً اجلاس ہونا چاہیے۔ اب مزید ترامیم آ رہی ہیں تو ابھی تو اس پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی کیونکہ آنے سے قبل کچھ کہنا مناسب نہیں۔

صحافی: آپ نے فرمایا کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ شہباز شریف صاحب اور یہ مسلم لیگ انگریز کے وفادار مسلم لیگ نہیں ہے، تو کیا جو پچھلی مسلم لیگ تھی جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ انگریز کی وفادار تھی؟

مولانا صاحب: آپ خود ہی سمجھتے ہیں، بہت سی چیزیں، مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو بار بار، بڑی مہربانی، بہت شکریہ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments