قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو
07 نومبر 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ کریم
سب سے پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ اپ کو اتنا انتظار کرنا پڑا ہے ہمارے مصروفیات کی وجہ سے، اور شکرگزار بھی ہوں اپ تشریف لائے ہیں اور آپ کے وساطت سے مجھے اپنی بات قوم تک پہنچانے کا موقع مل رہا ہے۔
آج ہماری پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین نے اس میں شرکت کی اور یہ جو آج کل ستائیس ویں ترمیم کی بحث چل رہی ہے، تاکہ ہم بھی ذرا سر جوڑ کے بیٹھیں، سوچیں، لیکن بات پھر وہی سامنے ائی کہ اب تک کوئی مسودہ اس حوالے سے منظر عام پہ نہیں ایا حکومت کی طرف سے، تو ہم ان کی جزیات پر تو بحث نہیں کر سکتے، کوئی چیز سامنے ائے گی تو اس کے بعد پھر جزیات پر ہم بات کر سکیں گے، کچھ چیزیں ہم نے اصولی طور پر طے کی ہیں، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چھبیسویں ویں ترمیم میں حکومت جہاں پینتیس شقوں سے دستبردار ہوئی تھی، جن شقوں سے وہ دستبردار ہوئی تھی اگر انہیں شقوں میں سے کوئی چیز ستائسویں ترمیم میں اکر پاس کی جاتی ہے تو ہم اس کو پارلیمنٹ کی بھی توہین سمجھتے ہیں، اس کو ہم ائین کی بھی توہین سمجھتے ہیں کہ کل دو تہائی اکثریت سے پارلیمنٹ نے ایک فیصلہ کیا اور اج کھینچ تان کے اپ پتہ نہیں کس طریقے سے دو تہائی اکثریت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہی چیزیں جس سے کل آپ دستبردار ہوئے تھے تو کیا یہ پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ ہے کہ جب چاہیں آپ اسے جو چیز پاس کرائیں، لہذا اصولی طور پر یہ بات واضح ہے کہ چھبیسویں ترمیم سے دستبردار ہونے والے نکات پر اگر دوبارہ ستائیس ویں ترمیم میں کوئی چیز لائی گئی یہ قابل قبول نہیں ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ چھبیسویں ترمیم میں یہ طے ہوا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پارلیمنٹ میں لے بھی ہوں گی اور ان پر ڈیبیٹ بھی ہوگی، ایک سال گزر گیا ہے نہ سفارشات پیش کی گئی ہے نہ اس پر کوئی بحث بھی ہوئی ہے، یہ اس چھبیسویں ترمیم پر عمل درآمد کا عالم ہے، سود کے حوالے سے جہاں یکم جنوری دو ہزار اٹھائیس سے پاکستان کے اندر سودی نظام کا خاتمہ ہوگا اس کے حوالے سے بھی کوئی پیشرفت ابھی تک نظر نہیں آرہی ہے، دینی مدارس کے حوالے سے رجسٹریشن کا مسئلہ قانون کے ذریعے طے ہوا تھا، آج مدارس کے رجسٹریشن بھی نہیں کی جا رہی ہے 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت اور مدارس کے ہاتھ مروڑ کر ان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وزارت تعلیم کے تحت اپ کو رجسٹر ہونا ہوگا۔ یہ اس قانون کی بھی توہین ہے، یہ اسمبلی کی بھی توہین ہے اور حکومت دھڑلے کے ساتھ اس توہین کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھارویں ترمیم کے تحت جو صوبوں کو اختیارات دیے گئے تھے اگر ان میں اختیارات میں کمی کی کوشش کی گئی تو جمعیت علماء اسلام دفاع کرے گی، ہم مزید صوبوں کو زیادہ با اختیار بنانے کی بات کرتے ہیں، اسی طریقے سے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بھی باتیں چل رہی ہیں، صوبوں کا جو حق ہے ائین کہتا ہے کہ اس حق میں اضافہ تو کیا جا سکتا ہے کمی نہیں کی جاسکتی، آج صوبوں کے حق پہ ڈاکا ڈالا جاتا ہے تو ہم نے اصولی فیصلے یہی کیا ہے کہ جمیعت علماء اسلام اس کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
تو یہ کچھ چیزیں ہیں جو اصولی طور پر ہم نے طے کی ہے مزید جو کوئی ڈرافٹ سامنے ائے گا تو پھر ان پر بحث ہوگی۔
سوال و جواب
صحافی: آپ نے این ایف سی کی بھی مخالفت کر دی ہے، آپ نے اس کے ساتھ چھبیسویں ترمیم میں جو منظور ہوا اس کو بھی مخالفت کر دی کہ اس میں جو چیزیں رہ گئی تھیں ان کو دوبارہ نہ لایا جائے، لیکن یہاں پر ایک چیز جو کہی جا رہی ہے 243 ارٹیکل اس میں ترمیم، کیا یہ اس وقت چھبیسویں ویں آئینی ترمیم کا حصہ تھا یا نہیں تھا؟ کیا اپ اس کی حمایت کریں گے یا مخالفت کریں گے؟
مولانا صاحب: جی بالکل اپ نے صحیح بات کی ہے، ہم نے اس کو دو حوالوں سے دیکھنا ہے اگر تو ملک کے اوپر، ملک کی سیاست کے اوپر، ائین کے اوپر، جمہوریت کے اوپر اس کے منفی اثرات پڑھتے ہیں تو ہمیں قبول نہیں ہوگا اگر اس میں کوئی انتظامی قسم کی باتیں ہیں اور صرف انتظامی قسم کی بات ہے تو انتظامی چیزیں جو ہیں وہ ملک میں چلتی رہتی ہیں اس کے حجم کو ہم دیکھیں گے، اس کی شکل کو ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا ہے تب جا کر ہم اس پر کوئی حتمی فیصلہ کریں گے۔
صحافی: مولانا صاحب آرٹیکل 243 میں جس ترمیم کی باتیں ہو رہی ہے کیا اس سے خیبرپختونخواہ، بلوچستان یا ملک بھر میں جو مسائل ہے وہ ٹھیک ہو جائیں گے اور دوسرا یہ کہ جب آپ کے بیٹے کو یارک میں روکا گیا تو اس کے بعد جس طرح آپ نے ری ایکشن دکھایا اور ابھی جس طرح کے علماء یا لوگ یا آپ کے کارکن ٹارگٹ ہو رہے ہیں اس طرح کا ری ایکشن آپ نہیں دکھا رہے ہیں کیا وجہ ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے میں نے تو اس وقت بھی کوئی ری ایکشن نہیں دکھایا، آپ نے میری کون سی ری ایکشن دیکھی ، کوئی جلوس، کوئی جلسہ، کوئی احتجاج، کوئی دھرنا، کچھ بھی نہیں دکھایا کیوں کہ میں اپنے ملک کے تمام بچوں کو اسجد کے برابر سمجھتا ہوں ، جو میرے سامنے وہ شہید ہو رہے ہیں، ان کا خون بہہ رہا ہے وہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں اور میں صرف اپنے بیٹے کے لیے تو احتجاج کروں اس پر ردعمل دوں، باقیوں کے بارے میں، تو ایسی کوئی بات اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔ ہم بڑے سنجیدہ لوگ ہیں اور ہمارے سامنے ہر بچے کا خون اپنے اولاد کی خون کی طرح ہے۔
صحافی: آپ کو امید ہے کہ اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اگر اس میں ترمیم ہو جاتی ہے ؟
مولانا صاحب: ٹھیک تو کچھ بھی نہیں ہو رہا، جب ٹھیک کرنے کے کی بات ائے گی تو جب تک ہم اجتماعی سوچ پیدا نہیں کریں گے اور صرف ایک ادارے کے کوئی سوچ وہی حاکمیت کرے گی تو میرے خیال میں پارلیمنٹ سے پوچھنا چاہیے، ہمارے پارلیمنٹ کی جو سیکیورٹی کمیٹی ہے اس کو بٹھانا چاہیے، تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھانا چاہیے اور ایک اجتماعی قومی رائے جو ہے اس پر موقف اختیار کرنا چاہیے۔
صحافی: بنیادی طور پر یہ بتا دیں کہ اپوزیشن کی جو بڑی جماعت ہے وہ آپ سے ہے در پے پہ، متواتر ملاقات ہوئی اور ایک بار پھر اپ کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو گئی ہیں، انہوں نے آج اصولی بیانیہ یہ جاری کیا ہے کہ ہماری پارلیمانی پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ جو ہے نا یہ سسٹم یہ سارا کا سارا فیک ہے، یہ اسمبلی فیک ہے اور اس اسمبلی کو مینڈیٹ ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی کر دے ائین میں، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں، میں اس کی تائید کروں گا اس لیے کہ یہ ایک عوام کی نمائندہ تو ہم نے کبھی نہیں کہا اس کو اور چھبیسویں ترمیم کے دوران تمام پارلیمنٹ جو ہے وہ باہمی طور پر رابطے میں تھا اور اسی رابطے نے یہ کمال دکھایا کہ ہم نے حکمران کو ایک ڈرافٹ کے پینتیس دفعات سے دستبردار کیا اور بہت سے ہم نے اپنی مرضی کی چیزیں جو ڈالی وہ قبول ہوئی، لیکن اب وہ پریکٹس دوبارہ تو ایسی اسمبلی نہ کرے کہ جو جس پہ اعتراضات ہیں اور جو عوام کی نمائندگی کے حوالے سے اس وقت کوسچنز ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب چھبیسویں ترمیم میں آپ نے ووٹ دیا اور چھبیسویں آئینی ترمیم میں ہی ایکسٹینشن کی بات آئی اور ٹینیور پانچ سال ہوا، ایک تو یہ کہ ایک بات تو یہ ہو رہی کہ سپریم کمانڈر جو ہے وہ اس کے جو طاقت ہے یا جو اتھارٹی ہے وہ صدر مملکت سے کہیں اور شفٹ ہو رہی ہے ایک اور دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نہیں سمجھتے آپ نے بھی ایکسٹینشن میں حصہ لیا کہ اگر ایک بندے کو ایکسٹینشن ملتی ہے تو پیچھے سینکڑوں افسران متاثر ہوتے ہیں اور یہ تاثر بھی اتا ہے کہ شاید ایک بندہ جو ہے وہ کمپیٹنٹ ہے باقی ادارے میں سے لوگ نہیں ہیں جو اس ادارے کو جو ہے وہ اس کی لیڈرشپ کر سکیں تو آپ نہیں سمجھتے کہ اس سے پامالی بھی ہوئی تھی اور یہ تاثر بھی سامنے اتا ہے؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں ہمیں ایک طبعی اور فطری قسم کا نظام بنانا چاہیے، غیر طبعی اور غیر فطری قسم کے جو ہم قوانین بناتے ہیں، سوسائٹی کل اس کو قبول نہیں کرتی، سیاسی ماحول اس کو قبول نہیں کرتا تو ہمیں اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں چھبیسویں ترمیم میں جو پینتیس شقیں ختم کر دی گئی تھی جو پنڈی ختم کر دی گئی تھی، اس میں سے کچھ دوبارہ جس طرح اپ نے کہا کہ ایڈ کیں جا رہے ہیں، تو آپ سمجھتے ہیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم میں ان کا ساتھ دے کر آپ نے غلطی کی اور غلطی کی تو بار بار اس پر ٹرسٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟
مولانا صاحب: اللہ کے بندے بات تو سنو، ہم نے کہا ہے کہ ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا، ان کو دستبردار کیا، جب ہماری مرضی کا بنا تو ہم نے تب جا کر ووٹ دیا، تو اب اگر وہ دوبارہ لائیں گے تو ایک دفعہ دستبردار ہونے کے بعد جب دوبارہ لائیں گے تو ہم پھر مخالفت کریں گے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں یہ جتنا اہم ستائیس ویں آئینی ترمیم کا ہے اتنا ہی ہے معاملہ افغانستان اور پاکستان کے مذاکرات کا ہے، اپ اثر رکھتے ہیں افغانستان کے حوالے سے بھی، کیا اپ کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے، مذاکرات اج پھر ہو رہے ہیں اور گرنٹر جو ہے دو ایسے ملک ہیں کیا ان سے رابطہ ہوا آپ کا یا حکومت کا، کیا کردار ہوگا اس حوالے سے؟
مولانا صاحب: نہیں میرا اس کا کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن میں منتظر ہوں ایک اچھی خبر کا، کہ مذاکرات کامیاب ہو، ہماری دعائیں ہیں، ہم دو پڑوسی ملک ہیں اور باہمی طور پر ہمارے بہتر تعلقات ہی ہمارے بہتر استحکام کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں ستائیس ویں ترمیم پر آج سینیٹ میں لانے کے لیے تیاریاں کی جا رہی تھی لیکن نہیں لائی جاسکی، ایک موقع پر کہ جب یہ ترمیم پارلیمنٹ میں لائی جا رہی ہے اور اس کے مسودے کے بارے میں ایک ابہام ہے، سامنے نہیں ارہا، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ مسودہ کیا حکومت کے پاس نہیں ہے، اتحادی جماعتوں کے پاس نہیں ہے، یا جن لوگوں نے اپ سے ملاقاتیں کی ہیں ان کا اس بارے میں کیا خیال تھا اور یہ پھر مسودہ ہے کہاں پر؟
مولانا صاحب: اب یہ تو مجھ سے نہ پوچھے، یہ تو مجھ سے
پوچھنے کا سوال نہیں ہے کہ ہے بھی اور نہیں بھی ہے، کہاں پر ہے اور کہاں نہیں ہے، یہ سارے وہ سوالات ہیں جو مجھ سے متعلق نہیں ہے۔
صحافی: مولانا صاحب بنگلہ دیش کا دور اپ کرنے جا رہے ہیں، کہا یہ جا رہا ہے کہ اپ کی سارک سٹیکر نہیں دیا جا رہا ویزا نہیں لگایا جا رہا حکومت کی طرف سے، تو اس پر کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: مجھے کچھ اطلاعات ملی تھی کہ مجھے اجازت نہیں دی جا رہی ہے، لیکن دیکھتے ہیں ابھی فی الحال تو دن ہے۔
صحافی: مولانا صاحب نے فیصل واڈا صاحب نے آپ سے ملاقات کی تھی، پہلے تو یہ بتائیں کہ وہ کس کا پیغام لے کے ائے تھے اور دوسرا یہ ہے کہ اگر ان کے پاس یہ مسودہ نہیں ہے تو کون ڈرافٹ دے گا آپ کو؟
مولانا صاحب: بیٹا میں ان کے دعوے پہ کراچی گیا تھا ان کے گھر، اور اسی طرح وہ میرے گھر تشریف لے آئے، بہت مہربانی ان کی، ہمیں بہت عزت دی، اس کے علاوہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
صحافی: مولانا صاحب اٹھارویں آئینی ترمیم کے اوپر نو مئی تک مشاورت جاری رہی، پھر اس کے بعد جتنی آئینی ترمیمیں جو ہے مشاورت کا وقت کم ہوتا چلا گیا، اب بھی پارلیمنٹ میں جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم پاس ہوا ہے اس میں بھی مشاورت کا وقت ہمیں کم ہوتا نظر ایا، اب جو ستائیس ویں میں ہم کھڑے ہیں اس کے اوپر تو ایسا لگ رہا ہے جیسے آنا فانا ائے گی اور منظور ہو جائے گی، کیا یہ جمہوریت میں اچھا شگون ہے ؟
مولانا صاحب: دیکھیے، دیکھا جاتا ہے ایجنڈے کو، اٹھارویں ترمیم میں کوئی دو فریق آمنے سامنے نہیں تھے، تمام پارلیمنٹ ایک ہی کمیٹی میں ایک ہی پیج پر تھی اور جتنی ترامیم ماضی میں ہوئیں ان تمام کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا گیا اور خاص طور پر سترہ ویں ترمیم کو مکمل کالعدم قرار دیا، پھر اس کے بعد ان شقوں پر دوبارہ غور کیا گیا اور پورے پارلیمنٹ نے متفقہ اسے پاس کیا تو ظاہر ہےاس کا ایجنڈا لمبا تھا اور پھر وقت زیادہ لگااور ہر پارٹی نے اپنا انفٹ دیا اس پہ بحث کی، بات چیت ہوتی رہی، اب جو چھبیسویں ترمیم آئی ہے اس میں ان کا خیال یہ تھا کہ ہم چوبیس گھنٹوں میں یا تین دن کے اندر پاس کرلے، لیکن ہم نے کہا اس طرح تو نہیں ہوتا، تو ایک مہینہ ایک ہفتہ تک تو لگ گیا کسی نتیجے تک پہنچانے کے لیے، اب جب یہ سامنے آئے گا تو پتہ لگ جائے گا کہ اس کا حجم کتنا ہے، کتنا ٹائم لے گا۔
صحافی: مولانا صاحب دو تین روز قبل جب آپ سے بات ہوئی تو ہم نے آپ سے پوچھا کہ بلاول نے کوئی مسودہ آپ سے شئیر کیا، آپ نے کہا اس نے کچھ اشارے دیے، لیکن وہ تو ظاہر ہے کہ ان فکچر تھے۔ رات کو انہوں نے پونے دو بجے پریس کانفرنس کی، انہوں نے کہا 243 کے علاوہ سب کچھ مسترد کرتا ہوں، آپ اس پہ کیا کہتے ہیں، اس معاملے پر آپ کا کیا موقف ہے ؟
مولانا صاحب: یہ تو ان کے ساتھ پھر بیٹھ کر بات کرنی ہوگی، تھوڑا ان کے موقف کو سمجھنا ہوگا اور یہ اچھی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان بات چیت کے ماحول موجود رہے، تو افہام و تفہیم بھی ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے ایک چیز کو کیوں قبول کیا اور باقی کو کیوں مسترد کیا، یہ تو جب ان کا موقف سامنے آئے گا تو میں تبصرہ کر سکوں گا۔
صحافی: 243 آپ قبول کرتے ہیں؟
مولانا صاحب: میں نے پڑھا نہیں ہے، جب پڑھوں گا تو اس کے بعد پتہ چلے گا نا۔
بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب، #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں