ائمہ مساجد کے اعزازیے پر مولانا فضل الرحمن کا ردعمل
حافظ مومن خان عثمانی
پنجاب حکومت نے صوبہ بھر کے ائمہ مساجد کو 25 ہزار روپے اعزازیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے،جس پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے چناب نگر چنیوٹ میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس اور اس کے بعد ملتان میں وفاق المدارس کے تحت تحفظ مدارس دینیہ کنونشن میں پنجاب حکومت کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت علماء کے ضمیروں کو خریدنے، ان زبان کی بندی اور مساجدومدارس کے نظام میں دخل اندازی کی کوشش کررہی ہے،انہوں واشگاف الفاظ میں واضح اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں اس عظیم الشان اجتماع میں تمام مکاتب فکر اور تمام مدارس کی طرف سے یہ وظیفہ آپ کے منہ پر مارتاہوں،مولاناصاحب نے اس پر اس قدر سخت موقف کیوں اپنایا؟اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت کو اچانک علماء اور ائمہ مساجدکے ساتھ یہ ہمدردی کیوں سوجھی؟حکومت پنجاب کی سفارش پر وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پر پابندعائدکرتے ہوئے،اس سے وابستہ 350مساجداور 225مدارس کو اپنے تحویل میں لیا،ان کے بیشمارکارکنان کوگرفتارکیا،جس پر تنظیمات اہل سنت نے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا علان کیا،اس چیزکو دبانے کے لئے حکومت پنجاب کو یہ ترکیب سوجھی کہ چونکہ پنجاب میں بریلوی مکتبہ فکر کی اکثریت ہے،لہٰذاان کا منہ بندکرنے کے لئے ان کو کچھ دیاجائے اور اس کی صورت حکومت پنجاب نے یہ نکالی کہ ائمہ مساجد کو وظیفہ دیاجائے تا کہ ان کی زبان بندی ہوسکے،اگریہ بات نہ ہوتی تو اس معاملے سے پہلے حکومت یہ اعلان کرتی،عین ایسے موقع پر کہ جب ٹی ایل پی پر پابندعائدکردی گئی،ان کی مساجد ومدارس کو بند کردیاگیا اور پھر ان کو سرکاری تحویل میں لے لیاگیا ایسے موقع پر اس قسم کا اعلان بذات خود اس منصوبے کو مشکوک بنانے کے لئے کافی ہے،جس کی وجہ سے قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا،دوسری بات یہ ہے حکومت پنجاب نے65 ہزار علماء کووظیفہ دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ صوبے میں لاکھوں ائمہ مساجد ہیں ان 65ہزار کی تخصیص کس بنیاد پر؟تیسری بات یہ ہے کہ وظیفہ ہے جوعارضی چیزہے،کسی بھی وقت یہ وظیفہ بندہوسکتا ہے،ائمہ مساجد کے ساتھ لوگ تعاون کرتے ہیں،مگر جب حکومت کی طرف سے وظیفہ ملے گا تو لوگ اپنا تعاون ختم کردیں گے کہ حکومت کی طرف سے ان کو ملتا ہے،لیکن جب حکومت کی طرف سے وظیفہ بندہوجائے گا توپھر وہ ائمہ مساجد کیا کریں گے۔ حکومت کی طرف سے ائمہ مساجد کو جن شرائط کا پابندکیا گیا ہے،اس سے حکومت کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں۔جواقرار نامہ حکومت کی طرف سے سامنے آیا ہے اس کاایک ایک لفظ چیخ چیخ کرمولانافضل الرحمن کے موقف کی تائید کرتا ہے،اقرار نامہ یہ ہے۔میں درج ذیل شرائط وضوابط پرمکمل طورپر عمل کرنے کا اقرار کرتاہوں۔
(1)میں مسجد کے پلیٹ فارم سے کسی قسم کی مذہبی منافرت،فرقہ واریت،یااشتعال انگیز تقریر وبیان نہیں کروں گا (2)میں کسی بھی قسم کی حکومت پاکستان،ریاستی اداروں یاقومی قیادت کے خلاف تقریر وبیان نہیں کروں گا (3)مسجد کا لاؤڈ سپیکر صرف اذان،خطبہ جمعہ اور انتظامی اعلانات کے لئے استعمال کیاجائے گا (4)میں مسجد کو امن ورواداری اور باہمی بھائی چارے کے فروغ کامرکز بناؤں گا (5)میں مسجد کے پلیٹ فارم سے کسی سیاسی سرگرمی یاجماعتی تشہیر میں حصہ نہیں لوں گا (6)میں مسجد میں نفرت انگیز فرقہ وارانہ موادکی تقسیم یانمازئش کی اجازت نہیں دوں گا (7)میں ضلع وتحصیل انتظامیہ،پولیس اور محکمہ اوقاف کے تمام احکامات پر عمل درآمدکروں گا (8)میں جمعہ،عیدین اور دیگر اجتماعات کے موقع پر نظم وضبط برقرار رکھنے کے لئے انتظامیہ سے مکمل تعاون کروں گا (9)میں کسی بھی موقع پر امن وامان کے قیام کے لئے حکومت وقت سے ہرممکن تعاون فراہم کروں گا (10)میں تسلیم کرتاہوں کہ اگرمیں ان ہدایات کی خلاف ورزی کروں تومیرے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔میں تمام مذکورہ بالا شرائط کوپڑھ کر،سمجھ کر بخوشی اور رضامندی سے ان پر عمل کرنے کا اقرار کرتاہوں۔یہ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے عائدکردہ وہ شرائط ہیں جومسجد کے خطیب کی زبان بندی اور اکے ضمیر پر پہرہ بٹھانے کی واضح ثبوت ہے،اس سے بڑھ کر اور زبان بندی،مساجد ومدارس کے معاملات میں دخل اندازی اور ضمیر خریدنے کی اورکیاکوشش ہوسکتی ہے، اسی چیز کو قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے جوتے کی نوک پر رکھی ہے۔ایسا عالم دین اور خطیب اللہ تعالیٰ،رسول اللہ اور قرآن پاک کانمائندہ نہیں ہوسکتا وہ تو حکومت وقت،ڈی سی،اے سی اور ایس ایچ اوکا نمائندہ ہوگا،وہ لوگوں کو دین کی بات کیسے بتاسکے گا وہ کسی باطل کے خلاف یا ظلم وبربریت کے خلاف کیسے آوازبلندکرسکے گا،وہ حق بات کیسے کرسکے گا،وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور منکرات کا ردکیس طرح کرسکے گا،اس لئے قائدجمعیت مولانافضل الرحمن اور وفاق المدراس العربیہ کے ناظم اعلیٰ مولاناقاری محمدحنیف جالندھری نے علماء کی زبان بند ی کی آڑمیں ان کو دئے جانے والا وظیفہ مسترد کردیا ہے،بلکہ تنظیمات اہل سنت نے بھی اس کو مسترد کیاہے،اگر حکومت علماء کے ساتھ مخلص ہے تو ان کو نوکری کے مواقع فراہم کرے،انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرے،انہیں صرف وظیفوں پرنہ ٹرخائے،مدارس کا رجسٹریشن کرے،مساجد ومدارس کے بجلی بل معاف کرے۔،پختونخوا کی حکومت بھی پچھلے کچھ سالوں سے ائمہ مساجد کو دس دس ہزار روپے پر ٹرخارہی ہے،دس ہزار پر دوآمیوں کے دس دن کا گزارہ بھی نہیں ہوتا مگر حکومت علماء پر احسان جتوارہی ہے کہ ہم ان کو وظیفہ دے رہے ہیں اور علماء کے پورے خاندان کو دس ہزار کے حوالے کردیاگیا ہے۔اس کو منہ پر نہ مارا جائے تو اور کیا کیاجائے؟ قائدجمعیت مولانافضل الرحمن کے اس ردعمل پر مسلم لیگ ن کے کچھ رہنماکارکن پی ٹی آئی والوں سے بھی زیادہ غلاظت اور بدزبانیوں پر اُتر آئے ہیں،اگرمولانافضل الرحمن کی جہد مسلسل نہ ہوتی اور وہ فیض حمیدکے بچھائے ہوئے جال کے خلاف میدان میں نہ اترتے تو مسلم لیگی آج بھی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہوتے،آج اگران کی حکومت ہے تو وہ بھی مولانافضل الرحمن کی بدولت ہے۔

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں