بنگلہ دیش چائنہ فرینڈ شپ کنونشن سینٹر میں خصوصی تقریب سے مولانا فضل الرحمن صاحب کا خطاب

جمعیت علماء اسلام بنگلہ دیش کے زیر اہتمام چائنہ فرینڈ شپ کنونشن سینٹر میں خصوصی تقریب سے قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا خطاب

18 نومبر 2025

الحمد للہ رب العالمین، الصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین، وعلی آلہ وصحبہ امن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔ اما بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا، صدق اللہ العظیم

گرامی قدر صدر مجلس! حضرت مولانا عبیداللہ فاروق صاحب، اپ کی شانہ بشانہ چلنے والے آپ کے تمام ہمسفر، بنگلہ دیش کے میرے انتہائی قابل قدر زعماء، علمائے کرام اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام معززین؛ میں آپ تمام حضرات کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے بھی اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے وہ تمام مندوبین اور وہ تمام علماء کرام جو آپ کی دعوت پر بنگلہ دیش آئے ہیں سب آپ کے شکر گزار ہیں۔ آپ نے جو ہمیں محبت دی ہے، آپ نے جو ہمیں عزت دی ہے، آپ نے جو ہمیں احترام دیا ہے، آپ یقین جانیے کہ ہمیں بالکل محسوس نہیں ہو رہا کہ ہم کسی دوسرے ملک میں آئے ہیں، ہم خود کو اپنے وطن میں سمجھتے ہیں، اسی لیے میں اعتراف کرتا ہوں کہ آپ کی طرف سے مجھے ملنے والی محبت، مجھے ملنے والی عزت کا میں کوئی قیمت ادا نہیں کر سکتا۔

لیکن ہم نے اس دنیا میں باعزت طور پر رہنا ہے۔ اسلام ایک دین ہے، مسلمان ایک امت ہے، جغرافیہ تو اس کا تقسیم ہو سکتا ہے لیکن اس کی روحانی دنیا منقسم نہیں ہو سکتی، پوری دنیا کا مسلمان وہ ایک امت ہے، ہمارے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس روحانی تعلق کو تقسیم نہیں کر سکتی۔

پاکستان بنگلہ دیش کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے، پاکستان بنگلہ دیش کو رو بہ ترقی دیکھنا چاہتا ہے، پاکستان بنگلہ دیش کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے، اور آپ کے لیے خیر سگالی کا پیغام لے کر ہم آئے ہیں کہ ہم ایک تھے اور ان شاءاللہ ایک رہیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ دونوں ممالک کے، دونوں طرف سے برادرانہ اور خیر سگالی کے جذبات یہ دونوں ملکوں کی ترقی کا سبب بنیں گے۔ پاکستان، پاکستان کے عوام وہ ساری پرانی کہانیاں بھول چکے ہیں، اب ہم نئی دنیا میں ہے، ہم نے آگے جانا ہے، ماضی کا رونا نہیں پیٹنا، ہم نے اپنے نئے مستقبل کو تراشنا ہے، اس کو سنوارنا ہے اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے۔

اسلام سلامتی کا دین ہے، علماء کرام بیٹھے ہیں ہمارے ہاں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ایمان اور اسلام، علماء جانتے ہیں یہ ایمان کے لغوی معنی دوسرے کو امن دینا اور اسلام کے لغوی معنی دوسرے کو سلامتی دینا، جس کے لغوی الفاظ میں امن و سلامتی پنہاں ہو، آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہ دنیا اور کائنات کے لیے امن اور سلامتی کا کتنا عظیم نظام رکھتا ہوگا، اگرچہ دنیا کوشش کر رہی ہے کہ اسلام کو بدنام کیا جائے، اسلام کا غلط چہرہ دنیا کو دکھایا جائے، اس کی غلط تشریح کی جائے، شدت کو اسلام کی طرف منسوب کیا جائے، انتہا پسندی کو اسلام کی طرف منسوب کیا جائے، جنگ و جدل اس کو اسلام کی طرف منسوب کیا جائے، لیکن اسلام ایک میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ہماری زندگی، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی اور مملکتی زندگی، اس کی رہنمائی کے لیے اللہ نے ہمارے پاس قرآن بھیجا ہے اور قرآن کہتا ہے؛ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک میانہ رو امت بنایا ہے۔ اب انسان تو انسان ہے، اگر صرف انسان کی صورت میں اس کو دیکھا جائے اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتی اس کا حرص اور لالچ اس کی کوئی انتہا نہیں، اس کی خواہشات کی کوئی انتہا نہیں، یہ انسان کا خاصہ ہے۔ انسان پر محبت غالب ہو جائے تو اندھا ہو جاتا ہے، انسان پر اگر غضب اور غصہ غالب ہو جائے تو وحشی حیوان سے بھی زیادہ بدتر ہو جاتا ہے، وہ اگر پیسے اور روپے کے لالچ میں مبتلا ہو جائے تو ذلت و رسوائی کی کوئی انتہائی ہی نہیں دیکھتا، لیکن ان تمام جذبات جو انسان کی جبلت میں موجود ہیں ان سب کو اگر اعتدال پر لایا ہے تو قران کی تعلیم لے کر آیا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے امت کی جو تربیت کی ہے اس نے ہمیں میانہ رو بنایا، ہماری محبت کی بھی حدود قائم کرتی ہے، ہمارے غضب اور غصے کی بھی حدود قائم کرتی ہے، ہماری خواہشات اس کا بھی حد بتا دیا ہے کہ اس سے زیادہ نہیں، اس سے آگے مت بڑھو اور غیرت و حمیت مسلمان کی نشانی قرار دی ہے۔

اس حیثیت میں ہم پوری دنیا کے اقوام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، دنیا ہمیں دوست بنائے، ہم پوری دنیا کی دوستی کے طلبگار ہیں، ہم امریکہ کی دوستی چاہتے ہیں، ہم یورپ کی دوستی چاہتے ہیں، ہمیں اگر انکار ہے تو وہ غلامی کا انکار ہے کہ غلامی نہیں کرنا چاہتے، مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہم خودداری کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ہم خود اعتمادی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اگر ہم اس دنیا کے ساتھ دوستی اور محبت اور رواداری کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، کیا مسلمان آپس میں اخوت اور برادری کی زندگی نہیں گزاریں گے؟ اگر ہم پوری دنیا کے ساتھ عزت و احترام کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، کیا پاکستانی اور بنگلہ دیشی اپس میں بھائی رہ کر زندہ نہیں رہ سکتے؟

یہی پیغام ہے جو ہم آپ کے پاس لے کر آئے ہیں، جمہوری دنیا میں سیاست ہوتی ہے، مختلف پارٹیاں مختلف سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں، اپنے اپنے نظریات کی وہ پرچار کرتی ہیں لیکن ایک دوسرے کی عزت بھی کرتے ہیں، ہر پارٹی کا اپنا منشور ہے اور وہ پارٹی اپنے منشور کے لیے تحریک ہے، لیکن تحریک اس کی مثال سمندر کے لہروں کی ہے، سمندر کی لہریں سفر کرتی ہیں مدو جزر کا شکار ہو جاتی ہے، نشیب و فراز کا شکار ہوتی ہی، لہریں ڈوب جاتی ہیں لیکن پھر ابھرتی ہیں اور بالاخر ساحل پہ جا کر دم لیتی ہے۔ تحریک سمندر میں بڑا پتھر پھینک کر دھماکہ کرنے کا نام نہیں ہے، جب آپ ایک بہت بڑا پتھر اوپر سے سمندر میں پھینکیں گے دھماکہ بھی ہوگا، لہر بھی اٹھے گی لیکن دو تین منٹ کے اندر وہ لہر ختم ہو جاتی ہے۔ تو ہمیں اگر سیاست بھی کرنی ہے تو اس میں بھی تحمل اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں سفر کرنا ہوتا ہے، آگے بڑھنا ہوتا ہے، اور امت کی وحدت آج ضرورت ہے ورنہ مسلمان پٹتا رہے گا، جیسے آج آپ فلسطین میں مسلمانوں کی حالت دیکھ رہے ہیں، کسی زمانے میں شمالی یورپ میں، پھر روس میں چیچنیا کے لوگ ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں، اگر مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت ہو، وحدت ہو، تو کہیں پر بھی کوئی دنیا کی طاقت مسلمان پر ظلم نہیں کر سکے گی۔

ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں، ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم، کہ اگر اس کی آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار، اگر اس کے سر میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار، جسم کے کسی حصے میں اگر درد مچل رہا ہے تو رات جاگتے اور بخار میں گزرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے ارشاد فرمایا؛ اکٹھے رہنا، ایک صف رہنا ان کے لیے باعث رحمت ہے اور تفرقہ اور تقسیم یہ ان کے لیے عذاب، جمعیت علماء اسلام پاکستان امت کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے اس طرح سوچتی ہے۔

ہم تو مسلم غیر مسلم میں بھی فرق نہیں کرتے، ہم تو اپنے ملک میں غیر مسلموں کے حقوق کو اپنے حقوق کے برابر سمجھتے ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، پھر اپنے مسلمان بھائی کے حقوق کے بارے میں ہم نے کیا سوچنا ہے۔

اس اعتبار سے ہمیں امت کے اس ضرورت کو اہمیت دینی ہے اور اس کو پرائرٹی دینی ہے اس کو ہائی لائٹ کرنا ہے اور ان شاء اللہ العزیز ہمارا جو یہ سفر ہے بنگلہ دیش کا ہر چند علماء کرام نے ہمیں دعوت دی، یہاں پر ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے، فدائے ملت سیمینار میں شرکت کے لیے، سلہٹ میں فلسطین کے عنوان سے اجتماع کے حوالے سے، لیکن آپ تمام دوستوں کے ساتھ ہمارے رابط کا سبب بنا، ہمارے ملاقات کا سبب بنا اور مجھے جو یہاں پر عزت ملی، محبت ملی، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں کس طرح اپ کا شکریہ ادا کروں، لیکن آپ کی یہ محبت یہ صرف محبت نہیں، یہ ایک پیغام ہے اور یہ پیغام میں پاکستان لے کر جاؤں گا، ان شاءاللہ۔

اللہ تعالی ہمارے صفوں میں وحدت پیدا فرمائے ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی کے جذبات پیدا فرمائے، میں آپ حضرات کا بے حد ممنون ہوں۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat

‎ 

0/Post a Comment/Comments