مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت کی ایک اور عظیم فتح: شق 35 کا خاتمہ

مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت کی ایک اور عظیم فتح: شق 35 کا خاتمہ

پاکستان کی پارلیمنٹ نے 28 نومبر 2025 کو مشترکہ اجلاس میں ”نیشنل کمیشن فار منارٹی رائٹس بل 2025“ منظور کیا۔ باہر سڑکوں پر نعرے لگے، سوشل میڈیا پر واویلا اٹھا، لیکن جو لوگ چیخ رہے تھے ان میں سے نوّے فیصد کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اصل تنازع کیا تھا۔ تنازع ایک چھوٹی سی شق نمبر 35 تھا، ایک سطری شق جس میں لکھا تھا:

“The provisions of this Act shall have effect notwithstanding anything contrary contained in any other law, for the time being in force.”

”اس قانون کی دفعات کو دیگر تمام قوانین پر فوقیت حاصل ہو گی۔“

یہ محض گیارہ الفاظ کا جملہ تھا، مگر اس کی گنجائش ایسی تھی کہ اگر یہ برقرار رہ جاتا تو توہینِ رسالت کا قانون، قادیانی آرڈیننس 1984، آئین کی اسلامی دفعات، سب کچھ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتا تھا۔ یہ شق دراصل ایک ”نوٹ ویتھ اسٹینڈنگ کلاز“ تھی جو کمیشن کی کسی بھی رپورٹ یا سفارش کو پاکستان کے کسی بھی قانون سے بالاتر قرار دیتی۔ یعنی اگر کل کو کمیشن میں کوئی لبرل یا بیرونی ایجنڈے والا شخص اکثریت میں آ جاتا تو وہ ”اقلیتی حقوق“ کے نام پر ایسی رپورٹ جاری کر سکتا تھا جو سیدھا مذہبِ اسلام کی بنیادیں ہلا سکتی تھی۔

یہ خطرہ کوئی عام آدمی نہیں، صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جنہوں نے برسوں آئین اور شریعت کے تقابل کو پڑھا ہو۔ اور پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام ہے مولانا فضل الرحمٰن کا۔

جب بل مشترکہ اجلاس میں آیا تو مولانا فضل الرحمٰن اٹھے۔ انہوں نے بل کی کاپی ہاتھ میں لی، شق 35 کی طرف اشارہ کیا اور ایوان کو بتایا کہ یہ ایک جملہ نہیں، ایک مکمل فتنہ ہے۔ انہوں نے نہ کوئی نعرہ لگایا، نہ شور مچایا، بس خاموشی سے آئینی دفعات، عدالتی فیصلے اور تاریخی حوالے دے کر بتا دیا کہ اگر یہ شق رہی تو کل کو کوئی این جی او یا کوئی لابنگ گروپ کمیشن پر قبضہ کر کے پاکستان کے اسلامی تشخص کو ہی متنازع بنا دے گا۔

ان کی بات سن کر ایوان میں سناٹا چھا گیا۔ پی ٹی آئی والے بھی خاموش، پیپلز پارٹی والے بھی سر جھکائے، اور حکومت تو پہلے ہی گھبرا چکی تھی۔ مولانا نے جب بات ختم کی تو کوئی بھی رکنِ اسمبلی ہمت نہ کر سکا کہ اس شق کے حق میں کھڑا ہو۔

اس کے بعد جو ہوا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید پہلے کبھی نہ ہوا۔

حکومت نے خود ترمیم پیش کی۔ شق 35 بل سے خارج کر دی گئی۔ پی ٹی آئی نے تائید کی، پیپلز پارٹی نے داد دی، مسلم لیگ (ن) نے سر تسلیم خم کیا۔ اور سب نے ایک آواز سے مان لیا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو ایک بہت بڑے آئینی اور نظریاتی سانحے سے بچا لیا۔

جمعیت علماء اسلام اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن واحد جماعت اور واحد رہنما تھے جنہوں نے اس شق کو سب سے پہلے پکڑا، اسے سمجھایا، اور اسے دفن کروایا۔ باقی سب جماعتیں یا تو سوتے رہے یا پھر مولانا کی بات سن کر جاگے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب جمعیت اور مولانا نے ایسی قومی خدمت کی ہو۔ جب ناموسِ رسالتؐ کا بل آیا، جب فرانس کے سفیر کو نکالنے کی تحریک چلی، جب توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کی کوشش ہوئی، ہر بار سب سے آگے جمعیت کھڑی تھی اور سب سے پیچھے مولانا فضل الرحمٰن کا قدِ بلند نظر آیا۔

آج بھی جب پورا ملک شق 35 کے بارے میں جان چکا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ بات سب سے پہلے کس نے اٹھائی؟ جواب ایک ہی ہے: مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جمعیت۔

شق 35 کا خاتمہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ یہ پاکستان کے اسلامی تشخص کی ایک بڑی فتح ہے۔ اور یہ فتح جمعیت علماء اسلام اور مولانا فضل الرحمٰن کی ہے۔ باقی سب نے بس داد دی، یا پھر شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

اللہ اس ملک کے اسلامی تشخص کو قائم رکھے، اور مولانا فضل الرحمٰن کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ جب بھی کوئی فتنہ سر اٹھائے، کوئی نہ کوئی دیوارِ چین کھڑی ہو جائے۔ آمین۔ 

#محمدریاض


0/Post a Comment/Comments