چھوٹی چوری سے بڑے سانحے تک
تحریر: سہیل سہراب، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹننٹ جنریٹر رائٹرز گروپ
ایک شہر کی اصل پہچان اس کی روشنیاں، اس کی عمارتیں یا اس کی سڑکیں نہیں ہوتیں بلکہ وہاں بسنے والے لوگ اور ان کا شہری شعور ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے المیوں کا عادی بنتا جا رہا ہے جن پر کسی بھی زندہ قوم کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ کراچی میں چند روز قبل کھلے مین ہول میں ایک اور معصوم بچہ اپنی ماں کے سامنے موت کی تاریکی میں اتر گیا، اور اس کی لاش چودہ گھنٹے بعد نکالی گئی۔ اس منظر کو بیان کرنے کی سکت شاید کسی قلم میں نہیں، نہ کسی دل میں اتنی قوت کہ وہ ایک ماں کے اس زخم کی گہرائی محسوس کر سکے۔
میں اس دردناک واقعے کی کیفیت بیان کرنے کی جسارت نہیں کرتا، لیکن اس سانحے کی آڑ میں وہ بات ضرور کرنا چاہتا ہوں جس کا سامنا ہم سب کو اپنے اندر جھانک کر کرنا چاہیے، ہماری شہری ذمہ داری، یا یوں کہیے کہ ہماری اجتماعی غفلت۔
ہمارے پشتو میں ایک کہاوت ہے: "کفر دہ توان پوری وی" یعنی ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط بھر ظالم ہے؛ جس حد تک اختیار ملتا ہے، ہم اسی حد تک بے ایمانی کر گزرتے ہیں۔ ایک اور پشتو شاعر کا قول بھی بڑا معنی خیز ہے: "توبہ ہلہ دہ شرابو چی شراب درتہ پراتہ وی"۔ حقیقی پرہیز، حقیقی اصلاح تو تب ہے جب برائی سامنے ہو اور انسان اسے رد کر دے؛ انکار موقع ملنے پر ہوتا ہے، نہ کہ زبانی دعووں میں۔
حال ہی میں کراچی کی کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں ایک ریڑھی والا گٹر کا ڈھکن اٹھا کر لے جاتا ہے، دوسری میں ایک رکشہ ڈرائیور وہی حرکت کرتا ہے اور تیسری میں ایک صاحب کار۔ یہ لوگ کل کو حکمرانوں کی کرپشن پر گالیاں دیتے نظر آئیں گے، لیکن جب ایک ڈھکن جیسی معمولی امانت کے وہ نگہبان نہیں بن سکتے تو سوچئے اگر انہیں بڑا عہدہ مل جائے تو کیا کریں گے؟ کیا یہ بڑے پیمانے پر کرپشن نہیں کریں گے؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کی چھوٹی چوری کل کو قومی لوٹ مار میں بدل جائے گی؟
قومیں اچانک زوال کا شکار نہیں ہوتیں، یہ سفر چھوٹی بددیانتیوں، معمولی غفلتوں اور انفرادی بے ایمانیوں سے شروع ہوتا ہے جو بعد میں اجتماعی تباہی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ حکمران ہمارے اوپر نازل نہیں ہوتے، وہ اسی معاشرے سے اٹھ کر آتے ہیں جس میں ہم خود رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے حصے کی ایمانداری، اپنی سطح کی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو ہم کسی بہتر مستقبل کی امید بھی نہیں رکھ سکتے۔
اصلاح وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں انسان خود کو بدلنے کا فیصلہ کرے، اور شاید یہی قدم کسی قوم کی تقدیر بدلنے کی پہلی اینٹ ہوتا ہے۔
#سہیل_سہراب
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں