مولانا فضل الرحمن صاحب کا الجامعۃ الاسلامیہ بابوزئی کاٹلنگ میں تکمیلِ حفظِ قرآن کی تقریب سے خطاب

قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا الجامعۃ الاسلامیہ بابوزئی کاٹلنگ میں تکمیلِ حفظِ قرآن کی تقریب سے خطاب

30 نومبر 2025

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

گرامی قدر حضرت مولانا امداد اللّٰہ صاحب، سٹیج پر موجود اکابر علماء کرام، مشائخ عظام، میرے عزیز دوستوں، بھائیوں اور طلباء کرام! میں کچھ عذر کی وجہ سے تاخیر سے پہنچا اور آپ کو انتظار کی وجہ سے تکلیف بھی اٹھانی پڑی، اس پر میں معذرت خواہ ہوں، اور پھر شکر گزار ہوں کہ حسب معمول حضرت مولانا امداد اللّٰہ صاحب نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اس مبارک روحانی اور نورانی اجتماع میں مجھے شرکت کا موقع عنایت فرمایا، اللہ رب العزت اس جامعہ، اس کے دینی و علمی قبول بھی فرمائے اور ترقیوں سے بھی نوازے۔

یقیناً ہم آج جن حالات سے گزر رہے ہیں، ایک ایسا پاکستان جو اس قوم نے ان امیدوں اور آرزوؤں سے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا بول بالا ہوگا، یہاں ہم آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل کر سکیں گے، ایک ایسا ملک کہ جہاں امن و آشتی ہوگی، ہم آزادی کی سانس لیں گے اور حکومتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس ملک میں عام آدمی کو ان کے حقوق دے، ان کے شہری حقوق کا تحفظ کرے، ان کے بشری حقوق کا تحفظ کرے، آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں، ایک خوشحال معیشت کا مکمل نظام ملک میں رائج کرے۔ لیکن آج آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ آج عوام کی خواہش پر نہیں بلکہ طاقتور لوگوں کے منشاء اور ان کے مفادات کے لیے ہماری پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے، آئینی ترامیم کرتی ہے، عوام کی خواہشات پر شب خون مارا جاتا ہے۔

ہم نے اس لیے ملکی ماحول میں جمہوری ماحول کو پسند کیا کہ یہاں ہم اس ماحول میں اپنے نظریات کو فروغ دے سکیں گے۔ ایک مستحکم اور آزاد پاکستان، ایک اسلامی پاکستان میں اس کے نظریے کے لیے عام آدمی کی شراکت ممکن ہوسکے گی۔ لیکن جب اس وقت کی صورتحال کو ہم دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ ایک خواب تھا۔

پچھلے سال ایک آئینی ترمیم ہوئی، اس میں جمعیت علمائے اسلام کی مداخلت تھی، ہم ایک فریق تھے، تو اس میں ہم نے سود کے خاتمے کو یقینی بنایا، ہم نے اس میں وفاقی شرعی عدالت کو طاقتور بنایا، ہم نے اس میں اسلامی نظریاتی کونسل کو پارلیمنٹ کے اندر زیر بحث لانے کو آئین کا حصہ بنایا، جو سن 1973 سے لے کر آج تک ایک بھی سفارش اسمبلی میں بحث کے لیے پیش نہیں ہوسکی۔ لیکن اب جو ستائیسویں ترمیم آئی ہے، ہم نے اس وقت دینی مدارس کے لیے رجسٹریشن کا راستہ کھولا اور 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کا قانون پاس کرایا۔ ایک سال ہوگیا، مدارس کی رجسٹریشن نہیں ہو رہی۔ جو لوگ اس قانون میں ضمناً شامل کیے گئے تھے، حکومت ان ضمنی لوگوں کو تو طاقتور بنا رہی ہے، لیکن جو اصل مدارس ہیں، جس طرح یہ جامعہ دور دور تک علما اور طلبہ سے آباد نظر آتا ہے، ان کی رجسٹریشن میں لیت و لعل کر رہی ہے۔

اور آج جو ترمیم پاس ہوئی ہے، اس میں کیا قوانین پاس ہوئے اور کیوں پاس ہوئے؟ اس لیے کہ اب اکثریت جعلی تھی، لوگوں کو خرید کر جعلی دو تہائی اکثریت بنائی گئی تھی، اور اس وقت دو تہائی اکثریت کا دارومدار جمعیت علمائے اسلام کے ووٹوں پر تھا۔ جب ہمارے ووٹوں پر دارومدار تھا تو ہم نے وہ قوانین پاس کروائے، اور اب جب جعلی اکثریت بنائی اور اپنی جعلی اکثریت سے آئین میں ترمیم کی تو ایک قانون یہ پاس کیا کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی جنس تبدیل کر سکتا ہے، مرد چاہے تو عورت بن سکتا ہے اور عورت چاہے تو مرد بن سکتی ہے۔ اب آپ پختون لوگ ہیں، اس تصور کو ذرا دیکھیں کہ یہ پاکستان کے اسلامی معاشرے کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟

اٹھارہ سال سے کم عمر کو بالغ نہیں کہا جائے گا، اگر کوئی پندرہ سال میں بالغ ہوا تو وہ بالغ تصور نہیں ہوگا۔ اور اگر اٹھارہ سال سے پہلے لڑکا اور لڑکی جائز نکاح کے ساتھ ایک ہوگئے، ایسا نہیں کہ نکاح نہیں ہوا ہو، جائز اور حلال نکاح کے ساتھ ایک ہوئے ہوں تو اسے ہم جنسی زیادتی کہیں گے اور اس کی سزا زنا بالجبر کی ہوگی۔ یہ دینِ اسلام کے قانون کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟ ایک اور کھلواڑ آپ کو بتا دوں کہ اگر جائز نکاح کے ساتھ ایک ہوگئے تو یہ جنسی زیادتی بھی ہوگی، یہ زنا بالجبر تصور ہوگا، لیکن اگر اولاد پیدا ہوئی تو وہ جائز اولاد ہوگی، اور باپ ان اولاد کے خرچے کا ذمہ دار ہوگا۔

تو یہ معاشرے کے ساتھ بھی مذاق ہے، یہ قانون کے ساتھ بھی مذاق ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اپنے اصول کبھی نہیں چھوڑتی، لیکن البتہ شکوہ کناں ضرور ہیں۔

میری گردن پہ اس کا خنجر ہے، جس محافظ نے میرے دشمن سے ڈھال بن کر مجھے بچانا تھا۔ جس طاقت سے ہمیں امید تھی کہ یہ ہماری حفاظت کرے گی، ہمارے قانون کی حفاظت کرے گی، میرے ملک کی حفاظت کرے گی، آج میں اپنی گردن پر اس کی تلوار دیکھ رہا ہوں، میں اپنوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہوں۔ لیکن یاد رکھو، ہم اپنا راستہ نہیں بدلیں گے ان شاءاللہ العزیز۔

ملک کی معیشت تباہ ہے، اس تمام خطے میں انڈیا کی معیشت بہت آگے ہے۔ میں ابھی بنگلہ دیش سے آیا ہوں، ان کی معیشت ہم سے بہت مضبوط ہے۔ ان کے سکے کا نام ٹکا ہے، جو ہمارے ہاں جس کی آپ تحقیر کرتے ہیں تو کہتے ہیں "یہ ٹکے کا آدمی نہیں ہے"۔ وہاں ٹکا ان کے سکے کا نام ہے اور ہمارے ڈھائی روپے ایک ٹکے کے برابر ہیں۔ اب ہمارا روپیہ ٹکے کا نہیں رہا۔ قسم سے ان لوگوں کی وجہ سے ہم لوگوں کے لیے مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔

ہم تو عمران خان سے گلہ کر رہے تھے کہ ان کے پاس مغربی دنیا کا ایک ایجنڈا ہے، لیکن کیا آج کے حکمران یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس ایجنڈے کو تسلسل نہیں دیا ہے بلکہ اس کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں؟ ہم کہتے تھے کہ سی پیک عمران خان نے بند کیا ہے اور انہوں نے بند کیا تھا، لیکن کیا انہوں نے اس کے بعد ان دو سالوں میں ایک اینٹ رکھی ہے؟ سی پیک کل بھی بند تھا، سو سی پیک آج بھی بند ہے۔ تو مدارس کی رجسٹریشن کل بھی نہیں تھی تو آج بھی نہیں ہے۔ شریعت کے خلاف قوانین اس وقت بھی بنتے تھے سو آج بھی بن رہے ہیں۔ جرنیل کے ایکسٹینشن اور مراعات کے قانون اس وقت بھی بنتے تھے سو آج بھی بن رہے ہیں۔ تو پھر پالیسی کا تو تسلسل ہوگیا نا۔ تو ہماری تو ذات سے دشمنی نہیں تھی، ہمیں تو ان کی پالیسیوں سے اختلاف تھا، اور تم ان پالیسیوں کو تسلسل دوگے تو پھر آپ کے ساتھ بھی ہماری جنگ ہوگی۔

ہماری جنگ نظریے کی جنگ ہے۔ اگر تم پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو تسلسل دوگے تو اگر ہم نے وہاں تحریک چلائی تھی تو یہاں بھی تحریک چلائیں گے۔ تمہاری افغان پالیسی ناکام پالیسی ہے۔ اٹھہتر سال گزر گئے، اتنے سالوں بعد بھی ایک مستحکم پاکستان افغانستان کو اپنا دوست نہیں بنا سکا۔ ہمیں ضرورت تھی کہ ہم ایک پاکستان دوست افغانستان بنائیں۔ ہم نے روس کے خلاف جہاد میں ان کا ساتھ دیا لیکن امریکہ کے خلاف جنگ میں ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ پھر بھی ہم نے کچھ رعایتیں ان کو ضرور دی تھیں۔ آج سارا ملبہ ہم ان پر ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ وہاں کمزوریاں نہیں ہیں، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہماری ساری شکایتیں غلط ہوں گی، لیکن آپ سفارتکاری کے ذریعے سے ملک کو اپنے قریب کیوں نہیں لاسکے؟ تمہاری سفارتکاری کیوں ناکام ہے؟

میں نے ایک دورہ کیا تھا، ایک ہفتے کا۔ علماء کرام میرے ساتھ تھے، شیخ ادریس صاحب میرے ساتھ تھے۔ ایک ہفتے میں ہم پورا ایجنڈا کامیابی کے ساتھ مکمل کرکے آئے۔ وہ ہمارا بنا بنایا کام تم سے بگڑ گیا، تم اس کو بھی نہیں چلا سکے۔ اور کہتے ہو کہ ساری صلاحیتیں ہمارے پاس ہیں۔ تم صرف جنگ جانتے ہو۔ ساری پالیسیاں، ساری سوچ، ساری تدبیریں جنگ کے لیے ہیں اور اب بھی یہ مسئلہ آپ حل نہیں کرسکے۔ تاہم ہم جنگ کے خلاف ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان بھی جنگ نہیں ہونی چاہیے اور پاکستان کے اندر جو مسلح گروہ یہاں جنگ لڑ رہے ہیں، ہم ان سے بھی کہتے ہیں کہ خطے میں امن کے لیے آپ بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ مسلح گروہ بھی جنگ بند کریں، افغانستان بھی اس حوالے سے تعاون کرے، پاکستان بھی اس حوالے سے پیش رفت کرے۔ ان شاءاللہ قومیں دوستی چاہتی ہیں۔ ہم دونوں برادر اسلامی ملک ہیں۔ وہاں سے فائرنگ ہوگی تو وہ بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں گے، یہاں سے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں گے۔ وہ بھی باجماعت نماز پڑھ کر مورچے میں جائیں گے، تم بھی ایسا ہی کروگے۔ یہ کون سی اسلامی برادری ہے؟ اسلامی امہ تو جسدِ واحد ہے اور ہم اس کو تقسیم کر رہے ہیں۔

تو میں آج اس جلسے کے توسط سے دونوں ملکوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔ دشمنی کی طرف جانے کے بجائے ایک مضبوط برادرانہ اور مستحکم تعلقات کی طرف جانا چاہیے۔ جو لوگ پاکستان کے حصوں میں مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں، جمعیت علمائے اسلام ان کارروائیوں کے حق میں نہیں ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں تو اس کی جو ظاہری وجہ بیان کی جاتی ہے وہ پاکستان کے اندر مسلح گروہوں کی کارروائیاں ہیں۔ ہم ان سے بھی کہتے ہیں کہ آپ بھی ذرا خدا کا خوف کریں، ہمیں ایک برادر افغانستان چاہیے اور آپ اس میں رکاوٹ ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو بھی اس میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

میرے پاس ہمارے پشتون خواہ کے بارڈر کے تاجر آئے تھے۔ آٹھ آٹھ، دس دس کلومیٹر تک ٹرکیں کھڑی ہیں۔ ہمارا مال ادھر اور ان کا مال اِدھر نہیں جاسکتا اور اس میں تازہ پھل اور ترکاریاں ہیں جو تباہ ہو رہی ہیں۔ ان بیچاروں کا کیا گناہ ہے؟ وہ تو کاروبار کر رہے ہیں، تجارت کر رہے ہیں، وہ بھی ہمارے تعلقات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ آخر کیوں؟

تو اس حوالے سے ہم اپنے ملک میں بھی انسانی حقوق کی جنگ لڑیں گے، انصاف کی جنگ لڑیں گے، شریعت کی بات کریں گے۔ اور میں حیران اس بات پر ہوں کہ وہاں امریکہ میں ایک بندہ ہے جو غالباً افغانی ہے اور اس نے وہاں امریکہ میں کچھ لوگوں کو قتل کر دیا ہے اور خبریں یہ ہیں کہ یہ بندہ امریکہ کی سی آئی اے کے ساتھ کام کرتا رہا ہے، یہ ان کا ملازم رہا ہے۔ اب ملازم افغانی ہو اور وہ بھی سی آئی اے کا، اور امریکہ میں کارروائی کرلے تو اپنی ناکامی کا اعتراف کرو نا۔ ٹرمپ کیا کہتا ہے؟ یہ کہ افغانستان بہت بُری جگہ ہے، اس لیے کہ امریکہ میں دو آدمی مر گئے۔ او کم بخت! تمہارے آدمی نے تمہیں مارا ہے۔ اس کے بدلے میں افغانستان جہنم ہے، یہ ہے، وہ ہے؟ یہ جو فلسطین اور غزہ میں تمہارے تعاون سے ہوا، اور اسرائیل نے کیا، ستر ہزار سے زیادہ ایک دو سال میں شہید کر دیے گئے، ڈیڑھ دو لاکھ زخمی کھڑے ہوئے ہیں، اتنے ہی بے گھر ہوئے ہیں، ان سارے مظالم کے پیچھے امریکہ ہے، اور تم اسرائیل کو شاباش دے رہے ہو فلسطینیوں کے قتل پر۔ اور اپنے دو آدمیوں کے قتل پر افغانستان کو جہنم کہہ رہے ہو؟ کچھ تو شرم آنی چاہیے انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے۔

اور پتہ ہے ہمارا حکمران کیا کہہ رہا ہے؟ جس نے ایک لاکھ کے قریب بچوں، خواتین، عام شہریوں کو شہید کیا، ڈیڑھ دو لاکھ بے گھر اور زخمی کھڑے ہوئے ہیں، دربدر ہوگئے۔ اور جس ٹرمپ اور امریکی قیادت کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے، میرا شہباز شریف کہہ رہا ہے کہ اس کو امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے۔ یہ ہمارا شہباز ہے بھئی:

جس کی پرواز ہے ثریا تک

ایسا شہباز ہے ہمارا شریف

تو غیر اسلامی قوانین پاس کیے گئے۔ نہ اسلام کا خیال رکھا گیا اور نہ اس آئین کے حلف کا لحاظ رکھا گیا۔ اور باقاعدہ قانون کے نیچے لکھا ہے کہ یہ قوانین ہم کیوں پاس کر رہے ہیں۔ اغراض و مقاصد لکھے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے منشور کی پیروی ہے۔ تو تم آئین کی رو سے حلف اٹھاتے ہو کہ میں قرآن و سنت کی پیروی کروں گا اور اسلام کی پیروی کروں گا، یہ تم آئین میں حلف اٹھاتے ہو، اور اسمبلیوں میں قوانین اقوام متحدہ کے منشور کے تحت پاس کر رہے ہو۔ ایسے لوگوں سے ہمارا سامنا ہے اور پھر عوام ان لوگوں کو ووٹ دیتی ہے۔

ان شاءاللہ ہم میدان نہیں چھوڑیں گے اور اگر اس جمعیت نے اعلان کیا کہ چلو اسلام آباد کی طرف، پھر یہ لوگ کیا کریں گے؟ تو اپنی بات پر ڈٹے رہو نا، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔

ضبطِ تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کانٹنٹ جنریٹرز/رائٹرز

#teamJUIswat 

1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں