قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب، آئینی ترمیم اور مذہبی قانون سازی پر اہم نکات
02 دسمبر 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب سپیکر! معزز اراکین مجلس شوریٰ پاکستان، پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں پر ہم باہمی بیٹھ کر کچھ معاملات مشاورت کے ساتھ طے کرتے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ نبوت مکمل ہو چکی ہے، وحی مکمل ہو چکی ہے اور اللہ رب العزت فرماتے ہیں؛
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
"میں نے اپنا دین تم پر مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے"۔ اس کے بعد ایک ہی چیز قیامت تک کے لئے زندہ ہے اور وہ ہے شوریٰ، کہ اگر کوئی ایسی نئی چیز آئے، نیا مسئلہ سامنے آئے تو اس پر قیامت تک مشورے کا راستہ کھلا رہے گا اور جب مشورے کا تصور آتا ہے تو پھر وہاں ظاہر ہے جی، اس میں اجتحاد بھی ہوتا ہے، رائے بھی بنائی جاتی ہے اور جب ہمارا ملک مشترک ہے، ہمارے ملک کا آئین ہمارا مشترک ہے، قانون ہمارا مشترک ہے اور آئین قانون کا احترام ہم سب کے اوپر برابر کا یعنی ایک اس کا احترام واجب ہے، تو یہ اچھی بات ہوتی ہے کہ کوئی آئینی ترمیم آئے تو اس پر مشاورت ہو، کوشش کی جائے کہ آئین متنازع نہ ہو، سب کو آن بورڈ لیا جائے، سب سے بات چیت کی جائے، ان کی رائے کی جائے، پھر اس کے بعد ایوان کی مرضی ہے اس کی اکثریت جو فیصلہ کرے یا دو تہائی اکثریت جو فیصلہ کرے اس کا سب احترام بھی کرتے ہیں، اس کو قبول بھی کرتے ہیں۔ لیکن ستائیسویں ترمیم میں ایسا نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے آئین کا یہ ستائیسویں ترمیم اسی طرح متنازع ہوگا جس طرح کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے کی ترامیم کسی نہ کسی حوالے سے متنازع تھی اور آئین کے متفقہ ٹائٹل کے اوپر یہ ایک زخم تصور کیا جائے گا، ایک خراش تصور کیا جائے گا، کہ یک طرفہ طور پر ایسا کیوں کیا گیا۔
دیکھئے سن 1973 میں جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی دو تہائی اکثریت میں تھی اور دو تہائی اکثریت سے وہ پورا آئین پاس کر سکتا تھا لیکن انہوں نے مذاکرات کیے، طویل مذاکرات ہوئے اور ان کے نتیجے میں پہلے عبوری آئین آیا پھر اس کے بعد مستقل آئین آیا اور تمام صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا، تمام سیاسی جماعتیں، مختلف الخیال جماعتیں، مذہبی جماعتیں، قوم پرست جماعتیں، سیکولر جماعتیں، رائٹسٹ، لیفٹسٹ، سینٹرلسٹ، سب کو اعتماد میں لے کر ایک متفقہ آئین قوم کو اور ملک کو مل گیا۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم میں بھی یہی مظاہرہ دیکھا کہ پورے ایوان میں نو مہینے محنت کر کے نو مہینے کے طویل عرصے میں ہم نے ایک ترمیم تیار کی اور ایوان میں آ کر متفقہ پاس کر لیا، یعنی میں اس نتیجے پر پہنچا یہ میری زندگی کا ایک تجربہ تھا کہ ہم بڑوں کی بات کرتے تھے کہ وہ بڑے تھے اور ان کا تجربہ تھا اور ان کی بالغ نظری تھی اور کس طریقے سے آپس میں بیٹھ کر اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے مسائل کو حل کرتے تھے، لیکن جب اٹھارویں ترمیم نو مہینے کے محنت کے بعد ہم نے تیار کی تو یہ اندازہ لگ گیا کہ الحمدللہ آج بھی دنیا کوئی گئی گزری نہیں ہے اور آج بھی ہمارے پارلیمنٹ اور ان کے پارٹیاں ان کی قیادت کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ باوجود اپنے اپنے منشور کے اختلاف رائے کے وہ ایک اتفاق رائے پہ پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن جب چھبیسویں ترمیم آئی، ٹھیک ہے ہمارے پی ٹی آئی کے دوست براہ راست اس میں شریک نہ ہوئے لیکن وہ رابطے میں رہے اور جو بھی ڈیولپمنٹس ہوتی تھی جے یو آئی اور گورنمنٹ کے درمیان، ہم اس سے ان کو آگاہ کرتے تھے، ان کی رائے لیتے تھے، ان کی تحفظات نوٹ کرتے تھے، ان کا اختلاف رائے نوٹ کرتے تھے، پھر آپ کے سامنے ہم رکھتے تھے اور ایک مہینہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہم نے اس پر ایک اتفاق رائے حاصل کر لیا اور ایک قانون بن گیا، آئینی ترمیم ہو گیا۔ لیکن ستائیسویں ترمیم کے اوپر یہ جو جمہوریت کا ایک حق ہے یہ جو پارلیمان کی ایک شائستگی ہے وہ اس کے تقاضے پورے نہیں ہو سکے اور یہی وجہ ہے کہ آج قوم مطمئن نہیں ہے اس کے بارے میں، اس حوالے سے اطمینان موجود نہیں ہے، نہ ہی کسی کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شعوری طور پر ایسا کیوں کیا گیا؟ اور کیوں قوم کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ آئین کے اوپر انگلی رکھے کہ آئین کا یہ حصہ جو ہے یہ جانب دارانہ ہے، یک طرفہ ہے۔
پھر اس کے اندر ظاہر ہے کہ کچھ ایسے مراعات اور سہولتیں بعض شخصیات کو دی گئی کہ ہمیں ان شخصیات کے حوالے سے ان مناصب کے حوالے سے، اس کے احترام میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن ملک کے اندر ایک طبقاتی فرق کہ اس منصب کا بندہ جو ہے وہ ایک الگ حیثیت سے ملک کے اندر مراعات یافتہ ہوگا اور اس حیثیت کے لوگ جو ہے وہ اس حیثیت میں مراعات یافتہ ہوں گے۔ تو جناب سپیکر یہ پہلو اس کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ قوم میں اس کو پذیرائی نہیں مل رہی ہے اور لوگ طنز و مزاح بھی کرتے ہیں، اختلاف رائے بھی کرتے ہیں کہ ہمیں شخصیات سے بھی جھگڑا نہیں ہے، ہمیں ان کے ایک منصب سے بھی جھگڑا نہیں ہے لیکن ایسے مراعات کسی کو دینا یہ شاید خدمات کا صلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل طبقاتی فرق اور امتیاز کا مسئلہ ہے۔
جناب والا قانون سازی چھبیسویں ترمیم میں بھی ہوئی، وہاں پر ہم نے کچھ ترامیم پیش کی تھی، سود کے حوالے سے بھی، اسی طریقے سے ہم نے شرعی عدالت کو طاقتور بنانے کا آئینی راستہ اختیار کیا، ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کو ڈیبیٹ کے لئے پارلیمان میں پیش کرنے کا دستوری حق حاصل کیا، ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش بھی ڈیبیٹ کے لئے پیش نہیں ہو سکی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کیا وہ سب کچھ دفع الوقتی تھا، اس وقت مجبوری تھی کچھ حاصل کرنا تھا تو اس میں جو چیز آیا آپ قبول کرتے چلے جائے، یہ چیز میرے خیال میں سیاسی لحاظ سے بڑے بونے پن کا مظاہرہ ہے، اس طریقے سے سوچنا کہ بس ٹھیک ہے ڈنگ ٹپ آؤ اور بات مانو اور آگے بڑھو۔
پھر اُس کے بعد ایک قانون بنا دینی مدارس کے حوالے سے اور سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے حوالے سے، دوسرا ابھی تک اس حوالے سے کوئی رجسٹریشن نہیں ہورہی ہے بلکہ یہ سب گواہ ہیں، پورا ایوان گواہ ہے کہ جب قانون پاس ہوا تو قانون میں یہ ڈرافٹنگ ہم نے نہیں کی تھی، یہ ڈرافٹنگ گورنمنٹ نے کی تھی اعظم تارڈ صاحب کے طرف سے قانون آیا تھا اور اس میں صرف اُن مدارس کا ذکر تھا کہ جو 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونا چاہتے ہیں لیکن کچھ اور تنظیمیں تھیں کہ جو وزارت تعلیم کے تحت ایک ڈائریکٹریٹ ہے اُس میں، اُس کو ضمناً ایک اختیار دیا گیا آج ہمارے ڈپٹی کمیشنرز، ہمارے انتظامیہ خاص طور پر پنجاب میں علماء کرام کے ہاتھ مروڑ کر انہیں کہتے ہیں کہ آپ نے وزارت تعلیم کے تحت جانا ہے حالانکہ وہ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ نہیں اور پھر اگر وہاں جاتا ہے تو پھر مدرسہ بھی ٹھیک ہے، پھر رجسٹریشن بھی ہو جاتے ہیں، پھر اکاونٹ بھی کھل جاتے ہیں اور اگر دوسری سائڈ پر رجسٹریشن کرانا چاہتا ہے تو اُس کے لئے رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہے۔
میں کچھ چیزیں تھوڑی ریکارڈ پر رکھنا چاہتا ہوں، لمبی چوڑی تقریر کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ آج جو قانون سازیاں ہوئی ہیں اس حوالے سے ذرا آپ سوچیں بھی، کہ اگر اٹھارہ سال سے کم عمر کو آپ آئین یا قانون کے مطابق اس کو بالغ تصور نہیں کرتے تو معاشرے میں کتنی پیچیدگیاں اتی ہیں، اور آپ نے اٹھارہ سال سے پہلے کی نکاح، شرعی نکاح کو اس کو جنسی زیادتی سے تعبیر کیا ہے، آپ نے اُس کی سزا زنا بالجبر کی تجویز کی ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ ایک طرف آپ اُن کو جنسی زیادتی بھی کہیں، ایک طرف آپ اُن کو زنا بالجبر سے بھی تعبیر کریں اور دوسری طرف آپ یہ بھی کہیں کہ اگر بچے پیدا ہو گئے تو وہ جائز ہوں گے۔
تو ایک تو یہ، دوسری چیزیں جو ٹرانس جینڈر کے حوالے سے ہیں حضرت یہ چیزیں اسلامی نظریاتی کونسل مسترد کر چکی ہے، شرعی عدالت مسترد کر چکی ہے، جب ہمارے وہ ادارے جس کے حیثیت یا عدالت کی ہے یا ہمارا آئینی ادارہ جو سفارشات پیش کرتا ہے وہ سب اِس پر متفق ہیں کہ اِس قسم کے اقدامات جو ہیں وہ غیر شرعی ہیں، قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ تو آپ نے اغراض و مقاصد میں لکھا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے منشور کا تقاضہ ہے یا ان کے مطالبات کا تقاضہ ہے۔ کیا آپ نے اقوام متحدہ کے منشور اور اُس کے آئین اور انسانی حقوق کا حلف اٹھایا ہے یا آپ نے اِس آئین کا حلف اٹھایا ہے۔ جس آئین کے تحت آپ قرآن و سنت کے تابع قانون سازی کے پابند ہیں۔ اُس کے خلاف نہ کرنے کے آپ پابند ہیں۔
اِس حوالے سے ذرا اپنا امتحان لیجئے اور جو غلطیاں آپ لوگ کر رہے ہیں یہ چیزیں یہاں تو کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے اللہ کو جواب دینے والے کام تو آپ کر چکے ہیں تو اُس کا کون سے جواز ہے کون سی شریعت ہے جس کے تحت آپ ایسے کام کر رہے ہیں اور پھر اُس کے ہمیں سزائیں بھی دی جاتی ہیں کہ آپ مخالفت کیوں کر رہے ہیں، آپ یہ کیوں کر رہے ہیں، میں جائز مخالفت کرتا ہوں، میں جذباتی مخالفت نہیں کرتا، میں صرف پوائنٹ سکورنگ کی باتیں نہیں کیا کرتا، میں اس ایوان کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ غلطیاں کی ہیں، اس کو آپ ریمو کریں، واپس کریں جس طرح کہ آج آپ نے کچھ چیزیں امیٹ کی ہیں اس کو بھی آپ امیٹ کریں اور آئین کو ٹھیک کریں اور قانون کو ٹھیک کریں۔
گھریلوں تشدد والا قانون، اس پر حضرت جب پنجاب میں یہ قانون آیا تھا جب شہباز شریف صاحب وزیراعلی تھے، ہمارے وہاں مذاکرات ہوئے تھے اور پروفیسر ساجد میر صاحب جو حکومت کے اتحادی تھے وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے، ڈٹ کر کہا کہ یہ دین کا مسئلہ ہے آپ ہمارے ہزار اتحادی سے ہی لیکن ہم آپ کو اس میں سپورٹ نہیں کر سکتے۔
تو اس قسم کی چیزیں آج جائز ہوگئے، اس زمانے میں آپ نے مجھ سے اتفاق کیا کہ نہیں ہوگا، لیکن آج وہ سب کچھ جو مغرب چاہتا ہے جو مغرب کے خواہشات ہیں ہم اس کی پیروی کر رہے ہیں چنانچہ ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آپ کو بتاتا ہوں آپ نے فرمایا؛
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَن كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمُوهُ۔
قالوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَالْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟
قال: فَمَنْ؟
"ایک زمانہ آئے گا جب تم بالشت بالشت اور قدم قدم پچھلی امتوں کی پیروی اس طرح کروگے کہ اگر وہ گوہ کی غار میں گھسنے لگے تو آپ وہاں بھی ان کی پیچھے پیروی کرتے رہیں گے صحابہ اکرام نے عرض کیا ہے رسول اللہ ہم یہود و نصاری کی پیروی کریں گے آپ نے فرمایا پھر اور کون ہو سکتے ہیں۔"
آج آپ مغرب یہود و نصاری کی پیروی کرتے نظر آ رہے ہیں اور یہ مسلمان قوم، پچیس کروڑ پاکستانی مسلمان قوم کے شایان شان نہیں ہے ذرا اس حوالے سے ہمارے چہرے کو خدا کے سامنے پیش ہونے کہ قابل بنا دیں۔
جنابِ اسپیکر! میرے خیال میں شور شرابے کے بغیر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسئلہ اقلیتوں کے حقوق کا نہیں ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے لیے میرے خیال میں ہم سب کی سوچ ایک جیسی ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ بات ہے قانون کی آپ کو شاید یاد ہو جب نسیم حسن شاہ صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس تھے تو اُس وقت ایک سوال پیدا ہوا اور لوگ عدالت میں گئے کہ قرآن و سنت کی بالادستی ہونی چاہیے آئین میں، تو اُنہوں نے فیصلہ دیا کہ نہیں، تمام آئین ایک برابر ہے۔ اگر کوئی وجہ ہے، وجہ کیا لکھی ہوگی لیکن آج جو آپ "اووررائیڈنگ" کی بات کر رہے ہیں ایک قانون کی، اگر ایک قانون کو بالادستی حاصل ہو جاتی ہے تو پھر دوسرے قوانین پس منظر میں چلے جاتے ہیں، ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ آپ ایسا قانون کیوں لاتے ہیں کہ جس سے کل کوئی غلط فائدہ اٹھا لے؟ چاہے میں غلط فائدہ اٹھاؤں، چاہے کوئی اقلیت غلط فائدہ اٹھائے، چاہے قادیانی غلط فائدہ اٹھائیں۔
تو ہم ایسے قانون کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟ اور اگر آپ اجازت دیں تو میں کامران مرتضیٰ صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ اس کی مزید وضاحت کریں۔
جناب اسپیکر! محترم وزیر قانون صاحب نے کہا کہ یہ قادیانی تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، وہ تو آئین کو مانتے ہی نہیں۔ شاید انہیں قادیانیوں کی چالاکیوں کا پتہ نہیں ہے۔ جس وقت سن 1974 میں انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا آئینی طور پر، اور جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت میں انہیں کچھ مخصوص نشستیں پنجاب اسمبلی میں دی گئیں۔ دو یا تین۔ تو انہوں نے وہ فل اَپ کر دیں۔ جب انہوں نے فل اَپ کیں تو ان کی جو جماعت ہے، جو اپنے آپ کو جماعتِ احمدیہ کہتی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ ان کا انفرادی عمل ہے، ہم اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ تو وہ اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور پھر بعد میں کہتے ہیں کہ یہ ان کا انفرادی عمل ہے۔
سو اگر آپ نے بھی انہیں ذرا سا راستہ دے دیا تو اب یہ نہ کہے کہ وہ کل کہیں گے کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ وہ آئین کو بھی نہیں مانتے۔ اور کوئی آدمی کھڑا ہو کر یہ کہہ دے گا کہ یہ تو ہمارے حقوق کا مسئلہ ہے، یہ کرتا ہے، وہ کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس مصیبت میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ یہ دوبارہ پٹارہ کھولنے والی بات ہے۔ پاکستان اس قسم کے مسائل سے دوچار ہونے کا متحمل نہیں ہے۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں