صحنقائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں طلباء سے آخری درس حدیث
04 دسمبر 2025
جامعہ محمدیہ کے اساتذہ کرام، طلباء عزیز، حضرت مولانا ظہور علوی صاحب کی شفقتیں اور ان کی محبتیں ہمیشہ ہمارے اوپر سایہ فگن رہتی ہیں۔ میرا تو ہر وقت یہاں پر آنے کو جی بھی چاہتا ہے لیکن مصروفیات کے تسلسل کی وجہ سے میں آپ کی زیارت سے محروم رہ جاتا ہوں، حضرت مولانا کا شکر گزار ہوں کل وہ تشریف لائیں اور دعوت دی، تو میں تو رات کو بھی آنے کے لیے حاضر تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ابھی توفیق عطا فرمائی۔
بہرحال یہ مدارس و جامعات درحقیقت اس دور میں اسلام کے قلعے ہیں اور پورا دنیائے کفر ان مدارس کو ملیامیٹ کرنے، ان کی خدمات کو ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ مدارس دین کی اور دینی علوم کی بقاء کی محنت کر رہی ہیں، تو جو دین باقی رہنا ہے قیامت تک، تو اس کے لیے محنت کرنے والے ادارے اور اداروں میں محنت کرنے والے لوگ بھی ان شاءاللہ باقی رہیں گے ان شاءاللہ۔
آپ حضرات طلباء ہیں، طالب علم کا تعلق مدرسے سے بھی ہے، طالب علم کا تعلق استاد سے بھی ہے اور طالب علم کا تعلق کتاب سے بھی ہے، مدرسہ ہو، استاد ہو، کتاب ہو، تینوں سے اکتساب فیض حاصل کرنے کے لیے ادب کا تعلق ضروری ہے، مادر علمی ہے جس کی گود میں ہم پل رہے ہیں، ہماری نشونما ہو رہی ہے، ہم حقیقی معنوں میں انسان بنتے ہیں یہاں، تو اس کے اپنی ایک حرمت ہے، بس اتنا نہیں کہ ہم آئے اور چند دن یہاں رہے، یہاں کے کمروں کا استفادہ کیا، یہاں کے بجلی کا استفادہ کیا، یہاں کے پانی کا استفادہ کیا، یہاں پہ چارپائیوں کا، گرم لحافوں کا استفادہ کیا اور پھر چلے گئے اور بس ختم ہو گئی بات، یہ ایک نسبت ہے۔ جو نسبت بیٹے کی اپنی ماں کے ساتھ ہوتی ہے وہی نسبت طالب علم کی اپنے مدرسے کے ساتھ ہوتی ہے۔ دوسرے درجے میں اگر کتاب ہے، تو کتاب کا بھی ادب ہونا چاہیے، دائیں ہاتھ سے کتاب کو اٹھائیں، جب پڑھیں تو ادب کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں، سراہنا نہ بنائے اس کو، بے جا اس کو نہ پھینکے۔
تو یہ کتاب ہماری روحانی غذا کا ذخیرہ ہے اور استاد ایک باپ ہے، یہ باپ کتابوں کے اس ذخیرے سے ساری رات محنت کرکے طالب علم کے استعداد کی مطابق غذا چنتا ہے اور صبح وہ غذا اس کو عطا کرتا ہے، تو اس کا بھی ادب اور احترام ہونا چاہیے۔ طالب علم کا جب فارغ وقت ہوتا ہے تو فارغ وقت میں سب سے لذیذ چیز اپنے استاد کی غیبت کرنا ہوتا ہے۔ جمعہ کی رات تھی، طالب فارغ تھے، تو ایک طالب علم کو نیند اگئی تو جب سونے لگا تو اس نے کہا کہ یار جس وقت استاد کی غیبت شروع ہو تو ضرور اٹھائیں، تاکہ اس لذت سے میں محروم نہ رہ جاؤں، تو اس سے بے برکتی آتی ہے۔
اب یہ چیزیں مجھے افسوس ہے کہ ہمارے کالجوں یونیورسٹیوں میں مفقود ہوتے جا رہے ہیں اور ہمارے مدرسوں میں بھی اب وہ چیزیں کم ہو رہی ہیں باقی تو ظاہر ہے جی کہ یہ صرف مولوی بننا نہیں ہے بلکہ درحقیقت قرآن و حدیث اور فقہ کے وہ علوم جسے انگریز نے نصاب سے نکال دیا تھا تاکہ اگر مسلمان، مسلمان رہے تو بس اس حد تک کہ میں مسلمان ہوں، میں مسلمان گھر میں پیدا ہوا ہوں، اس سے آگے اس کو اپنے دین کا کچھ بھی پتہ نہ ہو۔ تو الحمدللہ اس مدرسے نے ان علوم کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا، کام کیا اور آج معاشرے میں جہاں پر بھی علماء موجود ہیں وہاں لوگوں کے اندر دین کا ایک شعور ہے، دین کا تعارف ہے، دین سے ایک تعلق اور نسبت ہے، اس سے ایک محبت ہے اور اسی سے دین اگلی نسل میں منتقل ہوتا ہے اور جب تک اللہ کی مشیت ہے یہ سلسلہ ان شاءاللہ جاری رہے گا۔ بس آپ ہمارے لیے دعا کریں گے اور ہم تو ہمیشہ آپ لوگوں کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے۔
اور پھر اس دین کی حفاظت کے لیے جو جماعتیں ہیں، جمعیت علماء اسلام ہے، وفاق المدارس العربیہ ہے، ختم نبوت کی جماعتیں ہیں، مختلف شعبوں کے علماء کام کر رہے ہیں تو ان کی قدر کرنی چاہیے اور خود کو تیار کرنا چاہیے کہ بھئی مولانا ظہور علوی صاحب اور سفید ریشوں نے ساری زندگی تھوڑی رہنا ہے جی، تو اب ان کا کام اپ نے سنبھالنا ہوگا کل، مولا فاروقی صاحب ہیں، مولانا انعام صاحب ہیں۔
تو یہ سارے علماء اور اساتذہ کرام، یہ تو ہمارے ملتان کے استاد ہیں میرا خیال ہے جی، تو اب سب زندگی تک تو نہیں رہنا، ہمارے ہاں تو ایک ہی سال کے اندر ہمارا ایک استاد چلا گیا، پھر خیر المدارس اور ہمارا مشترک استاد تھا پھر وہ چلا گیا، پھر اس کے بعد تیسرا چلا گیا مدرسہ فارغ۔
تو اس سلسلوں کو آگے چلانا ہے، نئی نسلوں کو منتقل کرنا ہے، اگر آپ کے پلے کچھ ہوگا تو اگلوں کو آپ دیں گے نا، اگر اپ کے پلے کچھ ہے نہیں تو کیسے، یہ ہے وہ امانت،
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا ۖ وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا۔
تو یہ وہ اتنا بھاری بھر کم امانت ہے کہ آسمانوں نے بھی اس کے تحمل کا انکار کیا، زمین نے بھی تحمل کا انکار کیا، پہاڑوں نے بھی تحمل کا انکار کیا، اور انسان نے اس کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کر دیا، لیکن علت بتا دی کہ اب یہ مقام تو مدح کا ہے لیکن ظاہری الفاظ میں ذم بیان کر دیا لیکن یہ ضم نہیں ہے، ظلوم وہ ہوتا ہے کہ جس میں استعداد عدل موجود ہو، جہول وہ ہوتا ہے کہ جس کے اندر استعداد علم ہو، تو اسمانوں میں، پہاڑوں میں، زمین میں استعداد ہی نہیں تھی، تو آسمان کو کوئی یہ پکار کے نہیں کہتا کہ اوئے جاہل، پہاڑ کو کوئی نہیں کہتا کہ تو جاہل ہے کیونکہ وہاں استعداد ہی موجود نہیں ہے لیکن انسان کے اندر چونکہ استعداد موجود ہے، تو ظلوم و جہول یہ اس صورت میں ہے کہ جب ظرف مظروف سے خالی ہو، تو جب ظرف مظروف سے خالی ہوتا ہے تو پھر ظرف اپنے نام سے پکارا جاتا ہے، لیکن جب اس میں مظروف آ جاتا ہے تو پھر مظروف کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گلاس ویسے گلاس ہے اور گلاس ہے اور گلاس ہے لیکن اگر پانی بھر دیا جائے تو یہ پانی لیجیے، شربت بھر دی جائے تو یہ شربت لیجیے، سیون اپ بھر دیا جائے پیپسی بھر دی جائے تو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ پلیٹ خالی ہے تو اس کا نام پلیٹ ہے، رکابی ہے لیکن اگر اس میں سالن ڈال دیا جائے تو یہ سالن لیجیے، یہ سبزی لیجیے، یہ حلوہ لیجیے، تو مظروف کے نام سے پکارا جاتا ہے، کیسے مزہ آگیا آپ کو، حلوہ واقعی میٹھی چیز ہے پوری مجلس کو میٹھا کر دیتا ہے۔
تو اس لیے جب خالی برتن ہے تو پھر ظلوم بھی کہلائے گا، لیکن اس میں عدل بھرنے کی گنجائش ہے، صلاحیت ہے استعداد ہے، اور جہول کہہ دیا تو یہ برتن کا خالی برتن کا نام ہے لیکن مطلب یہ ہے کہ اس میں استعداد ہے اس بات کی کہ اس کو آپ علم سے بھر دیں۔
تو اب ظاہر ہے جی کہ اللہ نے حضرت آدم کو سب علوم عطا کر دیے تو جب اللہ نے حضرت آدم کو کائنات کے تمام علوم عطا کر دیے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ بنی ادم میں یہ استعداد موجود ہے کہ وہ ساری چیزوں کا علم حاصل کر سکیں۔ تو سمندر کے نیچے، اسمانوں سے اوپر، خلاؤں میں، زمین کے اندر، جہاں جہاں پر اللہ نے کوئی نعمتیں پیدا کی ہیں یا علوم پیدا کیے ہیں یا چیزوں کی حقیقتوں کو تلاش کرنا ہے تو یہ انسان کی قدرت ہے اور آج کے سائنس اور نئے ایجادات نئے انکشافات یہ سب اس بات کا مظہر ہے کہ بنی ادم اب ان چیزوں کو حاصل کر رہا ہے۔
تو علم منقسم نہیں ہے، ہم نے منقسم کیا ہے، انگریز نے منقسم کیا ہے، دینی علم عصری علم فلاں فلاں، ہاں البتہ الرحمن علم القران، علم القران یہ ایک خصوصی نعمت ہے جو اللہ کی طرف سے علم کے اندر عطا کی گئی ہے، تو علم عام ہے اور قران کی نعمت جو ہے اس کو نعمت خاصہ کہا جا سکتا ہے۔ تو یہ اللہ رب العزت نے ہمیں عطا کیا ہے اور قران کریم انسان کے تمام شعبوں میں اور پورے کائنات میں تمام علوم حاصل کرنے اور اس کا ادراک کرنے اس کے لیے رہنمائی فرماتا ہے۔
تو ان علوم کے لیے اللہ نے اپ کو چنا ہے، آپ خوش قسمت ہیں، ویسے تو عوام میں یہ ہے اور ہمارے سرکاری اداروں میں بھی کہ بس یہ مولوی بن گیا بیکار ہو گیا، تو اصل میں آپ سے اللہ وہ کام لے رہا ہے کہ جس کی توفیق دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں ہے۔ تو ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ نہیں کہ دوسرے علوم حاصل نہ کریں ہم، ہم تو تمام علوم کے حاصل کرنے کے قائل ہیں لیکن اگر ان علوم کے لیے لوگ ہیں تو الحمدللہ وہ بھی کام کر رہے ہیں کوئی ڈاکٹر بن رہا ہے کوئی انجینیئر بن رہا ہے کوئی زراعت کے شعبے میں کام کر رہا ہے کوئی کہاں کوئی کہاں، لیکن جس علم کے لیے لوگ نہیں ہیں، سرکار کا کوئی اہتمام نہیں ہے، انتظام نہیں ہے تو وہاں پر پھر آپ لوگوں کو اللہ نے چنا ہے، ان مدارس کی شکل اللہ نے بنائی ہے اور ہمارے اکابر کو اللہ نے یہ توفیق عطا کی ہے کہ یہ سلسلے ابھی تک چل رہے ہیں اور ان شاءاللہ چلتے رہیں گے۔
تو اپ کی بھی دعائیں چاہیے ہمیں اور ہم بھی دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اللہ کے اس دین کی خدمت کر سکیں۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat

.jpeg)
ایک تبصرہ شائع کریں