راولاکوٹ کشمیر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا وحدت کشمیر کانفرنس سے خطاب تحریری صورت میں
30 جون 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
جناب صدر محترم، سٹیج پر موجود تمام کشمیری زعما، پنڈال میں موجود میرے کشمیری بزرگوں، میرے دوستو، میرے بھاٸیو! ایک طویل عرصہ کے بعد یہاں راولاکوٹ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، پونچ ڈویژن کی سرزمین جو آزادی کے لیے قربانیوں کی ایک تاریخ اور داستان ہے، اِس سرزمین پر جو میں آپ سے مخاطب ہوں تو اِس احساس کے ساتھ کہ ہم سب اِس قافلے کے ہمسفر ہیں جنہوں نے ایک صدی سے زیادہ برصغیر کی آزادی کے لیے قربانیاں پیش کی، انگریز سے آزادی کی تاریخ ہمارے ہی اکابر و اسلاف کی خون سے لکھی جاٸے گی اور کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد اِس سے مختلف نہیں ہیں، یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ہم نے آزادی کی کرن کو زندہ رکھنا ہے۔
میرے محترم دوستو! ویسے تو اللّٰہ رب العالمین نے انسان کو حسن صورت سے نوازا ہے، جسمانی لحاظ سے تو اللّٰہ رب العزت نے انسان کو تعبیر کیا ہے ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“ خوبصورت قد کاٹھ کے ساتھ ہم نے انسان کو پیدا کیا، لیکن عملی زندگی کے حوالے سے اللّٰہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کو تعبیر کیا ہے ”لقد خلقنا الانسان فی کبد“ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا، اب یہ چیزیں خلقتاً ہیں اور اِس میں تغیر تبدل نہیں آسکتا، قیامت تک انسان کی شکل و صورت بھی یہی رہے گی اور قیامت تک انسان اِس دنیا میں مشکلات کا مقابلہ کرے گا، مشکل مراحل سے گزرے گا، لیکن اِس مشکل مراحل سے گزرنے کا مقصد کیا ہوگا ؟
اللّٰہ رب العزت نے مقدمہ تو رکھ دیا ”کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا“ لیکن اِس مقدمے کی بنیاد پر اللّٰہ نے جو مقصد زندگی متعین کیا اُس میں مقصد اَول انسان کی آزادی ہے، یہ انسان جب گھاٹی میں داخل ہوا اور جانتے ہو گھاٹی کیا ہے، تمام مفسرین کہتے ہیں کہ گھاٹی کے لفظ سے تعبیر کرنا یہ شریعت ہے، تو شریعت میں داخل ہونا اور دین اسلام کا راستہ اختیار کرنا یہ مشقتوں کا راستہ ہیں یہ پھولوں کا سیج نہیں ہے یہ کانٹوں کا راستہ ہے جس سے کہ گزرنا پڑتا ہے، تو گھاٹی سے تعبیر کیا اور گھاٹی وہ راستہ ہوتا ہے ،جہاں پتھریلی زمین بھی آتی ہے، جہاں جھاڑیاں بھی آتی ہیں، جہاں کانٹے بھی آتے ہیں، جہاں پانی بھی آتا ہے ، جہاں سامنے سے ٹھنڈی اور گرم ہواٸیں بھی آتی ہیں اور آپ کو اِن سارے حالات سے گزر کر اُن کو عبور کرنا ہوتا ہے کس مقصد کے لیے ” فکو رقبہ“ غلام کو آزاد کرنا، لیکن الفاظ قرآن کہ ہیں میرے اور آپ کے نہیں ہیں، ٹھیک ہے جزوی طور پر آپ اِس کا معنی کرے کہ قبائل عرب میں جب انسان کو انسان کا غلام بنایا جاتا تھا تو اسلام نے سب سے پہلے تعلیم یہ دی کہ آپ ایک غلام کو آزاد کریں لیکن قرآن کے وسعتوں کو سامنے رکھتے ہوٸے جب ہم یہ مفہوم متعین کریں گے تو ایک شخص غلام سے لے کر ایک قوم غلام کی آزادی تک اِس سے مقصود ہوگا۔
تو اولین چیز وہ قوموں کی آزادی ہیں اور آزادی کے بعد خوشحال معیشت ہے جہاں ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلانا یہ اُس راستے کا تقاضہ ہے سو قوموں کی اجتماعی زندگی میں اِسی راستے کا تقاضہ ہے کہ قوم کی بھوک ختم کرنے اور اُسے خوشحال معیشت مہیا کرنا یہ اِسی شریعت کا تقاضہ ہے، اور پھر مفلوک الحال طبقہ ہم اِسی پہ سیاست کرتے رہتے ہیں ناں غریب، بھوکا، پیاسا اور پھر اُس کی قسمت کبھی ہم کمیونزم کی طرف کرتے ہیں کبھی سوشلزم کی طرف کرتے ہیں کبھی کس کی طرف، کبھی کس کی طرف، اور آج کل انسامی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار امریکہ بنا پھرتا ہے لیکن قرآن کریم آپ کو فرماتا ہے ” یتیما ذا مقربہ او مسکین ذا متربہ“ وہ یتیم جو قرابتداروں میں ہو اور وہ مسکین جس کے جسم پر کپڑا نہیں ، جس کے کھانے کے لیے کچھ ہے نہیں ، خاک آلود ہے یہ وہ مفلوک الحال اور کسمپرس طبقے ہیں جس کا قرآن ذکر کرتا ہے، تو آزادی، خوشحال معیشت اور مفلوک الحال طبقوں کی رکھوالی کرنا اور اُن کے معاش کا انتظام کرنا، اور اُس کے عزت کی زندگی کا انتظام کرنا یہ میرے قرآن کی تعلیمات ہیں جسے دنیا نے تو اپنالیا لیکن ہم نے چھوڑ دیا، ہم تاریک قرآن ہوٸے۔
تو میرے محترم دوستو! ہم نے اُن اصولوں کو اپنا کر اپنی قومی، ملّی اور اجتماعی زندگی کے حدود کا تعین کرنا ہے، لیکن ہم کھلے دل سے تعین تو کرے کہ آج دنیا میں جب آزادی کی جنگیں لڑی جاتی ہیں تو دو چیزوں کا الگ الگ تصور کیا جاتا ہیں ایک تصور ہے خطے کا اور دوسرا تصور ہے خطے پر آباد انسانیت کا، معاف فرماٸیے جو بطور طالبعلم کا میرا مطالعہ ہے اور میرا تجزیہ ہے ریاستوں نے خطے کی حصول کے لیے توانائی صَرف کی ہیں لیکن اُن کے ہاں خطے پر رہنے والوں انسانوں کے لیے کوٸی تصور نہیں ہیں، ہم نام لیتے ہیں انسانوں کی، بھوک کی، حقوق کی، لیکن ہم نے زمین حاصل کرنے کو ترجیح دی ہے انسانی حق کی کبھی ہم نے پرواہ نہیں کی۔
کشمیری ایک مظلوم قوم ہیں، آج اگر میں آپ کے سامنے کچھ سچی باتیں کہوں گا تو آپ کے جذبات بھی مجروح ہوں گے اور اصل قوتیں بھی ناراض ہوں گی، جہاں آج آپ پہنچے ہیں اُس کے ذمہ دار کون ہیں ؟ قربانیوں کے نتیجے میں جہاں آگے بڑھنا تھا ہم آزادی کی منزل سے پیچھے کیوں آرہے ہیں، اور مجھے خود ایک کشمیری نے کہا اور براہ راست کہا کہ مولانا سچی بات یہ ہے کہ ہمیں لمبے چوڑے پاٸپ کے اُس سرے پر آزادی کی اِک چھوٹی سی رمق بھی نظر نہیں آرہی ہے ہم قربانیاں کس چیز کے لیے دے، یہ کشمیری ذمہ دار کی بات کررہا ہوں، اِن ساری چیزوں کو ہمیں دیکھنا پڑے گا، اور ظاہر ہے کہ جب کشمیری مایوس ہوگا، ہند و س تان میں رہنے والا، مقبوضہ کشمیر میں رہنے والا کشمیری ہند و س ت ا ن سے مایوس اور پاکستان کے طرف رہنے والا کشمیری پاکستان سے مایوس، تو اِس مایوسی کا نتیجہ کیا نکلے گا، پھر اِس مایوسی کا نتیجہ خود مختار کشمیر کی صورت میں سامنے آٸے گا، ناراض نہ ہونا میں آپ کے نوجوان کو جانتا ہوں اور اگر خود مختار کشمیر نہ میرے مفاد میں ہے نہ ہند و س ت ا ن کے مفاد میں، تو اِس کا علاج کیا ہے ؟ اِس کا علاج یہ ہے کہ کشمیر کو تقسیم کرو تاکہ نہ رہے بانس نہ رہے بانسری۔
مجھے آپ بتاٸے ہم اپنے مٶقف کی بنیاد سن 1949 کی سلامتی کونسل کے قراردادوں کو بناتے ہیں، میں لفظ قرارداد کی بات نہیں کررہا قراردادوں کی بات کررہا ہوں اُس کے بعد بہت کچھ ہوا، کراچی کے معاہدات ہوٸیں اور بھی بہت سی چیزیں ہوٸی، یہ میرا ریاستی مٶقف ہے کشمیر کے لیے میں جو کچھ کہوں گا جو کچھ کروں گا اُس کی اساس سن 1949 کی قراردادیں ہیں، سن 1949 کی قراردادوں میں آل جموں کشمیر ایک وحدت ہے جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہیں، جس میں آزاد جموں و کشمیر کی ریاست بھی شامل ہیں، جس میں وادی کشمیر بھی شامل ہیں، جس میں جموں بھی شامل ہیں جس میں لداخ بھی شامل ہیں، اور یہاں ایک کیس آیا تھا یہاں کے ہاٸی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان آزاد جموں کشمیر کا حصہ ہے لیکن جب آپ ہی کی سپریم کورٹ میں اُس کو چیلنج کیا گیا تو اُس نے وضاحت کی کہ نہیں وہ آل جموں کشمیر کا حصہ ہے تاکہ کشمیر کی تقسيم کا تصور اُس کی نفی کی جاٸے، اب تک تو ہماری تاریخ یہ تھی، وہ کون سی قوت ہے کہ جس نے گلگت بلتستانی اور کشمیری کو ایک دوسرے سے دور کردیا، اور حسن ابراہیم صاحب نے بلکل صحیح بات کہی کہ یہ تقسيم نہ ٹیریٹری کے حوالے سے تھی نہ قوم کے حوالے سے تھی، یہ تقسيم انتظامی حوالے سے تھی اور آج کے دور میں وہ انتظامی مشکل اب ختم ہوچکی ہے، پھر کس بنیاد پر یہ ساری چیزیں ہوتی رہیں۔
اب آپ مجھے بتاٸے کہ عمران خان صاحب جب ابھی اقتدار میں نہیں آٸے تھے تو ایک فلسفہ پیش کیا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسيم ہونا چاہیے، کس بنیاد پر یہ مٶقف دیا ؟ اور صرف یہ نہیں کہا یہ بھی کہا کہ خدا کرے کہ ہند و س ت ا ن میں مودی کامیاب ہو تو مسٸلہ کشمیر حل ہو جاٸے گا، سو مودی کامیاب ہوا اور ہند و س تا ن کے آٸین کا آرٹیکل 370 حذف ہوگیا، اور جب میں کشمیر کمیٹی کا چیٸرمین تھا تو کشمیری قیادت جو پار رہتی تھی حریت کانفرنس بار بار مجھے کہتے تھے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ آٸین کا آرٹیکل 370 ختم ہو جاٸے گا اور ہمارا ملک ایک سپیشل سٹیٹس ہے اُس کا کباڑہ ہو جاٸے گا، میں جب یہاں چیخ رہا تھا کہ ہمارے فاٹا کہ سٹیٹس کو ختم نہ کرے اور اگر عوام کی مرضی کے خلاف آپ نے آٸین کے آرٹیکل 247 کو ختم کیا تو یہ ہند و س ت ا ن کو جواز مہیا کرنا ہوگا کہ وہ بھی آٸین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے اُس کے سپیشل سٹیٹس کو ختم کردے، آپ عوام سے نہیں پوچھیں گے تو وہ بھی عوام سے نہیں پوچھیں گے۔
اب یہ نظریہ کہاں سے آیا کیا اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل کے قراردادوں کا تقاضہ تھا، کیا یہاں پاکستان میں ریاستی سطح پر ایسی کوٸی بات ہوٸی، ہند و س تا ن پاکستان کے درمیان جامع مذاکرات کے کسی ایجنڈے پر یہ بات آٸی ، کس کے اشارے پر ایسا کیا گیا، کس کا ایجنٹ بن کر ایسا کیا؟ اِس کا بڑا سادہ سا جواب ہے کہ ناٸن الیون کے بعد امریکہ نے اکیسویں صدی کا نیا وژن متعارف کروایا، کہ اِس نٸی صدی میں نٸی دنیا کی جغرافیاٸی تقسيم ہوگی اور ایسی جغرافیاٸی تقسيم جو امریکی مفادات کی تابع ہو، آپ عالمی سطح پر اِس قسم کی چیزوں کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں، ہم نے اِسی لیے کہا کہ یہ حکومت ایک ایجنڈے کے تحت ہے اور یہ خطے کہ جغرافيائی تقسيم کی طرف جاٸے گی، آپ خود اندازہ لگاٸیں موضوعات تبدیل ہو جاتی ہیں، جغرافيائی تقسيم کی شروعات سے پہلے موضوع تبدیل ہو جاتا ہے، 1948 سے لے کر آج تک موضوع یہ تھا کہ فلسطین آزاد ہو، فلسطینیوں کا حق اقتدار ارضِ فلسطین پر تسلیم کیا جاٸے، آج موضوع کیا ہے ا س ر ا ٸیل کو تسلیم کریں، کہاں گیا فلسطین کہا گیا فلسطینی، کہاں گٸی اُس کی سرزمین فلسطین، کہاں گٸی اُس کی ریاست فلسطین، اور اِس کو بڑا فلسفہ قرار دیا جارہا ہے، جدید اور نٸے معروضی حالات کے تناظر میں مسٸلے کو دیکھنا چاہیے، زمانہ یہ ہے کہ دنیا کی ریاستی قوتیں ٹیریٹری کو دیکھ رہی ہے انسانی حق کو نہیں دیکھ رہی اور انسانی حق بھی آزادی کا حق، جو اس کا پیداٸشی حق ہے، اور ہماری پاکستان کی سرزمین سے اس کو تسليم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔
ہم قاٸداعظم کی بات کرتے ہیں جنہوں نے سن 1940 کی قراداد میں فلسطین کی سرزمین پر یہو د یو ں کی نٸی آبادی پر تنقید کرکے اعلان کیا تھا کہ ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، آج وہ مٶقف کہاں گیا، اور پھر جب سن 1947 میں پاکستان بنا اور 48 میں ا س ر ا ٸیل وجود میں آیا تو اُس کے پہلے وزیراعظم نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو سب سے پہلے سٹیٹمنٹ دی وہ یہی تھی کہ دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والا ایک نوزاٸیدہ مسلم ملک کا خاتمہ ہمارا نکتہ اول ہوگا، ا س ر ا ٸیل کی بنیاد میں پاکستان دشمنی ہیں اور ہمارے ہی ملک میں ایک نیٹ ورک ہیں جو آج ا س ر ا ٸیل کی ہمدردی میں مررہا ہے۔
اِس کے لیے کام ہوا سن 1996 میں بیس سالہ منصوبہ بندی کہ بیس سال بعد جنوب ایشیا میں ا س ر ا ٸیل کا نیٹ ورک مستحکم ہو جاٸے گا اور میں نے یہ بات کہی تھی کہ یہاں پر اقتدار کی جنگ ہوتی رہتی ہے، مفادات کی جنگ بھی ہوتی رہتی ہے لیکن باقاعدہ ایک ایجنڈے کے ساتھ جو نٸی حکومت بننے جارہی ہے میں نے حکومت بننے سے پہلے کہا تھا کہ اِس کے پیچھے ایجنڈہ ہے، اور ہم نے جو آنکھیں بند کرکے اُن سے لڑاٸی لڑی، پتہ نہیں کس نے ہمیں کیا کہا ہوگا جذباتی ہے، اقتدار کی جنگ ہے ، مولوی صاحب کو کیا ہوگیا ہے ، مولوی صاحب پاکستان کی جنگ لڑ رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے نہ میرے ملک کے سیاسی جماعتوں نے اِس کو گہری نظر سے دیکھا، نہ میری ریاستی قوت نے اِس کو گہری نظر سے دیکھا، نہ بیوروکریسی نے اس کو اِس نظر سے دیکھا، اور میں آج بھی یقین نہیں کررہا ہے کہ واقعتاً لوگ اِس طرح سوچ رہے ہوں گے، لیکن مجھے اندازہ تھا کہ ہمارے ملک کی ایک ایلیٹ کلاس اِس کو ہم اپنی زبان میں اشرافیہ کہتے ہیں جس میں ریٹائرڈ جرنلز، بیوروکریٹس، بڑے بڑے جاگیردار جو اکڑ کر چل رہے ہوتے ہیں وہ اِس نیٹ ورک کا حصہ تھے، لیکن بظاہر نہیں آرہا تھا لوگ مجھے بیوقوف سمجھ رہے تھے کہ یہ شاٸد ایسے ہی بول رہا ہے، لیکن جس وقت ہم نے اُس کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو پھر اُسی ایلیٹ کلاس کے گھروں کے اندر ہماری آنٹیاں کس بات پر اپنی آنسو پونچھ رہی تھی کیا تباہی آگٸی تھی، اور جب میں نے یہ بات کہی ایک ہفتے کے بعد وہی ایلیٹ کلاس احتجاج کرتے ہوٸے اسلام اباد پریس کلب کے سامنے آپ کو نظر ایا یا نہیں ایا، تو پھر اِس فقیر کے اُوپر تھوڑا سا اعتبار کروں نا، بجاٸے ناراض ہونے کے ذرا سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اب ظاہر ہے کشمیر کی بھی اپنی سیاست ہے ہم تو اپنے خیال سے آزاد ہوچکے، پاکستان ایک آزاد ریاست ہے لیکن آپ کا دعوی ہے کہ ہم آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، میں نہیں کہہ رہا آپ کہہ رہے ہیں، کشمیری کہہ رہے ہیں کہ ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، آزادی کی جدوجہد اور انتخابی سیاست کی آپس میں کوٸی جوڑ نہیں معاف فرماٸے ، آزاد ریاست جموں کشمیر ، کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ بھی اور یہاں کا انتخابی نظام ایسا زبردست انتخابی نظام ہیں کہ جس میں ہمیں دماغ کپھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، پاکستان میں فوجی کی حکومت ہو تو یہاں فوجی کی حکومت ہوگی، پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوگی، وہاں ق لیگ کی حکومت ہو تو یہاں ق لیگ کی حکومت ہوگی، وہاں ن لیگ تو یہاں ن لیگ کی حکومت ہوگی، اور وہاں پی ٹی آٸی کی حکومت تو یہاں بھی پی ٹی آٸی کی حکومت، آپ اتنے آزاد ہیں ماشاءاللّٰہ، ناراض نہ ہونا میں آپ سے ذرا ٹھیک ٹھاک باتیں کررہا ہوں، خفا نہ ہونا، جب تک پاکستان میں مولوی کی حکومت نہیں بنتی یہاں مولوی صاحب آرام سے بیٹھے رہو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (قہقہہ)، لیکن میرے کشمیری بھاٸیو مجھے تعجب اِس بات پر ہے کہ ایک شخص کشمیر کے مسٸلے پر سلامتی کونسل کے قراردادوں کو نظرانداز کرکے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فلسفہ دے رہا ہے اور انتخابی مہم میں یہاں آکر تقریر کرتا ہے کہ اگر ہم کامیاب ہوٸے تو آزاد کشمیر کے لوگوں کو حق دیں گے کہ وہ الگ ملک کے طور رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں، کشمیر کو کس طرح تقسيم کیا اور پھر بھی ہم نے ووٹ دیا اِس لیے کہ وہاں حکومت بنے گی تو پھر یہاں کی حکومت اِسی طرح کی ہوگی تو کچھ فاٸدہ ہوگا، مفادات کی ترجيح رکھنے والا وہ آزادی حاصل نہیں کرسکتا (قاٸد تیری بصیرت کو سلام کے نعرے)۔
ہمارے جناب صدر یعقوب خان ابھی مجھے فرما رہے تھے کہ سیاسی جماعتیں تحمل کا مظاہرہ کریں، پاکستان میں برداشت کی ضرورت ہے اور یقیناً ہے لیکن جہاں میں اُن کی اِس بات کو اخلاص کو محکمی سمجھتا ہوں اور ضرورت کے عین مطابق سمجھتا ہوں وہاں میں آل جموں کشمیر کی قیادت کو درخواست کروں گا چھوڑیے امریکہ کو، چھوڑیے ریاستوں کی خواہشات کو ، آپ کو بھی ازسر نو بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ آپ نے اپنا مستقبل کیا طے کرنا ہے، خود کا مستقبل خود ہی طے کرنا ہوگا، کم از کم ہم سے یہ زیادہ امید نہ رکھے سواٸے اس کے کہ میں تقریر میں ایک بات آپ کے حق میں کہہ دیتا بس۔
آج ہمیں کہا جارہا ہے کشمیر کے اندر انسانیت کی بات کیا کرو، تو میں نے کہا کہ میں کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی بات ضرور کروں گا یہ میرا فرض بنتا ہے لیکن میرے فاٹا کے اندر جو انسانی حقوق پامال ہوٸے اس کا کیا کرے، امریکہ کے خارجہ پالیسی کی بنیاد دو چیزیں ہیں ایک انسانی حقوق اُس کے لیے کہتا ہے کہ اُس کے کوٸی جغرافيائی حدود نہیں ہے، ہم انسانی حق کے لیے جس ملک میں چاہے فوجی اتار دے ایک ہے امریکی مفادات اُس کے لیے دنیا کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑوں میں تقسیم کرو تاکہ اُن کے ساتھ براہ راست معاہدات کرکے وہاں اُس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا جاٸے، یہ اُس کے خارجہ پالیسی کے دو اُصول ہیں، لیکن امریکہ نے کبھی سوچا ہے کہ بیس سال ا ف غ ا ن ستان میں اُنہوں نے انسانی حقوق کے ساتھ کیا کیا، گزشتہ بیس سالوں میں عراق کے اندر کیا کیا، ابو غریب جیل میں انسانيت کے ساتھ کیا کیا، کیا ہمارے مسلمان بھاٸیوں کے اُوپر کتے نہیں چھوڑے گٸے، کتوں سے اُن کے جسموں کو نہیں نوچا گیا، کیا ناٸن الیون کے بعد امریکہ نے ا ف غ ا ن س تان کے ط ا ل با ن قیدیوں کے بارے میں یہ نہیں کہا تھا کہ جنیوا کنونشن میں قیدیوں کے جو حقوق ہیں یہ اُن کے زمرے میں بھی نہیں آٸیں گے، بگرام جیل میں آپ نے کیا کیا، عقوبت خانوں میں آپ نے کیا کیا، شبرغان جیل میں کیا کیا، سمندر کے اندر کھڑی بحری بیڑوں کے اندر عقوبت خانوں میں آپ نے انسانیت کے ساتھ کیا کیا، اور انسانی حقوق کا علمبردار بھی وہ ہے۔
سو ہم ان مشکلات کے اندر سفر کررہے ہیں اور اِس کو ہم نے ان شاء اللّٰہ حوصلے کے ساتھ عبور کرنا ہے لیکن اِس کے لیے ذرا عقل استعمال کرنا ہوگا سٹریٹجی بنانی پڑے گی، وہاں کے کشمیریوں کو پستہ ہ ن د و س تان پہ نہیں چھوڑنا ہوگا، یہاں کے کشمیریوں کو پستہ پاکستان پہ نہیں چھوڑنا ہوگا، ایک دفعہ آپ کو خود خود مختاری کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، ہم اب لڑنے کے نہیں رہے، جہاں تک ہماری فوج ہے میں پوری اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کی بہترین فوجوں میں پاکستان کی فوج شمار کی جاتی ہے، تمام تر صلاحیتیوں کے باوجود فوج جب جنگ لڑتی ہے تو اُس کے پشت پر جہاں قوم کھڑی ہوتی ہیں وہاں اُس ملک کی اقتصادی قوت بھی اُس کے پشت پر ہوتی ہے، جب اقتصادی قوت مر جاتی ہے پھر فوج ہزار صلاحیتیوں کے باوجود محاذ پہ لڑنے کی طاقت سے محروم ہو جاتی ہے ، کہتے ہیں پیسہ خرچ ہوتا ہے لیکن جنگ میں پیسہ جلتا ہے، ہم عام آدمی کو آج روٹی نہیں کھلاسکتے، ہم نے وہ وہ معاہدے کیے ہیں جن میں ہم نے پاکستان کو جکڑ کر رکھا ہے۔
پاکستان بنا تھا مذہب کے نام پہ اسلام کے نام پہ، پاکستان بنا تھا اسلامی تہذیب کے تصور کے ساتھ، پاکستان کا آٸین 1973 میں بنا جس نے پاکستان کو نظریاتی طور پر اسلام کی شناخت دی، ایک اسلامی ریاست کا تعارف دیا اور اس نے تہذیبی لحاظ سے ایک اسلامی اور قومی تہذیب کا شناخت عطا کیا، میں آپ کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جو ہ ن د و ستا ن جس نے اپنی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی جہاں ہ ن د س تان کے آٸین نے ہ ن د س تا ن کو ایک سیکولر سٹیٹ کی شناخت دی آج وہ ہ ن د و س تان فرقہ واریت کی طرف جارہا ہے، آج وہ ہندتوا کی طرف جارہا ہے ، آج وہاں ہ ن د و کے اندر مسلمان کی نفرت بھری جارہی ہے، اسلام کی توہین ہورہی ہے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ، وہاں سکھ مطمٸن نہیں وہاں عیساٸی مطمٸن نہیں ، لیکن پاکستان جو مذہب کے نام پر بنا تھا یہاں پر اس کو سیکولراٸز کیا جارہا ہے ، اُس کو مذہب سے دور کیا جارہا ہے، آپ کا آٸین ایک خوبصورت کتاب کی حیثیت تو رکھتا ہے لیکن اُس کے اسلامی حیثیت کے جتنے پہلو ہیں وہ خاموش کردیے گٸے ہیں، اور اب تھوڑی سی کوٸی آدھ چیز رہ گٸی ہے آپ کی ایٹمی صلاحیت ، اس کا مستقبل کیا ہوگا وہ بھی داٶ پر ہے۔
اِس لحاظ سے ہماری معیشت نیچے چلی گٸی ہے ، اِس حد تک نیچے چلی گٸی کہ جب کسی ریاست کی معیشت اِتنی گر جاتی ہے تو وہاں ریاست سے بیزاری کی بغاوتیں کھڑی ہوتی ہیں اور اُس سے لاتعلقی کی تحریکیں اُٹھتی ہے، ہم نے آپس کے ہزار اختلافات کے باوجود اِس نیت سے اِس قومی وحدت کا مظاہرہ کیا کہ اِس میں مذہبی جماعتيں بھی ہیں، اِس میں قوم پرست جماعتيں بھی ہیں، اِس میں سیکولر جماعتیں بھی ہیں جس میں قومی سطح کے بڑی جماعتيں بھی ہیں، ہر طرف سے لوگوں نے اکھٹے کرکے ایک پیلٹ فارم متعین کیا، اور پاکستان کو داخلی ہیجان، اضطراب اور داخلی بغاوتوں سے محفوظ رکھا ہے، اِس کو صرف اقتدار کی جنگ کی بات نہ کرو یہ ملک کی بقا کی جنگ تھی اور الحَمْدُ ِللّٰه الحَمْدُ ِللّٰه کہ اِس کا ادراک ہمارے ملک کی اُس اسٹبلشمنٹ کو بھی ہوا جس اسٹبلشمنٹ کو ہم سب سے بڑی غلطی کا بنیادی کردار تصور کررہے تھے اور اُس نے تلافی کی بھی کوشش کی ہم خیر مقدم کرتے ہیں، اور یہی سوچ ہو تو ہم اُس کے پشت پر بھی کھڑے ہیں، لیکن پاکستان کی بقا اِس وقت خطے کی بڑی اہمیت ہیں، سی پیک کا معاہدہ منجمد کردیا گیا اور چین جیسا دوست ظاہر ہے چین کاروبار کرے گا تو چین اپنے مفادات کو بھی دیکھے گا اور اگر پاکستان چین کے مفادات کو راستہ دیتا ہے، تحفظ دیتا ہے تو پھر وہ سمجھے گا کہ جس کو میں نے دوست کہا تھا اس نے کاروباری معاملے میں بھی میرے ساتھ دوست کا کردار ادا کیا، لیکن ہم نے اُن کے اربوں کھربوں ڈالر غرق کردیے، آپ کو پتہ ہے کسی نے آپ کو بتایا نہیں ہوگا گوادر سی پورٹ، گوادر بندرگاہ جس کو ایشیا کا گہرا ترین سمندر قرار دیا جارہا تھا، کراچی سے بھی گہرا، چاہ بہار سے بھی گہرا، بندر اباد سے بھی گہرا، دبٸی سے بھی گہرا، جدہ سے بھی گہرا، اور دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آپ کے اسی بندرگاہ پر کھڑے ہونے کی صلاحيت رکھتا تھا، اِن چار سالوں میں ہم نے اُن کا بیڑہ غرق کردیا کہ مٹی آتے آتے جو ساحل ہے وہ بھرتے بھرتے آج اُس کی گہراٸی صرف گیارہ فٹ رہ گٸی ہے یہ ظلم آپ پہ کس حکومت نے کی ہے، ہم نے جب یہ نظام لیا میں نے خود این ایچ اے کی ایک میٹنگ بلاٸی یقین جانیے کہ میاں نواز شریف اور ہم نے جس مسٸلے کو جہاں چھوڑا تھا وہی کھڑے پایا، اور آج وہی سے ہم دوبارہ شروع کریں گے ۔
تو ملک کو دلدل میں دھکیلا گیا، دلدل میں دھنسنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے پھر دلدل سے نکلنے میں بڑا وقت لگتا ہے، تھوڑا مشکل وقت تو گزارنا پڑے گا، آپ یوں سمجھے کہ ہمیں کتنے پاپڑ بیلنے ہوں گے اور کتنے مشقتوں سے ہمیں گزرنا پڑے گا، یہ ساری چیزیں اب آپ کو بدل کے رکھنا ہوگی، اور کشمیریوں یاد رکھو اگر آپ نے آزادی کی جنگ لڑنی ہے دینے والا اللّٰہ ہے قادر مطلق وہی ہے، لیکن اسباب کی دنیا میں اسباب کا خالق تو اللّٰہ ہی ہے، پاکستان کمزور معیشت کے ساتھ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کی پشت پناہی نہیں کرسکے گا، یہ چیزیں سمجھنے کی ہے ، ہم تو تنقيد اور تعریف کے کچھ جملوں میں پھنس جاتے ہیں، مسٸلے کو سمجھیے، فضل الرحمن اگر بیٹھتا ہے نہ وہ تعریف کا حقدار ہے نہ ان کو تعریف چاہیے، اس کے لیے دعا کرے کہ اللّٰہ کی دین کے لیے اور اِس اُمت کے لیے شاٸد کچھ توفیق دے بس دعا کرے۔
ہم ایک بڑی نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں، عالمی نیٹ ورک سے ہمارا مقابلہ ہیں اور سیاسی قوتوں کو سیاسی فکر میں اِس کا ادراک کرنا ہوگا، طاقتور پاکستان چاہیے اورکشمیر کو بھی طاقتور پاکستان چاہیے، ا ف غ ا ن س تان کو بھی طاقتور پاکستان چاہیے اور پورے خطے کی ایک نٸی سٹریٹجک مستقبل کی طرف ہمیں جانا ہوگا، ہمیں بنگلہ دیش کو بھی انگیج کرنا چاہیے، ہمیں چاٸنہ کو بھی انگیج کرنا ہوگا اور دو صدیاں پہلے جب عالمی معیشت کا کنٹرول ایشیا کے ہاتھ میں تھا اور پھر ہماری کمزوریوں کے نتیجے میں ہم یورپ کی کالونی بنے اور ہماری معیشت لوٹ کر لے گیے اور آج ہم اُن کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاٸے ہوٸے ہیں، اب دنیا میں ازسر نو ایک معاشی انقلاب کی شروعات ہورہی ہے اور حالات بن رہے ہیں کہ وہ معیشت واپس ایشیا کی طرف آجاٸے، سو اُس کی طرف ہمیں بڑھنا ہے، اُس کی طرف ہم نے ایک منظم سوچ کے ساتھ بڑھنا ہے، اگر ہم نے صرف اپنی پارٹی پارٹی کے حوالے سے سوچا تو کچھ نہیں، ہاں مسائل اتے رہیں گے حکمت عملی کے ساتھ ان سے نمٹنا ہوگا۔
آج کل سود کا مسٸلہ ایا ہے ہمارے شرعی عدالت نے بڑی مہربانی کی اللّٰہ اُس کو اجر عطا فرماٸے کہ عمران خان کی حکومت میں اُنہیں اِس فیصلے کی توفیق تو نہ ہوسکی ہماری حکومت میں یہ فیصلہ کرلیا، تو ہم اُن کے شکر گزار ہیں، لیکن اپیل تو سپری کورٹ میں ہوتی ہے ، سپریم کورٹ نے اپنے قانون کے تحت فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو شرعی عدالت کے قوانین ہے اُس کے تحت فیصلہ نہیں کرتا، لہذا مسٸلے کو طول دینے کے لیے کچھ بینک جارہے ہیں، اور ہم نے حکومت سے بات کی کہ اُن اپیلوں کی حوصلہ شکنی کرے، نیشنل بینک یہ بل واپس کرواٸے، لیکن یہ ضرور ہے کہ جہاں ملک کی مجموعی معیشت کی بہتری کے لیے ہم نے اقدامات کرنے ہیں، آج ہمیں یہاں اِس ایشو کے اُوپر بھی تواناٸی صرف کرنی پڑ رہی ہے، اور کشمیر کی اور خطے کی نٸی صورتحال اس کی سٹریٹجک پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوٸے آپ سب کو بیٹھنا ہوگا کہ ہم اپنے اصولوں کی بنیاد پر آزادی کی جدوجہد کو کیسے اگے بڑھا سکتے ہیں، کیونکہ ریاستی قوتیں وہ خطے کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے وہ پبلک کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کرتی ، اِس کے لیے جمہوریت قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ملکی معیشت کو مظبوط کرنا ہے یہ دنیا اب متمدن دنیا ہے، قباٸلیت ماضی کی ایک تاریخ ہے ، جو قبائلیت ہوتی تھی تو دفاعی قوت ریاست کی بقا کا سبب بنتی تھی لیکن متمدن دنیا میں معاشی قوت ریاستی بقا کی سبب بنتی ہے ، دفاعی قوت کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن میں معاشی قوت کے بعد اِس کو ثانوی قوت کہوں گا، اِس کے ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر ہم معاشی طور پر گرتے ہیں تو پھر آپ کی دفاعی قوت بھی پھر دفاع کے قابل نہیں رہے گی۔
تو یہ وہ سارے مسائل ہے جس پہ ہمیں غور کرنا ہے میں جب یہاں آیا ہوں اِس دوران میں آزادی کشمیر کے سپوت سید علی گیلانی صاحب اِس دنیا سے چلے گٸے، اللّٰہ اُن کی قربانیوں کو قبول فرماٸے، اِس وقت یسین ملک صاحب عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں یہ بھی ہمارے لیے، کشمیریوں کے لیے پورے پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے ، ساری جراتیں ہ ن د و س تا ن کو کیوں ہورہی ہیں کہ اِس حد تک اگے جارہا ہے، تو کشمیریوں نے ہ ن د و ستان کی جیلوں کی بڑی سیریں کی ہیں اور کشمیری ہ ن د و س تا نی جیلوں سے بڑی مانوس بھی ہیں تو اتنا بڑا مسٸلہ نہیں ہے قید و بند گزارنی پڑتی ہے، لیکن ان شاء اللّٰہ العزیز اُن کی قربانیاں رنگ لے اٸے گی، ہم آج بھی حریت کانفرنس کے لیے دعاگو ہیں، اُن کی جدوجہد کے لیے دعاگو ہیں ، اور آج کی اجتماع سے آر پار کشمیریوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے مستقبل کے لیے اب سر جوڑ کے بیٹھنا ہوگا، گلگت بلتستان سے لے کر لداخ اور جموں تک پورے کشمیریوں کو ایک جگہ بیٹھ کر اپنے مستقل کے لیے ایک لاٸحہ عمل طے کرنا ہوگا، اس کے علاوہ اور کوٸی راستہ نہیں۔
اللّٰہ تعالی ہماری اِس جدوجہد کو، آپ لوگوں کی قربانیوں کو قبول فرماٸے اور آپ کو ایک آزاد ، خوشحال اور روشن مستقبل نصیب فرماٸے۔
واخر دعوان ان الحمد للّٰہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
Hi
جواب دیںحذف کریںایسے ہی محنت کرتے ہو جےیوآئی کے شہسوارو کامیابی دینے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں