قائد جمعیتہ سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو تحریری صورت میں
06 نومبر 2022
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
ایک بار پھر پاکستان کو مشکل کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور حادثات کا سہارا لیکر قوم کو اضطراب میں ڈالا جارہا ہے ایک ہی واقعے کے اندر ہر طرف ایک جھوٹ گڑھا جاتا ہے، جب حکومت میں ناکام ہوا ملکی معشیت تباہ و برباد کردی، نظام معشیت اٸی ایم ایف کو معاہدات کے ذریعے حوالے کیا، سٹیٹ بینک کو اٸی ایم ایف کے حوالے کردیا، خطے میں ہم اپنے خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں معاشی طور پر سب سے پیچھے رہ گٸے، تو جب ایوان نے اُس پر عدم اعتماد کیا، تو اُس نے اُس وقت بھی ایک جھوٹا خط لہرایا، اندھے لوگوں نے انکھیں بند کرکے اُن کے جھوٹ کو قبول کیا لیکن جھوٹ کے پاٶں نہیں ہوتے، اُس کی کوٸی منزل نہیں ہوتی، وہ سب کچھ واشگاف ہوگیا ۔
آج اُس نے ایک نیا ڈرامہ رچایا، ظاہر ہے جب پہلی خبر اٸی تو ہم سب لوگ پریشان ہوٸے، ہم نے ہمدردی کا بھی اظہار کیا، لیکن جو جو وقت گزرتا گیا اِس واقعے سے لمحہ بہ لمحہ ایک ایک جھوٹ اٹھتا رہا، گولی ایک چلی ہے یا یہ کہ برسٹ مارا گیا ہے ؟ گولی ایک لگی ہے دو لگی ہیں تین لگی ہیں چار لگی ہیں، ایک ٹانگ یا دو ٹانگوں میں لگی ہیں ؟ گولی لگی ہے یا گولیوں کے ٹکڑے لگے ہیں ؟ یہ گولیوں کے ٹکڑے تو مجھے نہیں لگتے بم کا ٹکڑا ہوتا ہے گولی کا ٹکڑا نہیں ہوتا، کہاں سے اتنے زیادہ ٹکڑے اگٸے ؟ میں نے اُن کے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ گولی اُن کے قریب سے گزری یا نہیں لیکن اتنا لگتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اِن کے گالوں کا بوسہ لیا ہوگا، لیکن نیچے قمیص وہ ساری خون سے بھری ہوٸی، تو جس طرح برداران یوسف نے یوسف علیہ السلام کے قمیص کو جھوٹا خون لگایا تھا یہاں بھی کچھ ایسے ہی منظر ہمیں لگ رہا تھا، پہلی مرتبہ پتہ چلا ہے کہ پنڈلی میں بھی شہ رگ ہوتی ہے، کیا ڈرامے ہیں، ڈاکٹروں کے اپنے بیانات میں تضادات ہیں، کسی ہسپتال میں جانے کو تیار نہیں، یا تو پانچ چھ دنوں میں مشکل سے لاہور سے گجرانوالہ پہنچتا ہے اور یا جب گولی لگتی ہے تو اتنی تیزی سے دوڑتا ہے کہ ایک گھنٹے میں لاہور، قریبی ہسپتال بھی نہیں، اتنا بڑا حادثہ جس کی وجہ سے اسمان سر پہ اٹھایا گیا، پھر ہڈی کا علاج کینسر ہسپتال میں، پھر اُس کے ڈاکٹر کا رپورٹ اور، اور جو باہر سے ٹیم اٸی ہے اُس کا رپورٹ اور، واقعہ پنجاب کے سرزمین پہ، سیکیورٹی پنجاب گورنمنٹ کی، بندہ پنجاب پولیس نے پکڑا اور پنجاب کے تھانے میں لے گٸے، تفشیش بھی پنجاب کے پولیس نے کی، اور بغیر تحقیق کے ملبہ وزیراعظم پر ڈال دیا کہ اُن پر پرچہ کاٹا جاٸے، رانا ثناءاللّٰہ اور اٸی ایس اٸی کے ڈی جے سی پر پرچہ کاٹا جاٸے، کیا مطلب ؟ کس طرح آپ الزام لگا سکتے ہے، اِس طرح تو شاٸد عام دیہات میں جو لوگ ایک دوسرے پر دعویداری کرتے ہیں وہ بھی اِس طرح نہیں کرتے، ایسی گفتگو کہ کوٸی عام شہری بھی اُس کو قبول نہ کرے یہ ہمارے ملک کا ایک وزیراعظم رہ چکا ہے اور اُس منصب کو استعمال کررہا ہے، اِس قسم کی گفتگو وہ کرے ؟ کچھ تو معاملے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ہم لوگ اتنے غیر سنجیدہ ہوگٸے، ہمارا عام شہری بلکل غیر سنجیدہ ہوگیا ہے، سب لوگوں کو کنفیوز کردیا ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں اور ملک میں ہو کیا رہا ہے، اور میرے خیال میں اِس ایکٹنگ میں اُس نے شاٸد سلمان اور شاہ رخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، کوٸی اداکار بھی اِس طرح ایکٹنگ نہیں کرسکتا جس طرح اُس نے ایکٹنگ کرکے دکھاٸی اور اُس کو سچ بھی ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے، کبھی دوڑ کے چلتا ہے کبھی زخم کے اوپر پلستر ڈالتا ہے، یہ کون سا طریقہ ہے ہڈی ٹوٹتی ہے تو پلستر ڈالا جاتا ہے، زخموں پر پٹی باندھی جاتی ہے، اِس طرح کا ڈرامہ شاٸد دنیا میں کوٸی مچا سکے، اور پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ مار کہاں رہا ہوں اور اواز کہاں سے ارہی ہے، بارش کہیں اور ہوٸی اور گدھا کسی اور جگہ بہاکے لے گیا، تو اِس قسم کی کہاوتوں کا وہ مصداق بن رہا ہے، واقعہ اُدھر ہوا ہے ملبہ وفاق پر ڈال رہا ہے ۔
تو اِس قسم کی ڈرامہ بازیاں سمجھ میں نہیں ارہی، ساری دنیا کو چور چور کہنا، کوٸی وقار کی زبان بھی سمجھو، کوٸی وقار کی زبان بھی سیکھو، اور پھر سب سے بڑا چور خود نکل اتا ہے، اب بات بنیادی یہ ہے کہ پہلے تو اِس پر جے اٸی ٹی ہونی چاہیے کہ اُس نے جھوٹ کیوں بولا ہے، جھوٹا خط کیوں لہرایا تھا، ریاستی راز کو کیوں اِس طرح جھوٹ بناکے طشت ازبام کیا، غلط معنی پہناکے غلط پیغام سے اُس کو وابستہ کرکے کیوں لہرایا، سمجھ میں بات نہیں ارہی کہ کس کس بات کو رویا جاٸے، کس کس جھوٹ پر رویا جاٸے ۔
تو بنیادی چیز یہ ہے کہ اب اِس طرح سے معاملات نہیں چلیں گے، لانگ مارچ ناکام ہو چکا ہے، ٹھس ہو چکا ہے اب دوبارہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا اور شاٸد ڈرامے سے پہلے کچھ ہمدردیاں ہمیں بھی ہو جاتیں کہ بھٸی یہ واقعہ ہوگیا ہے تو اِس کے ساتھ نرمی ہونی چاہیے، تم نے وہ مواقع بھی گنوا دیے ہیں، اب حکیم ثناءاللّٰہ بھی اُس سے کٸی طاقتور نسخہ بناکے بیٹھا ہوا ہے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اسلام اباد میں اسکیں گے، اور میں اپنی حکومت اور وزیراعظم پاکستان کو کہنا چاہتا ہوں کہ کسی طریقے سے کوٸی نرمی نہیں دکھانی، ڈٹ جانا ہے اور پاکستان کی سیاست اور قوم کے ساتھ اسی طرح کی کھلواڑ کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی ۔
ان شاء اللّٰہ مقابلہ کریں گے، اور یہ کوٸی چیز اب نہیں رہے، ان شاء اللّٰہ العزیز پوری طرح مقابلہ ہوگا اور کوٸی رعایت اب اِن کو نہیں دی جاٸے گی اور اِن کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہاں زمین بہت سخت گرم ہے تمہارے تلوے اِس زمین کو برداشت کرنے کے قابل اب نہیں رہے ۔ بہت شکریہ
*سوال و جواب*
صحافی کا سوال: مولانا صاحب جس طرح آپ نے ابھی کہا کہ اُس کو اسلام اباد انے نہیں دیا جاٸے گا تو اُن کی حکومت میں آپ یہاں اٸے تھے لانگ مارچ کیا تھا، انہوں نے تو کچھ نہیں کہا تھا، دوسرا سوال میرا یہ ہے کہ ماضی میں آپ نے کہا تھا عمران خان کی حکومت کے پیچھے اداروں کا ہاتھ ہے اب وہ آپ پہ الزام لگا رہا ہے کہ اِس حکومت کے پیچھے اداروں کا ہاتھ ہے تو اِس میں کتنی صداقت ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دونوں بڑی واضح چیزیں ہیں ہم نے لانگ مارچ کا اعلان کیا، جہاں پر انتظاميہ نے کہا ہم وہی رکے، کراچی کوٸٹہ چترال گلگت گوادر سے لے کر جہاں جہاں سے قافلے اٸیں راستے میں ایک مسافر پاکستان کا بتادے کہ اُس کے سفر میں اُس کو کوٸی خلش ہوٸی ہو، کوٸی بس رکی ہو، کوٸی گملہ ٹوٹا ہو، کوٸی پتا گرا ہو، اور یہاں پر ہم اٸے پندرہ دن رہے، جس نظم و ضبط کے ساتھ، پولیس کی یہاں جو ڈیوٹیاں تھیں وہ ریلکس ہوگٸے، وہ ہمارے مظاہرین کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، ملکر نمازیں پڑھتے تھے اور بلکل شاٸستگی کے ساتھ معاملہ ہوا اور ہم چلے گٸے ۔
اُس کے بعد یہ اٸے، کورٹ نے کہا کہ اِن کو انے دو، حالانکہ اِن کے عزائم کا جب حکومت کو پتہ چل جاتا ہے، انٹیلی جینس رپورٹیں اجاتی ہے تو پھر اُس پر حکومت پالیسی اور حکمت عملی بناتی ہے، سو ہم نے حکمت عملی بناٸی لیکن کورٹ نے کہا کہ نہیں، انے دو، کورٹ کے حکم پر اٸے جو جگہ اُن کے لیے مختص کی گٸی کیا وہ وہاں رکے ؟ کیا وہ اگے نہیں بڑھے ؟ کیا وہ ڈی چوک پہ نہیں اٸے ؟ کیا بلیو ایریا میں انہوں نے اگ نہیں لگاٸی ؟ یہ ہوتا ہے فرق کہ آپ مجھے کہہ سکتے ہے تو میری پوزیشن یہ تھی اور ہم اِن کو دیکھ رہے ہیں تو اِن کی پوزیشن یہ ہے اور جہاں اداروں کی بات اتی ہے تو صاف بات ہے کہ ہماری شکایت یہ تھی کہ آپ اُس کی پشت پناہی کررہے ہیں، اُس کی شکایت یہ ہے کہ تم نیوٹرل کیوں ہو، تم میرا ساتھ دو، اِس فرق کو ذرا سمجھو، اب یہ کہتا ہے کہ ارمی چیف میری مرضی سے بنے، اگر اِس طرح مرضیوں سے بننا ہے تو پھر پپلز پارٹی کا اپنا ارمی چیف ہوگا، مسلم لیگ کا اپنا، ہمارا اپنا ارمی چیف ہوگا، تو پھر یہ تو عجيب فوج ہوگی، تو اِس قسم کی بے تکی اٸین سے ماوراء باتیں کرنا، مطالبات کرنا یہ اُس کو اپنا خوف نظر اتا ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب پاکستان میں جو گولی مارنے والی سیاست ہے اِس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی گولی مارنے والے سیاست میں آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے مجھ پر تین خودکش حملے ہوٸے، اکرم خان درانی پہ ہوٸے، مولانا عبدالغفور حیدری پہ ہوٸے، مولانا حسن جان ہمارے پارلیمنٹیرین تھے اُن کو شہید کیا گیا، مولانا معراج الدین ہمارے پارٹی کے تھے اُن کو شہید کیا گیا، مولانا نور محمد صاحب وانا کے اُن کو شہید کیا گیا، اور علماٸے کرام شیوخ الحدیث کہاں کہاں پر اُن کی شہادتیں ہوٸیں، اِس وقت ایک سال کے اندر باجوڑ کے اندر جمعیت علماء اسلام کا اگر ایک ساتھی جو ایک مہینہ پہلے بم دھماکے میں گاڑی اڑ گٸی اور وہ بچ گیا اگر وہ بھی شہید ہو جاتا تو یہ سترہ واں ہوتا، سولہ ہمارے علماء کرام شہید ہوٸے ہیں، ابھی ہم حج کے دنوں میں حج پہ تھے میر علی میں ہمارے تین زعماء شہید ہوگٸے، ایک ہمارے قومی اسمبلی کے کنڈیڈیٹ، ایک علاقے کا نو منتخب چیٸرمین اور ایک تحصیل سیکرٹری جنرل یہ شہید ہوگٸے اور دوسری علاقوں میں یہی صورتحال ہے، تو اِس کے دور میں تو ہمارے ساتھ وہ کچھ ہوا اور ابھی تک وہ سلسلے چل رہے ہیں، ہم یقیناً ایک بڑی مشکل میں ہے، یہ لوگ پہلے کیوں نہیں تھے اور جب حکومت تبدیل ہورہی تھی تو کیوں پاکستان میں اگٸے اور اُس سے بڑھ کر خطرناک صورتحال کیوں بن گٸی ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امن ہو جو بھی پاکستان کا شہری ہے وہ پرامن زندگی گزارے، عزت اور وقار کی زندگی گزارے، اٸین اور قانون کے تابع زندگی گزارے، کچھ غلطیاں ہیں جو ریاستی سطح پر بھی ہوتی ہیں اُس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اُس کا ازالہ کیسے کیا جاٸے وہ ریاست کی زمہ داری ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہم نے قربانیاں دی ہے، ہم امن و امان کے لوگ ہیں، آپ مجھے بتادے کہ جمعیت علما اسلام کے کسی ایک کارکن کے ہاتھوں پاکستان کا سیاسی مخالف نہیں کوٸی شہری اب تک متاثر ہوا ہو ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب اسی جگہ پر جب مریم نواز صاحبہ کا دروازہ توڑا گیا تھا کراچی میں، آپ نے یہاں پریس کانفرنس کی تھی اُس سے بڑھ کر اعظم سواتی کے ساتھ ہوا ہے، اُس کی ویڈیو اگٸی اور ظاہر ہے جہاں پر وہ موجود تھے انہوں نے خود اُس کی تصدیق کردی کہ یہ جگہ وہی ہے جو ویڈیو میں ہے کیا اِس کی فل کورٹ سے تحقیقات نہیں ہونی چاہیے ؟ کب تک ایسے سیاستدانوں کو بلیک میل کیا جاٸے گا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میں آپ سے ایک گزارش کرو ایسے واقعات کی میں ہزار دفعہ مذمت کرتا ہوں لیکن میں اِس پر مذید تبصرہ نہیں کرسکتا، اعظم سواتی کو اپنی حیا کتنی عزیز ہے یا نہیں ہے لیکن مجھے اُس کی حیا عزیز ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ نے ایک اصطلاح متعارف کراٸی تھی ”نکے دہ ابا“ تو نکے دہ ابا کی رخ اب آپ کی طرف ہے کہ عمران خان کی طرف
قاٸد جمعیت کا جواب: میں نے اُس کا جواب ابھی دے دیا ہے اگر ابے نے بقاٸمی ہوش و حواس برضا و رغبت اپنے نکّے کو عاق کردیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں ۔
صحافی کا سوال: اعظم سواتی والا ابھی جو معاملہ تھا اُس پر سپریم کورٹ کی طرف سے جو وضاحت اگٸی ہے کہ جو سپریم کورٹ کی ہسٹری لاجز ہے وہاں پر اعظم سواتی کبھی نہیں گٸے ایک تو یہ وضاحتی سٹیٹمنٹ اتی ہے، دوسری بات آپ یہ بتاٸیں کہ اِس وقت جو ملکی صورتحال ہے عمران خان نے ڈرامہ کیا یا کچھ اور لیکن معشیت کو نقصان ضرور پہنچا، الیکشن کی طرف بھی آٹھ یا دس ماہ بعد جاٸیں گے تو ملک سروایو کیسے کرے گا اگر خان کو ایک ساٸیڈ پہ کریں گے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: یہ حکومت میں تھا تب بھی اِس کا ایجنڈہ ملک کی معشیت کو تباہ کرنا تھا یہ حکومت سے نکلا تب بھی اِس کا ایجنڈہ ملک کی معشیت کو تباہ کرنے کا ہے یہ جو کچھ بھی کررہا ہے اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کررہا ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب خیبر پختونخواہ میں آپ کی ڈیمانڈ ہے کہ وہاں گورنر لگایا جاٸے اور ابھی تک وہاں گورنر نہیں ہے، آپ کی نظر میں گورنر نہ لگنے کی وجوہات کیا ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: اک ذرا صبر کے فریاد کے دن تھوڑے ہیں ۔
صحافی کا سوال: سننے میں یہ ایا ہے کہ جہاں پر وہ کھڑے ہوکر جلسوں میں بات کرتے ہے اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہی پر پس پردہ رابطے کیے جارہے ہیں، تو کس حد تک آپ کے ساتھ وزیراعظم یا سابق صدر زرداری کی بات ہوٸی کہ کوٸی سیف سیونگ دی جاٸے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: مجھے زرداری کیوں بتاٸے، مجھے شہباز شریف کیوں بتاٸے، جن سے وہ رابطے کررہے ہیں وہ خود ہی آپ کو بتارہے ہیں، اِس میں مجھے کہنے کی کیا ضرورت ہے ۔
صحافی کا سوال: میجر جرنل پر الزامات لگ رہے ہیں، اعظم سواتی اور عمران خان اُن کا ذکر کررہے ہیں، آپ کی پی ڈی ایم کی ساری قیادت اُس ارمی چیف پر الزامات لگاتی رہی اور فیض حمید کا تبادلہ بھی پی ڈی ایم کے پریشر کے بعد کیا گیا، آپ کیا کہیں گے کیوں کہ اِس قسم کے واقعات آپ نے سہے ہیں ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے میں ایک گزارش کرو ہمارا ایک ملک ہے میں کوٸی انڈیا کی فوج کی بات نہیں کررہا ہوں میں پاکستان کی فوج کی بات کررہا ہوں اُن کا میرے ساتھ رشتہ ہے، میں پاکستانی شہری ہوں وہ میری فوج ہے، میں کسی بھی جرنل سے گلہ شکوہ کرسکتا ہوں، لیکن خدانخواستہ اُس کے اوپر کوٸی الزامات لگانا، اُس کی کردار کشی کرنا، اُس کو گالی دینا ہماری سیاست کا حصہ نہیں ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتاٸیے گا کہ یہ جو بھی ایفیسوڈ ہوا ہے انڈین میڈیا میں جس طرح خوشی تھی اُس کو جس طرح اچھالا جارہا تھا جس طرح آپ نے ابھی بتایا بھی ہے، دوسرا وہ اِس پہ خوش ہوٸے کہ ڈی جی اٸی ایس اٸی کو اِس طرح سے رگیدا گیا، اور سر یہ بتادے کہ شہباز شریف نے سپریم کورٹ سے جو استدعا کی ہے اُس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میں نے یہ سنا ہے کہ ہندو ستان کے اداکار بڑے ٹاپ درجے کے اداکار ہیں، انہوں نے اپنے اداکاروں کی ایکٹنگ سے شاٸد اتنا انجواٸے نہیں کیا ہوگا جتنا ہمارے اِس ایکٹر کی ایکٹنگ سے انجواٸے کیا ہوگا، یہ ہے ہندو ستان کی پوزیشن، اِس سے زیادہ انجواٸمنٹ اُن کے عوام اور اداروں کی نہیں ہوسکتی جو اِس وقت اُن کی ہوٸی ہے ۔
جہاں رہی شہباز شریف کی بات تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ جب وہ واپس اٸے گے تو اِس پر گفتگو ہوگی، چوں کہ میرے علم میں ابھی تک وہ نہیں ہے وہ ملک سے باہر گٸے ہوٸے ہے، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ارشد شریف کا معاملہ ہے، ارشد شریف کے واقعے میں بنیاد یہ رکھی گٸی تھی کہ ہاں ہم نے ملک سے بھیجا ہے لیکن ایک تھریٹ لیٹر کی بنیاد پر بھیجا ہے ہمیں بتایا جاٸے تھریٹ لیٹر کدھر ہے ؟ ایک ہی کاپی ہے اور وہ چیف منسٹر کے پاس ہے، بھلا ایک ادارہ اگر تھریٹ لیٹر جاری کرتا ہے تو وہ اُسی کے پاس رہتا ہے ؟ تو وہ تو تمام اداروں کے چھوٹے چھوٹے افسران تک لوکل سطح پر پہنچ جاتا ہے تاکہ وہاں وہاں پر وہ دہش ت گردوں کا پیچھا کریں، لیکن یہاں کوٸی کاپی کسی کے پاس نہیں ہے لہذا ارشد شریف کے حوالے سے اگر تحقيقاتی کمیشن بنتا ہے تو ابھی سے ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ صوبے کے چیف منسٹر اور فیڈرل وزرا جو صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اُن کو شامل تفشیش کیا جاٸے اور بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ہم کچھ بناٸیں گے تو پھر ابتدا سے بناٸیں گے تم نے خط کیوں لہرایا، ملکی راز کیوں فاش کیے، جھوٹ کیوں بولا، بین الاقوامی تعلقات کیوں اِس حد تک پہنچاٸے کہ کوٸی ہم پہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے، یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جس کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اِس کی تحقيق ہونی چاہیے اور تحقیق ہوگی تو پھنس جاوگے، جس طرح پھنسے ہوٸے ہو، بند گلی میں جاچکے ہو، تمہارے لیے اب نکلنے کا راستہ نہیں ہے اور یہ آج کے نٸے دور کی اگر میڈیا نہ ہوتی تو آپ کی تو اواز ہی ختم ہوچکی ہوتی، جھوٹ کا سہارا لے کر تم اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہو، لہذا یہ کچھ بھی نہیں ہے ہمارے نزدیک اِس کی سیاست اب مرچکی ہے، اخری تڑپ ہے اور اِس کی سیاست مکمل طور پر ناکام ہے ۔
صحافی کا سوال: سر ارشد شریف پر سولہ ایف اٸی ار کاٹی گٸی تھی اور یہی اُس کی باہر جانے کی وجہ بنی، وہ جو ایف اٸی ارز صحافيوں کے خلاف کاٹی جاتی ہیں اُس کی آپ مذمت کرتے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: صحافيوں پر سب سے زیادہ ایف اٸی ارز، سب سے زیادہ تشدد، میڈیا پر سب سے زیادہ پابندی اِس کے دور میں لگی ہے ۔
صحافی کا سوال: آپ نے بات کی تھی ارمی چیف کی تقرری کے لیے، اگر پی ٹی اٸی کو مناٸے تو ایک اُن کا ہونا چاہیے، سر ارمی چیف تو پاک ارمی سے ہی انا ہے تو اُس کے لیے مل بیٹھ کر مسٸلے کا حل کیوں تلاش نہیں کیا جاتا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: حضرت مل کر بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ اٸین نہیں ہے، ہمارے ملک میں کوٸی اتھارٹی نہیں ہے، وزیراعظم نے اِس کا فیصلہ کرنا ہے اور اٸین کے مطابق کرنا ہے میرٹ پہ کرنا ہے اور بس بات ختم، جس کا صوابدید ہے اُس کو اختیار دینا چاہیے، جب یہ کسی کو مقرر کرتا تھا یا ایکسٹنشن دے رہا تھا تو کسی سے پوچھا تھا ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ نے کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ ہم اسلام اباد میں انٹر نہیں ہونے دیں گے، آپ انتشار کی بات کرتے ہے احتجاج تو اُن کا جمہوری حق ہے اگر آپ اُن کو اجازت نہیں دیں گے تو حکومت کوٸی انتشار نہیں پھیلاٸے گی ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے انہوں نے اسلحے کی بات کی یا نہیں کی، خون خرابے کی بات کی یا نہیں کی، اُن کے وزیروں کے بیانات اور صوباٸی وزیر کا اسلحہ لہراکے اسلام اباد جانا، تو اِس قسم کی باتیں وہ کریں گے اور اسلام اباد کی طرف اسلحہ لانے کی باتیں ہوگی اور باقاعدہ میڈیا پہ کہتے ہیں کہ ہم اسلحوں کے ساتھ اٸیں گے، اور پھر ایک دن پہلے اُن کا اپنا بندہ کہہ رہا ہے کہ یہ خونی لانگ مارچ ہوگا، یہاں جنازیں اٹھیں گے، لاشیں اٹھیں گے، کیا اسلام اباد کو ہم اِس چیز کا تماشہ بناٸے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پہلے بھی یہ ڈی چوک اٸے تھے اور پورے علاقے کو اگ لگادی تھی ۔
تو اِس قسم کی جو جنونیت اُس نے اپنے ماحول میں پیدا کی ہوٸی ہے، انتہا پسندانہ روش، الزام تو علماء اور مذہبی لوگوں پر لگایا جارہا ہے، یہ جو کہہ رہا ہے کہ میری تربیت اللّٰہ اُسی طرح کررہا ہے جس طرح نبی کی تربیت کرتا تھا، تو اب تک تو میرے خیال میں نعوذ باللّٰہ تربیت ہوتے ہوتے نبی بن چکا ہوگا، تو اِس قسم کی بونگیاں اور خلاف شریعت گفتگو کرنا، اور پھر اُس کے لوگ لانگ مارچ میں شریک خواتین اور نوجوان جس انداز سے پیش ہورہے ہیں اُس میں کہیں کو کوٸی ریاست مدینہ کا نقش نظر اتا ہے، کوٸی شریعت مطہرہ کا نقش نظر اتا ہے، بس ہر چیز کو مذہبی ٹچ لگاؤ، اور اب اپنے تحریک کو دہش ت گردی کا ٹچ لگادیا، تو اِس قسم کے چیزوں کو اسلام اباد میں انے کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک کے نظام کو جام کردیا جاٸے، ملک کا نظام ان شاء اللّٰہ العزیز چلتا رہے گا ۔
صحافی کا سوال: ملک کے موجودہ سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوٸے مفاہمتی سیاست کی کتنی ضرورت ہے اور بطور پی ڈی ایم سربراہ آپ اپنا رول اُس کے لیے ادا کرنے کو تیار ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے مفاہمتی لوگ جانے پہچانے ہوتے ہیں ہم نہ مذاکرات کا انکار کرتے ہیں نہ مفاہمت کا انکار کرتے ہیں لیکن مفاہمت کے لوگ جانے پہچانے ہوتے ہیں، سمجھ میں اتی ہے کہ ہاں اِس سے بات کروں گا تو کوٸی معقول بات کرے گا، تو جہاں پبلک کو آج تک ہم نے اُن کی کوٸی معقول بات نہیں سنی نہ ہی اُس کے اندر یہ صلاحيت موجود ہیں سواٸے تخریب کے، جب حکومت میں تب بھی تخریب، باہر ہو تب بھی تخریب، تو پھر تخریب کو مٹ جانا چاہیے ، تخریب کو تحفظ نہیں ملنا چاہیے ۔
صحافی کا سوال: یہ بتاٸیے گا کہ نومبر ہی میں دھرنے ہوتے ہیں، جلسے ہوتے ہیں، مظاہرے ہوتے ہیں، یہ جو نومبر کے جلسے ہیں یہ مسٸلہ حل کیوں نہیں ہوتا، آج تو مخلوط حکومت ہے تمام سیاسی جماعتيں ایک طرف ہیں کم از کم اِس مسٸلے کو مستقل طور پر حل کردیں، سیاسی جماعتوں نے اِس پر کبھی نہیں سوچا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: موسم اچھا ہوتا ہے (شرکاء کی قہقہوں کی اوازیں)
صحافی کا سوال: مولانا صاحب جب آپ نے دھرنا دیا تھا تو آپ کے کنٹینر سے اعلان ہوا تھا کہ ہم دو دن بعد ڈی چوک جاٸیں گے، ابھی تو آپ دھرنے سے باہر اٸے ہیں تو اُن طاقتوں کا نام لیں گے جنہوں نے آپ کو دھرنا ختم کرنے پر مجبور کیا ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے نوجوانوں کی نعریں لگتی ہے لیکن جو پالیسی تھی اور کنٹینر کی جو پالیسی تھی اُس کے مطابق ہم چلے ہیں ۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں