قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں ترقیاتی کاموں کے افتتاحی تقریب سے خطاب تحریری صورت میں 25 جولائی 2023


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں ترقیاتی کاموں کے افتتاحی تقریب سے خطاب 
25 جولائی 2023 

الحمدللہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، وعلی الہ وصحبہ ومن تبعہ باحسان الی یوم الدین۔

گرامی قدر، عزت مآب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب، ہمارے نہایت قابل احترام جناب خرم دستگیر صاحب، انتہائی قابل احترام جناب مصدق ملک صاحب، گورنر خیبر پختون خواہ جناب حاجی غلام علی صاحب، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جناب زاہد درانی صاحب، پنڈال میں موجود وفاقی اور صوبائی اعلیٰ حکام، جنوبی اضلاع کے قومی عمائدین، علمائے کرام، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! میں دل کی گہرائیوں سے تمام معزز مہمانوں کو اور بالخصوص وزیراعظم پاکستان کو ڈیرہ اسماعیل خان تشریف اوری پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ 16 ماہ میں یہ غالباً تیسرا یا چوتھی مرتبہ ہے، وزیر اعظم کو ہم تکلیف دیتے ہیں، وہ صرف تشریف ہی نہیں لاتے ہیں بلکہ بھر پور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پسماندہ علاقے کی ترقی میں دلچسپی بھی لیتے ہیں اور عملی اقدامات بھی کرتے ہیں، جسے ہم انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 
میں آپ کا یہاں مقامی طور پر آپ کا بھائی بھی ہوں، آپ کی طرح میں میزبان بھی ہوں اور سعادت سمجھتا ہوں کہ اس پسماندہ علاقے کے لیے، جتنی زندگی ہے وہ اسی کے لیے وقف کر دوں۔ 2017 اور 18 میں جناب میاں محمد نواز شریف صاحب ہماری دعوت پر تشریف لائے تھے، بنوں بھی تشریف لائے تھے، یہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی تشریف لائے تھے اور انہوں نے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، کچھ پر آغاز بھی ہوا لیکن بعد میں ایسی حکومت آئی، جس نے ترقی کا پہیہ جام کر دیا۔ آپ گواہ رہے اس بات کے کہ گزشتہ حکومت کے پورے دورانیے میں کسی ایک بھی میگا پروجیکٹ کا افتتاح کسی نے نہیں دیکھا ہو گا اور اس ایک گزشتہ سال میں اسی ڈیرہ اسماعیل خان میں آپ نے کتنی بار وزیراعظم کو دیکھا اور کتنی بار بڑے بڑے منصوبوں کا یہاں اعلان بھی ہوا اور صرف اعلان نہیں ہوا، اس پر کام بھی شروع ہوا ہے، ٹینڈرز بھی ہو گئے ہیں اور ٹھیکیدار کام بھی شروع کر چکے ہیں۔ 
میں تمام محکموں کے افسران کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس پسماندہ علاقے کو ترقی دینے کے عمل میں اپنے فنی مہارت کا مظاہرہ کیا اور پوری دیانت داری کے ساتھ ترقی کے اس عمل میں اپنی تمام تر توانائیاں شریک کئیں۔
اس وقت اسعد کے نگرانی بھی جو منسٹری ہے کیونکہ میں اس کو براہ راست بھی دیکھتا ہوں صبح شام سب کچھ میرے سامنے ہوتا رہتا ہے، خرم آغا صاحب کا بھی دل سے قدر کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے خواہشات، ہماری ضرورتوں میں ناخن برابر بھی بخل سے کام نہیں لیا اور پورے فراخ دلی کے ساتھ انہوں نے تمام تر فنی مہارت ہمارے علاقے کی ترقی کے لیے وقف کی، میں ان کا دل سے شکر گزار ہوں اور تمام کا شکر گزار ہوں۔ 
جناب وزیر اعظم صاحب! میں کسی زمانے میں جب پارلیمانی سیاست سے تھوڑا مانوس ہوا اور پارلیمانی سیاست میں میرا عمل دخل بڑھا، کچھ دنیا کو میں نے سمجھا، تو میرے ذہن میں اس خطے کا ایک مستقبل آیا، مستقبل کا ایک تصور آیا، اور میں یہاں پر جلسوں میں اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ میرے ذہن میں جو نقشہ ہے، اگر میں اس میں کامیاب ہو جاؤں تو آج جس خطے کو سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ تصور کیا جا رہا ہے، میں اس کو پورے پاکستان کی تجارت کا جنکشن بناؤں گا اور الحمدللہ  آج میرا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے، مجھ سے زیادہ قلبی خوشی کس کو حاصل ہو سکتی ہے کہ جس کے خواب روز بروز پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اور میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک کے باسی ہیں، اور ہم نے اس ملک میں سیاست کی ہے، اور بڑے غیرت کی سیاست کی ہے، سر جھکا کر سیاست نہیں کی، سر اٹھا کے سیاست کی ہے، اور جن لوگوں نے پاکستان کی ترقی کے پہیے کو جام کیا، ہم نے پوری استقامت کے ساتھ ان نااہلوں کا مقابلہ کیا، اقتدار کی کرسی سے کھینچ کر باہر پھینکا، اور اگر کل کوئی ایسے لوگ مسلط کیے گئے، تو میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے کہ ان شاءاللہ اس کو بھی گریبان سے پکڑ کر نکالیں گے، اور ایسے لوگوں کو ملک پر حکومت نہیں کرنے دینگے۔ 
میرے ساڑھے تین سال کی پوری دنیا گواہ ہے، اور یہ اللہ کی مدد سے، اس کے بغیر نہیں ہو سکتا، ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں ہے، ہمارے پاس نیت تھی، ہمارے پاس جذبہ تھا جس نے ہمیں میدان میں اتارا، گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا ہوا ہو، جو کیفیت بھی ہو ہم روڈوں پر رہے اور ہم نے دنیا کو بتایا کہ ناجائز حکومت کو چیلنج کرنے والے اس طرح ہوا کرتے ہیں۔ ہم نے کل بھی ناجائز حکومت کو چیلنج کیا، ہم آج بھی بتاتے ہیں کہ کوئی یہ بات نہ سوچیں کہ کل ملک پر کوئی ناجائز حکومت مسلط کر سکے گا، ہم جنازہ اٹھا کر باہر پھینکیں گے، ہم بڑے لڑنے والے لوگ ہیں، لڑنے کا تجربہ ہے، دوستی کا تجربہ بہت کم ہوتا ہے، ہمیں پورے غیرت کے ساتھ، ہم نے مل کے چلنا ہے ان شاءاللہ، اس خطے کے غریب عوام کے لیے، جناب وزیراعظم پاکستان میں آپ کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتا ہوں یہ وہ علاقہ ہے کہ جس کو ہم دامان کا علاقہ کہتے ہیں، آج بھی دور دراز کے علاقوں میں آپ جائیں، آج بھی لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے، وہ جوہر کا پانی پیتے ہیں اور اس پر زندگی گزارتے ہیں، یہ قابل رحم لوگ ہیں، مجھے خوشی ہے۔
 میں نے حکومت کی تبدیلی کے بعد، پرائم منسٹر صاحب کے ایک اجلاس میں یہ عرض کیا تھا کہ ملک کو معاشی طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، معیشت کا ڈھانچہ بیٹھ گیا ہے، اور شاید ہم معیشت کو بحال کرنے کی طرف جانے کی بجائے مزید بھی اس دلدل کی طرف جائیں گے لیکن ہمیں متبادل سوچنا پڑے گا، اگر ہم لوگوں کو مہنگائی سے نہیں رو سکتے، مہنگائی کا پہاڑ پوری قوم کے اوپر گرایا گیا، تو ہمیں متبادل سوچنا ہوگا، ہمیں نئے پروجیکٹس دینے ہوں گے، ہمیں نئے منصوبے دینے ہوں گے، تاکہ غریب لوگ، مزدور، محنت کش وہاں جا کر کمائے اور اپنے خاندان کی کفالت کر سکے۔ آج الحمدللہ پورے پاکستان میں میگا پروجیکٹس پر دوبارہ کام شروع ہوگیا ہے۔ پرائم منسٹر صاحب خود بھی چائنہ گئے ہیں، میں نے بھی یہاں پر ان کے لوگوں سے میٹنگز کی ہیں۔ سعودی عرب کی صورتحال تو بھی آپ جانتے ہیں، دبئی کی بھی، یہ پاکستان کے دوست ہیں، یہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ہم سے یہ بھی پوچھتے ہیں، کہ اگلا نظام کیا ہوگا؟ اگر اگلے نظام میں پھر یہی لوگ آتے ہیں، جنہوں نے پیسہ روکا ہوا ہے، وہ ہماری مالی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، آپ نے پہلے بھی ہمارا پیسہ ضائع کیا، آپ ائندہ بھی ان نااہلوں کے ذریعے ہمارا پیسہ ضائع کریں گے۔ لہٰذا یہ قوم کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ نااہلوں کا راستہ رو کے یہ ان کا حق ہے، الیکشن ان کا حق ہے، وہ ضرور قوم کو ملے گا اور ان شاءاللہ بہت جلد ملے گا لیکن عوام بھی ذرا سوچیں کہ ملک کی ترقی کو جام کرنے والے وہ دوبارہ قوم کے نمائندہ بننے کے حقدار نہیں۔ 
میں خود گوادر گیا ہوں، میاں نواز شریف صاحب افتتاح کر رہے تھے، ہم نے وہاں سے تجارتی جہاز روانہ کیا لیکن ساڑھے تین سال کے بعد جب ہم ابھی گئے ہیں، وہاں پر تو مٹی کنارے پہ آتے آتے ہماری وہ بندرگاہ کہ جو خطے میں سب سے گہرا ترین سمندر ہے، دبئی سے بھی زیادہ، چاہبہار سے بھی زیادہ، بندر عباس سے بھی زیادہ، کراچی سے بھی زیادہ، چاٹگام سے بھی زیادہ، کلکتہ سے بھی زیادہ گہرا سمندر ہمارے پاس گوادر کا ہے، لیکن اب اس کی سطح کہیں پر 9 فٹ رہ گئی کہیں پہ 11 فٹ رہ گئی ہیں، اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے اس ملک کے ساتھ۔ 
بین الاقوامی ترجیحات کیا تھی، سی پیک کا حامی ہمارا دشمن، سی پیک کا دشمن ہمارا ساتھی، انہوں نے سی پیک کو روک کر اپنے آقاؤں سے وفاداری نبھائی ہے اور ہم انہیں کہنا چاہتے ہیں کہ ہم تو ہیں کہ جنہوں نے انگریز آقا کو اپنی سرزمین سے نکالا اور آج ہم کسی آقا کو پاکستان پر مسلط نہیں ہونے دینگے۔ 
ہم پوری دنیا سے دوستی چاہتے ہیں، بڑا ملک ہو یا چھوٹا ملک، ہم اس سے دوستی مانگتے ہیں لیکن آقا اور غلام کے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔ جنگ ہے، جاری رہے گی، چلتی رہے گی۔ مچھلی سے سمندر نے پوچھا، کہ تم کب تک تیرتے رہو گے؟ تو مچھلی نے جواب دیا کہ جب تک تیرے اندر موجیں مارنے کی طاقت ہے تب تک میرے اندر تیرنے کی طاقت ہوگی، جب تک تمہارے پاس ظلم کرنے کی طاقت ہے اس وقت تک ہمارے پاس ظلم کے خلاف لڑنے کی طاقت ہوگی۔ 
ہمارا ایک سلسلہ ہے اور ہم اپنے اس سلسلے اور اس کے کردار پر فخر کرتے ہیں، یہ ملک ہمارا ہے، کسی کی جاگیر نہیں، الحمدللہ اس وقت میں دیکھ رہا ہوں کہ اس پسماندہ علاقے میں کیا کیا ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ آپ کے علم میں لایا بھی گیا ہے، سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے، بنوں لنک روڈ سے کرک کے ضلعے سے ہوتا ہوا لکی مروت تک اور آگے سی پیک سے اس کو لنک کیا جا رہا ہے، ایک بہت بڑا منصوبہ جو ہمارے تین اضلاع کو کور کر رہا ہے اور یہ وہ روڈ ہے، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بنوں سے آگے جائے گا، یہ میران شاہ اور غلام خان تک جائے گا، یہ افغانستان تک جائے گا اور یہ وسطی ایشیا تک ہماری رسائی کا راستہ ہوگا ان شاءاللہ۔
یارک سے ژوب تک، اس وقت سی پیک سبگو تک کے ٹینڈر ہو چکے ہیں، آگے بڑھایا جائے گا اور 280 کلومیٹر سڑکوں کا اضافہ کیا گیا ہے، ژوپ تک یہ سڑک پہنچے گی اور اس سے آگے ان شاءاللہ العزیز پھر گوادر تک یہ سڑک پہنچی جائے گی اور جس کا آغاز ہوا تھا ہر چند کہ اس میں تاخیر ہوئی ہے لیکن ہم نے حوصلے نہیں ہارہے ان شاءاللہ، ہم پاکستان کو یہ عظیم الشان تجارتی شاہراہ دیں گے۔ اس حوالے سے میں پرائم منسٹر صاحب کے نوٹس میں بھی یہ بات لانا چاہتا ہوں اور خصوصی طور پر لانا چاہتا ہوں کہ یہاں پر ایک بہت بڑی زمین ڈیرہ اسماعیل خان نے اور ایک بہت بڑی زمین بنوں نے صنعتی علاقے کے طور پر مختص کی ہے اور یہاں پر بہت بڑا ایک انڈسٹریل سٹیٹ بنے گا، یہ خطے کے دو بڑے انڈسٹریل ہب ہوں گے، جو اس خطے کی تقدیر کو تبدیل کر دیں گے اور جہاں آپ بیٹھے ہیں، کوہ سلیمان سے نیچے دریائے سندھ تک اس پورے میدان کو دامان کہا جاتا ہے، پہاڑوں سے پانی آتا ہے، کبھی سیلابی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے ورنہ یہ ہمارے علاقے کے لوگوں کا زراعت کی ضرورت ہے، گومل زام بن چکا ہے، اگر ٹانک زام بھی بن جائے، نواب حیدر زام بھی بن جائے، چودوان زام بھی بن جائے، درابڑ زام بھی بن جائے، فرسٹ لفٹ کنال بھی ہمیں مل جائے، چشمہ ریٹ بینک کینال کے نام پہ، سیکنڈ بھی ہمیں مل جائے، تو ہم آپ کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ایک ہی سرزمین ہے جو بیک وقت 12 لاکھ ایکڑ اراضی آپ کو نہریں بنا کر دے سکتے ہیں، ہم اپنے وسائل سے کریں گے، لیکن ہمیں پیسہ چاہیے اگر آپ کہیں سے بھی امداد طلب کریں یا حکومت پاکستان اس کے لیے کوئی ارینجمنٹ کرے، میرے خیال میں اس وقت پاکستان میں اتنی بڑی زمین بیک وقت شاید آپ کو میسر ہو سکے، اور پھر ہم یہاں پر ایک زرعی صنعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر گنا پیدا ہو رہا ہے، کوئی چار ہمارے پاس ملیں ہیں چینی کی، ہم مزید استطاعت رکھتے ہیں، یہاں کپاس پیدا ہو سکتا ہے، ٹیکسٹائل ملیں لگ سکتی ہیں، لیکن ہم نے ایک مطالبہ آپ سے کیا ہے اور میں شکر گزار ہوں کہ ہمارے جناب سعد رفیق صاحب نے اسمبلی میں اس کا اعلان بھی کیا، ہم یہ سوچتے ہیں کہ ریجنل ایک کارگو ایئرپورٹ کہ جو ہمارے یہاں کی پیداوار کو صرف زمینی راستے سے نہیں ہوائی راستے سے بھی وسطی ایشیا تک اور مشرقی وسطیٰ تک پہنچا سکے، یہ علاقہ ہوائی راستے سے بھی اور زمینی راستے سے بھی ملک کے لیے ایک تجارتی راستہ بن جائے گا، میں شکر گزار ہوں آپ کا کہ آپ نے اس پر ہمیں مثبت جواب دیا ہے، اور ان شاءاللہ یہ بھی ہوگا اور خدا کرے کہ ہمیں قوم جب مزید خدمت کا موقع دے گا، تو اسی طرح ترقی کی رفتار آگے بڑھے گی اور جعلی حکومت نہ پہلے مانی ہے اور جعلی حکومت نہ آئندہ مانیں گے۔ 
اسی طریقے سے شمالی وزیرستان میں آپ حضرات ایک پیر روشان انسٹیٹیوٹ بنا رہے ہیں، یہ بھی ہم نے آپ سے ڈیمانڈ کیا تھا اور آپ نے اس کی منظوری دی تھی، جس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ وزیرستان میں شوا کے مقام پر جو گیس آئی ہے، اس کی کوالٹی بہت اعلیٰ ہے اور یہ سوئی سے بھی زیادہ اس کی کیپیسٹی ہے لیکن ایک گزارش کروں گا جناب وزیراعظم صاحب، مصدق ملک صاحب سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس تمام معدنی ذخائر پر پہلا حق اس خطے کے بچوں کا ہے، ان کے والدین کا ہے، ان کے خاندانوں کا ہے، پہلے یہاں کی ضرورت پوری کریں، علاقے کی، بنوں کی ضرورت پوری کرے، کرک کی ضرورت پوری کرے، لکی مروت کی ضرورت پوری کرے اور لکی مروت میں جو گیس کی ذخائر پیدا ہوئے ہیں، وہی ان کے حقدار ہیں، ہمارے ایم این اے مولانا انور صاحب یہاں موجود ہیں، میں نمائندے کی موجودگی میں اس بات کا اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں، جناب وزیراعظم کہ ہمارے اولین حق کو تسلیم کیا جائے اور پہلی ترجیح یہاں کی مقامی آبادی ہونی چاہیے۔
ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج امن و امان کا مسئلہ بھی ہے، ہر چند کے ہمیں کہا گیا کہ ہم ان کے قیام میں کامیاب ہو گئے، لیکن دوبارہ کیوں بدامنی شروع ہو جاتی؟ اس پر ہمیں بڑی گہرائی کے ساتھ سوچنا پڑے گا اور میرے پاس کچھ تجاویز بھی ہے، جو شاید سرعام کہنا مناسب نہیں ہے کہ کہہ لیں جب تک کہ آپ سے مشاورت نہ ہو جائے، اور آپ کی رائے اس پر نہ لی جائے۔ 
جناب وزیراعظم آپ تشریف لائے تھے، سیلاب کے دنوں میں آپ نے متاثرہ لوگوں کے لیے کچھ معاوضات کا اعلان کیا تھا لیکن اس وقت تک وہ معاوضات لوگوں کو نہیں مل سکے، جزوی طور پر ضرور ملیں ہوں گے لیکن مجموعی طور پر ابھی تک لوگ منتظر ہیں کہ ہمیں اپنے نقصانات کا معاوضہ کب دیا جائے گا؟ 
سیلاب کے دنوں میں ہمارے علاقے کے سڑکیں ٹوٹ گئی ان سڑکوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے آپ نے وعدہ کیا تھا کہ یہ ہم بنائیں گے اور صوبائی حکومت نے این او سی بھی جاری کر دی ہے اس حوالے سے تو ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ اس پر فوری عمل درآمد شروع کیا جائے تاکہ لوگوں کے آمد و رفت میں آسانی ہو، ابھی تک سڑکے اسی طرح ٹوٹی پڑی ہوئی ہے اور اس کی تعمیر پر کام شروع نہیں ہوا۔
 جناب وزیراعظم صاحب محکمہ موسمیات بتا رہا ہے کہ شاید اگلے مہینے تک لمبے عرصے تک بارشیں ہوں، وہ سیلاب بھی بارشوں کی وجہ سے آیا تھا، لیکن ابھی تک آنے والے دنوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات نہیں ہوئے ہیں، اس سے بچاؤ کے لیے بھی اقدامات ہونے چاہیے، اس وقت جو گلیشیر پگھلے ہیں، دریاؤں میں پانی بڑھ گیا ہے، کچھ دیہاتوں میں داخل ہو گیا ہے، ہمارے صوبے کا چترال بری طرح اس وقت متاثر ہے اس سے اور ہم سوچتے ہیں کہ اس حوالے سے پیشگی اس کا راستہ روکنا چاہیے، انسانی جانوں کے تحفظ کا انتظام کرنا چاہیے اور ان علاقوں کو اس کے سیلابوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی ایک بھرپور کوئی کاروائی ہونی چاہیے اس پر کام ہونا چاہیے۔ میں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں، میں نے کچھ وقت زیادہ لے لیا ہے لیکن کوشش کی ہے کہ
 شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
 ان شاءاللہ اب تک جو آپ نے ہمارے علاقے کو ترجیح دی ہے اور بار بار تشریف لائے ہیں، میں ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں اور ان شاءاللہ اسی جذبے کے ساتھ اب مل کر اس پسماندہ علاقے کو ترقی دیں گے اور اس کی محرومی کے احساسات کو دور کریں گے۔ ان شاءاللہ العزیز یہ سفر جاری رہے گا اور ہم اکٹھے یہ سفر جاری رکھیں گے ہم مل کر ان شاءاللہ پاکستان کی ترقی کے اس سفر کو آگے بڑھائیں گے۔ بین الاقوامی تعلقات کو اور خطے میں تعلقات کو اور دوست ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کریں گے اور ان کے اعتماد کو بحال کریں گے۔
 اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو
 واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں