قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا ملتان میں ہنگامی پریس کانفرنس
10 اکتوبر 2023
کس منہ سے یہ لوگ دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، یہ خود انسانی حقوق کے قاتل ہیں۔ تمام تر مظالم کے برداشت کے بعد آج پہلی مرتبہ غزہ سے اسرائیل کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے، فلسطینی مجاہدین نے جس حکمت عملی کے ساتھ اور جس بھرپور تیاری کے ساتھ، اپنی سرزمین کو آزاد کرنے کے لیے اقدام کیا ہے، ظاہر ہے کہ امت مسلمہ کو ان کی پشت پہ کھڑا ہو جانا چاہیے۔ او آئی سی کا فوری طور پر اجلاس بلانا چاہیے اور نئے زاویے کے ساتھ اپنا موقف متعین کرنا چاہیے۔ یہ جو رویہ ایک عرصے سے ہم دیکھ رہے تھے کہ ہر طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہوتی رہیں اور امریکہ قوت بازو کے ساتھ عرب ممالک کی گردن مروڑ کر ان سے اس اسرائیل تسلیم کرا رہا تھا، پاکستان پر بھی اس کا دباؤ رہا، یہاں بھی پچھلی حکومت نے اس لابی کو آزاد چھوڑا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کہ یہاں پر ترغیب دلائی، اس کی لابنگ کرتے رہے، میڈیا پہ آتے رہے، لیکچر دیتے رہے، پاکستان کی معیشت کی بہتری کا خواب اسرائیل کو تسلیم کرنے میں دیکھتے رہے، تو یہ سراب تھا، یہ ایک خواب تھا، جو آج اس حملے نے اس خواب کو پریشان کر دیا ہے اور اس سراب کو انہوں نے بے نقاب کر دیا ہے۔ ان حالات میں امت مسلمہ کا فرض ہے کہ سیاسی لحاظ سے بھی ان کی مدد کریں، مالی لحاظ سے بھی ان کی مدد کریں اور جس طرح انہوں نے اپیل کی ہے کہ پورے عرب دنیا اسرائیلی سرحداد کی طرف مارچ کرے میں سمجھتا ہوں کہ پورے عالم عرب کو اس پر لبیک کہنا چاہیے، اور ان کی پشت پہ کھڑا ہو جانا چاہیے۔ اسلامی دنیا کو ایک قوت بن کر، ایک جسم بن کر، اس مسئلے پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔ پاکستان کا موقف بھی کوئی زیادہ اطمینان بخش بخش نہیں آیا ہے اور اس میں بھی کچھ بینا بین کی باتیں ہو رہی ہیں، جبکہ مودی نے بڑے وضاحت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کو بڑے غیر مُبہم الفاظ کے ساتھ فلسطین کے ساتھ، فلسطینی کاز کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستان کا جو اس مسئلے کے حوالے سے اثاثی موقف رہا ہے، اس کو ہم کئی حوالوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ 1940 کی قرارداد جس میں اس بات کا اضافہ کیا گیا تھا اور خود قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا اضافہ کیا تھا کہ فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیاں قائم کرنے کا جو عمل ہے وہ ناجائز ہے اور ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سن 1967 میں اور اس کے بعد دو جنگوں میں پاکستان کی فوج وہاں لڑی ہے، پاکستان کی فضائی وہاں لڑی ہے، ہمارے پاکستانی پائلٹس نے ان کے جہاز گرائے ہیں، یہ بھی پاکستان کا ایک زمانے میں روش رہی ہے، ہمیں اس روش پر واپس آجانا چاہیے، کم از کم ہمارا موقف واضح ہو جانا چاہیے۔ تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے واضح موقف کے ساتھ ہمیں اپنی اسلامی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
صحافی کو جواب: اس پہ اسٹیبلشمنٹ کا اپنا اثر رسوخ ضرور ہوتا ہے اور اس کو اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیے، بڑے وضاحت کے ساتھ، ابہام نہیں ہونا چاہیے ہمیں۔
صحافی کو جواب: حضرت اس پر میں کیا بیان کروں، ہم نے سارے کام اکٹھے کیے ہیں، پیپلز پارٹی نے کابینہ میں بیٹھ کر نئی مردم شماری کے تحت فیصلے میں شریک رہی ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کرائے جائیں۔ اب نئے مردم شماری کے تحت، تو پھر نئے حلقہ بندیاں ہوں گی، نئے حلقہ بندیوں پر آپ کو لوگوں کو اعتراض کا نیا وقت دینا پڑے گا، یہ سارے معاملات اس کے لوازمات میں سے ہے۔ اب اندر جو ہے وہ ایک فیصلہ کر کے آتے ہیں پھر باہر آکر سیاست کرنے کے لیے وہ دوسری بات کر لیتے ہیں، میرے خیال میں ہمیں صاف گوئی سے کام لینا چاہیے، اتفاق رائے کے ساتھ نئے پردم شماری کے تحت سب نے اتفاق کیا تھا، الیکشن کمیشن اسی کے تحت کام کر رہی ہے۔ ابہام کیوں پیدا کیے جا رہے ہیں! الیکشن کل کراؤ تو ہم کل بھی تیار ہیں لیکن اگر ہو سکے۔
صحافی کو جواب: الیکشن تو ہونگے ہی ہونگے، لیکن اگر میں نے اتنی سی بات کی ہے کہ اگر جنوری کے آخر میں ہوں گے تو آدھے ملک میں تو برفباری ہوگی، جہاں آبادی ہی نہیں ہے۔ آپ خضدار سے لے لیں، پورا بلوچستان، پھر آپ وزیرستان سے لے لیں چترال تک، پھر وہاں سے لے لیں آپ پورا سوات، کوہستان، ایبٹ آباد، مری تک۔ یہ سارے علاقے وہ ہیں کہ جہاں آبادی نہیں ہوتی، ان دنوں میں اور اُتر آتے ہیں اپنے علاقوں سے، اور وہاں برف ہوتی ہے۔ تو کیا یہ لوگ ووٹ کا حق نہیں رکھیں گے؟ خواتین کے بارے میں تو آپ کہتے ہیں کہ اتنی فیصد وہاں پولینگ سٹیشن کو ووٹ نہ پڑے تو دوبارہ کرائے جائیں گے۔ جہاں انسانی ہی نہ ہوں، ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں۔
صحافی کو جواب: جی ان کے ساتھ جو رویہ روا رکھا گیا ہے وہ ہماری روایات کے خلاف ہے، نہ ہمارے قومی روایات اس کی تائید کر سکتی ہیں، نہ ہماری اسلامی روایات اس کی تعریف کر سکتی ہیں۔ آپ اپنے گھر میں ایک شخص کو مہمان ٹھہراتے ہیں اور مہمان کو جب آپ ایک سال کے بعد بھی سہی، گھر سے نکالتے ہیں اور لات مار کے نکالتے ہیں، تو مہمانداری تو گئی ہے آپ کی! تو ہمیں سلیقے کے ساتھ کوئی ایک پالیسی بنانی چاہیے، جبر اور تشدد جو ہے وہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پہلے اپنے مسائل تو حل کرو، اپنے ملک کو ٹھیک کرو، پھر دوسرے ملک کے ساتھ پنگا لو۔
صحافی کو جواب: یہ ٹھیک ہے، لیکن حکومت نے انہیں تھوڑی بھیجے ہے وہاں سے، اگر وہاں سے آئے ہیں، تو میں کہاں تھا! میں نے کیوں نہیں روکے! اور پھر کیا وہاں شکایات نہیں ہیں! وہاں جو حملے ہوتے ہیں، اس میں پاکستانی نہیں پکڑے جاتے۔ تو یہ جو طالبان کا تصور ہے یا جو ایک مسلح گروہ کا تصور ہے، یا آپس میں گڑبڑ ہے۔ ان کو وہاں جانے کا راستہ کیسے ملتا ہے؟ ان کو وہاں سے آنے کا راستہ کیسے ملتا ہے؟ اگر ان کا قصور ہے تو پھر ہم نے کیوں نہیں روکا، اگر ہمارا قصور تو انہوں نے کیوں نہیں روکے۔ سوالات دونوں طرف سے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں ہمیں اس پر بڑے ذمہ دارانہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔ طالبان نے نئی نئی حکومت سنبھالی ہے، وہاں تو شاید میرے خیال میں ابھی تک اتنا تجربہ نہیں آیا ہے، لیکن ہمارے ہاں بڑا تجربہ ہے، بڑا تحمل ہے، ذمہ داری کا احساس ہے، ہمیں اپنے حوالے سے سوچ کر معاملات طے کرنے چاہیے۔
صحافی کو جواب: بالکل ہونا چاہیے، میں تو یہ نہیں سوچ سکتا کہ کسی پارٹی کے لیے ماحول اچھا ہو کسی کے لیے خراب ہو، پھر ایک جیسا ماحول ہونا چاہیے۔
صحافی کو جواب: الیکشن کمیشن تو معمول کے مطابق کر رہے ہیں، کوئی ایسا نہیں ہے کہ یہ لفظ جو ہماری اصطلاحات میں آیا ہے، ہم اس سے پہلے بھی یہ کام کرتے تھے۔
صحافی کو جواب: بڑا جھوٹ بولا تھا اس نے، ایک غیر ضروری کاغذ اٹھا کے اس نے اس کو ایشو بنایا۔ امریکہ کا چمچہ، امریکہ کا یہاں پر نمائندہ اور اس کا پُتلا، وہ امریکہ کے خلاف چورن بیچ رہا تھا، کہ پاکستان میں ذرا یہ چور اچھا بکتا ہے تو انہوں نے چورن بیچنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایسی باتوں سے کہ جس میں عالمی تعلقات پاکستان کے متاثر ہو سکتے ہوں، اور کون سی جھوٹ بولا جاتا ہے، تو یہ کوئی ایسی بات تو نہیں ہے کہ ہم اس کو صرف ایک کاغذ ہی قرار دیں، اتنا بڑا جھوٹ پاؤں کے سامنے بولنا اس پر ظاہر ہے قانون تو کچھ کہتا ہو گا جی۔
صحافی کو جواب: دیکھیے یہ ان کا مسئلہ ہے، وہ کیا پالیسی بناتے ہیں، وہ دوسروں کو دعوت دیتے ہیں یا نہیں دیتے، ابھی تک تو وہ خود اپنی پارٹی کے حوالے سے کر رہے ہیں۔
صحافی کو جواب: نہیں نہیں! میرے خیال میں عزت دو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اس وقت تھا جب وہ ووٹ کی عزت کو خطرہ تھا جن سے، اب جب وہ ہٹ گئے ہیں تو میرے خیال میں جب وہ خطرہ نہیں رہا تو ضروری ہے کہ بات وہی دوہراتی جائے! اس سے ہٹے تو کوئی بھی نہیں ہے، ہم بھی نہیں ہٹے اس سے۔
صحافی کو جواب: دیکھیے قانون کا مسئلہ ہے میری خواہشات کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، میں تو یہ کہتا ہوں کہ میں زیادہ بولتا بھی نہیں ان کے خلاف آج کل، آپ نے سنا ہوگا کیونکہ جب دشمن کے ہاتھ بندھے ہوئی ہیں میرے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں تو لڑائی میں مزہ نہیں آتا جی، تو میں تو اس رائے کا آدمی ہوں، لیکن اب جو وہ قانون کی گرفت میں ہے تو پھر قانون جانے عدالتیں جانے وہ جانے۔
صحافی کو جواب: دیکھیے بات یہ ہے بنیادی مجھے اس کا تو کوئی علم نہیں ہے کہ اٹھایا جاتا ہے غائب کیا جاتا ہے پھر لایا جاتا ہے لیکن بات بنیادی یہ ہے کہ ایک بہت بڑا جرم ہوا ہے، ریاست پر حملہ ہوا ہے، جس طرح ٹرمپ نے امریکہ میں وہاں ایک پارک ہے کیا نام ہے، تو وہاں پر ان کے لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں کیونکہ وہ سٹیٹ پر حملہ تھا، یہاں تک بعض کو موت کی سزائیں دی گئی ہیں، اگر برطانیہ سے پوچھا جائے کہ آپ کے کر پیلنس پر حملہ ہو جائے یا پارلیمنٹ میں تو آپ کیا کریں گے، آپ کہیں گے کہ سیاسی عمل ہے بس ٹھیک ہے ہو گیا تو ہو گیا۔ تو یہاں پر بھی آپ کی جی ایچ کیو پہ حملہ ہوا ہے، آپ کے کور کمانڈر کے اوپر ہوا ہے، قلعہ بالاحصار پے ہوا ہے، فوج کے قلعوں پہ ہوا ہے اور باقاعدہ بم پھینکے گئے ہیں ان کے اوپر، گولیاں برسائی گئی ہیں، فوجیوں کو شہید کیا گیا ہے، یہ سارے حرکتیں انہوں نے نو مئی کو کی ہیں اور پورے ملک میں منظم طور پر کیا ہے، تو ظاہر ہے کہ لیڈرشپ اس کا ذمہ دار نہیں تو اور کون ہوگا۔
صحافی کو جواب: آزادانہ تحقیقات حمود الرحمن کمیشن میں بھی ہو گئے ہیں پھر کیا ہوگیا، عدالت میں جائیں کیس کا مقابلہ کریں بس ختم بات، تحقیقات کیا ہوتی ہے، تحقیقات تو تحقیقات ہیں، یعنی آپ کی نظر میں بھی ہے، آپ بھی دیکھتے رہے اور ہم بھی دیکھتے رہے، کہ ہو کیا گیا تھا اور کیا ہو رہا تھا، کیا آپ بتاؤ خود ہی کیا یہ سب پاکستان میں ہو سکتا ہے اور آپ نے دیکھ لیا تو عدالت یہ بہتر سے سمجھتے ہیں جی
بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ماشاءاللہ ❤️
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں