پشاور : حاجی شہریار مہمند کی جے یو آئی میں شمولیتی تقریب سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
09 دسمبر 2023
آج یہ خوشی کا لمحہ ہے کہ علاقہ مہمند کے ایک نامور خاندان، حاجی باروز خان کا خاندان اور ان کے چشم و چراغ جناب شہریار خان آج باضابطہ طور پر جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں، جمیعت علماء اسلام نے جس پرچم کو بلند کیا ہے یہ پرچم نبوی ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا دنیا میں امن، دنیا میں راحت، دنیا میں محبت اور رحمت اپ کا منشور تھا اپ کی حیات طیبہ کا منشور تھا، اور یہ پرچم اپ کے اس منشور کی علامت ہے، ان شاءاللہ ملک کے کونے کونے میں یہ پھریرا لہرائے گا اور رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام گھر گھر پہنچائے گا اور وہ کون سا گھر ہوگا جو اس پیغام کو قبول نہیں کرے گا۔ ان شاءاللہ یہ جو اج اس دور میں اس جماعت کو اور اس پرچم کو قبولیت عامہ نصیب ہوئی ہے یقینا اس کے پیچھے کارکنوں کی محنت، ان کی جدوجہد اور ان کی اخلاص بھری قربانیاں یہ کار فرما ہیں اور پھر اس کی تاریخ بھی اگر ہم چودہ سال کی تاریخ کو دیکھیں تو وہ بھی اسی جھنڈے کے سائے میں اسلام کے لیے دی جانے والی قربانیاں ہماری تاریخ ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کو دیکھیں اور اسی جھنڈے کے تحت برصغیر کے علماء نے قربانیاں دی، ازادی کے لیے جدوجہد کے لیے اور دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی قوم ازادی کی جنگ لڑتی ہے جمعیت علماء اسلام نے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کی حمایت بھی کی ہے ان کے لیے اواز بھی بلند کی ہے اور اس کو اپنا اسلامی فریضہ تصور کرتے ہیں۔
میرے محترم دوستو! پاکستان ہمارا وطن ہے اور ہمارا گھر ہے انسان کو گھر سب سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، انسان ہمیشہ اپنے گھر کو اباد دیکھتا ہے اس کو خوشحال دیکھتا ہے، اپنے گھر کو ہر وقت محفوظ رکھنا چاہتا ہے، ہم اس وطن عزیز کے لیے وہی جذبات رکھتے ہیں جو انسان کی فطرت ہے اور یہ فطرت اللہ نے پیدا کی، لیکن اس وطن عزیز میں پچھتر سال ہم نے گزار دیے ہم نے ان پچھتر سالوں میں لا الہ الا اللہ کے نعرے کے ساتھ جو من حیث القوم اپنا رویہ رکھا ہے ہر پاکستانی کو اپنے گریبان میں جھانک کر سوچنا ہوگا کہ اس کلمے کا ہمارے اوپر کتنا حق ہے۔ اس کلمے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پاکستان کی تحریک چلائی گئی تھی اور جس وطن عزیز کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ہماری ماؤں اور بہنوں نے عزت و عصمت کا نظرانہ پیش کیا، ان کی عزتیں لوٹی گئی ہیں اس ملک کے لیے، ہم کب اس کی قدر کریں گے، ہم کب ان شہداء کی اور ان اپنے باعزت اور محترم ماؤں اور بہنوں کی قرض کو اتاریں گے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ بیس پچیس سالوں سے پاکستان کی شناخت جو اسلامی ہونی چاہیے تھی، جو مذہبی ہونی چاہیے تھی اسے بالکل مذہب سے لا تعلق کر دیا گیا ہے، ہماری مذہبی شناخت کو ختم کر دیا گیا ہے، صرف اس لیے کہ مذہب سے لاتعلق وطن مغرب کے لیے قابل قبول ہے، عالم ک ف ر کے لیے قابل قبول ہے اور اللہ رب العزت نے تو ہمیں اُس وقت بتا دیا تھا جو وحی کے ذریعے سے اللہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگاہ کر دیا کہ ”یہ ی ہ و د و نصاری کبھی تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو“ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس امت کو بتلا دیا اس امت کو، ”ایک وقت ائے گا جب تم پچھلی قوموں کی ایسی پیروی کرتے نظر اؤ گے کہ جیسے قدم قدم پر ان کے ساتھ ملاتے رہو گے، بالشت بالشت ان کے پیروی کرتے رہو گے اور اگر وہ گوہ کے غار میں بھی گھسنے لگے تو تم وہاں بھی ان کے پیچھے جاؤ گے“ گوہ وہ پشتو میں اس کو سمسارہ کہتے ہیں، صحابہ کرام نے عرض کیا رسول اللہ یہود و نصاری ہوں گے اور ہم ان کی پیروی کریں گے اپ نے فرمایا اور کون ہو سکتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ کیا یہ منظر اج ہم نہیں دیکھ رہے، اس لیے سارا دباؤ ہمارے اوپر ہے معیشت کے حوالے سے دباؤ ہے تو پاکستان کے اوپر ہے ا نڈیا میں نہیں ہے بنگلہ دیش پہ نہیں ہے، بیس سال افغا نستا ن نے امریکہ کے خلاف جنگ لڑی لیکن وہاں وہ معاشی دباؤ نہیں ہے، ایران جو امریکہ مردہ باد کے نعرے سے انقلاب لایا وہاں وہ دباؤ نہیں ہے، جو دباؤ پاکستان پر اس وقت مسلط کیا جا رہا ہے ہمارے دینی مدارس کے حوالے سے اگر دباؤ ہے تو صرف پاکستان پر ہے ا نڈ یا پر کوئی دباؤ نہیں حالانکہ مدرسے تو ہمارا ایک ہی ہے ا نڈ یا میں کوئی دباؤ نہیں، بنگلہ دیش میں بھی کوئی تم کوئی دباؤ نہیں صرف پاکستان پر دباؤ ہے۔ اسر ا ئیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ جہاں دوسری اسلامی دنیا پر رہا ہمارے اوپر بھی رہا اور جو پچھلی حکومت گزری ہے اور جس کے خلاف ہم نے اواز بلند کی اسی ایجنڈے پر ائی، اسی ایجنڈے پہ ائی کہ ہم نے کشمیر کو بیچنا ہے ہم نے اسر ا ئیل کو تسلیم کرانا ہے اور اسی طرح اگے بڑھ رہے تھے۔ ہماری میڈیا پر بہت بڑی لابنگ شروع ہو گئی تھی بڑے بڑے سینیئر اتے تھے اور اس کے فضائل بیان کیا کرتے تھے اس کے پیچھے پوری حکومتی نگرانی ہو رہی تھی ہم نے اپنے موقع پر قائم رہتے ہوئے جنگ لڑی اور الحمدللہ اس فتنے کو ہم نے شکست دی (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)
ہم نے جنگ لڑی ہے لیکن اب پھر الیکشن کا ماحول ارہا ہے یہاں ذمہ داری قوم کی طرف چلی جاتی ہے، یہاں ذمہ داری عوام کی طرف سے دی جاتی ہے اپ کے ووٹ نے فیصلہ کرنا ہے اب یہ اپ پر ہے کہ اپ پھر انہی قوتوں کو اپنا ملک حوالے کرنا چاہتے ہیں جن کا ایجنڈا پاکستان توڑنا بھی تھا جن کا ایجنڈا کشمیر توڑنا بھی تھا جن کا ایجنڈا اسر ا ئیل کو بنوانا بھی تھا اور جن کا ایجنڈا یہ بھی تھا کہ کس طرح ہم قا د یا نیوں کو دوبارہ پاکستان میں آئینی طور پر مسلمان کہہ سکیں یہ سارے ایجنڈے سے ہم لڑے ہیں ہم بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ لڑے ہیں اور میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں فلسطینی مجا ہد ین کو، اپ جانتے ہیں مسئلہ تبدیل ہو گیا تھا کسی زمانے میں فلس طین کی بات ہوتی تھی فلس طین کی ازادی کی بات ہوتی تھی فلس طین کے حق کی بات ہوتی تھی لیکن اج بات کیا ہو رہی تھی اسے بھول گئے تھے ہم، اج بات ہوتی ہے اسر ا ئیل کو تسلیم کرنا، اسر ا ئیل کا وجود، اسر ا ئیل کی اہمیت، اسر ا ئیل ناگزیر ہے مسئلے کا بالکل عنوان ہی تبدیل کر دیا گیا لیکن سات اکتوبر کے واقعے نے خطے کے مسئلے کو دوبارہ اپنی اصلی حالت میں واپس لے گئے اج قربانیاں ضرور دی ہیں اس وقت سولہ ہزار تک بچے مائیں بہنیں خواتین بے گناہ شہری شہید ہو چکے ہیں دو مہینے کے اندر، بہت بڑی قربانی غزہ کے لوگوں نے دی ہے لیکن مسئلہ کی نوعیت وہ زندہ کر دیا ہوا فلس طین کے مسئلے کو انہوں نے زندہ کیا، اور حد یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر آبادیوں پر بمباری کرنا یہ جنگی جرم ہے کہاں ہیں دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں جو برملا اس کے خلاف جنگی جرائم کا دعوی دائر کریں، کہاں ہیں وہ لوگ، ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں اگر کہیں پر کسی مذہبی ادمی سے کوئی معمولی سی چوک ہو جائے اگر مدرسے کا ایک استاد اپنے شاگرد کو سزا دے اور اس کا کوئی ویڈیو بن جائے اسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں انسانی حقوق، بچوں پر تشدد، اج دو مہینے کے اندر سولہ ہزار شہداء ان کے حقوق کی بات کون کرے گا ؟ میں ان عالمی قوتوں سے پوچھ سکتا ہوں کہ بیس سال تک ا فغا نستا ن میں تم نے جس طرح انسانیت کا قتل کیا پھر بھی اپ کہتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے محافظ ہیں۔ جب ظلم کرنے اتے ہیں تو نام کیا دیتے ہیں ہم انصاف دینے کے لیے ائے ہیں جو خور ریزی کرنے کے لیے اتے ہیں تو کہتے ہیں ہم عمل کے قیام کے لیے اتے ہیں، عراق کو برباد کیا، لیبیا کو برباد کیا، شام کو برباد کیا، دنیا میں جنگیں پھیلائی جا رہی ہیں خون بہایا جا رہا ہے اور پھر بھی کہتے ہیں کہ انسانیت کی قیادت ہم کریں گے۔ جن کے ہاتھوں سے پوری انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے بھلا ان کو بھی انسانیت کی قیادت اور قوموں کی قیادت کرنے کا حق پہنچتا ہے ؟ اور ہم کیسے ان کو دنیا کے قیادت کے لیے تسلیم کرے ہم نے تو اپنی انکھوں سے دیکھا کہ اس نے ابھی قریب ہی ا فغا نستا ن میں شکست کھائی ہے اور یہاں سے شکست کھا کر بھاگا ہے جو میرے گھر سے شکست کھا کر بھاگے میں اس کو سپر طاقت کہہ سکتا ہوں ؟ اسلامی دنیا کا حکمران کیوں دباؤ میں ہے ؟ ہمارے ملک کے حکمران کیوں دباؤ میں ہے ؟ یہاں پر فاٹا کا انضمام کیا گیا اور فاٹا کے عوام کو کہا گیا ہم اپ کو جنت کی طرف لے جا رہے ہیں، انضمام کیا ہوگا یہ سبز باغ ہوں گے، دودھ کی نہریں بہیں گے، شہد کی نہریں بہیں گی، اپ خوشحال ہوں گے اپ کا ایف سی ار کے تحت زندگی گزار رہے ہیں یہ تو غلامی کا ہے بھئی ایف سی ار اگر فرنگی کا قانون ہے تو پاکستان کے قوانین میں ہزاروں قوانین اج بھی فرنگی کی زمانے کے نہیں ہیں؟ یہ تعزیرات پاکستان کیا یہ وہی تعزیرات نہیں ہے جس کو پہلے تعزیرات ہند کہا جاتا تھا کیوں اپ نے فاٹا کے عوام کو دھوکہ دیا ؟ اب کیا ہوا کہ اپ کے فاٹا کی سیٹیں بھی گئی اپ کی قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی گئی اور ماشاءاللہ ہمارے ہاں پولیس بہت نیک نام ہے ان کی برکتیں بھی اس فاٹا کی طرف چلی گئی ہمارے ہاں پٹواری بھی بہت زیادہ نیک نام ہے اس کی رحمتیں اور برکات بھی اپ کی طرف چلی جائے گی اب اج اپ دیکھیں ہر سال ایک سو ارب روپے کا وعدہ کیا تھا اور یہ دس سال کے لیے تھا اج چھ سال پورے ہو گئے اس وقت تک ایک ارب روپیہ بھی فاٹا کے لیے مکمل نہیں کیا جا سکا ہے اب فاٹا نہ فاٹا ہے نہ سیٹلڈ ہے کچھ پتہ نہیں کیا ہے۔ عوام کو پریشان کر دیا، میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ابھی یہ فیصلہ کرنا یہ عجلت ہے لیکن یہاں کے مقتدرہ قوت نے میرے سامنے مجھے کہا ہے کہ ہم پر بین الاقوامی دباؤ ہے میں نے کہا پھر عوام کو کیوں دھوکہ دے رہا ہوں پھر کہو نا کہ ہمارے اوپر دباؤ ہے۔ میں بہت سی چیزوں کا بھی خود گواہ ہوں انکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا، سچ کہنا جرم ہے جبکہ اللہ تعالی نے مسلمان کو گواہ کہا ہے تاکہ تم انسانیت پر گواہ رہو شہداء شاہد کی جمع ہے شاہد گواہ کو کہتے ہیں اور گواہ اسے کہا جاتا ہے کہ جو جس چیز کو جس طرح انکھوں سے دیکھے زبان سے اسی طرح بیان کرے اگر میں ظلم کو دیکھ رہا ہوں انکھوں سے، تو کم از کم میں ظلم کو عدل نہیں کہہ سکتا۔ اگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت رات ہے کس کی دباؤ میں اس کے دن کہوں اور کیوں دن کہوں گا بس یہی ہماری ایک کمزوری ہے کہ ہم ذرا واضح طور پر موقف رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ اندر سے تو ہم ایجنٹ بنیں اور باہر سے ہم اسلام اسلام اور قوم کو دھوکہ دیتے رہیں ہم نے اس منافقت کے خلاف بھی جنگ لڑی اور منافق کو شکست دی ہے۔
اب اگے اپ کی ذمہ داری ہے ا فغا نستا ن پر حملہ ہوا تمام دنیا کی حکومتیں چپ گئیں پاکستان کے حکمرانوں نے یہاں اڈے دیے فضائیں دی اپنے ملک کے لوگوں کے لیے ہمارے ہوائی اڈے بند ہو گئے اور عالمی قوتوں کے لیے ہمارے اڈے کھل گئے، کس بات کے لیے، د ہش ت گردی کے خلاف جنگ ہے ہم ا فغا نستا ن میں جنگ لڑ رہے ہیں تو ہم نے علی الاعلان اپنا موقف دیا اس وقت بھی، ہم اج بھی اپنا موقف دے رہے ہیں پاکستان ہمارا وطن ہے یہاں پر ائین بھی ہے یہاں پر قانون بھی ہے ہم ائین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں اور اسی کے دائرے میں ہم نے اپنے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ جو عالمی قوتوں کے سائے ہم پر پڑے ہوئے ہیں اور وہ ہمیں اپنے دباؤ میں رکھ کر ہمارے ملک کو چلانا چاہتے ہیں ہماری سیاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ہماری معیشت پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ہماری دفاع پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارے ایٹم بم پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ہم اس دباؤ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ توفیق اللہ نے جمعیت علماء کو دی ہے مجھے حیرت اس بات پر ہے ہمارے ملک کے عام سیاسی جماعتیں ہے بس عام حالات میں ملک کو بہتری کی ضامن وہ بنتے ہیں اپ آئیں اپ قوم کے بہتری کے ضامن بنے لیکن اپ کی پشت پر پچھتر سال کی اپ کی کارکردگی بھی تو ہے لہذا میں ایک بات اپ سے اور پوری قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لیے اب ذرا انے والے وقت پہ نئے زاویے سے فیصلہ کرو، نیا مستقبل ہم نے تراشنا ہے ایک نئے مستقبل کی طرف ہمیں احتیاط کے ساتھ اگے فیصلے کرنے ہیں، پرانے لکیریں مٹا دو وہ نئی لکیریں کہ جس پہ چلتے ہوئے ہمیں پاکستان کے اندر دین اسلام کے روشنی نظر ائے ایک ایسا رخ اختیار کرنا ہے ان لکیروں کی پیروی کرنی ہے کہ جس پہ چل کر ہمیں پاکستان کی سرزمین میں ہمیں ازادی نظر ائے، ہمیں حریت نظر ائے، سیاسی حریت نظر ائے، معاش حریت نظر ائے، دفاعی حریت نظر ائے اور ہم سمجھیں کہ بین الاقوامی ادارے ہمیں کنٹرول نہیں کر رہے ہم اپنے ملک میں اپنی ادارے رکھتے ہیں اور اپنے اداروں کے طاقت سے ملک کو چلا رہے ہیں۔
یہ ہمارا وژن ہے اس کی طرف ہم بڑھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے ہم سیاست میں مصروف عمل ہے۔ کچھ لوگ ہمیں طعنے دیتے ہیں اس پارلیمنٹ کا کیا فائدہ، جمہوریت کا کیا فائدہ، لیکن تدریجی اصلاحات میں الحمدللہ ہم نے اس نظریے کو مرنے نہیں دیا ہے نظریہ بھی زندہ ہے جماعت بھی زندہ ہے مذہبی اور دینی ادارے بھی زندہ ہے تعلیمی ادارے بھی زندہ ہے ہمارے مساجد بھی زندہ ہیں ہمارے محراب بھی اباد ہیں ہمارے ممبر بھی اباد ہیں اور ان شاءاللہ یہ آباد رہیں گے ان شاءاللہ۔
اللہ تعالی ہمیں کامیابی سے سرفراز فرمائے اور باروز خان مرحوم کا خاندان ہم اس کو ایک بار پھر خوش امدید کہتے ہیں اور اس حوالے سے میں مہمند کی جمیعت کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں ان کی بہت بڑی یہ کامیابی ہے اور یہ ان کو مبارک ہو، اللہ تعالی کامیابی نصیب فرمائے ۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
پشاور : شمولیتی تقریب سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, December 9, 2023
Hello
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں