10 اپریل 2025
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ۔ بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ۔ صدق الله العظیم
حضرات گرامی قدر، اکابر علماء کرام، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو، آج کا یہ اجتماع نہایت مختصر نوٹس پر بلایا گیا اور ظاہر ہے کہ جو صورتحال فلسطین میں اور غزہ میں برپا ہوئی اس کا تقاضا تھا کہ بغیر کسی مہلت کے ہم فوری طور پر اکٹھے ہوں اور اہل فلسطین کے ساتھ اہل غزہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان کا مسلمان ہو یا عالم اسلام کا کوئی فرد آج وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ جیسے کہ حضرت شیخ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ارشاد فرمایا اور ان سے قبل حضرت گرامی مفتی منیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے اجلاس کا جو اعلامیہ پیش کیا جس میں صراحت کے ساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں شامل ہونے کا فتویٰ جاری کیا یہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے ہے اور آج آپ کا یہ اجتماع صرف ایک روایتی قسم کا اجتماع نہیں ہے بلکہ ان حالات میں اس کی جو اہمیت ہے تاریخ کبھی اس کو نظر انداز نہیں کر سکے گی جو اعلان کرتا ہے کہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ عملی جہاد میں شریک ہونا اب امت پر فرض ہو چکا ہے لیکن تکلیف ما لا یطاق تو ہے نہیں جہاں جہاں کا مسلمان جس جس راستے سے وہاں شریک ہو سکتا ہو مسلمان پر فرض ہے کہ ان حالات میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ صہیونی جارحیت کا مقابلہ کریں۔
اسرائیل ایک ریاستی دہشت گرد ہے، اسرائیل آج کا قاتل نہیں ہے یہ یہود انبیاء کے قاتل ہیں، ان کی تاریخ قتل و غارت گری ہے، ان کے علاوہ ان کا کوئی مشغلہ نہیں اور اللہ رب العزت نے ان کے چہرے سے نقاب اٹھایا كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ جب بھی انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی اللہ نے بجھائی یعنی جب وہ جنگ کی آگ بھڑکانے کا سوچتے تھے سازش کرتے تھے تو اس سازش کو اللہ ناکام بنا دیتا تھا اور میں تو بڑے صاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا، میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا، میں کیسے صلح کرلوں قتل کرنے والوں سے۔ آج بھی وہ قاتل ہیں اور اپنی قتل و غارتگری کی تاریخ کو تسلسل دے رہے ہیں، ایک صدی قبل کرہ ارض پر اسرائیل نامی کسی بھی ریاست کا وجود تک نہیں تھا۔ جنابِ رسول اللہ ﷺ نے صرف خیبر سے نہیں نکالا بلکہ اعلان فرمایا اخرج اليہود من جزیرۃ العرب کہ یہود کو جزیرہ عرب سے باہر نکال دو، فلسطین ارض عرب ہے اور ارض عرب پر ان کو قبضہ کرنا وہاں ریاست بنانا وہاں آبادی کرنا اس کا کوئی حق اسلام کے دائرے میں ان کے لئے موجود نہیں ہے۔ کیا کیا قصے دنیا میں پھیلائے جا رہے ہیں فلسطینیوں نے تو خود زمینیں بیچی، فلسطینیوں کے مرضی سے بیچی ہوئی زمینوں پر یہ آباد ہو گئے اب گلا کس سے، آپ ذرا ریکارڈ درست کیجئے! 1917 میں جب دارفور اسرائیلی ریاست کی تجویز پیش کر رہا تھا اور قرارداد دے رہا تھا اس وقت پورے فلسطین کی سرزمین کے صرف دو فیصد علاقے پر یہودی آباد تھا صہیونی آباد تھا، 98 فیصد علاقے پر صرف مسلمان فلسطینی آباد تھا اور جب 1948 میں اسرائیل کی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا تو 1947 کے اعداد و شمار دیکھئے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادکاری صرف 6 فیصد علاقے پر ہے 94 فیصد علاقہ صرف فلسطینیوں کا تھا، پھر کہتے ہیں اسرائیل کو مسلمانوں نے خود جگہ دی کیوں جھوٹ بولتے ہو! کیوں تاریخ کو جھٹلاتے ہو! اور ہم پاکستان کے موقف کو بھی جاننا چاہتے ہیں جو پاکستان کی اساس کا حصہ ہے کہ 1940 کی قرارداد پاکستان اسی میں کہا گیا کہ فلسطین کی سرزمین پر یہودی بستیوں کا قیام یہ ناجائز قبضہ ہے اور بانی پاکستان نے کہا تھا کہ ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے اور پھر جب اسرائیل وجود میں آیا تو پاکستان نے کہا کہ یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے، یہ پاکستان کا موقف ہے ان کے بارے میں، بعد میں نہیں قیام پاکستان کی اساس کا حصہ ہے اور جب اسرائیل وجود میں آیا تو اسرائیل کے پہلے صدر نے جو اپنا خارجہ پالیسی بیان دیا اپنے خارجہ پالیسی بیان میں اس نے واضح طور پر اپنے اہداف کا آنے والے وقت میں اپنے اہداف کا تعین کیا اور کہا کہ کرہ ارض پر نمودار ہونے والی نوزائدہ مسلم ریاست کا خاتمہ یہ اسرائیل کا ہدف ہوگا، نوزائدہ مسلم ریاست صرف اور صرف پاکستان کی ریاست تھی۔ آج پاکستان کو جس جہت سے بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اس کے پیچھے یہودی سازشیں کار فرما ہوتی ہیں اور پھر ہمارے ملک میں ایسے ایسے فلاسفر وجود پاتے ہیں، ایسے ایسے فلاسفر اٹھتے ہیں، صاحب ہم نے تو ملک کو چلانا ہے پچیس کروڑ آبادی کی معیشت کا مسئلہ ہے، جب تک ہم یہود کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں کریں گے پاکستان کی معیشت کیسے چلے گی، پاکستان کی معیشت کیسے چلے گی، یہ سنی سنائی بات نہیں کر رہا ہوں آپ سے! یہ کوئی ایسی بات نہیں کر رہا ہوں کہ سیاسی دنیا میں خبریں چلتی ہیں میرے کان تک بھی کوئی بات پہنچ گئی یہ وہ باتیں میں آپ سے کہہ رہا ہوں جو یہ طبقہ براہ راست مجھ سے کہہ چکا ہے، براہ راست مجھ سے کہہ چکا ہے اور جب یہ حالات پیدا ہوئے ٹی وی پر یہ لوگ آکر فلسفے جھاڑتے تھے، فلسفے بگارتے تھے، پھر ہمیں سیمینار بھی کرنے پڑے، کراچی میں میلین مارچ بھی کرنا پڑا اور اللہ کے فضل سے ہم نے ان کا ایسا منہ بند کیا کہ ان شاءاللہ پھر دوبارہ یہ منہ نہیں کُھل سکے گا۔ اور میں آج بھی حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں، ہمارے ملک کی حکومت عجیب ہے پھٹی ہوئی قمیص ہے، پی ڈی ایم حکومت کر رہی ہے صدر اپوزیشن میں ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے صدر کی مانیں پتہ نہیں کس کی مان رہے ہیں، ان حالات میں قیام پاکستان کے مقصد کو بھی سمجھنا چاہیے، مسلم امہ کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پوری دنیا کے مسلمانوں کی جنگ لڑنے کی ذمہ دار ہے، اگر پاکستان آج فلسطین کی مسلمانوں کی جنگ نہیں لڑتا تو پھر وہ قیام پاکستان کے مقصد کی نفی کر رہے ہیں۔ پھر مسلم لیگ حکومت کرے لیکن میں اس مسلم لیگ کو کہنا چاہوں گا کہ آپ ہی تو ہیں جو قائد اعظم محمد علی جناح کے موقف کو جھٹلا رہے ہیں۔ واضح موقف ہونا چاہیے! ڈرنا کیا ہے؟ اور قرآنِ کریم ہمارا رہنماء ہے۔ جب اللہ رب العزت نے مکہ مکرمہ میں مشرکین کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ ۔ سوال پیدا ہوا یا نہیں؟ کہ یہ تو تجارتی مرکز ہے، یہاں تو دنیا کا مال آتا ہے، یہاں خرید و فروخت ہوتی ہے، یہاں کی معیشت متاثر ہو جائے گی۔ تو اللہ رب العزت نے کیا فرمایا؟ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ ۔ اگر تمہیں بھوک پیاس کا خطرہ ہو جائے، تجارتی نقصان ہو جائے گا، معاشی بربادی ہو جائے گی، تو ہمارے فلسفی لوگ پھر اپنا فلسفہ بگارتے ہیں یہ مولوی صاحبان صدیوں پرانی باتیں کرتے ہیں ان کو کیا پتا ہے حالات کا، دنیا کے حالات، یہ آج کی باتیں نہیں ہیں، یہ اُس وقت مکہ میں بھی ہوئی لیکن اللہ نے فرمایا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ تم کیا مجھے سمجھاؤ گے؟ میں خود جانتا ہوں۔ پھر فلسفے۔۔۔ صاحب اس کی ذرا حکمت عملی دیکھئے، حکمت عملی کے لحاظ سے عقلی لحاظ سے ہمیں سوچنا چاہیے، گہرائی کے ساتھ سوچنا چاہیے، یہ لوگ تو سادھے لوگ ہیں سادھی گفتگو کرتے ہیں، اللہ نے کہا إِنَّیْ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ وہ حکمت والا بھی تو میں ہوں! تم سے زیادہ حکمت جانتا ہوں۔ میں ہی تو علیم ہوں۔ میں ہی تو حکیم ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کے علم اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اس وقت بھی یہی تھی کہ اس کے حکم کو مانو اور اس خطے پر غیر مسلموں کا داخلہ بند کر دو اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جزیرۃ العرب سے نکالا تو ہمیں کبھی اس خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ پھر اس کا تو ہمیں معاشی نقصان ہوگا، میں اس معیشت پر لعنت بھیجتا ہوں جو یہودیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
خود پاکستان کو پاکستان بناؤ، خود پاکستان کو پاکستان بناؤ، پاکستان کے وسائل کو ملک کے لئے استعمال کرو، اپنے وسائل کو ملک کے لئے استعمال کرو، 77 سال ہم نے گزارے ہم نے اپنے وسائل کو استعمال نہیں کیا، ساری زندگی ہم نے بھیک مانگ کر گزاری ہے، قرضے مانگ کر گزارے ہیں، جب 77 سال تم نے پاکستان کو پاکستان نہیں سمجھا، پاکستان کے وسائل کو اپنے لئے استعمال نہیں کیا، تو پھر سمجھ لو کہ تمہارا دماغ تمہارا دل اندر سے آج بھی غلامانہ ہے اور تم کل بھی غلام تھے تم آج بھی غلامی کر رہے ہو، میں یہ بات کئی اجتماعات میں کر چکا ہوں اور آج پھر یاد دلانا چاہتا ہوں آپ کو کہ جنرل مشرف صاحب کے ساتھ ایک میٹینگ تھی، مجھے کہتا ہے آپ امریکہ کے خلاف جلوس جلسے نکال رہے ہیں، ہم امریکہ کے غلامی نہیں مانتے، مولانا صاحب مان لو ہم امریکہ کے غلام ہیں، یہ آرمی چیف کہہ رہا ہے مجھے، مان لو ہم غلام ہیں آپ کیا یہ کہتے ہیں غلامی نہیں مانتے، میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم غلام ہیں میں بھی مانتا ہوں غلام ہیں آپ بھی کہتے ہیں غلامی کو مانتا ہوں لیکن ایک طبقہ وہ ہے جو غلامی کو قبول کر کے اس کے سامنے سر نگو ہو جاتا ہے اور ایک طبقہ وہ ہے جو غلامی کے سامنے ڈٹ جاتا ہے سر اٹھا کے چلتا ہے گردن کٹوا دیتا ہے لیکن اس کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، تو میں نے کہا جنرل صاحب یہاں پر بات تقسیم ہو جاتی ہے ایک آپ ہے اور ایک آپ کے اکابر کی تاریخ، ایک میں ہوں اور ایک میرے اکابر کی تاریخ، تجھے اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ مبارک مجھے اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ مبارک۔
میرے محترم دوستو، ان سارے حالات میں ہمیں اپنے فرض کو سمجھنا ہے مسلمان کا مسلمان کے اوپر حق ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ولا يخذله ولا يحقره۔ نا اس پر خود ظلم کرتا ہے نا کسی کے ظلم کی سپرد کرتا ہے، آج ہم امت مسلمہ کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو آپ نے کس کے ظلم میں چھوڑ دیا ہے، کس کے حوالے کر دیا ہے اور جب آپ ان کے حوالے کریں گے تو پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ کیسے کروگے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمهمْ كمَثَلِ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّ ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے پر مہربان ہونے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی میں ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں بالکل ایسی ہے جیسے ایک جسم، اگر جسم کے سر میں درد تو پورا جسم بے قرار، اگر اس کے آنکھ میں درد پورا جسم بے قرار، اگر جسم کے کسی حصے میں درد مچل رہا ہے ساری رات جاگتے بخار کی حالت میں گزر جاتی ہے، ہم کس طرح قرار کی زندگی گزار رہے! ہیں ہم کس طرح اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں! ہم کس طرح سکون سے سو رہے ہیں! اس احساس کو اجاگر کرنا ہے، اس احساس کو ہم نے بیدار کرنا ہے، الحمدللہ میرا اطمینان ہے امت مسلمہ آج ایک صف ہے، امت مسلمہ کے جذبات ایک ہیں اور امت مسلمہ کے جذبات کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ ہے تو امت مسلمہ کے حکمران ہے، چاہے پاکستان کے حکمران ہوں اور چاہے دوسری اسلامی دنیا کے حکمران، وہ اپنے مفادات کیلئے سوچ رہے ہیں، کسی کا 2030 کا ویژن ہے، کسی کا 2050 کا ویژن ہے اور سارے ویژن انہوں نے اسرائیل کے ساتھ وابستہ کئیں ہیں، یہ خس و خاشاک ہو جائیں گے، ان کے کوئی حیثیت نہیں ہوگی، ایک خواب ہوگا جو خوابِ پریشان ہی رہے گا جس کی تعبیر نہیں ہو سکے گی کبھی، اپنے فرض کو پہچانوں! پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، ملیشیا، انڈونیشیا، یہ امت مسلمہ کے وہ بڑے ممالک ہیں کہ اگر وہ مل کر ایک متفقہ فیصلہ کر لے کوئی امت مسلمہ کا حکمران ان کی مخالفت نہیں کر سکے گا، ان کو قیادت کرنی چاہیے! ان کو میدان میں آنا چاہیے! ہم ان کے احساس کو بیدار کر رہے، یہ مجلس کسی کے لعن طعن ملامت کے لیے نہیں ہے یہ احساس کو بیدار کرنے کی ہے، امت کے اندر اس وقت بیداری کی ضرورت ہے، میں جانتا ہوں ہر جگہ پر کچھ مذہب بیزار بھی ہوتے ہیں، لفظ جہاد سن کر مذاق بھی اڑاتے ہیں، مسجد اقصیٰ کا نام لے کر مذاق بھی اڑاتے ہیں، پھر اسلام کو استعمال کر رہے ہیں، تو اسلام، بیت المقدس، آزادی فلسطین، یہ ہمارا کارڈ نہیں ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کو بھی جگائیں ان کو احساس دلائیں کہ امت مسلمہ آج آپ سے کیا تقاضہ کرتی ہے، امت مسلمہ کی آرزوئیں کیا ہیں، امت مسلمہ آپ سے کیا چاہتی ہے اور اس طرح ہم بھی پھر آپ کو آرام سے سونے نہیں دیں گے، ہم بھی آرام سے سونے نہیں دیں گے، تو یہ جو دین بیزار قسم کے لوگ مذاق اڑاتے ہیں پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی بندگی کی بجائے امریکہ کی خدائی پہ یقین رکھتے ہیں، ہم تو چاہیں کہ تو بھی اللہ کے سامنے آجائے، انسان آزاد ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے جب کسی مسئلہ پر اپنے ایک گورنر کو جھنجھوڑا تو آپ کے الفاظ کیا تھے، متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحراراً تم نے انسان کو کب اپنے غلام سمجھ رکھا ہے ان کو تو اپنے ماؤں نے آزاد جنا ہے، تو آزادی یہ انسان کا پیدائشی حق ہے اور یہ پیدائشی حق نہ کشمیری سے چھینا جا سکتا ہے نا فلسطینی سے چھینا جا سکتا ہے نا دنیا کی کسی اور مسلمان سے چھینا جا سکتا ہے۔ تو اس محاذ پر جو ہم چل رہے ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔
معاہدہ ہوا جنگ بندی ہوئی تین مراحل میں اکتالیس اکتالیس دن کا معاہدہ ایک معاہدہ سے دوسرے معاہدہ دوسرے سے تیسرے معاہدے میں چلنا تھا، قیدیوں کی رہائی کے معاملات وغیرہ وغیرہ، اس بیچ میں کیا جواز تھا کہ آپ نے حملہ کیا دوبارہ! تم نے وعدہ خلافی کی اپنی تاریخ دہرائی ہے، تم نے یہود و صہیون کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے اور ان شاءاللہ العزیز آج جمعرات ہے اتوار کو 13 اپریل کو ان شاءاللہ کراچی میں اسرائیل مردہ باد کے عنوان سے میلین مارچ ہوگا ان شاءاللہ العزیز اور کل جمعہ ہے میں پوری قوم سے کہتا ہوں، جماعت سے کہتا ہوں، تمام دینی تنظیموں سے کہتا ہوں، ان کے کارکنوں سے کہتا ہوں کہ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں کل مظاہرے ہونے چاہیے، ان شاءاللہ اسرائیلی مظالم کے خلاف اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے، تو یہ متفقہ فیصلہ ہے اور پھر کراچی کے جلسے میں ہم اگلے اقدام کا اعلان کریں گے نہ آپ کو آرام سے بیٹھنے دیں گے نا خود آرام سے بیٹھیں گے ان شاءاللہ پورے عزم کے ساتھ یہ جنگ ہم نے لڑنی ہے اور جو ہماری استطاعت میں ہے اللہ نے اسی حد تک ہمیں مکلف بنایا ہے ان شاءاللہ اس میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، اورسیز گلف ریجن 1
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں