مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ملی یکجہتی کونسل کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں گفتگو

قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ملی یکجہتی کونسل کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں گفتگو

23 جولائی 2025

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ و صلی اللّٰہ علی النبی الکریم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم

جناب صدر محترم ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر صاحب، اس اجلاس کے میزبان علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب اور اجلاس میں شریک تمام وہ رفقائے کرام جو مختلف تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں یا انفرادی حیثیت میں شامل ہیں، سب کے حضور اپنا سلام پیش کرتا ہوں اور ذرا تاخیر سے آنے پر معذرت خواہ بھی ہوں۔

یہ اجلاس جس ایجنڈے پر بلایا گیا ہے، چونکہ پارلیمنٹ میں بھی اور پارلیمنٹ سے باہر بھی ہم ان معاملات سے وابستہ رہے ہیں، اپنی بساط کے مطابق جو ہم سے بن پڑا وہ کیا۔ کہیں پر کچھ کامیابی ملی اور کہیں پر کامیابی نہیں مل سکی۔ سب سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم جب حکومت کی طرف سے پیش کی گئی تو اپنے اصلی مسودے کے اعتبار سے وہ کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کے قابل نہ تھی۔ ایسے وقت میں جب وہ اپنا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں تو ان پر بڑی عجلت بھی سوار ہوتی ہے اور وہ ہم سے تقاضا کر رہے تھے کہ ہم دو تین گھنٹوں کے اندر اندر حمایت کا بھی اعلان کر دیں اور اس کو ووٹ بھی دے دیں۔ لیکن ہم نے مسودہ حاصل کرنے کے بعد ایک مہینہ سے زیادہ حکومت سے بات چیت کی اور اس ترمیمی مسودہ میں سے تقریباً پینتیس نکات سے ہم نے حکومت کو دستبردار ہونے پر آمادہ کیا۔ جس وقت پینتیس نکات سے وہ دستبردار ہوئے تو یہ مسودہ اکیس یا بائیس نکات پر آ کر منحصر ہوا۔ اس کے بعد ہم نے اس میں کچھ اضافے تجویز کیے جو قبول کیے گئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا تھا اور اس کے لیے آخری تاریخ اکتیس دسمبر دو ہزار ستائیس مقرر کی تھی۔ کورٹ کے اس فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے باقاعدہ دستور میں لکھا گیا چھبیسویں ترمیم کی روح سے کہ یکم جنوری دو ہزار اٹھائیس سے پاکستان کے اندر سود مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اتنی مہلت مختلف اداروں میں جہاں سودی کاروبار ہوتا تھا یا اس کا پورا نظام کار سود پر مشتمل تھا، اس سے ایک نئے نظام کی طرف پلٹنے میں اداروں نے جو مہلت مانگی تھی، عدالت نے اسی مہلت کی بنیاد پر ان کو مہلت دی تھی۔

تو ہمیں اس لیے یکم جنوری دو ہزار اٹھائیس کا لفظ آئین میں ڈالنا پڑا۔ اس پر بھی ہم سب کو نظر رکھنی چاہیے کہ بالفرض حکومت اپنے وعدے پہ قائم نہیں رہتی اور اگر ہم اس پر کورٹ میں گئے تو وفاق کے لیے، حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنے آئین کے خلاف اپنا اٹارنی جنرل پیش کرے اور وہ وہاں پر اس کا دفاع کر سکے۔ اسی طریقے سے وفاقی شرعی عدالت بظاہر تو ایک عدالت ہے لیکن اس کے فیصلوں کی حیثیت یہ ہے کہ اگر وہ فیصلہ دے دے اور کوئی بھی آدمی اس کے خلاف اپیل، سفید کاغذ پر لکھ کر بھی سپریم کورٹ میں یا شریعت اپیلیٹ بینچ میں پھینک دے تو فیصلہ اسی وقت خود بخود معطل ہو جاتا ہے اور پھر اس پر نظرثانی یا اس اپیل کو سننے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ چنانچہ قیامت تک بھی اگر ہم عدالت چاہے کہ ہم اس کو نہیں سنتے تو اس کے کسی فیصلے پر اپیل نہیں سنی جا سکتی۔ لیکن اس ترمیم میں یہ ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ اگر اس کے خلاف اپیل کی گئی تو زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال کی ہوگی۔ اگر ایک سال کے اندر اس اپیل پر فیصلہ نہ آیا تو پھر وہ اپیل خود بخود خارج ہو جائے گی اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر باقاعدہ مستقلاً نافذ العمل ہو جائے گا۔

تو اس کے فیصلے میں تھوڑا سا اطمینان ڈال دیا کہ آپ کا فیصلہ ضائع نہیں جائے گا، آپ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ وفاقی شرعی عدالت میں اس شرعی عدالت کا کوئی جج اپنی عدالت کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا۔ باہر سے کسی ریٹائرڈ جج کو لا کر ان کا چیف بنا دیا جاتا تھا۔ اب اس ترمیم کے ذریعے آئینی طور پر طے کر لیا گیا ہے کہ باقاعدہ اسی عدالت کا جج اسی عدالت کا چیف جسٹس بن سکے گا۔ ظاہر ہے ججوں کو بھی تو ایک عزت چاہیے نا، جب اس کو پتا ہو کہ اس عدالت میں میرے لیے کوئی توقیر نہیں ہے، میرے لیے کوئی مقام نہیں ہے تو دلچسپی بھی کم ہو جاتی ہے۔ اسی طریقے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اسمبلی میں پیش تو ہوتی تھیں، لے وہ جاتی تھیں، پھر اس کے بعد کمیٹی میں چلی جاتی تھیں اور کمیٹی میں ڈمپ رہتی ہیں، اب بھی میرے خیال میں کمرے بھرے ہوئے ہوں گے اور کسی قسم کا کوئی ڈیبیٹ آج تک ایوان میں نہیں ہو سکا ہے۔ اب آئینی طور پر یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات باقاعدہ بحث کے لیے پیش کیں جائیں گے۔

اب ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ تو ہم نہیں کر سکتے تھے کہ جو سفارشات آئیں گی وہی قانون ہوگا کیونکہ قانون سازی کا حق بہرحال پارلیمنٹ کو ہے۔ لیکن یہ کہ ڈیبیٹ کے لیے پیش ہو ایوان میں، ظاہر ہے اتفاق رائے نہ ہو سکا تو ایوان تقسیم ہو جائے گا، ایک فریق جو ہے وہ قانون سازی پر اصرار کرے گا اور بالآخر ان سفارشات کی اساس پر قانون سازی کا آغاز ہو جائے گا۔ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو جائے جس کا تعلق شریعت کے ساتھ ہو تو اس کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنا، اس کے لیے چالیس فیصد اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی تھی، اب اسے کم کر کے بائیس فیصد پر لا دیا گیا ہے۔ یعنی پہلے سو میں چالیس ممبران کی منظوری اور اب سو میں بائیس ممبران کی منظوری کے بعد کوئی نیا مسئلہ قانون کے حوالے سے آیا تو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جا سکے گا۔ تاہم قانون سازیاں ہوتی ہیں جیسے آپ ذرا ابھی بحث کر رہے تھے، اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکا لڑکی اگر وہ نکاح کرتے ہیں تو وہ سزا کے مستحق ہوں گے، نکاح خواں سزا کا مستحق ہوگا، والدین سزا کے مستحق ہوں گے، گواہ سزا کے مستحق ہوں گے، اگر اس نکاح میں کسی نے کردار ادا کیا ہوگا۔ اب اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے ضرور ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ یہ کس کا ایجنڈا ہے دنیا میں کہ جو جائز نکاح کے لیے تو رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے اور جب جائز نکاح کے لیے رکاوٹیں پیدا ہوں گی تو بے راہروی کے لیے راستے کھلیں گی، وہاں پر تو جنرل مشرف صاحب کے زمانے میں ترمیم ہوئی، حقوق نسواں کے نام سے ایک بل آیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کو ووٹ دے کر دو تہائی اکثریت مہیا کی اور زنا بالرضا کو پروسیجر کے حوالے سے کچھ آئینی ترامیم کے حوالے سے اس کے لیے سہولتیں مہیا کر دی۔ یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ جس میں زنا کی ایک صورت جو زنا بالرضا کہلائے، وہاں تو اس کے لیے سہولتیں مہیا کی جائیں اور جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں، غیرت کے نام پر قتل بالکل ناجائز ہے، شرعی لحاظ سے مجھے اس میں کوئی اختلاف نہیں، کوئی تردد نہیں، لیکن قانون بناتے وقت عوام کے نمائندے اپنی سوسائٹی کو بھی دیکھتے ہیں، اس سوسائٹی کے مزاج کو بھی پرکھتے ہیں، اس کے ویلیوز کا بھی احترام کرتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم یہاں سے ان کو گالیاں دے رہے ہیں اور وہاں سے وہ ہمیں گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہماری قانون سازی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تو سوسائٹی کے اپنے اقدار ہیں، چاہے جاہلانہ ہے چاہے جو کچھ بھی ہے لیکن ہمیں سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر ایک متوازن قانون سازی کی طرف جانا ہوگا۔ یہ بھی بالکل غلط ہے کہ زنا کے لیے تو آپ سہولتیں مہیا کریں اور جائز نکاح کے لیے آپ مشکلات پیدا کریں۔ یہ کون سا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟

تو یہاں پر بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ہمارے لیے جس کو ہم نے اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔

جہاں تک دینی مدارس کے ایجنڈے کا ذکر ہے، ظاہر ہے مدارس سے متعلق جو رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے تو اس حوالے سے میں معزز اراکین کو آگاہ کر دوں کہ الیکشن سے پہلے اتحاد تنظیمات مدارس کی قیادت کی میٹنگ ہوئی تھی حکومت کے ساتھ، اس میں اتحاد تنظیمات مدارس نے اٹھارہ سو ساٹھ کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا مطالبہ کیا، لیکن ساتھ ہی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ نہیں، وزارت تعلیم کے تحت جو ڈائریکٹوریٹ ہے وہاں پر بھی رجسٹریشن ہوئی ہے اور بہت سے مدارس کی ہوئی ہے۔ مدارس کو تقسیم کیا گیا، تنظیمات کو تقسیم کیا گیا اور اس طرح رجسٹریشن کے دو راستے کھولے گئے۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ مدارس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی رجسٹریشن کہاں کرانا چاہتے ہیں، اٹھارہ سو ساٹھ کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت یا وفاقی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے تحت، اتفاق رائے کے باوجود قانون سازی نہیں ہو سکی۔ کہاں سے روکی گئی، وہ بھی آپ جانتے ہیں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے دوران ہم نے پھر یہ موضوع اٹھایا کہ مدارس کی مشکل کو حل کرو۔ چنانچہ مسودہ ہم نے نہیں بنایا تھا، مسودہ حکومت نے بنایا تھا اور حکومت کے بنائے ہوئے مسودے کو ہم نے قبول کیا تھا۔ اگر حکومت نے ازخود اس بل میں وفاقی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کا تذکرہ نہیں کیا تو ہماری کون سی ذمہ داری تھی کہ ہم چیختے رہے کہ بھئی ان کو بھی شامل کرو، ان کو بھی شامل کرو۔ ہمارے نزدیک تو وہ ڈمی ہیں۔ بل پاس ہو گیا، چیخ و پکار اٹھی کہ ہم کہاں جائیں، ہم کہاں رجسٹریشن کریں، ہم نے تو وہاں رجسٹریشن کی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر انہوں نے میٹنگ بلائی، ہم نے کہا کہ پہلے کیونکہ یہ ایکٹ بن چکا ہے، لہٰذا اس ایکٹ کا پہلے گزٹ ہونا چاہیے۔ جب اس کا گزٹ ہو جائے گا، اس کے بعد ہمارے ساتھ بات کریں کیونکہ اسمبلی نے پاس کیا ہے، پریزیڈنسی میں گیا ہے، پریزیڈنسی کو دس دن کے اندر دستخط کرنے چاہیے، ورنہ خود بخود وہ ایکٹ بن جاتا ہے۔ اب وہ ایکٹ بن چکا ہے، اس کا گزٹ کیوں نہیں ہو رہا؟ چنانچہ پہلے اس کا گزٹ کرایا گیا۔ گزٹ کرانے کے بعد پھر انہوں نے میٹنگ بلائی اور کہا کہ وہ مدارس جو چیخ رہے ہیں کہ ہم کہاں جائیں گے تو ان کے لیے گنجائش، یقین جانیں ہم نے اخلاقی طور پر کہ الیکشن سے پہلے والی میٹنگوں میں ہم نے اس پر ہاں کر دیا تھا، اخلاقی طور پر ہم سمجھ رہے تھے کہ اب بھی ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایک دفعہ ہم ہاں کر چکے ہیں تو اب ہمیں ان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان کو شامل کیا گیا، نیا ڈرافٹ بنایا گیا اور اس ڈرافٹ کو بطور آرڈیننس کے جاری کیا گیا۔ آرڈیننس جاری ہوتا ہے اس وقت جب پارلیمنٹ موجود نہیں ہوتی۔ جب پارلیمنٹ آ جاتی ہے تو پھر وہ قانون سازی کے لیے آتا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ میں وہ آرڈیننس آیا لیکن قانون سازی نہیں ہوئی۔ اس آرڈیننس کو ایک سو بیس دن کی توسیع دی گئی۔ اب آپ اس حوالے سے خود سوچیں کہ ہمارے حکمران اور ان غلام گردشوں میں رہنے والے لوگ، ہمارے دینی مدارس اور اداروں کے بارے میں کیا سوچ اور کیا ذہنیت رکھتے ہیں۔

تو یہ بات بھی بہرحال، ایکٹ بھی ہو چکا ہے، ایکٹ کے بعد آرڈیننس بھی آ چکا ہے۔ آرڈیننس ابھی تک جو ہے وہ زیر عمل میں ہے لیکن اسلام آباد کی حد تک ہے کیونکہ آرڈیننس جو ہے اس کا وفاق سے تعلق ہے، صوبوں کی ابھی قانون سازی نہیں ہوئی۔ اب ہمارے لوگ جاتے ہیں رجسٹریشن کے لیے، چاہے اسلام آباد میں جائیں، ڈپٹی کمشنر کون ہوتا ہے جو میرے مدرسے کے مہتمم کو یا اس کے ناظم کو کہتا ہے کہ جاؤ اور وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ سے رجسٹریشن کراؤ، جبکہ وہ کہتا ہے کہ میرے کاغذات تو قانون کے مطابق ہیں، میں تو آپ کی قانون سازی کے تحت آیا ہوں۔ عملدرآمد کی صورتحال یہ ہے، میرے دوست، اس طرح ناپاکیزہ قسم کے سوچ، بین الاقوامی دباؤ، ان کا اثر رسوخ وہ قابل قبول ہے، لیکن اپنے ملک میں تعلیمی اداروں کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ تعلیم ایک بنیادی حق ہے جس کو اقوام متحدہ کی قرارداد، انسانی حقوق کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے، جنیوا انسانی حقوق کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے اور کسی پر یہ قدغن نہیں لگاتا کہ تم نے یہ پڑھنا ہے یا یہ نہیں پڑھنا ہے۔ تو یہ مسئلہ بھی، میں نے کہا، کچھ یقیناً آپ حضرات نے اس پر بحث کی ہوگی، لیکن کچھ چیزیں جو ہمارے مدنظر تھیں، میں آپ کے علم میں ان چیزوں کو لا سکوں۔

جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، جس وقت افغانستان پر امریکہ کا حملہ ہوا نائن الیون کے بعد، اور اس زمانے میں جب خطے میں ایک فکری اور نظریاتی تصادم آیا تو اس وقت متحدہ مجلس عمل موجود تھا اور اس نے ایک مؤقف لیا تھا۔ لیکن ہرچند کہ ہم امریکی جارحیت کے خلاف تھے، ہم جیلوں میں گئے، لیکن پاکستان کے اندر مسلح جنگ اس کو علماء کرام نے اجماعی طور پر مسترد کیا اور میں اس کی دو تین مثالیں پیش کروں گا۔ بذات خود جمعیت علماء اسلام نے پشاور میں، کوئٹہ میں علماء کرام کے کنونشنز کیں، ہزاروں کی تعداد میں علماء کو بلایا اور ان سب نے مسلح جنگ کو مسترد کیا، آئین کے ماوراء تمام اقدامات کو مسترد کیا۔ تمام مکاتب فکر پر مشتمل سربراہی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر صاحب کی صدارت میں ہوا تھا۔ مسودہ میں نے لکھا تھا اور یہ وہ اجلاس تھا، اگر آپ حضرات کو یاد آتا ہو سرفراز نعیمی شہید اس میں شریک تھے اس وقت، مسودہ تشکیل دینے میں بھی وہ موجود تھے اور سب نے اکابر اور اسلاف کے مشترکات سے ہٹ کر اقدامات کی مخالفت کی اور جو آئین کہتا ہے وہ ٹھیک ہے۔ ہم اس وقت سے پاکستان کے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میرے علم میں وفاق المدارس العربیہ کے ڈیڑھ سو علمائے کرام لاہور میں جمع ہوئے، فقہاء علمائے کرام، پورے معیارات کے ساتھ وہ جمع ہوئے اور انہوں نے پاکستان کے اندر دینی مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھانے کو غیر شرعی تک قرار دیا تھا۔ میرے خیال میں دوسرے مکاتب فکر نے بھی یہ کام کیا۔ بہرحال اس بات اتفاق رائے ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ یہاں پر اس مسلح تنظیم گردی کے خلاف فوج نے آپریشن کیا، سوات سے لے کر وزیرستان تک لوگوں نے علاقے خالی کیے، اپنے ملک میں مہاجر ہوئے، دس دس سال تک اپنے گھروں سے باہر رہے اور وہ لوگ اب بھی ملک کے اندر مہاجر ہیں، چاہے خیبر پختونخوا کے اندر ہوں، چاہے پنجاب میں ہوں، چاہے سندھ میں ہوں، بہت بڑی تعداد آج بھی اپنے گھروں کو نہیں جا سکی۔ دعویٰ کیا کہ ہم نے دہشت گردی کا خاتمہ کیا، آج دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، میں بڑے دعوے اور وثوق کے ساتھ کہتا ہوں اور اپنے مشاہدات کے بنیاد کہتا ہوں کہ حکومت نام کی رٹ موجود نہیں ہے، نہ بلوچستان، نہ خیبر پختونخوا میں، سورج غروب ہوتا ہے، مکمل سڑکیں اور علاقے مسلح گروہوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور صبح سورج کے طلوع ہونے تک، اور دن کے وقت بھی نکلتے ہیں۔ باقاعدہ تصویریں بنا کر، ویڈیو بنا کر وائرل کرتے ہیں کہ دیکھو ہم ہیں میدان میں۔ اب لوگوں پر دباؤ ہے کہ آپ ہمارا ساتھ دیں، آپ دوبارہ شہر خالی کریں۔ بابا ہم تو خالی کر چکے ہیں اور ابھی تک خالی ہیں۔ اگر یہ افغانستان گئے تھے، گئے کیوں، کیسے، اور واپس کیسے آئے؟ اب اگر ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی ہم پہ ڈالتا ہے، اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈالتا ہے تو اس سے بڑی بے انصافی اور نہیں ہے۔ لہٰذا میرے نزدیک ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے لاء انفورسمنٹ کے ادارے اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ یہ بدامنی ان کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔ اب میں اس کو نااہلی کہوں یا شعوری طور پر ایسا کیا جا رہا ہے کہ اگر انڈیا سے لڑائی ہوتی ہے تو اتنے بڑے انڈیا کو چار گھنٹوں میں لپیٹ دیا گیا اور یہ چالیس سال سے ہمارا خون بہا رہے ہیں ان کے مقابلے میں ہم بس قربانیاں دے رہے ہیں۔ یہ لفظ قربانی بھی کوئی عجیب سی چیز بن گیا ہے کہ مسلح گروہ بھی کہتے ہیں ہم نے قربانی دی ہے اور ہم بھی کہتے ہیں ہم نے قربانی دی ہے۔ قربانی کا سہارا لے کر اپنے آپ کو برحق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر گروہ کہتا ہے میں نے قربانی دی، باطل بھی کہتا ہے میں نے قربانی دی، حق والے بھی کہتے ہیں میں نے قربانی دی۔ یہ کون سی دلیل ہے؟ بات تو یہ ہے کہ قوم کہاں کھڑی ہے اور تمہاری ذمہ داری کیا ہے، تو اس اعتبار سے بھی اس دہشت گردی کا سدباب ضروری ہے۔ ہمیں واضح موقف جس طرح اس وقت لیا تھا، آج بھی لینا چاہیے، جراتمندانہ لینا چاہیے کہ تمام مکاتب فکر، علماء، مفکرین، پاکستان کے اندر دینی مقاصد کے لیے صحیح، لیکن مسلح جدوجہد کی ہرگز اجازت نہیں۔

جہاں تک فلسطین اور کشمیر کا تعلق ہے، پہلے اگر ہم کشمیر کے بارے میں بات کر لیں۔ میں کشمیر کمیٹی کا نو سال تک چیئرمین رہا ہوں۔ جس طرح تدریجی طور پر پاکستان مسئلہ کشمیر سے پیچھے آتا رہا ہے، وہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ہے۔ لیکن ان کے لیے بہت بڑا پردہ تھا کہ فضل الرحمٰن کمیٹی کا چیئرمین ہے، اس نے کشمیر کے لیے کیا کیا؟ اور مضحکہ خیز حد تک بتا دوں آپ کو کہ صدر آزاد کشمیر میرے ایک ساتھی سے کہتا ہے کہ فضل الرحمٰن نے کشمیر کے لیے کیا کیا؟ بابا تم صدر آزاد کشمیر ہو، اپنے سے یہ سوال کرو، کمیٹی کیا چیز ہوتی ہے؟ایک سفارشی قسم کی حیثیت ہے اس کی، لیکن پتا چلتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہمارا ایک ریاستی مؤقف ہے۔ ریاستی مؤقف بڑا واضح اور غیر مبہم ہوا کرتا ہے۔ کوئی اس سے اتفاق کرے، کوئی اس سے اختلاف کرے، لیکن ریاست اپنے مؤقف میں کبھی ایک ذرہ برابر ابہام نہیں چھوڑتا۔ اور ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا مؤقف رکھتے تھے۔ ظاہر ہے، اڑتالیس سے لے کر انچاس سے لے کر اب تک یہ مسئلہ اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز کا شکار تو رہا، لیکن اس بنیادی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہاں سے کس طاقت نے، کس کی شہ پر یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر اس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے جنرل مشرف نے کس بنیاد پر یہ کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کیا جا سکتا ہے؟ ہرچند کہ وہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا، ہرچند کہ وہ ملک کے صدر مملکت تھے، لیکن ریاست کے مؤقف سے اس طرح انحراف کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہوا کرتی۔ ہم نے یہ ساری باتیں کھل کر کیں اور بالآخر ہم نے وہ حالات بنائے جب پورے کشمیر جہاد کونسل کو بلا کر ایک انگلی کے اشارے سے کہا گیا کہ خبردار، اگر آج کے بعد تم نے کشمیر کی طرف آنکھ اٹھانے کی بھی کوشش کی، باقاعدہ ریاستی طور پر ان کو آگاہ کیا گیا۔ اگر ان افراد میں سے کوئی یہاں موجود ہو تو یقیناً گواہی دے گا۔ اور جب ہندوستان نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا، قانون نمبر پچاسی کا خاتمہ کیا، کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کا خاتمہ کیا، تو ہمیں اسمبلی کے اندر قرارداد میں یہ لفظ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ آرٹیکل 370 کا ذکر کیا جا سکے۔ اب بتائیں ہم پردے کے اوپر سے کیا کر رہے ہیں اور پردے کے نیچے کیا کر رہے ہیں؟ کیا آپ اس دو رخی میں کسی کشمیری کا اعتماد برقرار رکھ سکتے ہیں؟ چنانچہ ایک ایسا مؤقف جس کا تقسیم ہند سے کوئی تعلق نہیں، وہ مؤقف پروان چڑھا، خود مختار کشمیر کے نعرے لگے اور لوگوں نے، نوجوانوں نے اس پر اپنی رائے دی۔ ہم کس حد تک اس کو کنٹرول کر رہے ہیں؟ کچھ پتہ نہیں، دوسری طرف ہم نے فاٹا کا انضمام کیا، آپ شاید مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن ہم علی وجہہ البصیرت سمجھ رہے تھے کہ جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے۔ فاٹا کے سٹیٹس کو ختم کر کے کشمیر کے سٹیٹس کو ختم کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ خطے میں امریکہ کے عالمی ایجنڈے کے تحت جغرافیائی تبدیلیوں کا آغاز کیا جا رہا ہے اس سے، سب کچھ کہنے کے باوجود نہیں سنی گئی بات، آج وہی حکومت پشاور میں بیٹھ کر قبائلی جرگے کے سامنے کہتی ہے کہ لگتا ہے انضمام کا تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ ہم کمیشن بناتے ہیں تاکہ اس پر دوبارہ غور کیا جا سکے۔ کیسے دوبارہ غور ہوگا؟ اب تو اگر آپ انضمام کو توڑیں گے تب بھی صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت منظور کرنی ہوگی ایک قرارداد اور وفاق سے بھی آپ کو دو تہائی اکثریت منظور کرنی ہوگی۔ اگر آپ اس کو دوبارہ صوبہ بنائیں گے، الگ سا، پھر بھی ان مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ اگر آپ اس کو صوبے کا سٹیٹس دیں گے تب بھی ان مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ اب تجربہ بھی ناکام اور پیچھے جانے کا راستہ بھی نہیں رہا۔ قبائل کدھر جائیں گے؟ دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنے گھروں میں مر رہے ہیں۔ ڈرون حملے فوج کی طرف سے بھی ہو رہے ہیں، طالبان کی طرف سے بھی ہو رہے ہیں۔ ان کے پاس بھی ڈرون صلاحیت موجود ہے۔ اس میں بھی شہری مرتے ہیں، اس میں بھی شہری مرتے ہیں، بچے مرتے ہیں۔

اس ساری صورتحال سے ہم نمٹ رہے ہیں۔ رہی بات فلسطین کی، کچھ لوگ اس کو زیر بحث لاتے ہیں۔ دو ہزار تئیس کے ساتھ اکتوبر کے حملے سے، یہ غلط نظریہ ہے اسرائیل اور فلسطین روز اول سے حالت جنگ میں ہیں۔ اس سے پہلے بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں، چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتی رہی ہیں اور عربوں کی سرزمین پر وہ قابض ہے سن 1967 کی جنگ میں جہاں جہاں اس نے قبضے کیے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت یہ قبضہ ہے۔ یہ اسرائیل کی ملکیت نہیں ہے، یہ اسرائیل کی سرزمین نہیں ہے، یہ متنازعہ زمین ہے۔ کیا امریکہ کو اس بات کی اجازت ہے کہ دنیا کے کسی متنازعہ علاقے میں اپنا سفارت خانہ کھولے؟ کشمیر متنازعہ ہے اور کہے کہ میں جموں کشمیر میں سفارت خانہ کھولتا ہوں۔ اس لحاظ سے، میں دو دن پہلے رات کے کوئی ڈیڑھ بجے کا وقت تھا، جناب خالد مشعل صاحب کا فون آیا مجھے اور ویڈیو فون تھا، زوم پر وہ بات کر رہے تھے اور آپ حضرات کے لیے سلام بھی بھیجا اور آپ حضرات کے لیے پیغام بھی بھیجا۔ اور مجھے کہا، میں نے ان کو بتایا کہ ہم سب بیٹھ رہے ہیں اور آپ کی جو اپیل ہے، اس پر ہم ان شاءاللہ مشترکہ مؤقف لینا چاہیں گے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ جنگ تو جنگ ہے، ہم جیتتے ہیں، ہارتے ہیں، وہ اپنی جگہ پر، لیکن ستر ہزار تک ہم شہداء دے چکے ہیں ڈیڑھ سال میں اور کوئی آبادی وہاں نہیں رہی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ملبے کے نیچے ہیں جن کو جنازہ نصیب نہیں ہو سکا۔ لیکن آج جب دنیا ہمیں مدد دیتی ہے غذا کی صورت میں یا دوا کی صورت میں یا کمبل بستر کی صورت میں، وہ چیزیں بھی ہمارے راستے روک دیے گئے ہیں۔ کم از کم اپنی حکومت پر دباؤ تو ڈالو کہ اس کے لیے کوئی کردار تو ادا کریں۔ جنگ میں تو آپ ہمارا ساتھ نہیں دے سکے لیکن آپ انسانیت میں تو ہمارا ساتھ دیں۔ اب تو انسانی مسئلہ بن گیا ہے۔ حضرات گرامی آپ علماء کرام ہیں میں ایک طالب علم ہوں، فلسطین پر ہمارا مؤقف آج کا نہیں، جیسے میرے دوستوں نے بھی کہا کہ یہ پاکستان کے اول دن کا مؤقف ہے، اسرائیل کے پہلے دن کا مؤقف اور پاکستان کے پہلے دن کا مؤقف، اس کو پہلے جان لینا چاہیے کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے اسرائیل کی خارجہ پالیسی کی اساس بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کی اساس میں یہ بات شامل ہوگی کہ دنیا کے نقشے پر ایک نو زائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ، یہ ہماری خارجی پالیسی کا حصہ ہوگا۔ تو نو زائیدہ ریاست کون تھی؟ پاکستان۔ اور پاکستان نے سن چالیس کی قرارداد میں یہودی بستیوں کی مخالفت کی، جس کو ہم قرارداد پاکستان کہتے ہیں۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر بستیاں قائم کرنے کی مخالفت کی اور فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اور جب اڑتالیس میں اسرائیل بنا تو قائد اعظم نے کہا کہ یہ ایک ناجائز ریاست ہے۔ ہماری بھی سوچ معلوم ہے ان کے بارے میں، ان کی بھی سوچ معلوم ہے۔ پھر کون ہوتا ہے کہ اس ملک کے اندر اسرائیل کی لابی کرتا ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرتا ہے؟ یہ تو قبلہ اول پر سودا کرنے کی بات ہے۔ فلسفے پیش کیے جا رہے ہیں، حرمین ہمارے لیے ہیں اور وہ ان کے لیے، حرمین بھی ہمارا ہے، قبلہ اول بھی ہمارا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فتح کیا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے بھی فتح کیا تھا۔ تو یہ ہماری تاریخ ہے، قبلہ اول آج ان کے قبضے میں ہے، اس کی آزادی پوری مسلم امت پر فرض ہے، اور آج کے حالات میں جب یہ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے تو ایک اسلامی برادری کے ناطے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المسلم اخ المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ولا يحقره ولا يخذله۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر خود ظلم کرتا ہے، نہ کسی کے ظلم کے سپرد کرتا ہے، نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور نہ اس کی بے توقیری کرتا ہے۔ آج کے اس وقت ان مسلمان بھائیوں کا ہمارے اوپر حق ہے۔ اگر اس کا جواب ایران نے دیا ہے، ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ اگر اس نے ایران پر حملہ کیا ہے، ہم ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ اسلامی برادری کا تقاضا ہے۔ جس طرح انڈیا کے مقابلے میں ایران پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا، تو ہمارا بھی حق ہے کہ ہم اسرائیل کے مقابلے میں اگر وہ مقاومت کرتا ہے تو ہم اس کو مکمل ساتھ ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حرمین شریفین سے بے نیاز ہیں یا اسے صرف نظر کر رہے ہیں۔ ہم حرمین کی جنگ بھی اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر، پوری وحدت امت کے ساتھ لڑیں گے، ان شاءاللہ۔

تو یہ کچھ اس وقت کے مطابق کچھ گزارشات تھیں باقی اعلامیہ جو آپ نے تیار کیا ہے، یہ آپ دوستوں کے سامنے رکھ لیں۔ اور اگر میری گفتگو میں کچھ اس میں اضافے یا کمی بیشی کی ضرورت ہو تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق، جس کے آپ ماہر ہیں، وہ آپ شامل کر سکتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ

میرے خیال میں ایک بات جو ایجنڈے میں نہیں ہے بہرحال میں اس پر بات کرتا ہوں ایک پرانا مسئلہ یہاں چل رہا تھا کہ کوئی چار ساڑھے چار سو لوگ جو توہین رسالت کے مرتکب ہیں یا توہین مذہب کے مرتکب ہیں اور جن کو سزائیں دی جا چکی ہیں ان کے کیسوں کو دوبارہ زیر غور لانے کے لیے کمیشن بنایا جائے، یہ ایک بڑا متنازعہ لفظ ہے اور دہشت گردی کے نام پر جن لوگوں کو پھانسیاں دی گئی اگر انہوں نے اسلام کی بات کی ہے تو ان کو کہا ہے کہ یہ تو دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے وہاں تو کوئی کمیشن کی ضرورت نہیں پڑی چاہے ناجائز لوگوں کو لٹکایا گیا، چاہے ناجائز طور پر لوگوں پر مقدمے دائر کیے گیے اور بھی بہت سے ایسے چیزیں ہیں کہ جن میں آج تک فیصلے آنے کے بعد، فیصلے صادر ہو جانے کے بعد دوبارہ کمیشن بنائے جائیں، تو اس حوالے سے یہاں پر کمیشن بنانا ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو اور تماشہ یہ ہے کہ ایک طرف ہم اس کمیشن کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک طرف ہم اس کمیشن پر یہاں سے کمیشن بنا رہے ہیں۔ تو کمیشنوں پر کمیشن بناتے چلے جائیں گے اور ہم اس کو دوبارہ زیر غور لاتے رہیں گے میرے خیال میں ہماری قطعی رائے ہونی چاہیے اور ہمیں وکیلوں کو ضرور بٹھانا چاہیے کہ اس کا قانونی دفاع کیا جائے۔ ایک ہے سیاسی بیان بازی اور گفتگو کرنا وہ اپنی جگہ پر ہے لیکن ہم نے وکلاء سے بھی درخواست کی ہے کہ آپ بطور وکیل کے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اگر یہ چیز غلط ہے تو ہم قانونی طور پر بھی اس کو مسترد کرے لیکن سیاسی طور پر بھی اس کو مسترد کرنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ راستہ نہ کھلے، ورنہ کل تو پھر ہر جرم کے لیے راستہ کھل جائے گا اور ریاست تو پھر کہیں کی بھی نہیں رہے گی۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض 

‎ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat


1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں